Episode 87 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 87 - قلندر ذات - امجد جاوید

”بکواس بند کر…تونے جوظلم کیے ہیں‘ انہیں یاد کراور مرنے کے لیے تیار ہوجا…“میں نے کہا ہی تھا کہ اس نے شور مچانے کے لیے منہ کھولا‘ میں نے پوری قوت سے ایک گھونسہ اس کے منہ پر دے مارا‘ پھر چشم زدن میں پنڈلی کے ساتھ بندھا خنجر نکال لیا۔ وہ دہشت زدہ ہوگیا۔ پھرمیں نے اسے مزید وقت نہیں دیا۔اگلے ہی لمحے میں نے اس کے گلے پرخنجر پھیر دیا۔ خون کی تیز دھار نکلی‘ میں بچتا ہوا اٹھ گیا‘ وہ اپنے بستر پر خرخراتے ہوئے تڑپنے لگا۔

میں بڑے سکون کے ساتھ اس کا تڑپنا دیکھتا رہا۔ میری ماں کی آہوں‘ سسکیوں اور آنسوؤں سے جو زخم میرے دل پر لگے ہوئے تھے‘ ان پر مرہم لگتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ اپنی آخری سانسوں پرتھا۔ میں اسے مرتا ہوا دیکھتا رہا‘ یہاں تک کہ اس نے ہچکی لی‘ اور ساکت ہوگیا۔

(جاری ہے)

اب میرے لیے وہاں ٹھہرنا فضول تھا‘میں نے خنجر کوپنڈلی کی بلٹ میں اڑسا‘ پسٹل نکالا اور باہر کی طرف لپکا۔

میں نے پوری احتیاط سے دروازہ کھولا‘ پھر راہداری میں جھانکا‘ وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں جس راستے سے آیا تھا‘ اسی طرح واپس پلٹنے لگا۔ بالکنی سے اتر کرمیں بھاگتے ہوئے ملازمین کے کوارٹرز تک گیا۔ وہ اسی طرح سکون اور مزے سے سو رہے تھے۔ میں نے لوہے والے دروازے کو کھولااور حویلی سے باہر آگیا۔
باہر گھپ اندھیرا تھا۔ مجھے احساس نہیں تھا کہ میں نے حویلی میں کتنا وقت گزارا تھا‘ مجھے یقین تھا کہ چھاکا وہیں کہیں ہوگا‘ میں تیزی سے فصلوں کے درمیان سے ہوتاہوا کچی سڑک تک گیا‘ جہاں سامنے ہی چھاکا کھال کی منڈیر پربیٹھا ہواتھا۔
مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہوگیا۔
”ہوں…“ اس نے سرگوشی میں ہنکارا بھرا‘ اس کامطلب تھا کہ میں کیا کرکے آرہاہوں‘تب میں نے آہستگی سے جواب دیا۔
”ماردیاسردار کو…اب چل نہر کنارے۔“
اس نے میری بات کانہ کوئی جواب دیااور نہ ہی کچھ تبصرہ کیا‘ وہ فوراً پلٹ گیا۔ ہم آگے پیچھے تیزی سے فصلوں کے درمیان چلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ نہر کنارے اس جگہ آگئے جہاں چھاکے نے بائیک چھپائی ہوئی تھی۔
اس نے جلدی سے بائیک نکالی‘ اسٹارٹ کی‘ تب تک میں پیچھے بیٹھ گیاتھا۔اس نے بائیک بڑھادی۔ ہم نہر کنارے چلتے ہوئے نور نگر کاچکر کاٹ کر دوسری طرف سے گاؤں میں داخَل ہوگئے۔ گاؤں میں سناٹاتھا۔
”میراخیال ہے‘ تو گھر میں نہ سو‘ میری طرف آجا۔“ چھاکے نے صلاح دی۔
”نہیں‘ اس طرح شک ہوسکتا ہے‘ میں گھر ہی رہوں گا۔“ میں نے کہا تو راستے میں چھاکے کا گھر آجانے پر اسے اتارا‘ پھرمیں اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔
اندھیرے گاؤں کی سنسان گلیاں پار کرتاہوا‘ میں اپنے گھر کے دروازے پر جاپہنچا۔
گیٹ اماں ہی نے کھولا‘ میں بائیک لیتا ہوا صحن میں چلا گیا۔ بائیک کھڑی کرکے میں واپس پلٹا تو اماں کے ساتھ سوہنی دالان میں تھی۔ وہ دونوں ہی سوالیہ انداز میں مجھے دیکھ رہی تھیں۔ میرے کپڑوں پر جابجا خون کے چھینٹے تھے۔ میں نے پنڈلی سے بندھے بلٹ میں سے خنجر نکالا جو اب بھی خون آلود تھا‘ وہ میں نے اپنے ہاتھ پررکھتے ہوئے کہا۔
”ماں…! یہ خون اس بے غیرت انسان کا ہے‘ جس سے بدلہ لینے کا سبق تونے مجھے بچپن سے دیاتھا۔ مار دیامیں نے سردار شاہ دین کو…“ یہ کہتے ہوئے میں نے اماں کے چہرے پر دیکھا‘ جہاں جیت کی خوشی کاخمار تھا‘ ماں کے چہرے پر خوشی کاوہ اظہار تھا جس میں کسی مقصد کی تکمیل کاعنصر ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جو اپنے مقصد کی تکمیل اپنی زندگی میں دیکھ پاتے ہیں اور اس خوشی کا سرور وہی جانتے ہیں‘ ایسا ہی کچھ اس وقت میری ماں کے چہرے پر تھا۔
اس لمحے میں نے سوہنی کے چہرے کی طرف دیکھا‘ وہ سرخ تھا‘ گال حد سے زیادہ سرخ تھے‘ آنکھیں بھیگی ہوئی اور لب بھینچے ہوئے ‘سردار شاہ دین کچھ بھی تھا اور کیسا ہی تھا‘ آخر اس کاباپ تھا۔ اس کا دکھ فطری تھا۔ وہ ایک لفظ بھی نہیں کہہ پائی تھی۔ میں اس کے باپ کا قاتل اس کے سامنے قتل کاا ظہار بھی کررہاتھا۔ یہ بہت جذباتی لمحات تھے‘ میں وہاں زیادہ دیر نہیں رکا‘ میرے ہاتھ میں خنجر یونہی پکڑا ہواتھا۔
تبھی میری ماں نے ہولے سے کہا۔
”جا‘ اسے صاف کرکے‘ اپنا آپ بھی دھولے‘اس کا غلیظ خون تمہارے بدن پر نہیں ہونا چاہیے۔“
میں نے سنااور سوہنی کی طرف دیکھے بغیر باتھ روم کی طرف چل دیا۔
میری ماں نے مجھے وہیں کپڑے دے دیئے اور پرانے کپڑے لے جاکر انہیں آگ لگادی۔ یہ مجھے اس وقت پتہ چلا جب میں باتھ روم سے باہر آیا۔ کپڑے جل چکے تھے۔
میں اندر نہیں گیا۔ مجھے سوہنی کے دکھ کااحساس تھا مگر میں اسے کوئی دلاسہ نہیں دے سکتاتھا‘ اس لیے میں اپنی جائے پناہ چھت پر چلاگیا۔ وہی میرے لیے سکون کاگوشہ تھا۔ میں نے سارے ہتھیار اپنی جگہ واپس رکھے‘ اپنا پسندیدہ پسٹل لیااور چھت پرپڑی چارپائی پرآلیٹا۔ اس وقت میں اپنے اندر اتری ہوئی طمانیت کومحسوس کررہاتھا۔
                                     # # # #
اس وقت رات کادوسرا پہر چل رہاتھا۔
ہسپتال میں خاموشی تھی۔ جسپال کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔ وہ ایک ٹک ہرپریت کے چہرے پر دیکھ رہا تھا‘ جو خواب آور دوائیوں کے زیراثر محوخواب تھی۔ وہ جس وقت یہاں پہنچا تھا‘ اُسے آئی سی یو سے وارڈ میں منتقل کردیاگیاتھا۔ انوجیت نے نجی کمرہ میں ہرپریت کورکھااور اس کے جاگ جانے کا انتظار کررہاتھا۔ جسپال نے اسے جانے کے لیے کہاتاکہ وہ آرام کرلے‘ وہ اسے آرام کرنے کا مشورہ دیتا رہا‘ یوں کچھ بحث کے بعد جسپال اسے ریسرورٹ میں بھیجنے میں کامیاب ہوگیا۔
 
وہ گاڑی لے کر نکل گیا‘ تب سے جسپال اسے دیکھتا جارہاتھاا وراس کی سوچیں اسے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھیں۔ وہ اس وقت تک بہت کچھ سوچ چکاتھا۔ اگرچہ اسے بھارت آئے بہت تھوڑے دن ہوئے تھے لیکن وہ یہ سمجھ چکاتھا کہ یہاں محض جنگل کاقانون چل رہا ہے۔ جس کی طاقت ہے‘ وہی اپنی من مانی کرتا ہے‘ پتہ نہیں کب وینکوور میں ایک بحث کے دوران کسی بندے نے ایک بات کی تھی بھارت کے بارے میں‘ وہ اسے پوری سچائی کے ساتھ دکھائی دے رہی تھی۔
اس نے کہا تھا کہ بھارت پرالزام ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں ہندو راج کررہے ہیں۔چند ہندو خاندانوں نے پورے ملک کے لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور مذہب کو وہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
 ہندو دھرم میں چونکہ طاقت کی پوجا کی جاتی ہے اس لیے وہ طاقت ہی کی عبادت کرتے ہیں اوراس کومانتے بھی ہیں۔ اگر سامنے کمزور ہے تو ہندو پوری طاقت استعمال کرکے اسے کچل دینے میں ذرا برابر بھی نہیں ہچکچاتے‘ لیکن اگر سامنے سے کوئی طاقت ور آجائے تو پھر کتے کی طرح دم دبا کر کونے میں لگ کربیٹھ جاتے ہیں۔
یہی ان کی حکومت کا فلسفہ ہے اور یہی ان کی خارجی پالیسی کی بنیاد۔ وہ بھارت اور بھارتی معاشرے کو سمجھ گیاتھا۔ یہاں صرف کمزور کودبایا جاتا ہے اور طاقت ور کے ساتھ وہ دوستی کاتعلق بنانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں لیکن ہندو اپنی فطری منافقت نہیں چھوڑ سکتے۔ ایسا ہوتا ہے کہ ہر قوم کااپناایک مزاج ہوتا ہے۔ یہ مزاج ماحول سے نہیں بنتا‘بلکہ ان نظریات کی وجہ سے خود بخود بن جاتا ہے‘ جووہ قوم رکھتی ہے۔
اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس میں موروثی اثرات زیادہ شدید ہوتے ہیں کہ وہ اپنی نظریات کو اپنانے پرمجبور کردیتے ہیں‘یا نظریات آئندہ آنے والی نسلوں کی وراثتی حیثیت میں شامل ہوجاتے ہیں۔وہ انہی خیالوں میں الجھا ہوا تھا کہ ہرپریت کے کراہنے کی آواز آئی۔ وہ چونک گیا اور فوراً ہی اس کے قریب چلاگیا۔ہرپریت ہوش میں آرہی تھی۔ اس نے جلدی سے اس کاہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
لمس کااحساس پاکر ہرپریت نے آنکھیں کھولیں اور مسکرانے کی موہوم سی کوشش کی جس پرجسپال کے من میں پیار بھری لہر سرائیت کرگئی اور بے حد جذباتی ہوگیا‘ تبھی اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
”کیسی ہو؟“
اس پر وہ بولنے کے لیے کوشش پرناکام ہوگئی‘ اس کے لب ہی لرزے تھے‘ باقی بات آنکھوں سے کہہ دی‘۱ وہ تڑپ کررہ گیا۔
”پریتی… یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا‘ میں اس پرشرمندہ ہوں‘ تم …موت…“ اس نے کہنا چاہا تو ہرپریت نے اس کاہاتھ اپنے ہاتھ میں دبالیا‘ اور آنکھوں میں یہی تاثر تھا کہ وہ ایسی بات نہ کہے۔
”میں جانتاہوں کہ تمہیں میری بات اچھی نہیں لگ رہی ہے لیکن یہی حقیقت ہے پریتی…تم بس جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ‘ مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ کس نے ہم پرحملہ کروایا ہے اور اس کے پیچھے کون ہے؟میں انہیں چھوڑوں گانہیں…“
اس کے یو ں کہنے پر ہریریت کی آنکھوں میں تجسس اتر آیا۔ وہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ وہ کون ہے جسپال اسے بتاتا رہا کہ وہ کون ہے‘ وہ پوری روداد سنتی رہی‘ یوں جسپال ہی باتیں کرتا رہااور وہ سنتی رہی۔
اس دوران نرس آگئی ‘ اس نے چارٹ پر لکھی ہوئی ہدایت کے مطابق اسے انجکشن دیا‘ میڈیسن دی اور پلٹ گئی‘ ہرپریت دوبارہ سوگئی‘ لیکن جسپال کی آنکھوں میں سے نیند اڑگئی تھی۔
صبح کی روشنی پھیلنے کے ساتھ ہی ہسپتال میں گہما گہمی شروع ہوگئی تھی۔ انوجیت واپس آگیاتھا۔
”تم ایسا کرو جسپال…تم ریسرورٹ چلے جاؤ اور جاکر آرام کرو‘ یاپھر واپس اوگی پنڈ چلے جاؤ۔
اور بے بے کو بھیج دو‘ ان کاہرپریت کے پاس ہونا ضروری ہے۔“
”جیسے تم کہو انوجیت‘ لیکن میرا یہاں رہنا زیادہ ٹھیک رہے گا۔اگربے بے آجائے تو آسانی رہے گی‘ اوگی میں تمہارا ہونا زیادہ ضروری ہے۔ “ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے میں ابھی نکلتاہوں۔ دوپہر تک بے بے کو یہاں لے آؤں گا یاپھر کسی کے ساتھ انہیں بھیج دوں گا۔
“ اس نے سوچنے والے انداز میں کہا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کا اوگی میں ہونا زیادہ ضروری ہے۔ وہ کچھ دیر بعد بیٹھ کر چلاگیا تو جسپال ڈاکٹر کے کمرے میں جاپہنچا۔ کچھ دیر یونہی باتوں کے بعد اس نے پوچھا۔
”ڈاکٹر صاحب…! اندازاًہرپریت کو ٹھیک ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟“
”میرے خیال میں تین ہفتے تو لگ جائیں گے زخم بھرنے تک…وہ نوجوان ہے اور کوئی ایسی بیماری وغیرہ والا مسئلہ بھی نہیں۔“ ڈاکٹر نے بتایا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط