”تیسری راہ تو تبھی نکل سکتی ہے ناجناب کہ اگر دونوں طرف سے مخلص ہوں‘ اب دیکھیں سوہنی صرف اپنی شناخت چاہتی ہے‘ جائیداد کا حق نہیں۔ دوسری طرف سے نہ شناخت دی جارہی ہے اور حق… بلکہ منہ بند کرنے کی قیمت دی جارہی ہے۔“ میں نے کہاتووہ بولا۔
”وہی نا… یہ تو سامنے ہے‘ تیسرا کوئی حل۔“
”میں وہی کہہ رہاہوں نا کہ ایک طرف کے لوگ مخلص نہیں ہیں۔
“ میں نے پھر اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہاتو اس نے تجسس سے پوچھا۔
”یہ تم کس بنا پر کہہ رہے ہو؟“
”اس لیے کہ انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ سوہنی کے پاس عدالت جانے کاحق ہے‘ لیکن یہ حق اس و قت ختم ہوجائے گا جب وہ عدالت پہنچ ہی نہیں پائے گی‘ ان سرداروں کے دماغ میں کہیں ہے کہ سوہنی کی زندگی کا خاتمہ‘ ان کے لیے نجات ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے قانون کی آنکھ میں دھول اس طرح جھونکی ہے کہ دونوں باپ بیٹا ڈرامہ کررہے ہیں۔
ایک مانتا ہے‘ ایک نہیں مانتا۔ اور موقع پاتے ہی سوہنی نہیں رہے گی۔ حالانکہ سوہنی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی شناخت لے کر یہ ملک ہی چھوڑ جائے گی‘ توپھرانہیں ڈر کیوں ہے؟“ میں نے تفصیل سے بتایا تو وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔
”بات تو دل کو لگتی ہے‘ سوہنی کی زندگی کو خطرہ تو ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ تم اس کی حفاظت کرپاؤگے۔ وہ یہاں سے کہیں محفوظ جگہ پر چلی کیوں نہیں جاتی؟“
”میں تواپنی پوری کوشش کروں گا کہ اس کی حفاظت کروں‘ اور جہاں تک چلے جانے کاتعلق ہے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ لاہور میں بھی محفوظ ہوگی۔
وہاں پر تووہ زیادہ ان کے نشانے پر ہوگی۔ اب تک انہوں نے یہ ڈرامہ کیوں کیے رکھا‘ وہ اب اس کی موومنٹ پرنگاہ رکھیں گے ۔ آج رات نکلے یا کل صبح‘ انہوں نے حملہ کرنا ہی کرنا ہے۔“
”تم اتنے پریقین ہو۔“ اس نے تجسس سے پوچھاتو میں نے بڑے تحمل سے کہا۔
”جی ڈی ایس پی صاحب…! میں بچپن سے انہیں سمجھ رہا ہوں جو کچھ یہ سوچ کربیٹھے ہوئے ہیں‘ میں وہ قطعاً نہیں ہونے دوں گا کہ سوہنی میری پناہ میں ہے‘ آپ کیوں نہیں سمجھتے یہ ان کی جائیداد ہی کانہیں حکمرانی کا بھی مسئلہ ہے‘ ایسی دس بیٹیاں وہ قربان کردیں۔
“
”سردار شاہ دین تو بہت جذباتی ہے۔“
”لیکن وہ بہت بڑا ایکٹر بھی ہے۔ بڑا زبردست ڈرامہ کرتا ہے۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تووہ بھی ہنس دیا۔ اس دوران سوہنی چائے لے کر آگئی‘ وہ آہستہ آہستہ سپ لے کرپینے لگا۔ پھربولا۔
”اب دیکھو…! مجھے سو کام ہیں‘ لیکن کل سے انہوں نے مجھے الجھایا ہوا ہے۔ خیر…تم لوگ اپنی طرف سے درخواست لکھ کر دے دو‘ کہ آپ کو سرداروں سے خطرہ ہے‘ میں اب جاتے ہوئے انہیں پابند کرجاؤں گا۔
“
”سوہنی چاہے تو دے دے درخواست‘ مجھے ضرورت نہیں ہے۔“ میں نے کہاتو گیٹ بج اٹھا۔ اس وقت کون ہوسکتا ہے۔ میں اٹھ کرباہر کی طرف گیا‘ وہاں فخرو کھڑا تھا‘ سرداروں کاخاص ملازم۔
”ہاں بولو!“
”ڈی ایس پی صاحب یہیں ہیں۔“ اس نے پوچھا۔ حالانکہ وہ اچھی طرح چائے پیتے ہوئے نفری کے لوگ اور گاڑی دیکھ چکاتھا‘ میں نے پھر بھی تحمل سے جواب دیا۔
”ہاں…ہیں۔“
”میں ان سے مل سکتا ہوں۔“
”آجاؤ…“ میں نے کہااور اندر آنے کے لیے راستہ چھوڑ دیا۔ وہ میرے ساتھ ہی چارپائی تک آیا اور پھر بیٹھ گیا۔ ڈی ایس پی اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
”بولو‘ کیا کہنا ہے؟“
”سردار صاحب کہہ رہے ہیں کہ جاتے ہوئے حویلی کی طرف سے ہو کر جائیں۔“
”کیوں…؟“ اس نے قدرے تلخی سے پوچھا۔
”جی‘ یہ تو نہیں معلوم‘ انہوں نے پیغام دیا…“
”انہیں کہو کہ میں نے سارا دن گزار لیا‘ ان کے کام کے لیے‘ اب مجھے کچھ اور بھی کرنا ہے‘ میں ان کا ذاتی ملازم نہیں ہوں‘ انہیں بتادینا کہ میں کل پورے علاقے کی خود پنچائت بلارہا ہوں اپنے آفس میں‘ انہیں بھی آنا ہوگا‘ کیونکہ مجھے کل تک ہر صورت میں رپورٹ بنا کربھیجنی ہے۔“ ڈی ایس پی نے نجانے کیوں ایسا کہہ دیا۔
”جی‘ وہ شاید آپ سے یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ کل کاغذات کی تکمیل کروالیں‘ سردار صاحب لکھ دیں گے جو چاہیں گے…“ فخرو نے جھجکتے ہوئے کہا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔ اس سے پہلے کہ ہم میں سے کوئی بولتا‘ سوہنی نے دالان ہی سے کہا۔
”سنو فخرو! جاؤ اور جاکر سردار صاحب سے کہہ دو‘ اس کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں‘ میں ڈی ایس پی صاحب کی منت سماجت کرکے انہیں روک لیتی ہوں۔
اگر وہ یہاں آکر طے کرلیں تو ٹھیک‘ ورنہ میں انہی کے ساتھ واپس جارہی ہوں‘ پھر عدالت ہی میں ملاقات ہوگی۔ میں تو اپنے باپ کا پاس کررہی ہوں‘ اگر میرا باپ ہی پاس نہیں رکھنا چاہتا تو پھر میں کیا کروں۔“
”بی بی جی…! قانونی طور پر معاملہ طے کرنے میں عدالتی کاغذات کی ضرورت ہوتی ہے نا‘ وہ تو اب صبح ہی ملیں گے… وہ یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ کو بھی اور وہ بھی ان صاحب کے دفتر میں بیٹھ کر کاغذات تیار کرواکر…“
”کاغذات ہیں میرے پاس۔
وہ آئیں او ران پر دستخط کردیں‘ بس…میں اس صورت میں بھی واپس چلی جاؤں گی‘ یہاں نہیں رہوں گی۔“ سوہنی کے لہجے میں غصہ سلگ رہاتھا۔
”ہاں بھئی جاؤ‘ میں آدھا گھنٹہ یہاں انتظار کرلیتا ہوں‘ تب تک آگئے سردار صاحب تو ٹھیک ورنہ ہر ایک کی اپنی مرضی…“ ڈی ایس پی نے کہااور اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر میری طرف دیکھ کربولا۔ ”مجھے تھوڑا آرام کرنا ہے۔
“
”چلیں۔“ میں نے باہر والے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتووہ میرے ساتھ بڑھ گیا۔
میں اس وقت کھانا کھاچکاتھا‘ جب چھاکا حواس باختہ سا گھر میں داخل ہوا۔ اسے کسی نے غلط اطلاع دے دی تھی کہ پولیس مجھے پکڑنے کے لیے آئی ہے‘ جب اسے ساری بات کاپتہ چلا تب وہ پرسکون ہوگیا۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا‘ ڈی ایس پی باہر والے کمرے سے اٹھ کر جانے کے لیے تیار ہورہاتھا کہ میری توقع کے مطابق سردار شاہ دین وہاں آن پہنچا۔
باہر والے کمرے میں سردار‘ ڈی ایس پی‘ میں اورسوہنی کے علاوہ فخرو اور چھاکا بھی تھے۔ سردار چند لمحے خاموش بیٹھا رہا ‘پھر گویا ہوا۔
”میں سمجھتا ہوں کہ اگر بات عدالت اور عدالت سے میڈیا تک پہنچی‘ تب مجھے سوہنی کو اپنی بیٹی قرار د ینا ہی پڑے گا‘ لیکن اس کے علاوہ مجھ پر کیا چارج ہوں گے۔ انہیں میں بخوبی جانتاہوں۔ شاہ زیب کو فقط اپنی جائیداد دکھائی دے رہی ہے‘ جو ساکھ وہ بچانا چاہتا ہے‘ وہ نہیں بچے گی‘ میں پورے دل سے سوہنی کو اپنی بیٹی مانتا ہوں‘ کل عدالت میں جاکر جو قانونی کارروائی میری بیٹی چاہے‘ میں اس کے لیے تیار ہوں۔
“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھااور اس نے اپنی بانہیں پھیلادیں۔ یہی وہ نازک ترین مرحلہ تھا‘ جہاں سوہنی جذبات میں آکر کچھ بھی فیصلہ کرسکتی تھی‘ میں اچھی طرح جانتاتھا کہ سردار کایہ فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا گیا ہے‘ وہ باپ کے گلے لگ کررو رہی تھی‘ کچھ وقت ایسے ہی گزر گیا۔ ماحول میں سوگواریت گھل گئی تھی۔ تبھی وہ اس سے الگ ہوئی اوراندر کی جانب چلی گئی۔ میں خاموش تھا۔