”یہی تو بات ہے‘ لیکن وہ اپنے باپ کی مرضی کے خلاف…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ مجھے ٹوکتے ہوئے بولا۔
”تقریباً ایک سال سے وہ اپنے باپ کی مرضی کے خلاف ہی چل رہاہے‘ خیر…علاقے کی جو بھی صورت حال ہے‘ میں پوری کوشش کررہاہوں کہ وہ کنٹرول میں آجائے لیکن اس وقت میں تم سے جو بات کرنے آیاہوں‘ سوہنی کے بارے میں ہے‘ میرے خیال میں اگراسے بھی بلاتو زیادہ اچھا ہوگا۔
“
”ٹھیک ہے بلاتاہوں۔“میں نے کہا تو میرے کہنے سے پہلے ہی چھاکا اندر کی طرف چلاگیا‘ ہمارے درمیان اتنی دیرمیں خاموشی ہی رہی‘کچھ دیر بعد سوہنی سرپرآنچل لیے اندر آکربیٹھ گئی۔ تب ڈی ایس پی نے ذراسا کھنکارتے ہوئے کہا۔
”دیکھیں‘ میں جوبھی بات کروں گا‘وہ میں اپنی معلومات کے مطابق کروں گا۔
(جاری ہے)
جہاں آپ کو لگے کہ میری معلومات درست نہیں تو آپ مجھے بتادیں۔
بہرحال آپ کے لیے بہت ساری باتیں نئی بھی ہوں گی۔“ یہ کہہ کروہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوا‘ پھر کہتا چلا گیا۔ ”بلاشبہ‘ یہ معاملہ جو سوہنی کے اس دعوے کے بارے میں ہے کہ وہ سردار شاہ دین کی بیٹی ہے‘ اس وقت سامنے آیا‘ جب ملک سجاد کی آمدورفت سوہنی کے گھر شروع ہوئی۔
سوہنی کی ماں نے ملک سجاد سے ڈیل کی اور اگر اس وقت ملک سجاد سے بات نہ ہوتی کہ سوہنی سرداروں کی بیٹی ہے تو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی‘ خیر… یہ معاملہ چل پڑا‘ ملک سجاد خود لالچی بندہ ہے‘ اس نے خاموشی اس لیے اختیار کی کہ ایک بار اسی اپنے نکاح میں لے آئے گا تو پھرسرداروں کو بلیک میل کرے گا۔
وہ اپنا پلان سوہنی وغیرہ سے بھی چھپا کررکھنا چاہتاتھا‘ سوہنی کو جب معلوم ہوا تو اس کی اپنی سوچ بدل گئی۔ اس نے اپنی شناخت کے لیے جدوجہد شروع کردی۔ کیا یہاں تک میری بات درست ہے؟“ اس نے سوہنی سے پوچھا تو اس نے سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”جی‘ بالکل درست ہے۔“
”ملک سجاد سے سردار شاہ دین کی نہیں‘ شاہ زیب کی دوستی تھی۔ سوہنی کے بارے میں جاننے کے بعد اس نے یہ دوستی مزید گہری کرلی‘ اسے سبز باغ دکھانے شروع کردیئے کہ وہ پنجاب سطح کا بہت بڑا لیڈر بن سکتا ہے‘ تاہم انہی دنوں شاہ دین کے معالج نے اسے لاہور بلوا لیا‘ تاکہ اس کامکمل چیک اپ کیاجائے‘ یہ اس لیے ہوا کہ سوہنی نے بھاری رقم دی تھی‘ اس معالج کو؟“ یہ کہہ کر اس نے پھر سوہنی کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا۔
”یہ بھی ٹھیک ہے۔“
”لیکن اس معالج نے جہاں سوہنی کودرست بات بتائی کہ وہ اس کی بیٹی ہے‘ ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق‘ وہاں سردار شاہ دین کوبھی ساری کہانی سنادی۔ شاہ دین کو اس وقت سے علم تھا‘ اب وہ چاہتاتھا کہ کسی نہ کسی طرح شاہ زیب یہاں سے ادھر ادھر ہوتو سوہنی اور اس کی ماں سے ڈیل کرے‘ تاکہ یہ معاملہ چپ چاپ ختم ہوجائے۔
معالج سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ ان دونوں کو ملوائے گا ‘وہی ان کی ڈیل کروائے گا۔ ان کے پاس دو آپشن تھے‘ ایک یہ کہ انہیں کسی باہر کے ملک میں بھیج دیاور ایک معقول رقم انہیں ملتی رہے‘ یا پھر انہیں مناسب جائیداد خرید کر دے دے اور وہ اپنے طور پر ایک پرسکون زندگی گزاریں۔ مگرمعاملہ بگڑ گیا۔“
”وہ کیسے …“ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
”وہ ایسے جمال کہ ملک سجاد کسی طور نہیں چاہتاتھا کہ سردار شاہ دین کی ان سے کوئی ڈیل ہوجائے‘ سوہنی اور معالج کے درمیان معاملہ چل رہاتھا۔ انہی کے گھر کے ایک نوکر سے ملک سجاد کو ساری معلومات مل رہی تھیں۔ تب اس نے اپنی گیم کھیلنی شروع کر دی ۔ سردار شاہ دین اور شاہ زیب کوبالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ سوہنی کون ہے‘ انہیں دیکھا ہی نہیں تھا‘ جب ملک سجاد یہاں آیااور شدید زخمی حالت میں یہاں سے گیاتو بات کھل گئی۔
دونوں باپ بیٹے میں اختلاف بڑھنے لگا‘ باپ کا موقف یہی تھا کہ وہ اپنی بیٹی کواپنائے گااور انہیں قبول کرلے گا‘ لیکن شاہ زیب انہیں سرے سے قبول ہی نہیں کررہاتھا‘ یہاں تک کہ وہ سوہنی کے قتل کے درپے ہوگیا۔“
”مطلب…! اب باپ اوربیٹے کے درمیان یہ کشمکش ہے کہ سوہنی کو قبول کرلیں یا نہیں۔“میں نے پوچھا۔
”سردار شاہ دین تو چاہتا ہے۔
شاہ زیب صرف جائیداد کی وجہ سے آڑے آیاہوا ہے۔ شاید اب تک سوہنی کو اپنی بیٹی کے طور پرقبول کرلیتا مگر شاہ زیب نے دھمکی دی ہے کہ پھر وہ کسی کوبھی نہیں چھوڑے گا۔ جمال‘ شاہ زیب تمہیں سوہنی کے قتل کے لیے تیار کررہاتھا اور وہ ملک سجاد کو بھی مار دینا چاہتاتھا کہ یہ قصہ ہی ختم ہوجائے‘ اور تمہیں معلوم ہی نہ ہو کہ کتنابڑا معاملہ تمہارے ہاتھوں ماضی میں دفن ہوجاتا جس کاتمہیں بھی علم نہ ہوتا۔
“
”اب بات کہاں تک پہنچی ہے۔“ میں نے ساری بات سمجھتے ہوئے پوچھا۔
”شاہ دین تو چاہتا ہے کہ سوہنی کو اپنی بیٹی کے طور پر قبول کرے مگر شاہ زیب نہیں چاہتا۔ اس میں سوہنی کا طوائف ہونا ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ دوسری طرف سوہنی اوراس کی والدہ نے آئی جی صاحب سے رابطہ کیا‘ اور مجھے خاص طور پر اس معاملے کو حل کرنے کے لیے یہاں تعینات کیا گیا ہے۔
سوہنی کے پاس یہ حق اب بھی ہے کہ وہ جب بھی چاہے عدالت کے ذریعے اس معاملے کو اچھال سکتی ہے۔ اس سارے تناطر میں اگر کوئی معقول حل ہوجائے تو بہت اچھی بات ہوگی‘ اس وقت میں آپ دونوں سے یہی مشورہ کرنے آیا ہوں۔“
”ڈی ایس پی صاحب‘ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ میراباپ مجھے بیٹی مان لے۔ یہ آپ کومعلوم ہے کہ میری والدین کے خانے میں سردار شاہ دین ہی کانام درج ہے۔
یہ میری شناخت کامسئلہ ہے۔“
”یہ ٹھیک ہے ‘ اور یہ تمہارا حق بھی ہے۔ میں اسے تسلیم کرتا ہوں‘ تمہیں شناخت ملے گی‘ اس کے علاوہ کوئی مشورہ؟“ وہ تیزی سے بولا۔
”شاہ زیب جائیداد چاہتا ہے نا‘ تووہ ساری جائیداد لے لے…مجھے بس میری شناخت دے دی جائے۔ بیٹی کے طور پر مجھے قبول کرلیاجائے‘ میرے لیے اتناہی کافی ہے۔“ سوہنی نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا۔
”پھرایساکرتے ہیں‘ میں ان سے بات کرتاہوں‘قانونی طور پر سردار شاہ دین تمہیں اپنی بیٹی تسلیم کرلے‘ لیکن ساری جائیداد شاہ زیب کو مل جائے‘ تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔“
”بالکل مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ میں اپنے حصے کی جائیداد شاہ زیب کو لکھ کر دے دوں گی۔ یہاں تک کہ اپنے باپ کو بھی سنبھال لوں گی۔“ سوہنی نے ایک فخر سے کہا۔
”ٹھیک ہے‘ آپ کے یہ جذبات میں ان تک پہنچادیتاہوں۔ میں خود چاہوں گا کہ شاہ زیب ایک معقول رقم تمہیں دے دے۔ پھرتم ان کی زندگی میں کوئی دخل اندازی نہیں کروگی۔“
”مجھے شاہ زیب کی زندگی میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہے‘ لیکن وہ اگر بہن کاحق جتائے گا تو…؟“ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”مسئلہ تو یہی ہے ناکہ تم پھر یہ طوائف والی زندگی کوختم کرکے گمنامی میں زندگی گزاروگی‘ تمہیں بھی معلوم ہے کہ ان کا ایک سیاسی کیریئر ہے۔
وہ…“ اس نے کہنا چاہا تو سوہنی ہے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے…! میں ایسی کوئی زندگی نہیں گزاروں گی‘ جس سے انہیں شرمندگی کاسامنا کرناپڑے۔ میں وعدہ کرتی ہوں‘ میں اپنی ماں کوبھی اس زندگی سے نکال لوں گی‘ بس سردار شاہ دین میرے سرپر بیٹی کہہ کر ہاتھ رکھ دیں۔“ سوہنی کا لہجہ حددرجہ جذباتی ہوگیاتھا اوراس کی آواز بھراگئی تھی۔
”چلیں یہ طے ہوگیا‘ میں آج ہی ان سے بات کرتا ہوں اور اس مسئلے کو ایک دو دن میں نمٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے میری جانب دیکھااور بولا۔ ”ایک بات ہے جمال‘ تب تک ‘کوئی ایسا معاملہ نہ ہو کہ جس سے یہ سارا کچھ کھٹائی میں پڑجائے‘ہمیں مسئلے کو سلجھانا ہے۔“
”دیکھیں جی‘ میں پہلے ہی اپنا دفاع کرتا آرہا ہوں ۔ علاقے میں ہونے والے قتل مجھ پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ شاہ زیب نے براہ راست مجھے اغواء کرکے قتل کرنے کی کوشش کی اور آج کاواقعہ آپ کے سامنے ہوا۔
مجھ پراگر وار ہواتو میں اس کا دفاع تو کروں گا‘ہاں…خود سے کچھ نہیں کروں گا اور نہ میں نے پہلے کیا ہے۔“میں نے بڑے تحمل سے کہاتووہ اٹھتے ہوئے بولا۔ تب میں بھی اٹھ گیا۔
”کل دن کے وقت ہم کہیں اکھٹے ہوتے ہیں اور یہ سب طے کرلیں گے… اب مجھے اجازت۔“یہ کہہ کر اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا‘ میں اسے دروازے تک چھوڑنے گیا‘ سوہنی اندر چلی گئی تھی۔ چھاکے اورمیری نگاہیں چار ہوئیں تو وہ مسکرادیا‘ میں سمجھ گیا کہ وہ کیا چاہ رہا ہے‘ اس لیے میں بھی ہنس دیا۔
# # # #