Episode 92 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 92 - قلندر ذات - امجد جاوید

”میں بھاگوں گانہیں ڈی ایس پی صاحب! اور نہ میں یہ پوچھوں گا کہ مجھے کیوں گرفتار کیا جارہا ہے۔ چلیں‘ میں چلتا ہوں آپ کے ساتھ…“ میں نے تحمل سے کہا تووہ غصے اور رعب زدہ لہجے میں بولا۔
”تم بھاگ سکتے بھی نہیں ہو۔ اگر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ کر دکھادو۔“
اس کاانداز مجھے چیلنج کرنے والا تھا۔ مگر میں نے خود کوٹھنڈا رکھتے ہوئے کوئی جواب نہیں دیا۔
میں سوچ چکاتھا کہ میں نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کرنی۔
”کہانا…گرفتار کرلیں مجھے۔“ میں نے کہا تو اسی غصے بھرے لہجے میں بولا۔
”یہ نہیں پوچھوگے کہ میں تمہیں کس جرم میں پکڑ کر لے جارہاہوں؟“
”میں نے کوئی جرم نہیں کیا‘ اور کوئی چاہے تو بکری چوری کاالزام بھی لگاسکتا ہے۔ آپ گرفتار کرنے آئے ہیں تو کرلیں مگر میں یہ ثابت کردوں گا کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا‘ محض مجھے پھنسایاجارہا ہے۔

(جاری ہے)

یہ آپ بھی جانتے ہیں۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے دھیرے سے اپنا بازو چھڑوایا اور پولیس وین کی جانب بڑھ گیا جومجھ سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی۔
”ہتھکڑی لگاؤ اسے…“ اس نے اونچی آواز میں اپنے کسی ماتحت سے کہا۔ اگلے ہی لمحے ایک کانسٹیبل آگے بڑھااور اس نے مجھے ہتھکڑی لگادی۔ میں اس کے ساتھ پولیس وین میں جابیٹھا۔ میں نے دیکھا سوہنی گیٹ کی درز سے مجھے دیکھ رہی تھی‘ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔
میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اطمینان رکھنے کو کہا‘ تب تک وین چل دی ‘ اس کے آگے پیچھے گاڑیوں کا قافلہ یوں چل پڑاجیسے کسی اشتہاری مجرم یا پھرکسی دہشت گرد کو پکڑا جاتا ہے۔
جلد یا بدیر ایسا ہونا ہی تھا۔ میں چاہے لاکھ محتاط رہتا‘ کوئی ثبوت بھی نہ ہوتا لیکن شاہ زیب نے پھر بھی مجھے گرفتارضرور کروانا تھا۔ وہ جانتاتھا کہ یہ قتل میرے سوا کوئی اور کرہی نہیں سکتاتھا۔
اب یہ الگ بات تھی کہ وہ مجھ پر یہ جرم ثابت کرسکتا تھا یانہیں۔ مجھے اس کے سیاسی اثرورسوخ اور تعلقات کا پوری طرح اندازہ تھا۔ وہ چاہے جرم ثابت کرسکتا یانہیں لیکن قانونی شکنجے میں جکڑ کرمجھے انتہائی کمزور کرنے کی بھرپور کوشش ضرور کرسکتاتھا۔لاشعوری طور پر میں بھی یہی چاہتاتھا کہ وہ مجھ پرالزام لگائے اور میں اس میں بری ہوجاؤں‘ پھر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتاتھا کہ سردار شاہ دین کومیں نے مارا ہے۔
اب یہ شاہ زیب سے اک نئی طرح سے جنگ تھی۔ اس نے مجھے پھانسی گھاٹ لے جانا تھا اور میں نے اسے بچ کر دکھانا تھا۔ اب یہ کیسے ممکن ہوپاتا‘ اس بارے میں قطعاً نہیں جانتاتھا ‘ ہاں مگر اس جنگ کی شروعات ہوچکی تھی۔ میں اس سے کسی اور طرح کی جنگ لڑنا چاہتاتھا لیکن اس نے پہل کردی تھی۔ پولیس گاڑیوں کا قافلہ تیزی سے چلتا چلاجارہاتھا۔ اس وقت میں بالکل بھی یہ نہیں سوچ رہاتھا کہ اب آگے کیا ہوگا‘ لیکن لاشعوری طور پرمجھے پریشانی تو لاحق ہوگئی تھی۔
مقدمہ بازی میں نجانے کتنا وقت لگے‘ فی الحال تو ضمانت کروانے پرہی سارا زور لگ جاناتھا۔ میں نے تمام تر سوچوں کوجھٹک دیا۔ اب جو ہونا تھا وہ ہوکرہی رہناتھا۔
قصبے کے تھانے میں یہ گاڑیوں کا قافلہ آکر رک گیا۔ میرے اترنے سے پہلے ہی پولیس نفری نے مجھے گھیراہواتھا۔ تاثر یہی تھا کہ جیسے کسی بہت بڑے مجرم کو گھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ میں جانتاتھا کہ یہ مجھ پر نفسیاتی دباؤ ہے۔
اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتاتھا کہ پولیس میرے بارے میں کس حد تک سنجیدہ ہوچکی ہے۔ اب یہ مجبوری میں تھایافرض شناسی کے باعث ‘ میں نہیں جانتا تھا۔ مجھے اس گھیرے میں ڈی ایس پی کے کمرے میں لے جایا گیا‘ جو ذراہٹ کر تھا۔ وہی ڈی ایس پی جو رات تک ہمارے اور سردار کے درمیان سمجھوتہ کروارہاتھا اب وہی آفیسر بنامجھے گھور رہاتھا۔
”دیکھو جمال! کسی بھی قسم کی چالاکی یا ہوشیاری دکھانے کا مطلب اپنی موت کو آپ دعوت دینا ہوگا۔
تم پرسردار شاہ دین کے قتل کا ہی الزام نہیں بلکہ اس کے ڈیرے پر حملہ کرنے‘ وہاں چھ قتل کرنے کا بھی تم پرالزام ہے‘ کوشش کریں گے کہ ہم آج ہی تمہیں عدالت میں پیش کریں اور تمہارا ریمانڈ لے لیں۔مجھے امید ہے کہ تم ہمارے ساتھ تعاون کروگے۔“
”ڈی ایس پی صاحب! آپ مجھ پر جتنے چاہے الزام لگالو‘ یہ آپ کا اختیار ہے یا پھر آپ کی مجبوری‘ کیا آپ مجھے یہ بتانا پسند کریں گے کہ مجھ پرالزام لگانے والاکون ہے؟ کس نے کہا ہے کہ یہ سب میں نے کیا ہے؟“
”سردار شاہ زیب نے تمہارے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے۔
نامزد پرچہ ہے تمہارے خلاف۔“ ڈی ایس پی نے کہا۔
”ٹھیک ہے جناب! اب قتل مجھ پر ڈال دیاگیا ہے ‘پرچہ بھی ہوگیا ہے تو میں بھگتوں گا۔“ میں نے بڑے تحمل سے کہا۔
”بس تمہیں یہی بتانا تھا کہ تم پر کیاالزامات ہیں‘ تعاون کروگے تومیں تمہارے لیے نرم گوشہ پیدا کرسکتا ہوں ورنہ…“ یہ کہتے ہوئے اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اس ورنہ کہنے کے بعد بڑے معنی خیز انداز میں دیکھاتھا۔
اس کامقصد میں سمجھ گیا تھا‘ وہ محض مجھے نفسیاتی دباؤ اور خوف زدہ کرنا چاہتاتھا۔ اس نے مجھے لے جانے کا اشارہ کیا تو انسپکٹر نے میرا بازو پکڑااور باہر کی جانب لے جانے لگا۔ انہی لمحات میں پیرزادہ وقاص اسی دفتر میں داخل ہوا۔ اس نے آتے ہی ماحول کاجائزہ لیا‘ پھر سیدھا ڈی ایس پی کے پاس جاکر ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”آپ جمال کو گرفتار کرکے لے تو آئیں ہیں لیکن جب تک میں اس کی ضمانت نہ کروالوں آپ نے اس کوہاتھ بھی نہیں لگانا‘ یہ نہ ہو کہ آپ اس پر تشدد کریں۔
”آپ بیٹھیں تو سہی۔“ ڈی ایس پی نے انسپکٹر کو رکنے کااشارہ کرتے ہوئے پیرزادہ وقاص سے کہا مگر وہ بیٹھا نہیں‘ کھڑے کھڑے بولا۔
”نہیں‘میں بیٹھنے کے لیے نہیں آیا‘ بس جمال کاپتہ کرنے آیا تھا‘ اور یہ تصدیق کرنے آیاتھا کہ اس کی گرفتاری ڈال دی ہے یانہیں۔“
”کیامطلب ہے آپ کا…“ ڈی ایس نے تیوری چڑھا کر کہا۔
”مطلب یہ کہ گرفتاری ڈالیں گے تو میں ضمانت کراؤں گا‘ اگر آپ اس کی گرفتاری ہی نہیں ڈالتے اور رات کو…یا کسی وقت بھی…“ یہ کہتے ہوئے اس نے اشارے سے ختم کرنے کی بات کی۔
”مطلب آپ کا یہ کہنا ہے کہ ہم اسے ماورائے عدالت قتل کرسکتے ہیں؟“ اس نے غصے میں کہا۔
”ظاہر ہے ایسا ہوتا ہے اور ہو رہا ہے۔ میں جانتاہوں کہ شاہ زیب نے ہمدردی کی آڑ میں کہاں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ محض الزام پر آپ نے اسے گرفتار کرلیا‘ ایسا کیسے ہوگیا؟“ پیرزادہ وقاص نے کافی حد تک غصے میں کہا تو ڈی ایس پی نے تحمل سے کہا۔
”اگر آپ یہ ساری باتیں سمجھتے ہیں تو پھر اپنی رسائی بتائیں اور دکھائیں‘ یہ تو اپنی اپنی ہمت کی بات ہے۔
”ٹھیک ہے‘ میں کوئی آپ سے ہمدردی کی بھیک نہیں مانگنے آیا‘ بس یہی بتانے آیاہوں کہ ضمانت ہوجانے تک آپ اس پر نہ تشدد کریں اور نہ ہی ذہنی اذیت دیں گے۔“ یہ کہہ کر وہ پلٹااور سیدھا میرے پاس آکر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔”سن جمال! میں ساری بات سمجھ سکتاہوں‘ میں نے اپنی کوشش شروع کردی ہے‘ انہوں نے ابھی تک تمہاری گرفتاری نہیں ڈالی‘ اس کامطلب ہے کہ کہیں نیت میں فتور ہے‘ شام ہونے تک انہوں نے اگر گرفتاری نہ ڈالی تو پھر جو مجھ سے ہوسکا میں کروں گا‘ تم حوصلہ رکھنا‘ اور آنکھیں کھلی رکھنا‘ باقی میں دیکھ لیتاہوں۔
”ٹھیک ہے۔“ میں نے کہا تو وہ تیزی سے باہر کی طرف چل دیا۔ انسپکٹر نے ڈی ایس پی کی جانب دیکھا اور پھر مجھے لے کر آفس سے نکلتا چلاگیا۔
جس وقت انہوں نے مجھے گرفتار کیا تھا‘ اس وقت میرے ذہن میں اتنا کچھ نہیں تھا۔ پیرزادہ وقاص کے آنے تک میرے ذہن میں کہیں کہیں کچھ خدشات تھے‘ مگر مجھے یقین نہیں آرہا تھا لیکن وہ آکر ڈی ایس پی کے سامنے بات کھول گیاتھا اور مجھے ان کی نیت کااندازہ ہوگیا۔
تب مجھے اپنی فکر ہی نہیں لاحق ہوئی‘ بلکہ گاؤں میں موجود‘ اماں اور سوہنی کے بارے میں بھی خطرہ محسوس ہونے لگا۔ شاہ زیب جیسا بندہ انتقام میں آکر کچھ غنڈے میرے گھر پر بھیج دے تو… اس سے آگے میں نہ سوچ سکا‘ میرے اندر غصے کی لہر دوڑنے لگی۔ میں اس معاملے کو جس قدر آسان سمجھ رہاتھا‘ ویسانہیں تھا‘ مجھے پولیس کے شکنجے میں کس کر وہ کچھ بھی کرسکتاتھا‘ میں ایک دم سے مضطرب ہوگیا۔
                                # # # #

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط