اوگی پنڈ میں سورج غروب ہوچکاتھا۔ جسپا ل نے حویلی سے فون کرکے جوتی کو بتادیاتھا کہ وہ بستروں وغیرہ کا بندوبست نہ کرے‘ وہ کافی دیر تک پریال سنگھ کے ساتھ حویلی میں رہا پھر واپس کوٹھی آگیا۔ وہ مسلسل ہرپریت کو سوچے چلاجارہاتھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اس کے بغیر اس گھر میں تھا۔ اب تک اس نے کئی بار انوجیت کو فون کرکے ہرپریت کے بارے میں پوچھ لیاتھا۔
ہر بار اس نے تازہ صورت حال سے آگاہ کیا تھا‘ جو ہنوز پہلے ہی کی طرح تھی۔ اس وقت وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا انہی سوچوں میں کھویا ہوا تھا کہ بنتاسنگھ اندر آگیا۔
”ہاں کیا بات ہے بنتا سنگھ…؟“ اس نے پوچھا۔
”وہ جی‘ باہر پنڈ سے کچھ بندے آپ سے ملنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔“ اس نے بتایا ۔
”کون ہیں؟“
”اوگی پنڈ ہی سے ہیں۔
(جاری ہے)
کوئی دس بارہ بندے ہیں۔“ بنتا سنگھ نے دس بارہ پرزور دیتے ہوئے کہا تو جسپال نے اس کی طرف دیکھا پھر سوچتے ہوئے کہا۔
”‘اچھا چلو‘ انہیں لان میں بٹھاؤ‘ میں آتاہوں۔“
”جی ٹھیک ہے۔“ یہ کہہ کر وہ واپس پلٹ گیا۔ تبھی اس نے انوجیت کو تازہ ترین صورت حال کے بارے میں بتایا کہ پہلے تو کبھی یوں لوگ ملنے کے لیے نہیں آئے تھے۔
”ان سے ملو‘ دیکھو کون ہیں‘ اور بات کیا کرتے ہیں۔
پھر مجھے تفصیل سے بتانا‘ تبھی بات سمجھ میں آئے گی‘ ممکن ہے یہ بھی بلجیت سنگھ کی کوئی چال ہو۔“
”ٹھیک ہے‘ میں ان کی بات سن کرہی تم سے بات کرتا ہوں۔“ جسپال نے کہااور پھر فون بند کردیا۔بنتا سنگھ نے پہلے لان میں کرسیاں رکھیں‘ پھر ان لوگوں کوبلالایا‘ جسپال انہیں دیکھ رہاتھا۔ وہ مختلف عمر کے لوگ تھے۔ جیسے ہی وہ بیٹھے تو اس نے جوتی کو بلا کر کہا۔
”وہ باہر جوبندے آئے ہیں ان کے لیے کوئی مشروب وغیرہ بھیج دو۔“
”میں سوڈا بھجوادیتی ہوں۔“ جوتی نے کہااور کچن کی طرف چلی گئی اور وہ باہر ان لوگوں کے پاس چل آگیا۔ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے سب کو فتح بلائی اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔ تبھی ان میں سے ایک ادھیڑ عمر بندے نے اپنا تعارف کرایا۔
”جسپال سنگھ جی‘ میں اوگی پنڈ میں رہتا ہوں‘ میں نے آپ کے باپو کو بھی دیکھا ہے‘ اور میرا اس سے بہت اچھا تعلق رہا ہے۔
میرا نام رام داس ہے اور میں ہندو ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے ساتھ آئے لوگوں کا تعارف کرانا شروع کردیا۔ ان میں کچھ سکھ تھے‘ کچھ ہندو‘ ایک بندہ مسلمان تھااوردو ان میں شودر تھے جو اب عیسائی مذہب اختیار کرچکے تھے اور انہوں نے باقاعدہ اپنا چرچ وہاں بنایاہواتھا۔ سب لوگوں کاتعارف کرادینے کے بعد اس نے کہا۔ ”ہم لوگ آپ سے کیوں ملنے آئے ہیں‘ یہ سوال آپ کے ذہن میں تو ہوگا؟“
”جی ‘بالکل۔
“ اس نے آہستگی سے جواب دیا۔
”جب آپ اوگی میں آئے تو میں سمجھ گیا تھا کہ اب کلوندر سنگھ کی نسل آگے بڑھے گی‘ اسے بالکل مار نہیں دیاگیا ہے۔ ہم اگر زبان سے کچھ نہ بھی کہیں ‘ مگر ہم جانتے ہیں کہ آپ کے خاندان کے ساتھ کیا ہواتھا۔ اوراس کا ذمے دار کون تھا‘ آج سے نہیں اور نہ ساکا چوراسی کے بعد سے‘ ہم بہت پہلے ہی سے بلجیت سنگھ اور اس کے خاندان کے مخالف چلے آرہے ہیں۔
وہ کونسا ظلم ہے جو انہوں نے ہم پرنہیں ڈھایا‘ ہم غریب پہلے اس کے باپ رویندر سنگھ کے ظلم کاشکار ہوتے رہے اب وہ ہم پرمسلط ہے۔ میں سوچتا رہا کہ آپ سے ملوں‘ آپ کو کچھ اور نہیں تو کم از کم اخلاقی مدد ہی دوں… لیکن ایسا نہ کرسکا۔“
”اب اتنے دنوں بعد آپ آئے…؟“ جسپال نے پوچھا۔
”پہلے تو ہم نے یہی سوچا کہ آپ کے پاؤں یہ بلجیت لوگ لگنے نہیں دیں گے‘ لیکن آج جب کہ حویلی دوبارہ سے آباد ہوگئی ہے تو مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ ادھر رہیں گے۔
چاہے یہ کچھ مرضی کرلیں۔اس لیے میں آپ سے ملنے کے لیے آگیا۔“ رام داس نے کسی حد تک جذباتی انداز میں کہا۔
”آپ کا شکریہ کہ آپ آگئے‘ میں آپ سب کو خوش آمدید کہتاہوں۔“ جسپال نے جواباً کہا۔
”اس پنڈ کی سیاست بھی کچھ عجیب سی ہے۔ جو کچھ تھوڑا بہت دلیر ہے یااس کے تعلقات ہیں‘ وہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہے۔ میں نے کئی بار پنچائیت کا الیکشن لڑا مگر ہار گیا۔
غریب کی تو یہاں شنوائی ہی نہیں ہے۔ کوئی پرچہ ہو‘ کوئی الزام ہو‘ ہم غریبوں پر ہی لگتا ہے۔“ وہ کہتاچلاگیا۔
”کیا کرتے ہیں یہ…؟“ اس نے پوچھا۔
”اپنی حاکمیت جتانے اوران پر جبر رکھنے کے لیے وہ کچھ بھی کرتے ہیں۔ کوئی بندہ ان کے سامنے سر نہیں اٹھاسکتا۔ آپ دیکھیں آپ آئے اور آپ کے آتے ہی انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔“وہ تیزی سے بولا۔
”یہ تو ہوتا ہے رام داس۔اگر ظلم سہنے والے نہ ہوں تو ظالم بھی نہ ہوں اور یہ بھی فطری بات ہے کہ آدمی ہمیشہ طاقت کی طرف اپنا جھکاؤ رکھتا ہے۔ پولیس ان کے ساتھ ہے تو کیا ہوا۔ اگر عوامی طاقت متحد ہوجائے تو کوئی ظالم نہ رہے۔“ جسپال نے کہاتو اتنے میں بنتا سنگھ اندر سے سوڈے کی بوتلیں ٹرے میں رکھ کر لے آیا۔ پھر اس نے فرداً فرداً سب کودیں۔
”بات یہ ہے جسپال جی‘ لوگ ان کے خلاف متحد تو ہوجائیں‘ لیکن ان کی پہنچ دہلی تک ہے‘ پولیس جس کو چاہے اور جب چاہے ذلیل کردے‘ اور وہ جو مرضی کرلیں‘ انہیں کھلی چھوٹ ہے‘ آپ ہی کے ساتھ جو ہوا‘ صاف ظاہر ہے کہ اس رات بلجیت کے غنڈوں نے آپ پر حملہ کیا‘ وہ اسی گاؤں کے یا ساتھ والے گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے تو پولیس کو کیسے نہیں پتہ ‘مگر انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔
“
”اب نہیں کرپائیں گے رام داس‘ میں اب یہیں حویلی میں ہوں۔ بلجیت سنگھ یا اس کا کوئی غنڈہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی کرتا ہے تو مجھے بتاؤ‘ ہم دیکھ لیں گے انہیں۔“جسپال نے انہیں حوصلہ دیا۔
”بس جی‘ہمیں کوئی حوصلہ دینے والا ہو‘ ہمارے سر پر ہو تو ہم بھی اپنی عزت بچالیں۔“ رام داس نے یوں کہا جیسے وہ جسپال سے یہی بات کہلوانا چاہتاتھا۔
ایک لمحے کو تو اسے یوں لگا جیسے یہ بھی کوئی بلجیت ہی کی سازش ہوگی لیکن اگلے ہی لمحے اس نے سوچا‘ چلو سازش ہی سہی‘ کچھ ہلچل تو ہے۔ پھر وہاں آئے مختلف لوگ اپنی اپنی کہتے رہے۔ بلجیت سنگھ نے کس طرح وہاں جبراورخوف کی فضا طاری کی ہوئی ہے۔ اس بارے میں مختلف واقعات سناتے رہے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔ ان کے جاتے حی اس نے انوجیت کو ان بندوں کے بارے میں اور ان کی گفتگو کے بارے میں آگاہ کیا۔
جس پراس کایہی تبصرہ تھا کہ وہ واقعتا سچ کہہ رہے ہیں۔ ہندو کمیونٹی کی وجہ سے بلجیت سنگھ اس رام داس پر کم ہی ہاتھ ڈالتا ہے۔ رام داس فطری طور پر وہاں کی چودھراہٹ چاہتاتھا کیونکہ اوگی پنڈ میں سکھ اور ہندو کمیونٹی تقریباً برابر ہی تھی۔ بلجیت سنگھ اس لیے ان پر حاکم تھا کہ ایک تو ان کاسیاسی طور پر اکالی دل سے تعلق تھا‘ دوسرا پنجاب میں وہ ویسے ہی ہندوؤں کو دبا کررکھتے تھے۔
رام داس کی سیاسی وابستگی گھوم پھر کر بی جے پی سے بنتی تھی۔ اگر کانگریس سے ہوتی تو شاید اس طرح کی صورت حال نہ بنتی۔ انوجیت اوراس کی تنظیم نے کبھی اس لیے انہیں منہ نہیں لگایا تھا کہ وہ ان کی تنظیم کے خلاف تھے۔ اس نے انوجیت سے صور تحال سمجھ لی اور کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
رات کے کھانے پر وہ اکیلا ہی تھا۔ اس نے بھوک مٹانے کے لیے تھوڑا بہت کھایااور پھر اوپری منزل پر اپنے کمرے میں چلاگیا۔
کمرے میں جاتے ہی اسے ہرپریت یاد آگئی۔ آج اگر وہ ساتھ ہوتی تو حویلی میں جشن کاسماں ہوتا۔ اس دن حویلی پھر سے آباد ہوگئی تھی ۔ ایک بار اس نے مذاق میں کہا تھا کہ جس دن حویلی دوبارہ آباد ہوئی تو ساری رات وہاں دھماچوکڑی مچائے گی۔ گاؤں کے لوگوں کو مدعو کرے گی‘ لڑکیاں ناچے گیں‘ خوب کھاناپینا چلے گا‘ اور یہ ایک یادگار جشن ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوپایا تھا‘ یادگار جشن بنانے والی ‘ اس وقت اپنے حواسوں ہی میں نہیں تھی۔
ایک لمحے کے لیے اس کا دل کٹ کررہ گیا۔ ہنستی مسکراتی جوانی سے بھرپور ہرپریت کا ساتھ لمحوں میں چھوٹ گیاتھا۔ اب نجانے وہ کب تک تندرست ہوکر اس کے شانہ بشانہ چل سکے گی۔ اس کے ذہن میں وہ ماضی کے منظر گردش کرنے لگے جب موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے وہ اس کے ساتھ تھی۔وہ کتنی ہی دیر تک ہرپریت کو سوچتا رہا۔ تبھی اچانک اس کا سیل فون بج اٹھا۔
وہ کیشیومہرہ کی کال تھی۔ اس نے ریسیو کرتے ہوئے ہیلو کہا تو اس نے تمہید باندھے بغیر کہا۔
”جسپال! تم اپنے گھر کے پچھواڑے سے یوں نکلو کہ کسی کو پتہ نہ چلے‘ کیونکہ سامنے کے گیٹ پر اور پھر آگے راستے پر رن ویر سنگھ کے بندے تعینات ہیں۔ ان کی نگاہوں سے بچتے ہوئے تم فصلوں کے درمیان سے سڑک تک پہنچو۔“
”ٹھیک ہے‘ اس کے بعد…؟“
”وہاں سڑک پر تمہیں فور وہیل جیپ ملے گی‘ اس میں صرف ایک ہی بندہ ہوگا‘ تمہارا نمبر اس کے پا س ہے‘وہ تم سے رابطہ کرلے گا۔ آگے کی ساری تفصیلات وہ تمہیں بتادے گا‘فوراً نکلو۔“
”اوکے…“