سہ پہر کاوقت ہوگیا تھا۔ میں دلبر کے گھر سے نکل آیا تھا‘ ڈی ایس پی سے بات کرنے کے بعد میں دلبر کے گھر چلا گیا تھا کہ جو لوگ اب بھی وہاں موجود ہیں انہیں معلوم ہو کہ دلبر کے لواحقین کے سر پر ہم ہیں۔ سہ پہر تک سارے مہمان وغیرہ جاچکے تھے جب سکون ہوگیا تو میں اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔ میں پیدل ہی جارہاتھا۔ چوک میں پہنچا تو حسب معمول برگد کے درخت تلے کافی سارے لوگ جمع تھے۔
ان میں زیادہ تر نوجوانوں ہی کی تعداد تھی۔ میں بھی ان کے پاس جاکر ایک چارپائی پر بیٹھ گیا۔ تبھی ایک جوشیلے سے نوجوان نے مجھ سے پوچھا۔
”جمال…! یار یہ شاہ زیب تیرے پیچھے ہی کیوں پڑگیاہے‘ کہیں اس لڑکی کاچکر تو نہیں ہے؟“
”یہ تمہارا چکر سے مراد کیا ہے؟“ میں نے جواب دینے کی بجائے اس سے پوچھ لیا۔
(جاری ہے)
”یہی کہ اسے وہ پسند آگئی ہو‘جبکہ وہ تمہارے پاس ہے۔
“ اس نوجوان نے کہا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا۔
”توپھر بات کیا ہے۔“ اس نے تجسس سے پوچھا۔
”بس دوچار دن ٹھہرجایار‘ تجھے خودبخود معلوم ہوجائے گا مگریہ ذہن میں رکھو کہ شاہ زیب اتنا گھٹیا نہیں کہ وہ اس لڑکی کی وجہ سے میرا دشمن بن گیاہے۔“ میں نے پھر سے انکار کردیا تو ایک سنجیدہ سے نوجوان نے کہا۔
”جمال‘ پورے گاؤں میں یہ تجسس ہے ‘نجانے کیسی کیسی افواہیں گھوم رہی ہیں یہ توسچ ہے ناکہ جب سے اس لڑکی کے نور نگر میں قدم پڑے ہیں قتل وغارت شروع ہوگئی۔“
”میں تیری ساری باتیں مانتا ہوں… میں تو اس کے چکر والی بات کا جواب دے رہا ہوں۔ لڑکی کے بارے میں شاہ زیب کی سوچ وہ نہیں ہے جو یہ سوچ رہے ہیں۔ معاملات کچھ دوسرے ہیں۔ یہ ساری افواہیں اور تجسس چند دن میں ختم ہوجائے گا۔
“میں نے اشارے میں جواب دیا۔ ظاہر ہے وہ میری بات سے مطمئن تو ہونے والے نہیں تھے۔ اس لیے مجھ سے پوچھا۔
”تمہارے ساتھ دشمنی کا معاملہ کیا ہے؟“
‘”دیکھو…! وہ مجھے اپنے باڈی گارڈ بنا کر اپنا غلام بنانا چاہتا ہے‘ سردار شاہ دین نے خود مجھ سے یہ کہا ہے‘ مگر میں ایسا نہیں چاہتا۔ میں جو دوسروں کو ان کی غلامی سے نکالنا چاہتا ہوں‘ ان کا غلام کیسے بن جاؤں۔
میرا انکار انہیں پسند نہیں آیا۔ اس لیے وہ میرے دشمن ہیں۔“ میں نے کچھ سچ اور کچھ جھوٹ کا سہارا لے کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”مان لی تمہاری بات‘ لیکن لڑکی والا قصہ کیا ہے؟“ اسی نوجوان نے بحث کرتے ہوئے کہا۔
”کہا نادوچار دن میں معلوم ہوجائے گا۔“ میں زچ ہوتے ہوئے کہا تو وہاں پر خاموشی چھاگئی‘ پھر اس بارے میں کسی نے سوال نہیں کیا۔
اگرچہ میں نے انہیں جھوٹ سچ کہہ کر وقتی طور پر ان سے جان چھڑالی تھی‘ لیکن مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ گاؤں نور نگر کے مکینوں کو اس لڑکی کے بارے میں تجسس ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس معاملے میں کہیں نہ کہیں سوہنی کا عمل دخل ہے۔ ان کے نزدیک تو وہ ایک طوائف ہی تھی جو ناچنے کے لیے میلے میں آئی تھی اور پھر وہ میرے گھر میں ٹھہری۔ میرے ذہن میں جو ایک دم سے سوال اُبھرا تھا وہ یہ تھا کہ اگر سوہنی کوسردار شاہ دین قبول کرلیتا ہے تو کیا نورنگر یا پورے علاقے کے لوگ اس انہونی کو قبول کرلیں گے؟
کیا اس قبولیت کے ساتھ سردار شاہ دین کا ماضی سامنے نہیں آئے گا؟جس میں اس کا کردار کوئی قابل تحسین نہیں تھا۔
اگر سردار شاہ دین اسے بیٹی کے طور پر قبول کرلیتا ہے تو کیا سوہنی پر سے طوائف کا لیبل اتر جائے گا؟ کیا اسے سردار زادی کے طور پر لوگ قبول کرلیں گے؟ کیا سردار شاہ دین کی عزت واحترام کی وہ سطح رہ جائے گی جو انہوں نے اپنے تئیں بلند مقام پر رکھی ہوئی تھی؟ ایک دم سے ہی کئی سارے سوال میرے ذہن میں اترتے چلے گئے۔ میرا وجدان کہہ رہاتھا سردار اپنے رعب ودبدبے کے آگے ہر شے قربان کردیتے ہیں۔
سردار شاہ دین کبھی بھی اپنی ساکھ‘ عزت واحترام ‘مقام اور مرتبے سے نیچے نہیں آسکتا۔ اگر یہ مان بھی لیاجائے کہ وہ اپنے دل سے مجبور ہو کر اولاد کا درد محسوس کرتے ہوئے اور بیٹی کی ہمدردی میں اسے قبول کرلے گا تو وہاں اتنے ہی یہ چانس تھے کہ وہ ضرور کوئی سازش کرکے سوہنی ہی کوختم کردے ‘ پھر اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا‘ شاہ زیب اور شاہ دین میں سوہنی کے معاملے میں مخالفت بھی پیدا ہوگئی تھی۔
ممکن ہے شاہ دین اپنی عمر کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے یہ سمجھوتہ کرلے‘ مگر شاہ زیب نے تو ابھی حکمرانی کرناتھی‘ وہ اپنے نام کے ساتھ یہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ اس کی بہن طوائف زادی ہے‘ اس لیے مجھے نہیں لگتا تھا کہ سردار سوہنی کے بارے میں کوئی اچھا فیصلہ کرنے والے تھے۔ اس سمجھوتے میں وہ سوہنی سے جان چھڑانے والی بات ہی کریں گے۔
کیونکہ سمجھوتے کبھی دل سے نہیں کیے جاتے‘مجبوری میں کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ میں ان نوجوانوں کے ساتھ بیٹھا گپ شپ کرتا رہاتھا‘ لیکن یہ سوال جو میرے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے‘ مجھے بے چین کررہے تھے۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی اور دن ڈھل گیا۔ میں وہاں سے اٹھ کر گھر کی طرف چل پڑا۔
میں جب گھر پہنچا تو بھیدہ دودھ دے کر جا چکا تھا۔ مجھے صحن میں آتا دیکھ کر ماں نے دور ہی سے کہا۔
”منہ ہاتھ دھوکے آجاپتر… کھاناکھالے۔“
میں وہیں سے باتھ روم کی طرف مڑگیا۔ پھر جب پارچائی پر آکربیٹھا ہی تھا کہ باہر کاگیٹ بج اٹھا۔
”یار اس وقت کون آگیا؟“ میں نے بڑبڑاتے ہوئے اٹھناچاہا تو دالان میں کھڑی سوہنی نے کہا۔
”تم بیٹھو‘ میں دیکھتی ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے گیٹ کی جانب قدم بڑھادیئے۔ تبھی اماں نے تیزی سے پکارا۔
”سوہنی…! ادھر واپس آجا‘ میں دیکھتی ہوں‘ سو سجن‘ سو دشمن‘ پتہ نہیں باہر کون ہے؟“
سوہنی کے قدم وہیں رک گئے۔ اماں اس کے قریب سے گزر کر باہر گیٹ کے پاس چلی گئی۔ کچھ ہی دیر بعد چھوٹا گیٹ کھلااور ڈی ایس پی اندر آگیا۔ میں نے اسے دیکھ کر اٹھنا چاہا تو وہ دور سے ہی بولا۔
”بیٹھو‘ بیٹھو…مجھے ذرا جلدی تھی‘اس لیے میں آگیا۔
“
میں اتنی دیر میں کھڑا ہوگیا تھا۔ اس سے مصافحہ کیا‘ تب تک سوہنی اندر سے کرسی لے آئی تھی۔ وہ اس پربیٹھ گیا۔تبھی اس نے سوہنی کوبھی بیٹھنے کے لیے کہا‘ وہ میرے ساتھ چارپائی پربیٹھ گئی ‘لیکن اماں کچن کی طرف چلی گئی۔
”سوہنی…! صبح جو ہمارے درمیان بات ہوئی تھی وہ میں نے سردار شاہ دین سے کردی اور پھر اس پر تفصیلی بات چیت بھی ہوئی‘ وہ مانتے ہیں کہ تم ان کی بیٹی ہو‘ لیکن شاہ زیب آڑے آچکا ہے۔
“
”وہ تومیں نے کہہ دیا مجھے جائیداد نہیں چاہیے پھر وہ کیوں نہیں مانتا۔“ سوہنی نے تیزی سے کہا۔
”وہ صرف اس بات سے خائف ہے کہ تم ایک طوائف ہو۔ وہ اپنے ساتھ تمہارا نام جوڑنا نہیں چاہتا۔“ وہ آہستگی سے بولا۔ تب سوہنی مایوسانہ انداز میں بولی۔
”توپھر کیاکہتے ہیں وہ…؟“
”شاہ دین نے تو اپنا موقف بتادیا تھا لیکن اس وقت تو معاملہ شاہ زیب کا ہے۔
“ ڈی ایس پی نے کہا تووہ غصے میں بولی۔
”وہ کیا کہتا ہے‘ مطلب‘ وہ کیا چاہتا ہے کہ میں خودکشی کرلوں۔“
”اس کاکہنا ہے کہ جتنی چاہے تم دولت لے لو…مگر اس حق سے دستبردار ہوجاؤ کہ تم سردار شاہ دین کی بیٹی ہو۔“
”مطلب‘ وہ میری قانونی حیثیت قبول نہیں کرناچاہتا۔“ سوہنی نے سوچنے والے انداز میں کہا۔
”بظاہر تو یہی لگتا ہے۔
“وہ بھی تقریباً مایوس ہوگیا۔
”اوکے ڈی ایس پی صاحب‘ آپ نے تو محنت کی‘ لیکن سردار ایسا نہیں چاہتے‘ نہ سہی‘میں کل عدالت میں رٹ دائر کردیتی ہوں‘ پھر سارے ملک کوپتہ چل جائے گا‘ یہ رات درمیان میں ہے۔ رہی زندگی تو کل عدالت میں… آپ بھی اپنا موقف دے دیں گے نا…“ سوہنی نے اپنی بات کہتے کہتے اس سے پوچھا۔
”میں تو قانون کے مطابق بات کروں گا‘ میں بہرحال اپنی رپورٹ آج ہی بنا کربھیج دوں گا۔
اپنے اعلیٰ افسران کو‘ پھر وہ جانے اور آپ یا سردار…“ وہ آہستگی سے بولا‘ پھر اٹھتے ہوئے کہنے لگا۔”بہرحال …! آج رات آپ اپنا خیال رکھیں‘ میں کچھ نفری یہاں چھوڑے جارہاہوں… وہ آپ کی حفاظت کریں گے۔“
”نہیں ڈی ایس پی صاحب‘ یہ بچارے سارا دن کے تھکے ہوئے‘ رات کیا ڈیوٹی دیں گے۔ہم خود اپنی حفاظت کرلیں گے۔“
”بیٹھو‘ پتر کھانا کھالو… جو دال ساگ بنا ہے چکھ لو۔
“ اماں نجانے کس وقت ٹرے میں کھانا رکھے وہاں آگئی تھیں۔
”اماں جی…! اس وقت مجھے قطعاً بھوک نہیں ہے۔ میں سرداروں کے ہاں سے کھانا کھا کر نکلا ہوں۔ لیکن کہتے ہیں کہ کھانا سامنے آجائے توانکار نہیں کرنا چاہیے‘ آپ صرف ایک کپ چائے پلادیں‘ کھانا ہوگیا۔“ یہ کہہ کر وہ دوبارہ بیٹھ گیا۔ میں نے اماں کو کھانا واپس لے جانے کااشارہ کردیا۔ تبھی سوہنی بھی اٹھ گئی۔ میں اور وہ دونوں اکیلے رہ گئے۔ تبھی وہ بولا۔
”جمال…! تم کوئی تیسری راہ نکال سکتے ہو؟“