Episode 86 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 86 - قلندر ذات - امجد جاوید

تب میں نے بڑے پرسکون انداز میں جواب دیا۔
”چھاکے… میں سردار شاہ دین کو قتل کرنے جارہاہوں۔ تم نے میرا یہاں انتظار کرنا ہے‘ بائیک کو نہر کنارے لے جاکر چھپادے‘ تاکہ بعد میں ہمارا ”کھرا“ انہیں نہ ملے…واپس اس جگہ آجانا … واپس آکر بائیک لے لیں گے‘ اگرمیں دوتین گھنٹے میں نہ آیا تو تم واپس پلٹ جانا…حویلی میں آنے کی حماقت نہ کرنا‘ پھر صبح ہی میرا پتہ کرنا۔
”یار تونے پہلے کیوں نہیں بتایا‘ کچھ اور بندوبست کرتے…کہیں دوسری جگہ…“
”بحث نہیں…جوکہا ہے وہ کرو۔“ میں نے سختی سے کہا اور فصل کے کنارے کھال کی منڈیر پر چل پڑا۔ مجھے یقین تھا کہ جب تک میں نگاہوں سے اوجھل نہ ہوا‘ وہ وہیں کھڑا رہے گا۔ میں اندھیرے میں بڑے محتاط انداز سے چلتا چلاگیا۔

(جاری ہے)

اس وقت میں پرسکون ہوگیا جب میں نے محسوس کیا کہ چھاکا بائیک لے کر نہر کنارے چلاگیا ہے۔

حویلی کے پچھواڑے کی چار دیواری میرے سامنے تھی۔ بچپن سے میں اس حویلی کو دیکھتا آیا تھا اور ہمیشہ میں نے یہی سوچاتھا کہ جب کبھی بھی مجھے اس حویلی میں داخل ہونا پڑے تو میں خاموشی سے کیسے داخل ہوسکتا ہوں۔ میں نے ان گنت مرتبہ اس حویلی کاجائزہ لیا تھا اور محفوظ سے محفوظ راستہ تلاش کرکے نجانے کتنی بار خیالوں ہی خیالوں میں اس حویلی کے اندر داخل ہوچکاتھا۔
بچپن سے ایک ایک امکان میرے ذہن میں تھا اور اس کے ہزاروں حل بھی میں سوچ چکاتھا۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہی یہی تھی کہ محفوظ طریقے سے اس حویلی میں داخل ہو کر باہر نکل آؤں۔
 مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ ملازمین کے کوارٹر اسی طرف ہیں اور ایک لوہے کا دروازہ اس چار دیواری میں نصب تھا جو ہر وقت کھلارہتا ہے۔ ایک گیٹ نما دروازہ آخری سرے پر تھا‘ جو اس و قت کھولا جاتاتھا جب سرداروں نے ڈیرے پرایمرجنسی میں جانا ہوتا تھا۔
ملک سجاد اسی گیٹ سے نکلا تھا۔ مجھے دیوار پھاندنے کی ضرورت نہیں تھی‘ میں لوہے کے اس دروازے سے باآسانی اندر جاسکتاتھاجوملازمین کی گزرگاہ تھی۔ اس میں سب سے بڑا رسک یہی تھا کہ ملازمین کی نگاہ مجھ پر پڑسکتی تھی‘ ان کی نظروں سے بچنا محال تھا۔ کیونکہ وہ حویلی کے اس طرف کھلے میں پھرتے رہتے تھے اور اس میں سو بھی جاتے تھے۔ میں دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا۔
اندر کی طرف اندھیرا تھا۔
 میں نے آہستگی سے دروازہ کھولا ‘ چند لمحے اندر کاجائزہ لیااور اندر کی طرف چلا گیا۔ وہاں کوارٹروں سے آنے والی دھیمی دھیمی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔میں وہیں دیوار کی جڑ میں بیٹھ گیا۔ میں چند منٹ دم سادھے وہیں بیٹھا رہا۔ رات کے اس پہر ملازمین کے کوارٹروں میں خاموشی تھی۔ دوچار لوگ باہر چارپائیوں پر لیٹے ہوئے تھے‘ میں یقین سے نہیں کہہ سکتاتھا کہ وہ سوئے ہوئے ہیں یا جاگ رہے ہیں۔
مجھے وہیں بیٹھ کر یہی یقین کرناتھا۔ میں تقریباً پندرہ منٹ وہیں اسی مقصد کے لیے بیٹھا رہا۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ بے خبر سو رہے ہیں تو میں اٹھااور ان کے قریب سے ہوتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
وہاں سے رہائشی عمارت تقریباً دوایکڑ پر تھی۔ درمیان میں ایک طرف لان اور دوسری طرف سوئمنگ پول تھا۔ جس میں اس وقت پانی نہیں تھا۔ میں تیزی سے چلتا ہوا رہائشی عمارت کی پچھلی طرف آگیا۔
یہاں بھی ایک داخلی دروازہ تھا‘ جومیری معلومات کے مطابق اکثر بند رہتاتھا۔ میں وہ دروازہ کھول نہیں سکتاتھا لیکن اس پربنے ہوئے آرائشی شیڈ میرے کام آسکتے تھے۔
 سردار شاہ دین کی خواب گاہ اوپر والے پورشن میں تھی۔ میں ان شیڈز کے سہارے چڑھ کر اوپر بالکونی میں جاسکتاتھا۔ پھرایک راہداری کے بعد سردار کی خواب گاہ تھی۔ اصل خطرہ اوپر ہی تھا۔
وہاں سیکورٹی گارڈ موجود رہتے تھے۔ میں نے اپنی ساری ہمت جمع کی اور شیڈ میں انگلیاں جمادیں‘ پھراپنا وزن اٹھاتے ہوئے میں اوپر چڑھنے لگا۔ تقریباً دو منٹ بعدمیرے ہاتھ بالکونی تک پہنچ گئے‘ میں نے اپنا سر اٹھایااور کسی ممکنہ خطرے کو دیکھا‘ سامنے کی راہداری خالی تھی۔ میں چشم زدن میں بالکونی میں تھااور اپنے حواس بحال کرنے کے ساتھ ساتھ سانسیں بھی درست کرنے کے لیے لیٹ گیا۔
کچھ دیر بعد میری سانسیں بحال ہوگئیں۔ میں اٹھااور دبے پاؤں آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہاں کوئی ذی روح نہیں تھا‘ مجھے حیرت ہونے لگی کہ وہاں کوئی سیکیورٹی گارڈ کیوں نہیں ہے؟ کیا سردار اس وقت حویلی میں نہیں؟ کیا میری محنت ضائع چلی گئی‘ میں ایک دم سے پریشان ہوگیا۔
میں نے اگلے چند لمحوں میں خود پرقابوپایااور مایوسی کو جھٹک دیا۔ راہداری میں اندھیرا تھالیکن باہر سے چھن کر آئی ہوئی روشنی میں لوہے کی گرل صاف دکھائی دے رہی تھی۔
میں آگے بڑھتاگیا۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ سردار شاہ دین کی خواب گاہ کس طرف ہے۔ میں اس راہداری میں آگیا‘ جہاں ایک طرف کمرے بنے ہوئے تھے اور دوسری طرف لوہے کی گرل سے نیچے صحن صاف دکھائی دے رہاتھا۔ صحن میں کوئی نہیں تھا اور راہداری بھی خالی تھی۔ میں حیران تھا کہ ایسا سناٹا کیوں ہے۔ حویلی کے ملازمین کہاں چلے گئے۔ میں سب سے زیادہ سیکورٹی والوں سے محتاط تھا جو ابھی تک مجھے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
مجھے دائیں جانب مڑنا تھا‘ جہاں سردار کی خواب گاہ تھی۔ میں نے بڑے محتاط انداز میں سامنے دیکھا‘ ویران اور خالی راہداری میں ایک بلب جل رہاتھا۔ اس کی روشنی تھی‘ جس سے لوہے کی گرل دکھائی دے رہی تھی۔ میں تیز ی سے آگے بڑھااور دیوار پر لگے ہوئے بورڈ کے تمام سوئچ آف کردیئے جس سے بلب بجھ گیا تو اندھیرا چھاگیا۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر خواب گاہ کا دروازہ تھا‘میں نے دروازے پر ہلکا سا دباؤدیا‘ وہ اندر سے بند تھا۔
میں نے ایک لمبی سانس لی اور دروازے پر دستک دے دی۔ چند لمحوں بعد سردار کے کھنکارنے کی آواز آئی پھر دھیرے سے پوچھا۔
”کون ہے بھئی؟“
”جی‘ میں چھینہ…“ میں نے آواز بدل کر ہلکے سے کہا۔ چھینہ اس کا باڈی گارڈ تھااورہمہ وقت حویلی ہی میں رہتاتھا‘ میں نے بچپن سے ان گنت مرتبہ اس کی آواز سنی تھی۔ مجھے لگا کہ میں نے اس کی آواز کی کاپی ٹھیک کرلی ہے۔
اگلے چند لمحوں میں دروازہ کھل گیا۔ مجھ پرنگاہ پڑتے ہی سردار کی بھنوئیں تن گئیں۔ جب تک وہ کچھ سمجھتا یا کچھ کہتا‘میں نے دروازے میں اپنا پاؤں اڑس دیا‘ پھر پوری قوت سے دروازے کا پٹ اندر کی جانب دھکیل دیا۔ دوسرے ہاتھ سے میں نے سردار کو دھکادیا‘ وہ لڑکھڑاتا چلاگیا‘ وہ گھگھیائے ہوئے اندازمیں بولا۔
”تم پاگل ہوگئے ہو… کیا ہواتمہیں…“
”آرام سے اپنے بستر پر جاکر لیٹ جاؤ‘ میں نے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔
میرے خیال میں تجھے میری بات سمجھ میں آگئی ہوگی…“ میں نے سرد لہجے میں کہا تو اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا‘ پھر مڑگیا۔ میں نے دروازے کا لاک لگایااور اس کے بستر پر چلاگیا۔ جہاں وہ سکون سے لیٹ گیاتھا۔
”بولو…! کیا کہنا ہے تمہیں…؟“ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہاتو میں نے بڑے سکون سے کہا۔
”یاد کرو سردار‘ اس وقت کو یاد کرو جب تونے جوانی کے خمار میں میرے باپ کو قتل کردیاتھا۔
”وہ…وہ ایک حادثہ تھا۔“ اس نے لرزتے ہوئے کہا۔
”نہیں‘ وہ حادثہ نہیں تھا‘تم نے جان بوجھ کر میرے باپ کو قتل کیا تھا‘ اب تم سمجھ گئے ہوگے کہ میں تم سے اتنی نفرت کیوں کرتاہوں۔“
”جمال…پتر…تمہیں غلط فہمی ہوگئی ہے‘ ساراگاؤں جانتا ہے کہ وہ ایک حادثہ تھا‘ اللہ بخشے تیرا باپ بڑا پکا نشانے باز اور بہترین شکاری تھا۔
میرا تووہ بڑا اچھا دوست تھا۔ ہم نے جوانی کابڑا حصہ ساتھ میں شکار کھیلتے ہوئے گزارا ہے‘ اور میرے باپ نے تیرے باپ کو یہ زمین دی تھی۔ تمہیں بہکادیا ہے کسی نے…“ اس نے نرم لہجے میں سمجھایا۔
”نہیں سردار نہیں…تم جھوٹ بولتے ہو…یہ زمین میرے باپ نے اس وقت بنائی تھی جب یہ کسی کی نہیں تھی‘ خود الاٹ کروائی تھی حکومت سے‘ یہ احسان نہ جتا‘ میں مانتاہوں کہ میرا باپ بہت اچھا شکاری تھا‘ نشانہ بازی مجھے ورثے میں ملی‘ یہ سچ ہے تم دونوں نے بہت شکار کیا‘ لیکن وہ تیرے جیسا بے غیرت نہیں تھا۔
”یہ تم کیا کہہ رہے ہو…“ وہ تیزی سے بولا۔
”بچپن سے… میں نے اس تحقیق میں وقت گزارا ہے سردار… جس وقت میری ماں اس گاؤں میں بیاہ کر آئی ‘تونے اپنی نیت بری کرلی‘ میرے باپ کے ہوتے ہوئے تو کچھ نہیں کرسکتاتھا‘ تونے میرے باپ کو گولی ماردی‘ بہانہ یہ کردیا کہ گولی بھول سے لگ گئی ساری دنیا جھوٹ بول سکتی ہے‘ لیکن میری ماں جھوٹ نہیں بول سکتی۔
”تم …غلط۔“
”خاموش بے غیرت…“میں نے ہونٹوں پرانگلی رکھ کرکہا۔”تم نے میری ماں کومجبور کرنا شروع کردیا…تاکہ وہ تیری بات مان لے… میں اس وقت پیدا ہونے والا تھا‘ تونے بڑاانتظار کیا‘ لیکن میری ماں نے صبر سے کام لیا… وہ نہ صرف تیرے ظلم سہتی رہی‘ بلکہ صبر سے آج کے وقت کاانتظار کرتی رہی… کیااس کی صرف یہی سزا تھی کہ وہ ایک مجبور‘ بیوہ اور غریب عورت تھی۔
”میں اب تجھے کیا کہوں…“اس نے کہنا چاہا تومیں نے اس کے ہونٹوں پرانگلی رکھ دی‘ پھر بولا۔
”دیکھ قدرت کے کھیل کتنے نرالے ہیں‘ تونے میری ماں کے بارے میں اپنی نیت خراب کی تھی‘ اس پرظلم کیے‘ اسے مجبور کرتے رہے…اب تیری بیٹی‘ میرے گھر میں ہے میں اس کے ساتھ جو مرضی کروں‘ تومجھے نہیں روک سکتا… روک سکتا ہے…؟“
”دیکھ جمال‘ وہ میری جوانی کی بھول تھی‘ میں بہک گیاتھا‘ تومجھے معاف کردے اور سوہنی کویہاں سے جانے دے…میں تیرے پاؤں پڑتاہوں۔
“ سردار نے منت بھرے انداز میں دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”یہ تو قدرت کا کھیل تھا‘ ورنہ میں تجھے ویسے ہی قتل کرنا چاہتاتھا۔“ میں نے کہاتو اس نے حسرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھااور پھر بولا۔
”تومجھے ماردے…مجھے کوئی دکھ نہیں ہوگا‘ لیکن وعدہ کر‘میری بیٹی کوخراب نہیں کرے گا‘ اسے یہاں سے دوربھیج دے گا…“
”میں نے کچھ نہیں کرنا سردار…اب جو کچھ کرنا ہے‘تیرے شاہ زیب ہی نے کرنا ہے‘ میں بڑے صبر سے اسے برداشت کرتاچلا آرہا ہوں‘ صرف اسی دن کے لیے … ساری زندگی تیرے بچے‘ کتوں کی طرح جائیداد پرلڑیں گے‘ چاہئے تو یہ تھا کہ تو زندہ رہتااور یہ تماشا خود اپنی آنکھوں سے دیکھتا‘ لیکن میرا وعدہ ہے کہ تونے میرے ہاتھوں مرنا ہے۔
“میں نے بڑے سکون سے کہاتو اس نے غیر محسوس انداز میں اپنا ہاتھ سرہانے کی طرف بڑھایا‘جسے میں نے محسو س تو کرلیا‘ مگر کچھ نہ کہا‘ میں یہ دیکھنا چاہتاتھا کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے‘ اگلے ہی لمحے اس نے اپنے سرہانے کے تلے سے پسٹل نکال لیا‘ میں ہنس دیا‘ اور پھر ایک جھٹکے سے ہاتھ ماراتو اس کاپسٹل دور جاگرا۔
”یوں اکیلے کو مارنا…“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط