”ٹھیک ہے سردار صاحب! کل پھر رپورٹ بنا کرمیں بھجوادوں گا کہ فریقین میں سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ آپ کل آکر دستخط کردیں۔“
”رپورٹ بنانے میں کونسا وقت لگتا ہے‘ آپ ابھی بنالیں۔ ابھی دستخط کر دیتاہوں۔“ سردار شاہ دین نے خلوص سے کہا‘ تبھی ڈی ایس پی نے باہر سے ایک انسپکٹر کوبلوالیااور اسے رپورٹ تیار کرنے کو کہا۔ ظاہر ہے کاغذ قلم تو مجھی سے مانگنا تھا‘ میں نے چھاکے کو اشارہ کیا کہ وہ الماری میں سے کاغذ نکال لایا‘ اتنی دیرمیں سوہنی اندر سے برآمد ہوئی اور کمرے میں آگئی۔
اس کے ہاتھ میں اسٹام پیپرز تھے۔ اس نے آتے ہی وہ اسٹام پیپرز ڈی ایس پی کو دے دیئے۔ پھر بولی۔
”آپ اسے دیکھیں اور پڑھیں‘ پھر میری نیت کااندازہ لگائیں۔ یہ میں نے ایک ہفتہ قبل تیار کروائے ہیں۔
(جاری ہے)
میں کچھ نہیں کہوں گی۔ آپ بابا کو بتادیں‘ بابا خود پڑھ لیں۔“
ڈی ایس پی نے پہلے وہ دستاویز خود پڑھی‘پھر سردار کو دے دی۔ جس میں تقریباً بیس منٹ صرف ہوگئے۔
چھاکا ‘ کاغذات کا ایک دستہ لے کر آگیا تھا جو اس نے انسپکٹر کو دے دیا۔
”سردار صاحب ! یہ تو بڑا معقول مطالبہ ہے‘ یہ آپ سے شناخت مانگ رہی ہے ‘ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔“ ڈی ایس پی نے کہا۔
”ہاں…! مجھے قبول کرنے میں کوئی انکار نہیں۔ میں ابھی دستخط کردیتاہوں۔ بس شاہ زیب سے خوف آتا ہے کہ وہ اسے نقصان نہ پہنچائے۔ یہ چاہے لاہور میں رہے یاپھر کسی غیر ملک میں‘ میں ہرطرح اس کے ساتھ ہوں‘ روپے پیسے کی فکرنہ کرنا…“ سردار نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا۔
پھر دستاویزات پر دستخط کردیئے۔کچھ دیر بعد انسپکٹر نے رپورٹ تیار کردی‘ گواہان میں فخرو اور چھاکا تھے۔ ڈی ایس پی اور میں نے بھی دستخط کیے‘ یوں بڑے اطمینان سے یہ مرحلہ سر ہوگیا۔ ڈے ایس پی خوش تھا کہ اس نے یہ معرکہ مار لیا ہے اوراس کی محنت رنگ لے آئی تھی۔تقریباً دو گھنٹے بعد جب اٹھنے لگے تو سردار نے اپنی جیب سے بڑے نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور سوہنی کو دیتے ہوئے بولا۔
”یہ رکھ لو… تمہارے کام آئیں گے۔“
سوہنی نے بڑے آرام سے وہ گڈی پکڑی‘ اس میں سے آدھے نوٹ نکال کر انسپکٹر کی جانب بڑھادیئے۔”یہ باہر بیٹھے ان بے چاروں کے لیے ہیں‘ جو صبح سے …“ یہ کہتے ہوئے اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ ڈی ایس پی چند لمحے سوچتا رہا‘ پھراس نے نوٹ لے لینے کااشارہ کردیا۔ پہلے سردار شاہ دین نکلا‘ پھر اس کے بعد پولیس والے چلے گئے۔
سوہنی بہت پہلے کاغذات لے کراندر چلی گئی تھی۔ چھاکے نے میری طرف دیکھااور مسکرادیا۔ میں بھی مسکرادیا تو وہ سمجھ گیا کہ میں کیا چاہتا ہوں‘ وہ باہر چلاگیا۔ میں نے دروازہ لگایا اور صحن میں نکل آیا‘ سوہنی اماں کے ساتھ لپٹی ہوئی بیٹھی تھی۔خوشی سے اس کاچہرہ کھلا ہواتھا۔ مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹکی‘ مجھے لگا کہ وہ وارفتگی میں میرے گلے آلگے گی‘ اس لیے بجائے ان کے قریب جانے کے چھت کی ر اہ لی۔
کھلی فضا میں گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے میں خود پر قابو پارہاتھا۔ یہ بڑی تاریخی رات ثابت ہو رہی تھی۔ سردار شاہ دین کی وہ تمکنت‘ وہ غرور اور حکمرانی کاخمار ختم ہو کررہ گیاتھا۔ وہ بت پاش پاش ہوگیا جو خود کو منوانے کے لیے جبر کا ماحول بنائے ہوئے تھا۔ انسان آزاد پیدا ہوا ہے‘ ا س پرحکمرانی کا حق صرف اور صرف اس کے تخلیق کرنے والے خالق کو حاصل ہے۔
جب خالق نے انسان کو اختیار دے دیا کہ وہ اس دنیا میں اپنی مرضی سے جیسے چاہے زندگی گزارے‘ تو انسان کو انسان پرحکمرانی اور جبر کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے اور درست ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے ‘ اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے جبر کرنااس لیے غلط ہے کہ اہمیت کردار کوحاصل ہے۔ اعلیٰ کردار اپنی روشنی سے پورے ماحول کو جگمگادیتا ہے۔
جبر کاراستہ وہی اختیار کرتے ہیں جن کے کردار میں خامیاں ہوں‘ لالچ اور مفاد پرستی کا بسیرا ان کے من میں ہو‘ میں یہی سوچ رہا تھا کہ سیڑھیوں میں آہٹ سنائی دی۔ میں نے گھوم کر دیکھا‘ وہاں چھاکا تھا‘ اس نے اندھیرے میں مجھے دیکھ لیاتھا‘ اس لیے تیزی سے میری طرف بڑھا۔
”ہاں بولو‘ کیا صور تحال ہے؟“
”جس وقت سردار شاہ دین یہاں آیا ہے‘ اس وقت دونوں باپ بیٹا میں بڑی گرماگرم بحث ہوئی ہے‘ شاہ زیب ہرحال میں سوہنی کو قتل کردینا چاہتا ہے‘ اس کایہ خیال ہے کہ جب وہ ہی نہیں رہے گی تو اس کے ساتھ سارے ثبوت بھی ختم ہوجائیں گے‘ اگر کوئی انکوائری ہوگی‘ عدالتی معاملہ چلے گا تو یہ کوئی نئی بات نہیں ‘جب تک چلے گا بھگت لیں گے۔
“
”اور سردار شاہ دین…؟“ میں نے پوچھا۔
”وہ بڑا زیرک آدمی ہے ‘ وہ اسے یہ سمجھانا چاہ رہاتھا کہ پھنکارتے ہوئے سانپ اور باؤلے کتے کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے‘ وہ کسی لمحے بھی موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ انہیں قابو میں کرکے جب چاہے انہیں ختم کردیاجائے‘ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ سوہنی نے اس کے گرد جو حصار بنادیا تھا‘ اسے فی الحال توڑنابہت مشکل ہے۔
اگر توڑتے ہیں تو خود دنیا کے سامنے ننگے ہوجاتے ہیں۔“
”مطلب اس نے یہ سمجھوتہ بیٹی کی محبت میں نہیں‘ اپنے بچاؤ کے لیے کیا ہے۔“ میں نے پوچھاتو چھاکا بولا۔
”بالکل! ایک طرف پولیس چڑھ دوڑی تھی تو دوسری جانب پورے علاقے میں بات پھیل جانے کا خوف ‘ تیسرا سوہنی کوہمارا سہارا مل گیا‘معاملہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا بن گیا۔
انہیں وہی کرناپڑا‘ جوسوہنی چاہتی تھی۔
”ٹھیک ہے‘ اب شاہ زیب کہاں ہے؟“ میں نے اپنے اندر ابلتے ہوئے لاوے کو قابو میں کرتے ہوئے پوچھا۔
”وہ تو شام ہی سے ڈیرے پر ہے۔ اس نے بندے جو بلوائے ہوئے ہیں۔ اس کے ارادے خطرناک نہیں لگتے مجھے…“ چھاکے نے تشویش بھرے لہجے میں کہا تو میں نے آہستگی سے کہا۔
”چھاکے… بہت عرصے بعد آج کی رات آئی ہے۔
میں جو کچھ آج کرنے جارہاہوں‘ اس کامیں نے بہت انتظار کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تومیرے لیے موت کے منہ میں بھی چھلانگ لگادے گا‘ اس لیے میں…“ میں نے کہنا چاہا مگر اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”یہ کیا اول فول بک رہا ہے تو… جوکرنا ہے بتا۔“
”چل ٹھہر پھر…“ میں نے اسے کہااور چھت پر بنے کمرے میں چلاگیا۔ پسٹل تو میرے پاس تھا‘ ہی‘ میں نے وہاں سے کچھ میگزین لیے‘ تیز دھار خنجر اٹھایااور اسے اپنی پنڈلی سے بیلٹ کے ساتھ باندھ لیا۔
دوپسٹل مزید اٹھائے جن کی شاندار کارکردگی تھی۔ وہ لے کرمیں کمرے سے باہر آیا۔ تالا لگایا اور دونوں پسٹل اور میگزین چھاکے کو تھمادیئے۔ اس نے خاموشی سے وہ پکڑے اور آنکھوں کے اشارے سے پوچھا‘ تومیں نے جواب دیا۔ ”چل بائیک لا‘ پھر نکلیں۔“
ہم دونوں ہی آگے پیچھے چھت پرسے نیچے آگئے۔ اماں اور سوہنی ابھی تک صحن میں تھیں۔ مضطرب سی سوہنی نے میری طرف دیکھا۔
میں جانتاتھا کہ وہ مجھ سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن ‘ یہ وقت نہیں تھا۔ میں اسے نظرانداز کرتا ہوا چھاکے کے پیچھے باہر گلی میں آگیا۔ وہ بائیک اسٹارٹ کرچکاتھا۔ میرے بیٹھتے ہی وہ چل پڑا۔ چوک پار کرتے ہی اس نے مجھ سے پوچھا۔
”جانا کدھر ہے…“
”نہرکنارے‘ حویلی کے پچھواڑے…فصلوں کے درمیان جو راستہ ہے‘ وہاں تک چل…“ میں نے اسے جگہ بتائی تو اس نے کچھ مزید پوچھے بغیر بائیک کی رفتار تیز کردی۔
اندھیری رات میں پہلا پہر ختم ہوچکاتھا‘ گاؤں میں یہ وقت بڑا پرسکون ہوتا ہے‘ پکی سڑک پر کوئی ذی روح نہیں تھا۔ البتہ چوک میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں نے ہمیں دیکھا تھا۔ پکی سڑک پر فرلانگ بھر آگے جانے کے بعد وہ راستہ نکلتاتھا جونہر کنارے جاتاتھا۔ چھاکے نے بائیں جانب اس کچے راستے پربائیک موڑ لی‘ تب میں نے چھاکے کو آہستہ رفتار سے چلنے کو کہا۔ حویلی کے پچھواڑے پہنچ کر میں نے اسے رکنے کو کہا تو وہ رک گیا۔ میں بائیک سے نیچے اتر آیا تو اس نے سوالیہ انداز میں سرگوشی میں پوچھا۔
”یہاں کیوں…ابھی تو نہر…“