”ماحول تو بہت اچھا ہے جی‘ آج صبح سے میں کچھ مشکوک بندے دیکھ رہا ہوں حویلی کے اردگرد‘ کہیں یہ ہم پر
شک نہ کررہے ہوں کہ یہاں کاتھانیدار ہم نے مارا ہے۔ “ یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کرہنس دیا۔
”شک کرنے کوتومجھ پربھی کیاجاسکتا ہے مگر تم لوگ پھر بھی محتاط رہنا۔“ جسپال نے عام سے لہجے میں کہا توپریال نے پوچھا۔
”ویسے بائی جی‘ وہ گروپ جو ان تھانیداروں کوماررہا ہے‘ ان کامقصد کیا ہوسکتا ہے؟“
”تمہیں کیسے پتہ چلا کہ کوئی گروپ ہے جو ان تھانیداروں کو ماررہا ہے۔
“ جسپال نے چونک کر پوچھا۔
”حویلی کے باہر وہ جو ستھ(چوپال) ہے نا‘ میں کافی دیر ادھر بیٹھار ہا ہوں‘ لوگ باتیں کررہے تھے۔ اب یہ لوگوں کا اندازہ ہی ہے نا‘ کوئی کچھ کہتا ہے‘ کوئی کچھ۔
(جاری ہے)
“ اس نے بتایا۔
”انہوں نے تمہارے بارے میں بھی پوچھا ہوگا کہ تم کون ہواور حویلی میں کیوں رہتے ہو؟“ جسپال نے اچانک موضوع بدلتے ہوئے پوچھا۔
”پوچھاتھا ‘اور میں نے بتایا کہ ہم جسپال بائی جی کے ملازم ہیں۔
انہوں نے ہمیں یہاں لاکررکھا ہے‘ کیونکہ انہیں یہاں پرموجود کچھ لوگوں سے خطرہ ہے‘میراخیال ہے یہ پیغام بلجیت سنگھ تک پہنچ بھی گیاہوگا۔“ اس نے سنجیدگی سے بتایا۔
”چلواچھا ہے۔ لیکن پریال ‘ یہ دھیان رکھنا تمہاری طرف سے پہل نہیں ہونی چاہیے۔ کوئی جان کو آجائے‘ تبھی وار کرنا‘ورنہ تصادم سے ہرممکن بچنے کی کوشش کرنا‘ کیونکہ وہ چاہیں گے کہ تم لڑواور وہ کسی نہ کسی جال میں پھنسالیں۔
“جسپال نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”جی‘ بائی جی!“ اس نے مودبانہ انداز میں کہا‘ تبھی کچن کی طرف سے ایک لڑکی برآمد ہوئی جس نے سیاہ اور سفید دائروں والی قمیص شلوار پہنی ہوئی تھی اور سرپر سفید آنچل تھا‘ وہ ہاتھ میں ٹرے لیے نمودار ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر جسپال نے پوچھا۔
”یہ کون ہے؟“
”یہ میری سویٹی ہے بائی جی‘ بہت جلد ہم شادی کرنے والے ہیں۔
باقی‘یہ وہیں ہوتی ہے جہاں میں ہوتا ہوں۔ میرے بغیر رہ نہیں سکتی نا۔“ یہ کہہ کر وہ ہنس دیا۔
”ست سری اکال جی۔“سویٹی نے ٹرے رکھا اور ہاتھ جوڑتے ہوئے فتح بلائی۔
”ست سری اکال…کیسی ہو؟“ جسپال نے بڑے نرم لہجے میں پوچھا۔
”جی‘بالکل ٹھیک ہوں۔آپ چائے پئیں۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے پلٹ گئی۔ اچھی خاصی نوعمر اور خوبصورت لڑکی تھی۔
دونوں نے اپنا اپنا مگ اٹھالیا۔ چائے کے دھیرے دھیرے سپ لینے لگے۔ اس دوران پریال اپنے بارے میں بتاتا رہا کہ کس طرح وہ سٹوڈنٹس سیاست میں رہااور اب بدمعاشی کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے۔ کس طرح وہ ایک گروپ بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے جس سے اب بہت سارے کام وہ بڑی سہولت سے کرلیتا ہے۔ وہ اپنی باتوں میں مگن تھے کہ باہر سے ایک نوجوان نے ان کے پاس آکر کہا۔
”باہرجی‘ کچھ لوگ آئے ہیں‘ جسپال جی‘ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کہیں تو بلالاؤں انہیں۔“
”نام نہیں پوچھا ان کا۔“ پریال نے کافی حد تک غصے میں کہا۔
”پوچھاتھا‘ لیکن انہوں نے بتایا کچھ نہیں۔ بس ان کو باہر آنے کا کہا ہے۔“ اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”اچھا چل‘ میں آتاہوں۔“ جسپال نے کہااور اٹھ کھڑا ہوا۔ پریال اس کے ساتھ ہی اٹھ گیا۔
اس کے ساتھ ادھر ادھر بیٹھے لوگ بھی اٹھ کرباہر کی سمت چل پڑے۔ جسپال نے حویلی کے پھاٹک پر آکر دیکھا‘ باہر کافی سارے لوگ کھڑے تھے جن کے درمیان ایک کار کھڑی تھی اور اس کے پیچھے پرانے ماڈل کی جیپ تھی۔ ان کافی سارے لوگوں کے درمیان شلوار قمیص اور بھاری پگڑی کے ساتھ بلجیت سنگھ کھڑاتھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے ابل رہے تھے اور وہ انتہائی نفرت وحقارت سے جسپال کی طرف دیکھ رہاتھا۔
جسپال نے اچٹتی ہوئی نگاہ سب پر ڈالی اور گیٹ کے قریب کھڑے بندے سے پوچھا۔
”ہاں بھئی‘ کیا بات ہے؟“
”سردار بلجیت سنگھ جی‘ آئے ہیں۔ چلوان کی بات سنو۔“
”اچھا‘ تو یہ ہے ‘بلجیت سنگھ۔“ پریال سنگھ نے تیزی سے کہااور پھر اپنے پیچھے کھڑے ہوئے شخص کی طرف دیکھ کر مخصوص اشارہ کیا جسے جسپال نہیں دیکھ سکاتھا۔ وہ بلجیت سنگھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
”جس نے ملنا ہے وہ یہاں تک خود آجائے‘ جاؤ جاکر کہہ دو۔“ اس نے قد اونچا کیاتھاکہ اس کی آواز دور تک سنائی دے‘ جس پروہ سب چند لمحے کے لیے توخاموش کھڑے رہے پھر ایک ادھیڑ عمر کا بندہ آگے بڑھااور اس کے پاس آکر سکون سے بولا۔
”جسپال سنگھ‘ میں اس گاؤں کا پنچ ہوں‘ دلبیرسنگھ نام ہے میرااور ہمارا سرپنچ سرداربلجیت سنگھ ہے تمہیں شاید گاؤں کے ریتی رواج کانہیں پتہ‘ اس لیے ہم سب مل کرتمہارے پاس آئے ہیں تاکہ تمہیں سمجھا سکیں‘ ورنہ پنچائیت کو یہ قانونی حق بھی حاصل ہے کہ وہ گاؤں کے کسی بھی شخص کواپنے پاس حاضر ہونے کا کہہ دے۔
“
”جی بولیں‘ میں آپ کی کیاخدمت کرسکتا ہوں۔“ جسپال نے تحمل سے پوچھا۔
”کیاہم یونہی کھڑے کھڑے بات کریں گے‘ ہمیں بیٹھنے کے لیے نہیں کہوگے؟“ دلبیر سنگھ پنچ نے پوچھا۔
”کیوں نہیں سردار جی ہم آپ کوبیٹھنے کے لیے کیوں نہیں کہیں گے‘ آخر کوآپ چل کرمیرے گھر آئے ہیں۔“ یہ کہہ کر جسپال نے مڑ کر پریال سے کہا۔”ان سب کوبٹھاؤ اور ان کے لیے کچھ کھانے پینے کابھی بندوبست کرو‘ جلدی۔
“
”جی‘بھائی جی۔“ پریال نے کہااور مڑگیا۔ کچھ ہی دیر بعد اندر سے چارپائیاں نکل کرباہر آنے لگیں۔ وہ ”ستھ“ میں برگد کے درخت کے نیچے ہی بیٹھتے جارہے تھے۔ پنچ اور سرپنچ کے لیے کرسیاں رکھ دی گئیں‘ انہی کے مقابل جسپال کو بھی ایک کرسی پربٹھادیا گیا۔ تبھی دلبیرسنگھ نے بڑے ٹھنڈے اور تحمل بھرے انداز میں کہا۔
”دیکھ بھئی جسپال سنگھ‘ کسی بھی پنچائیت کاکام جہاں مسئلے مسائل کافیصلہ کرنا ہے‘ وہاں اس کایہ فرض بھی ہے کہ وہ امن وامان رکھنے میں پوری مدد دے اور ایسا غیر قانونی کام نہ ہونے دے جس سے امن وامان خراب ہوسکتا ہو‘ اس لیے ہم تمہیں سمجھانے آئے ہیں کہ یہ جو تم نے حویلی آباد کرلی ہے اور اس میں غنڈے لاکربٹھادیئے ہیں‘ یہ ٹھیک نہیں ہے۔
“
”اگر میں آپ کی ان ساری باتوں پرلکیر پھیردوں تو …؟“ جسپال نے سکون سے جواب دیا۔
”یہ کیا کہہ رہے ہوتم؟“دلبیر سنگھ نے سخت لہجے میں کہا۔
”میں نے اچھے لفظ استعمال کیے ہیں بزرگو‘ ورنہ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں آپ کی ان ساری باتوں کو جھوٹا ثابت کردوں۔“ وہ اسی پرسکون لہجے میں بولا۔
”دیکھو‘ تم گھر پرآئی ہوئی پنچائیت کی بے عزتی کررہے ہو۔
تمہیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔“ اس بار دلبیر سنگھ نے کافی حد تک سختی سے کہا۔
”میں نے کوئی غلط تو نہیں کہا۔بجائے بے عزتی محسوس کرنے کے آپ مجھ سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ میں کیسے غلط ثابت کرسکتاہوں۔“ وہ تحمل سے بولا۔
”بولو…تم بتاؤ…“ دلبیر نے غصے سے پوچھا۔
”میں نے کچھ بھی نہیں کیا اور آپ پنچائیت میرے گھر لے کرآگئے ہیں۔
میری کوئی غلطی بتاؤ‘ آپ امن وامان کی بات کرتے ہو تو بتاؤ مجھ پر جو قاتلانہ حملہ ہوا ہے‘ اس پر آپ لوگوں نے میرے گھر پرآکر افسوس تک نہیں کیا‘کجاآپ وہ لوگ تلاش کرنے میں میری مدد کرتے۔“
”ہم مانتے ہیں پُترکہ ہم افسوس کرنے تیرے گھر نہیں گئے‘ پہلی تو بات ہے کہ تمہارا گھر ہے کون سا؟ دوسری بات تم اپنا معاملہ لے کر پنچائیت کے پاس نہیں آئے‘ ہم تجھے کیوں پوچھتے پھرتے‘تم تو پولیس کے پاس گئے ہو‘ اب تم جانو اور پولیس…“ دلبیر نے دلیل دیتے ہوئے کہامگر جسپال کو اس کی بات چبھ گئی‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
”یہ حویلی‘ وہ کوٹھی‘ کس کی ہے‘ میری نہیں تو اور کس کی ہے؟“
”نہ یہ حویلی تیری ہے اور نہ و ہ کوٹھی تیری‘ قانون اس بات کو نہیں مانتا‘ تم توابھی تک یہ ثابت نہیں کرسکے ہو کہ تم واقعی ہی کلوندر سنگھ کے پتر ہو۔ جس دن تمہیں اپنے بارے میں ثبوت مل جائے‘ اس دن آکر بات کرنا۔ اب کوئی اور بات ہے تو کہو۔“ دلبیر سنگھ نے صاف لفظوں میں اس سے کہہ دیا کہ وہ اسے تسلیم ہی نہیں کرتے۔
”توپھر تم لوگ کیا کرنے آئے ہو میرے پاس؟“ جسپال غصے میں آگیا‘ مگر تحمل سے بولا۔
”یہی کہ تم نے جو غیر قانونی طور پر اس حویلی پرقبضہ کیا ہے‘ اسے ختم کرو‘اور یہ جو منڈھیر(جتھہ) تم نے یہاں اکھٹی کررکھی ہے اسے چلتا کرو۔ ہمیں نقص امن کا خطرہ ہے۔“
”کیوں خطرہ کیوں ہے؟انہوں نے کسی کو کچھ کہا‘ کسی سے زیادتی کی ، کسی کو کائی بُرا بھلا کہا، یا پنچائیت کو خوف ہے ان سے؟“جسپال نے پوچھا۔
”جب تم نے بنیادی طو رپر ہی غلط کام کیا ہے تو باقی سارے غیر قانونی کام ہیں۔ پنچائیت کو یہ اختیار ہے کہ تمہارا سامان اٹھا کر باہرپھینک دیں۔ اس کے لیے ہم پولیس سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔“ دلبیر سنگھ نے کہا تو جسپال کو انتہائی غصہ آگیا۔ وہ کھڑا ہو کربولا۔