”وہ دونوں حوالاتی اغوا ہوگئے ہیں یاان کے ساتھی انہیں چھڑا کر لے گئے ہیں۔ میں اپنے کل والے رویے کی معافی مانگتاہوں۔ میں چاہ رہاتھا کہ آپ سے مل کر اس صورت حال کو سلجھالوں۔“ انسپکٹر نے یوں کہاجیسے کہہ رہا ہو اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس چھن کر ٹوٹ گیا ہو‘ تبھی کیشیو نے کہا۔
”تم ایسا کرو انسپکٹر…! اپنے تھانے جاؤ‘ میں نے عدالت میں آج کیس دائر کردینا ہے‘ میں اے سی پی سے بھی ملوں گا‘ اور تمہاری کارکردگی بتاؤں گا‘ انسانی حقوق کی تنظیمیں خود تم سے پوچھ لیں گی‘ مہلادل(خواتین محاذ) کوبھی متحرک کردوں گا‘ اور میڈیا خودبخود ان کی طرف متوجہ ہوجائے گا‘ تم جاؤ‘ اب ہم خود سنبھال لیں گے۔
“
”ٹھیک ہے جی‘ اگرآپ یہی چاہتے ہیں تو مزید کیا کہہ سکتاہوں۔
(جاری ہے)
“ انسپکٹر کو لگا کہ شاید ان تلوں میں تیل نہیں ہے یاپھر شایداسے اپنی انسپکٹری کاجوش آگیا ہوگا‘ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ بجا‘ لیکن جسپال سمجھ رہاتھا کہ اسے انسپکٹر رن ویر اوراس کے ڈیپارٹمنٹ کی پوری آشیرواد حاصل ہے‘ وہ وہاں سے اٹھااور تیزی سے نکلتا چلا گیا۔ تبھی کیشیو مہرہ نے ہیڈ کومخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”دیکھیں جناب‘ آپ نے بھی سن لیا ہوگا‘ کہ اصل میں معاملہ کیا ہے۔ آپ فوراً اپنے متعلقہ اداروں کو اطلاع دیں‘ اس واقعہ کی‘ آپ اپنا تحفظ کرلیں‘ ممکن ہے کل کہیں جواب دہی ہوجائے۔“
جسپال یہ اچھی طرح سمجھ رہاتھا کہ یہ محض دھمکی ہے‘ ممکن ہے مستقبل میں ایسا کچھ نہ ہو‘ جس وقت کیشیو مہرہ نہیں آیا تھا‘ اس کے دماغ میں یہ کہیں بھی نہیں تھا کہ وہ اس واقعہ کو کیسے استعمال کرپائے گا۔
لیکن اس کے شاطر دماغ نے کرلیا وہ تو محض اپنا غصہ انسپکٹر پر اتارنا چاہتاتھا‘ وہ دونوں ہیڈ کے کمرے سے باہر آگئے تھے اور پھر تیزی سے ہرپریت کے کمرے کی طرف چلے گئے۔ جسپال نے ایک بار اندر جھانک کر دیکھا‘ ہرپریت محو خواب تھی۔
”میں نہیں چاہتا کہ تم یہاں جالندھر میں ان لوگوں کے ساتھ دکھائی دو جو کسی نہ کسی حوالے سے جرم کی دنیا سے منسلک ہیں۔
میں نے گیتا کالونی ہی میں تمہارا بندوبست کردیاتھا‘ مگر اس واقعے کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ تم محفوظ رہوگے‘اس لیے تمہیں کسی ایسے بندے کے ساتھ رکھنا ہوگا‘جہاں کم از کم تمہارا تحفظ ہو سکے۔“ کیشیو نے سوچنے والے انداز میں کہا۔
”لیکن یہاں ہرپریت…؟“ جسپال نے کہنا چاہاتووہ بولا۔
”یہ انوجیت کی ذمہ داری ہوگی‘ دشمن ہمیں ایک جگہ محدود کردینا چاہتے ہیں‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
“
”ہمیں محدود کرنے سے انہیں کیافائدہ ہوگا؟“ اس نے پوچھا۔
”وہ ہمیں دیوار کے ساتھ لگا کر یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم مدد کے لیے کس کی طرف دیکھتے ہیں یا کون ہماری مدد کوآتا ہے؟ اس سے سارا معاملہ آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔ دوسرا ہمارے ایک جگہ محدود ہوجانے سے اگر ان پر کوئی حملہ نہیں ہوتا تو بھی وہ سمجھ جائیں گے…تم ان کے سامنے بھی رہو‘ لیکن انہیں نقصان پہنچادو… میں یہی چاہتاہوں۔
“
”اب کرنا کیا ہے…؟“
”فوراً تم اوگی میں چلے جاؤ… اور تمہارا آمنا سامنا بلجیت سے ہوجائے شرط یہ ہے کہ وہ تم پر حملہ آور ہو‘ ملازمین کی صورت میں کچھ بندے تیرے ساتھ بھیج دوں گا۔“
”ٹھیک ہے‘ انوجیت آجائے تو میں اوگی پنڈ چلاجاؤں گا۔“
”اوکے…! میں دوپہر دو بجے کے قریب تجھے ریسرورٹ میں ملتاہوں۔ وہیں تجھے بتاؤں گا کہ میں نے کیا کیا ہے۔
“ یہ کہہ کر اس نے کلائی پربندھی گھڑی میں وقت دیکھااور باہر نکلتا چلاگیا۔ وہ چند لمحے کمرے کے باہر کھڑا رہا‘ پھر ہرپریت کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ وہ ہنوز محوخواب تھی۔ اس کے چہرے پر پیلاہٹ واضح تھی‘وہ اس میں کھویاہواتھا کہ انوجیت کافون آگیا۔
”جسپال‘ ہسپتال میں کیا ہنگامہ ہوگیا؟“
”ہوکرختم بھی ہوگیا۔“ یہ کہہ کر اس نے اختصار سے ساری بات کہہ دی۔
تب وہ بولا۔
”میں ایک گھنٹے میں ہسپتال آجاتاہوں‘ لیکن میرے آنے سے پہلے ہی کچھ لڑکے وہاں آجائیں گے۔ اب ہرپریت کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔“
”میں انتظار کررہا ہوں۔“ جسپال نے کہاتواس نے سلسلہ منقطع کردیا۔
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد پھوپھوکلجیت کور کے ساتھ انوجیت آگیا۔ اس نے آتے ہی کہا۔
”جسپال…! اب تو آزاد ہے‘ جو چاہے کر‘ میں ہرپریت کوسنبھال لوں گا۔
“
”پتر…! یہ حالات تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس سے آگے بہت سخت حالات آنے والے ہیں۔ دشمن بہت طاقتور ہے‘ اور یہ جنگ کب تک رہے گی ‘اس کا کوئی پتہ نہیں‘ میری ہرپریت تو ایک دو ہفتے بعد ٹھیک ہوجائے گی لیکن رب تیری خیر کرے۔ دشمن تیری تاک میں ہیں۔“
”رب خیر ہی کرے گا پھوپھو… تو دل تھوڑا نہ کر‘ مجھے اوگی پنڈ جانے دے‘ پھر میں بلجیت سنگھ کو بھی دیکھ لیتا ہوں‘ اوررن ویر کوبھی‘ ایک نہ ایک دن تو آمنے سامنے ہونا ہی ہے۔
“ اس کے لہجے میں سے غصہ چھلک رہاتھا۔
”جو کچھ بھی ہے پتر‘ لیکن جنگ میں جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیرے دشمن طاقتور ہی نہیں‘انتہائی چالاک بھی ہیں۔‘کلجیت کور نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”میں آپ کی بات ذہن میں رکھوں گا پھوپھوجی…“ یہ کہہ کر اس نے انوجیت کی طرف دیکھا‘ پھر ایک نگاہ ہرپریت پرڈالی اور باہر کی طرف نکلتا چلاگیا۔
اس کا رخ ریسرورٹ کی طرف تھا‘جہاں کچھ دیر بعد اس سے کیشیو مہرہ نے آن ملناتھا۔ وہ جالندھر بائی پاس پر موجود ریسرورٹ پہنچا تو اسے یقین ہوگیا کہ کوئی اس کاتعاقب نہیں کررہا ہے۔ اس نے جاتے ہی اپنا سامان سمیٹااور بیگ تیار کرکے باہر کاؤنٹر تک آگیا۔ اس نے وہاں ادائیگی کی‘ یہاں تک کہ اس میں دو بج گئے اور کیشیو کافون آگیا۔ وہ وہیں پر پہنچ رہاتھا۔
وہ دونوں لابی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کیشیو اسے بتاچکاتھا کہ اس نے اے سی پی کو مطلع کردیا ہے اور دوسری درخواست گزاردی ہے۔چند چینل کے رپورٹرز کے ساتھ رابطہ کرکے‘ انہیں اس راہ پر لگادیا ہے وہ خود ہی خبر بنا کر چلائیں گے۔ وہ صحافیوں کو چلانے کا ہنر جانتاتھا‘ اس نے کافی حد تک ان کی ضرورت پوری کردی تھی اور وہ جی جان سے اس کی مدد کرنے کو تیار ہوچکے تھے۔
”اب تم سکون سے اوگی پنڈ جاؤ‘ اور تمہارا پہلا ٹارگٹ یہی ہونا چاہیے کہ بلجیت سنگھ کسی نہ کسی طرح اپنے بل سے نکلے اور پھر جس طرح پہلے دھمکیاں دے گیاتھااسی طرح پھر دے‘ دوسری طرف تم نے رن ویر کو دباؤ میں رکھنا ہے کہ تم پرحملہ آوروں کا کیابنا‘چاہے روزانہ تمہیں پولیس چوکی جاناپڑے۔“
”میں سمجھ گیا کہ تم کیاکہنا چاہ رہے ہو‘ یہاں ہر حال میں ہرپریت کاخیال رکھنا‘ میرا سارا دھیان ادھر رہے گا۔
“ جسپال نے آہستگی سے کہا تو کیشیو ہنستے ہوئے بولا۔
”اب اوگی اتنا بھی دور نہیں ہے یار‘ بیس منٹ کاراستہ ہے‘ جب دل چاہے آجانا‘ اور پھر کبھی کبھی تجھے عدالت میں بھی آنا ہوگا شاید‘ میں نے مقدمہ بھی تو دائر کردیاہے‘ اگرچہ فیصلہ دوچار برسوں میں تو نہیں ہونے والا۔“
”کیشیو…! تم میری جائیداد والامعاملہ جلد سے جلد حل کردو‘ باقی میں دیکھ لیتاہوں۔“ جسپال نے یوں کہا جیسے اس کی زنجیریں کھل جائیں گی۔
”صرف ایک یا دوہفتے‘ تمہارا کیس متعلقہ محکمے کے اہلکاروں نے دیکھ لیا ہے‘ اب بس ان کے ساتھ رشوت طے ہونی ہے۔“