سہ پہر ہی سے میں حوالات میں بند تھا۔میرے ساتھ چند دوسرے لوگ بھی تھے۔ ان سے باتیں کرتے ہوئے وقت کٹ جانے کااحساس ہی نہ ہوا۔ اس وقت رات گہری ہوگئی تھی۔ لیکن ابھی تک انہوں نے کھانا نہیں دیا تھا۔ میں بھوک سے نڈھال ہوچکاتھا‘ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ سوائے پیرزادہ وقا ص کے ابھی تک نورنگر سے کوئی بندہ نہیں آیا تھا۔ کسی نے بھی خیرخبر نہیں لی تھی۔
نجانے کیوں میرے دماغ میں الجھن بڑھنے لگی تھی۔ کوئی دوسرا میرے پیچھے آتایانہ آتا‘چھاکے نے ضرور آنا تھا۔ اس سے کچھ ہوسکتا یانہیں مگر اس نے مجھ سے آکر یہ ضرور پوچھنا تھا کہ وہ کیا کرسکتا ہے۔ مگروہ بھی نہیں آیا تھا۔
سچا انسان کبھی بھی سامنے سے مار نہیں کھاتا اور نہ ہی اسے سازشی اور منافق شکست دے سکتے ہیں۔ سچا انسان اس وقت شکست سے دوچار ہوکر مار کھاتا ہے جب اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپا جائے۔
(جاری ہے)
ظاہر ہے پیٹھ میں خنجر گھونپنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن پر سچاانسان اعتماد کرچکاہوتا ہے۔ وہ بڑا زہریلا‘ گھناؤنا اور پرلے درجے کا گھٹیاانسان ہوتا ہے جو یہ ثابت نہ ہونے دے وہ کوئی سازش کررہا ہے یااعتماد جیتنے کے لیے منافقت کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ اصل میں وہ منافقت ہی کیا جس کے بارے میں پتہ چل جائے۔ بہرحال کچھ بھی ہے منافق… راندہ درگاہ ہے۔
گہری رات کے سناٹے میں پورا تھانہ یوں لگ رہاتھا کہ جیسے سبھی سو رہے ہیں۔ ہر طرف سناٹاتھا‘ میرے ساتھ حوالات میں بند لوگ سو رہے تھے۔ تھوڑی دیر کوئی اپنا سر کھجاتا‘ یاپنڈلی کھجالیتا‘ اس کے بعد خراٹے تھے جو کم از کم وہاں زندگی کااحساس دے رہے تھے۔ میری آنکھوں میں نیند کاشائبہ تک نہیں تھا۔ میں سلاخوں کے ساتھ بیٹھا باہر کامنظر دیکھتے ہوئے اُکتاچکاتھا۔
مجھے ایک طرف جہاں یہ الجھن تھی کہ چھاکامیرے پیچھے نہیں آیا تھا ‘ دوسری جانب مجھے یہ پریشانی بھی تھی کہ تھانے میں لاکرمجھے اب تک پوچھا ہی نہیں گیاتھا۔ بقول پیرزادہ وقاص انہوں نے میری گرفتاری نہیں ڈالی تھی۔ وہ اپنی طرف سے کوشش کرکے گرفتاری ڈلوا کر ضمانت کے لیے کوشش کررہاتھا۔ نجانے کیوں میری چھٹی حس مجھے کسی خطرے کااحساس دلارہی تھی۔
صور تحال وہ نہیں تھی جو مجھے دکھائی دے رہی تھی۔ یو ں لگ رہاتھا کہ اس خاموشی کے اندر کوئی طوفان آنے والا ہے۔ قصبے کی مسجد میں لگے گھڑیال سے بارہ بجنے کااحساس ہواتو میرے اندر بے چینی بڑھنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد میں وہاں سے اٹھ کر لیٹنے کے لیے کوئی جگہ تلاش کررہاتھا کہ مجھے باہر سے سرگوشی سنائی دی۔ میں نے تیزی سے مڑ کر دیکھا تووہ سادہ کپڑوں میں ایک کانسٹیبل تھا ‘ جوکئی بار مجھے مل چکاتھا۔
میں تیزی سے سلاخوں کے پاس آیا تو کچھ فاصلے پر دکھائی دینے والا سنتری اپنی ڈیوٹی پر نہیں تھا۔
”تم…؟“ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”وقت بہت کم ہے …سنتری واش روم گیا ہے۔ میں اندر سے اپنا کام ختم کرکے اپنے کوارٹر کی طرف جارہاہوں‘ میں نے دیر اس لیے کی ہے کہ تمہیں پیغام دے دوں۔“ اس نے سرگوشی میں کہا۔
”پیغام…کس کاپیغام… اورکیا؟“ میں نے پوچھا۔
”رندھاوا صاحب کاپیغام ہے‘انہوں نے یہ ساری کارروائی دیکھنے کومیری ذمہ داری کیا‘ ڈیوٹی لگائی ہے۔ خیر چھوڑو‘پیرزادہ وقاص تیرے ساتھ منافقت کررہا ہے۔ وہ ڈی ایس پی صاحب کے سامنے خواہ مخواہ شور مچا کے چلاگیا ہے‘ نرا ڈرامہ کررہا ہے وہ…اب تک کاغذات میں نہ تمہاری گرفتاری پڑی ہے اور نہ ہی شاہ دین قتل کیس میں جو ایف آئی آر درج ہوئی ہے اس میں کہیں بھی تمہارا نام نہیں ہے‘ نامعلوم افراد کے بارے میں ہے وہ…“ اس نے آہستگی سے مجھے معلومات دیں۔
”توپھر… کیا کرنا چاہ رہے ہیں یہ…“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”ایسا اسی وقت ہوتا ہے میری جان‘ جب ماورائے عدالت ہی بندے کوپار کرناہو۔ میں نے رندھاوا صاحب کاپیغام تم تک پہنچادیا‘ اب تم اپنا دھیان کرلو۔“ اس نے یہ کہتے ہوئے ادھر ادھردیکھا۔
”مطلب پیرزادہ اورشاہ زیب آپس میں مل گئے ہیں۔“ میں نے اپنے طور پر کہاتو کاندھے اچکا کربولا۔
”مجھے تھانے سے باہر کا علم نہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے‘ میں تو شام سے تھانے کے اندر ہوں‘ صرف یہی دیکھنے کے لیے کہ تمہاری گرفتاری ڈالی گئی ہے یانہیں۔ اب تم جانو اور تمہارا کام‘ میں جارہاہوں۔“ یہ کہہ کر وہ یوں بن گیا جیسے میرے لیے اجنبی ہو۔ پھر بڑے ہی طنزیہ لہجے میں کہا۔ ”تم بھی سوجاؤ‘ اب تمہارے لیے تھانے میں کوئی بسترتو لاکر نہیں دے گا‘نہیں سوئے گاتوخودبخود دوچار راتوں کے بعد عادت پڑجائے گی۔
“
اس کے عقب میں سنتری آگیاتھا۔ میں سمجھ گیا کہ اس نے بات کیوں بدل دی ہے۔
”تم لوگ اتنے وحشی ہو‘ کھانے تک کانہیں پوچھتے‘ پیسے میں دیتاہوں‘ باہر سے کچھ منگوادو۔“میں نے کہا تووہ بولا۔
”باہر اس وقت تیرا باپ بیٹھا ہے ہوٹل کھول کے۔ شام کے وقت کہتا کسی کو تووہ لادیتا۔اب صبح ہونے کاانتظار کر…سوجا وہاں ایک کونے میں لگ کے۔
“
تبھی سنتری نے کہا۔
”اوباؤجی‘ آپ جاؤ‘ آرام کرو جاکر‘ ان حوالاتیوں سے بات کرلوتوپھر ان کی بک بک ہی بند نہیں ہوتی۔“
اس نے مجھے دیکھااور پھر وہاں سے نکلتا چلاگیا۔ مجھے بھوک کااحساس کچھ زیادہ ہی ستانے لگا تھا۔ لیکن جیسے ہی مجھے پیرزادے کی منافقت کا خیال آیا تومیں سب کچھ بھول کر اس بارے میں سوچنے لگا۔ مجھے یہ یقین تو تھا کہ جلد یابدیر ان دونوں کی آپس میں صلح ہوجانے والی ہے۔
یہ بھی ممکن تھا کہ ان کی آپس میں لڑائی ہوئی ہی نہ تھی۔ صرف ہمیں بے وقوف بنانے کے لیے یہ سارا ڈرامہ کررہے ہوں۔ بہرحال کچھ بھی تھا‘ یہ معلومات مل جانا کہ میری گرفتاری نہیں ڈالی گئی ہے‘ میرے لیے انتہائی تشویش کی بات تھی۔ وہ مجھے کسی بھی وقت یہاں حوالات سے نکال کر مار سکتے تھے۔ میری وہ رات اس ادھیڑبن میں گزر گئی۔ وہ میرے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟اگر انہوں نے مجھے قتل ہی کرناتھا تو یہاں حوالات میں بند کرنے کا ڈرامہ کرنے کی کیاضرورت تھی‘وہ مجھے وہیں راستے میں آسانی کے ساتھ مارسکتے تھے۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا‘ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟یہ تو مجھے احساس ہوگیاتھا کہ انہوں نے اپنے تعلقات استعمال کرکے مجھے یہاں حوالات میں بند کروادیاتھا۔ بات اب نچلی سطح تک محدود نہیں رہی تھی۔ سردار شاہ دین کے جہاں سیاسی تعلقات لامحدود تھے وہاں وہ ایم این اے بھی تھا۔ اس قتل کی تفتیش تو بڑے پیمانے پر ہونا تھی۔
صبح کی روشنی جب پھیلنے لگی تو میں اپنے طور پر رائے قائم کرچکاتھا کہ ان کی قاتل تک رسائی ہویانہ ہو‘ قاتل کون ہوسکتا ہے ‘ اس بارے میں انہیں یقین ہویانہ ہو لیکن وہ یہ طے کرچکے تھے کہ مجھے ہرحال میں ختم کرنا ہے‘ اب اس کا طریقہ واردات کیا ہوگا‘ یہ وہی جانتے تھے۔
تھانے میں تھوڑی بہت ہلچل ہوچکی تھی۔ رات والا سنتری تبدیل ہوچکاتھا۔ میرے ساتھی حوالاتیوں کے کچھ ملنے والے ان کے لیے کھانے پینے کاسامان لے آئے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ میں نے کچھ نہیں کھایا‘ ایک نوجوان حوالاتی نے مجھے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا۔میں نے اس کے تعلق دار کو چند نوٹ دیئے کہ وہ باہر سے چائے لے آئے۔ وہ چلا گیامگر ابھی واپس نہیں پلٹا تھا کہ تھانے میں حوالاتیوں کی گاڑی آگئی۔
تھانے کے دروازے بند کردیئے گئے۔ سنتری نے حوالات کا دروازہ کھولااور ہم سب کوباہر نکلنے کے لیے کہا۔ صرف دو لوگوں کو وہیں رہنے دیا‘ باقی سب کوہانک کر گاڑی میں بٹھادیاگیا۔ ہمیں قصبے سے شہر کی عدالت میں لے کرجاناتھا۔ کچھ دیر بعد گاڑی چل دی۔ میرے ذہن میں یہ الجھن بڑھنے لگی کہ جب میری گرفتاری نہیں ڈالی گئی تومجھے جج کے سامنے پیش کیسے کیاجائے گا‘ اگر وہ گرفتاری ڈال چکے ہیں تو پھر رندھاوے کاپیغام کیاتھا؟ یہ سب کیا ہے مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔
میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہوتی چلی جارہی تھی۔ تبھی میں نے ایک دم سے ساری الجھن اپنے ذہن سے جھٹک دی۔ اب جو ہوناتھا وہ ہوکرہی رہناتھا۔
قیدیوں کی گاڑی قصبے سے باہر نکل آئی تھی۔ چند حوالاتی تھے‘ جنہیں جج کے سامنے پیش کرنے کے لیے عدالت میں لے جایا جارہاتھا۔ وہ سب اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔ میں اپنے ذہن سے ہر سوچ جھٹک چکاتھا‘ گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جارہی تھی۔
اچانک ایک جگہ گاڑی رک گئی‘ پھر تیزی سے پچھلا دروازہ کھولاگیا اور ایک سپاہی اندر آتے ہی میری طرف دیکھ کربولا۔
”چل باہر آ…“
”اگر نہ آؤں تو…“ میں نے اس کی بات کوسمجھتے ہوئے کہا‘تبھی انسپکٹر کاچہرہ نمودار ہوا‘ وہ میری طرف دیکھ کربولا۔
”ہم تجھے نیچے اتار لیں گے…شرافت اسی میں ہے کہ تم خود اپنے پیروں پر چل کر آجاؤ۔
“
میں نے ایک لمحہ کے لیے اس کی طرف دیکھا اور اٹھ کرنیچے آگیا۔ میں سمجھ گیاتھا کہ وہ مجھے مار کریہیں کہیں پھینک دیں گے۔ توپھر کیوں نہ لڑکرہی مراجائے۔تبھی میں نے انسپکٹر کی طرف دیکھ کر کہا۔
”تم لوگ کیا چاہتے ہو‘ صاف بتاؤ۔“
”ادھر دیکھو“ اس نے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ سڑک سے ذراہٹ کر فصلوں کے درمیان کچا راستہ جارہا تھا‘ وہاں ایک فوروہیل جیپ کھڑی تھی‘ جس کے باہر پیرزادہ وقاص دونوں ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
اس کی آنکھوں پرچشمہ تھا۔”جاؤ‘ چلے جاؤ‘ وہ جانے اورتم۔“
میرے سامنے ایک مزید سوالیہ نشان آن ٹھہرا تھا۔ کیوں اتنی دلچسپی لے رہاہے مجھ میں…؟ اس وقت عافیت اسی میں تھی کہ پولیس کے نرغے سے نکل کر پیرزادہ وقاص کے ساتھ چل دوں۔وہ کیوں دلچسپی رکھتاہے‘ یہ تھوڑی دیر بعد کھل جانے والا تھا۔ میں اس کی طرف چل پڑا تو پولیس والے قیدیوں کی گاڑی سمیت چل دیئے۔ میں اس کے پاس پہنچا تو اس نے بڑی گرمجوشی سے میری جانب ہاتھ بڑھایا۔
”جمال! ایک نئی زندگی مبارک ہو۔“
میں نے اس کاہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا۔
”نئی زندگی ‘میں سمجھانہیں۔“