Episode 94 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 94 - قلندر ذات - امجد جاوید

جسپال نے کہااور فون بند کرتے ہی اس نے تیاری میں پانچ سے سات منٹ لگائے۔ پھر بڑی احتیاط کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آیا‘ اس وقت جوتی کچن میں تھی اور دوسرے ملازمین میں سے فقط بنتا سنگھ گیٹ پردکھائی دے رہاتھا۔ جسپال ٹہلنے والے انداز میں کوٹھی کی پچھلی جانب گیا‘ ٹینس کورٹ اور سوئمنگ پول کے درمیان سے نکلتا ہوا‘ وہ باؤنڈری وال تک جاپہنچا۔وہ اس کے قد سے دو فٹ اونچی تھی‘ اس نے ادھر ادھر دیکھا‘ ذرا سے فاصلے پر اسے پلاسٹک کا ڈرم دکھائی دیا‘ اس نے وہ اٹھایا‘ دیوار کے ساتھ سیدھا کرکے رکھا‘ پھراس پرچڑھ کردیوار کی ساتھ لگ گیا۔
اب دیوار اس کے سینے تک تھی۔ اس نے باہر کاجائزہ لیا تو دوسری طرف خاصی گہرائی تھی۔ وہ چند لمحے کھڑا سوچتا رہا پھر ایک دم سے اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ نجانے کچھ دیر بعد صور تحال کیاہو۔

(جاری ہے)

اگر واپسی بھی اسی طرف سے ہوئی تو یہاں سے چڑھنا مشکل ہوگا اور فوری طور پر کوٹھی کے اندر نہیں آسکے گا۔ اسے واپسی کاراستہ بنا کررکھنا چاہیے۔ وہ ڈرم سے نیچے اتر آیا اور پھر اسی تلاش میں اس نے اسٹور کا رخ کیا۔

اسے یقین تھا کہ وہاں سے سیڑھی مل جائے گی۔ ذرا سی تلاش کے بعد اسے دیوار کے ساتھ رکھی سیڑھی دکھائی دی‘ اس نے فوراً ہی وہ اٹھائی اور دیوار کے ساتھ لگا کر اس پرچڑھ گیا۔ اسی طرح اس نے دوسری طرف سیڑھی رکھی اور نیچے اتر آیا۔ اس کے آگے فصلیں تھیں۔ اس نے سیڑھی کودیوار سے ہٹایا‘ اور فصلوں کے درمیان چھپا کر رکھ دیا۔ وہ چند لمحے کھڑے ہو کر ادھر ادھر کاجائزہ لیتا رہا پھر فصلوں کے درمیان بنے کھال میں سے سیدھا چل پڑا۔
اس کارخ سڑک کی طرف تھا۔ اس نے اپنا سیل فون ہاتھ میں کرلیاتھاتاکہ جونہی کال آئے تووہ فون ریسیو کرلے۔سڑک تک پہنچتے ہوئے اسے تقریباً پندرہ منٹ لگ گئے۔ وہ وہاں پرجاکر رک گیا۔ اسی لمحے جالندھر سے آنے والے راستے کی طرف سے ہیڈ لائٹس روشن ہوئیں اور تیزی سے قریب آتی چلی گئیں۔ ایک فور وہیل جیپ زن سے اس کے پاس سے گزر گئی پھرآگے جاکر اینٹوں والے راستے پر رک گئی۔
وہاں سے اس نے ٹرن لیا اور واپسی کے لیے آہستہ آہستہ چل پڑی‘ اگلے ہی لمحے اس کا سیل بج اٹھا۔
”ہاں بولو…!“ جسپال نے محتاط انداز میں کہا۔
”میں سڑک پر ہوں آپ کہاں ہیں سر…“ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
”میں تمہیں دیکھ رہا ہوں‘ آجاؤ‘ میں بھی سڑک پر ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے فون بند کردیااور آگے بڑھ کرسڑک کنارے آگیا۔ تب تک جیپ بھی اس کے پاس آگئی تھی۔
رکتے ہی دراوزہ کھلااور وہ اس میں بیٹھ گیا۔ وہ موٹا سانوجوان سکھ تھا‘ جس نے نیلی جینز‘ ہلکی زرد شرٹ اور سر پر سیاہ رنگ کی پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ جیپ چل پڑی تو اس نے کہا۔
”مجھے آپ سنی کہہ لیں جی‘ ہم یہاں سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے‘ مادھورپور اس کے درمیان میں رہنا ہے‘ رن ویر سنگھ اس وقت اس گاؤں میں سے نکلا ہے‘ کہیں بھی اس سے آمنا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس نے کہا تو جسپال کے بدن میں سنسنی خیزی پھیل گئی۔ جس کے ساتھ ہی اس کے اندر کی وحشت عود کر آئی۔ 
”یہ پکا ہے کہ وہ وہاں سے نکل چکا ہے؟“
”جی‘ وہ نکل چکا ہے‘ اس نے پی ہوئی ہی‘ وہ یونیفارم میں نہیں ہے اور اس کے ساتھ صرف ایک آدمی ہے‘ وہ بھی پولیس والا ہی ہے۔وہاں وہ ایک شادی پر گیا ہوا تھا۔“ سنی نے تفصیل سے بتایا اور پھر اپنا سار ادھیان سڑک پر لگادیا۔
اِکادُکا گاڑیاں اس کے قریب سے گزر کر جارہی تھیں۔ پھراس نے جالندھر جانے والا روڈ چھوڑ دیا اور ایک موڑ کے قریب جیپ روک لی۔ پھراس نے سیل فون پر کسی سے رابطہ کیا۔ کچھ دیر سنتا رہا پھر فوراً ہی گاڑی اسٹارٹ کرکے سڑک بلاک کردی۔ اس کے ساتھ ہی بولتا گیا۔
”سرجی…! اب جو سفید رنگ کی ماروتی آرہی ہے وہ اسی میں ہے‘ اس کے پیچھے ہمارے بندے ہیں۔
سنی نے گاڑی کچھ اس طرح روکی تھی جیسے اس میں کچھ خرابی آگئی ہو‘ اس نے بونٹ اٹھادیاتھا۔ جسپال نیچے اتر آیا۔ اس کی نگاہیں مادھوپور کی طرف سے آنے والی ماروتی پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ کب دکھائی دیتی ہے۔ اگلے ہی لمحے کسی گاڑی کی روشنی دکھائی دی۔ سنی نے اونچی آواز میں کہا۔
”وہ آگیا سر جی ‘ الرٹ…“
یہ سنتے ہی جسپال سڑک کی دوسری جانب چلاگیا۔
اگلے ہی چند لمحوں میں سفید ماروتی تیزی سے آتی ہوئی ایک دم سے آہستہ ہوگئی اورپھر ایک لمحے میں رک گئی۔ یہ ہونا ہی تھا ‘ سنی نے جیپ کھڑی ہی اس انداز سے کی تھی‘ اس اثناء میں پیچھے آنے والی کار بھی وہیں آن رکی۔ اس نے رکتے ہی زور زور سے ہارن دینا شروع کردیا۔ بلاشبہ یہ رن ویر پر نفسیاتی وار تھا۔ اچانک رن ویر نے پسنجرسیٹ والا دروازہ کھولا اور بھنا کر کہا۔
”بند کرو ہارن… دیکھتے نہیں ہو روڈ بلاک ہے۔“
اس پر پیچھے والی کار نے پھر ہارن دے دیا۔ وہ شدید غصے میں سنی کے پاس آیااور چلا کربولا۔
”تمہیں گاڑی کھڑی کرنے کی تمیز نہیں‘ یہ کیسے روڈ بلاک کیاہوا ہے۔“
اتنی دیر میں پچھلی گاڑی سے تین لوگ نکلے اور اس کی طرف آگئے‘ تبھی جسپال چلتا ہوا رن ویر کے سامنے آگیا۔ وہ اسے دیکھ کر چونک گیا۔
”جسپال سنگھ آپ یہاں …؟“
”ہاں‘ میں یہاں۔“ جسپال نے سکون سے جواب دیا۔
”کیسے …؟“ رن ویر نے اپنے مخصوص طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
”اس لیے۔“ جسپال نے کہااور پسٹل کا رخ ماروتی میں بیٹھے ہوئے ڈرائیور کی طرف کرکے فائر کردیا۔ یکے بعد دیگرے چارفائر کرنے کے بعد‘ اس نے رن ویر کے چہرے پر دیکھا‘ جہاں رنگ اُڑگیاتھا۔
”یہ تم اچھا نہیں کررہے ہو…“ اس نے پھٹی ہوئی آواز میں کہا۔
”اور تم نے ہرپریت پرفائر کرکے اچھا کیا ہے۔“ وہ ایک دم غصے میں بولا۔
”اوہ…تو آخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ “ یہ کہہ کر وہ قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
”میں جانتا ہوں کہ تم اپنے ڈیپارٹمنٹ میں معصوم سانپ کے نام سے جانے جاتے ہو۔ اس لیے میں نے چاہا کہ… تیرے جیسے گھٹیا سانپ کاشکار کروں …اور پتہ ہے سانپ کو کیسے مارا جاتا ہے‘ اس پر فائر نہیں کرتے …اس کا سر کچلتے ہیں۔
“ جسپال نے دانت پیستے ہوئی کہا تووہ طنزیہ انداز میں بولا۔
”جسپال‘ میں تمہیں صرف ایک موقع دیتاہوں‘ آج رات یہاں سے نکل جاؤ‘بلکہ کل تک یہ ملک بھی چھوڑ دو‘ پھر نہیں کہنا کہ میں نے تجھے خبردار نہیں کیا…تم…“لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے تھے۔ جسپال نے پوری قوت سے پسٹل کا دستہ اس کے جبڑے پر دے مارا ‘ ایک لمحے کے لیے رن ویر سنگھ کی آنکھوں میں سے حیرت جھلکی اور پھر دوسرے ہی لمحے وہ لڑنے کے لیے تیار ہوگیا۔
رن ویر نے دائیں ہاتھ سے جسپال کا گلا پکڑنا چاہا مگر اس نے کلائی پکڑلی۔ پھر پسٹل سنی کی جانب اچھالتے ہوئے وہی ہاتھ رن ویر کی گردن پر ڈال دیا۔ اس کے ساتھ اسے دھکیلتا ہوا پیچھے کی طرف دھکادے دیا۔ وہ لڑکھڑاگیا‘ تبھی جسپال نے دونوں ہاتھوں کا مکابنایااور پوری قوت سے اس کی ٹھوڑی پر دے مارا۔ رن ویر چکر اتے ہوئے کولہوں کے بل زمین پر گرگیا۔
جسپال نے زور دار ٹھوکر اس کے منہ پر ماری‘ اس کے بعد جسپال نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ رن ویر کا چہرہ لہولہان ہوگیا تھا۔ وہ گھگھیانے لگا مگر جسپال نے اسے نہیں چھوڑا‘ یہاں تک کہ اس پر دیوانگی طاری ہوگئی۔ ہرپریت کا انتقام اُس کے اندر سے وحشت بن کرابھراتھا۔ رن ویر سنگھ ساکت ہواسڑک پر یوں پڑاتھا کہ ٹانگیں کھلی ہوئی اور بازو پھیلے ہوئے تھے۔
”جلدی کریں سر جی‘ کوئی بھی گاڑی آسکتی ہے۔“ سنی نے اونچی آواز میں کہاتو جسپال چونک گیا۔ اس نے پسٹل کے لیے ہاتھ بڑھایا‘ سنی نے دے دیا۔ جسپال نے رن ویر کے کاندھے پررکھ کر ایک گولی چلائی ‘ رن ویر تڑپ اٹھا۔ اس کے منہ سے بھیانک چیخ نکل گئی۔
”ہرپریت کے یہیں گولیاں لگی ہیں۔ پتہ چلا… کتنا درد محسوس ہوتا ہے۔“ ”جسپال…مجھ…مجھے …چھو…چھوڑ…دو…“رن ویر نے انتہائی مشکل سے کہا۔
”نہیں رن ویر… میں اپنے دشمن کو تو معاف کرسکتاہوں‘ کسی منافق کو نہیں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے پسٹل کی نال اس کے ماتھے پررکھ دی پھر اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولا ‘” نہیں میں تجھے گولی نہیں ماروں گا۔“یہ کہتے وہ تیزی سے اٹھا‘ اس کے پیروں کی طرف سے پکڑ کرگھسیٹتا ہوا سڑک کے ایک طرف لے گیا پھرا س کو ایک درخت کے پاس لے جاکر اس کا سر جنونی انداز میں درخت کے تنے سے ٹکرانے لگا۔
خون کے چھینٹے اڑنے لگے‘ اور پھر تڑخ کی آواز کے ساتھ اس کا سر پھٹ گیا۔ جسپال نے زوردار ٹھوکر اس کی گردن پر ماری تو ہڈی ٹوٹنے کی آواز صاف سنائی دی۔ رن ویر کی گردن ڈھلک چکی تھی۔ تبھی جسپال واپس پلٹا‘ سنی جیپ واپس موڑچکاتھا۔ بعدمیں آنے والے تماشہ دیکھتے رہے تھے۔ وہ بھی اپنی گاڑی میں جابیٹھے۔جیسے ہی جسپال جیپ میں بیٹھا‘ سنی نے جیپ چلادی۔
اگلے چند لمحوں میں اس نے انتہائی رفتار کردی۔ جسپال خود پرقابو پارہاتھا۔ اسے احساس ہی نہیں تھا کہ جیپ کس قدر تیزی سے جارہی ہے۔ وہ جالندھر اور نکودھر روڈ پر چڑھ چکے تھے۔ جس وقت سنی نے فون پر کام ہوجانے کے بارے میں بتایا‘ تبھی جسپال نے پوچھا۔
”سنی… اب تم نے کدھر جانا ہے؟“
”میں واپس جالندھر جاؤں گا۔ میں بھی اسی شادی میں آیا ہوا تھا۔
”اوکے…!“ اس نے کہااور خاموش ہوگیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہی مقام آگیا‘ جہاں سے جسپال جیپ میں بیٹھا تھا‘ وہ وہاں اتر گیا۔ سنی نے جیپ موڑی اور جالندھر کی جانب چل دیا۔ جسپال کو دور کوٹھی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ فصلوں کے درمیان سے ہوتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ کوٹھی کی پچھلی دیوار کے ساتھ جاپہنچا۔ اسے کوئی جلدی نہیں تھی۔
وہ چند لمحے وہیں کھڑا رہا۔ پھر سیڑھی تلاش کرکے دیوار کی ساتھ لگائی‘ پھروہ اسی طرح اندر چلا گیا۔ اس نے سیڑھی اٹھا کر اسٹور میں رکھی‘ اب گھر کے اندر جانے کامسئلہ تھا۔ ممکن ہے جوتی نے اندر سے دروازے بند کرلیے ہوں‘ وہ گھوم کر صدر دروازے کی طرف گیا۔ وہ کھلا تھا‘ وہ اندر داخل ہوگیا۔ کچن میں روشنی تھی‘ وہ نگاہیں بچا کر اوپری منزل کی جانب بڑھ گیا۔
وہ نہا کر اور کپڑے تبدیل کرکے باہر آگیا۔ خون آلود کپڑے اس نے پانی میں بھگودیئے تھے۔ وہ پرسکون سے انداز میں اپنے بیڈ پر آکر لیٹا تو اسے لگا جیسے ہرپریت کااُدھار چکانے کے بعد وہ ایک انجانے بوجھ سے آزاد ہوگیا ہے۔ اسے نیند آنے لگی تھی۔ مگر وہ سونا نہیں چاہتاتھا۔ اس نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایااور اسے آن کردیا۔ جسمیندر سنگھ توقع کے مطابق آن لائن تھا۔ اس نے خود ہی مبارک باد کاپیغام بھیج دیا۔دونوں کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے۔ جو اشاروں کنائیوں میں ہی تھیں۔ پھراس کے بعد وہ آف لائن ہوگیا۔ اس نے بھی لیپ ٹاپ بند کیا‘ لائٹ آف کی اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔
                                   # # # #

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط