”میں آپ کوبزرگ مانتے ہوئے آپ کی دل سے عزت کرتا ہوں ۔یہ جو حویلی ہے‘ میرے باپ کی ہے‘ اور اب میں اس کامالک ہوں۔ یہاں پرموجود سب لوگ یہ بات کان کھول کر سن لیں اور سمجھ بھی لیں کل میرے باپ سمیت میرے خاندان کا خون کیا گیا‘ آج اگر میرا ہوجائے گا تو کوئی پروا نہیں۔ میں آیا ہی اس خاطر ہوں کہ یہاں مجھے قتل کردیاجائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرا خون کون کرتا ہے۔
اب جس میں ہمت ہے وہ حویلی کی جانب بڑھے‘ وہاں سے سامان اُٹھا کرباہر پھینکنے کاحوصلہ کرے‘ میں ابھی دیکھ لیتاہوں اس کو۔“
”دیکھالڑائی والی بات ہوگئی نا…تم کررہے ہو نا لڑنے کی بات۔“ دلبیر سنگھ نے کہا
”بس دلبیر سنگھ جی ‘ بس! مجھے نہ منافقت آتی ہے اور نہ میں جھوٹ بولتا ہوں۔ ایک سچے سکھ کاکرتویہ ہی سچ ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
سچے بادشاہ گرونانک مہاراج نے سکھی کی بنیاد ہی سچ پررکھی ہے۔
تم کیسے سکھ ہو جو جھوٹ اور منافقت کی بات کررہے ہو۔ شرم کرو‘ لڑنے کی بات میں کررہاہوں‘ یا تم لڑنے کے لیے آئے ہو اتنا لاؤ لشکر لے کر۔“
”زبان سنبھال کر بات کرو‘ میں ابھی تک خاموش اس لیے رہا ہوں کہ دلبیر سنگھ جی بات کررہے تھے‘ چل روک تو کیسے روکتا ہے۔“ بلجیت سنگھ نے کھڑے ہو کر کہاتو دلبیر سنگھ نے جلدی سے کھڑے ہو کراسے بٹھادیا۔
”تم بیٹھو بلجیت سنگھ‘ میں بات کررہا ہوں نا۔“ یہ کہہ کر اس نے جسپال سے کہا۔ ”اولڑکے! شام سے پہلے تک یہ حویلی خالی کرکے چلے جاؤ‘ ہاں جب تم اس کے مالک ہونے کاثبوت لے کرآجاؤ پنچائیت کے پاس تو بے شک یہاں پررہنا‘یہ ہمارا فیصلہ ہے۔“
”اور میں تم لوگوں کافیصلہ نہیں مانتا۔ اب جو کرنا ہے کرلیں۔“ جسپال نے لاپرواہانہ انداز میں کہا۔
”چلو اوئے! اس کاسامان باہر پھینکو اور نکالو اسے یہاں سے۔“ بلجیت سنگھ نے انتہائی غصے میں کہا تو چند لوگ آگے بڑھے‘ تبھی جسپال نے اونچی آواز میں کہا۔
”بلجیت‘ شروعات تم کرچکے ہو۔یہ تمہاری دوسری باری ہے۔اب بھاگنا نہیں۔“جسپال نے کہااور اس کی طرف بڑھا‘ ہلجیت کے اردگرد چند لڑکے جمع ہوگئے۔پریال سنگھ اوراس کے ساتھیوں نے بھی گنیں سیدھی کرکے بولٹ مارلیے۔
”رُک جاؤ۔“ دلبیر نے چیخ کر کہا۔”میں کہتا ہوں رُک جاؤ۔“
”دلبیر سنگھ آج فیصلہ ہوہی جائے۔“ جسپال نے کہاتووہ درمیان میں آتے ہوئے بولا۔
”نہیں‘ ہم لڑنے نہیں آئے پنچائیت کافیصلہ سنانے آئے ہیں۔ شام تک کا وقت ہے تیرے پاس‘ پھر نہ کہنا کہ زیادتی ہوگئی۔“ پھر سب لوگوں سے مخاطب ہو کر بولا۔”چلو…چلو،واپس“ تبھی جسپال نے اونچی آواز میں کہا۔
”سنودلبیر سنگھ جی‘ اور وہ بھی جویہاں موجود ہیں‘ آج کان کھول کر سن لو‘ جس میں بھی ہمت ہے‘ جو جب چاہے میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈال سکتا ہے‘ میں بڑھ کر کسی پرواہ نہیں کروں گا‘ اور نہ دھوکے سے سازش کرکے گھیرنے کی کوشش کروں گا‘ ایساہیجڑے کرتے ہیں۔دس ہیجڑے مل کرایک مرد کو مارسکتے ہیں‘ لیکن میں مرد اسے سمجھتاہوں جو سامنے آکر للکار کر وار کرے۔
تم میں سے اب بھی کوئی چاہتا ہے تو آئے‘ میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈال لے۔“
وہاں پورے مجمع میں خاموشی رہی‘ بلجیت سنگھ کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا‘ تبھی دلبیر سنگھ نے کہنا چاہا۔
”دیکھو جسپال۔“
”نہیں صرف میری سنو اب… میں جب سے یہاں آیاہوں‘ مجھ پر طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ہیجڑوں کی طرح چھپ کروار کیاجارہا ہے۔
مجھے مجبور کیا جارہا ہے کہ میں بھی مقابلے پر اتر آؤں‘ جہاں تک ہوسکا‘ میں قانون ہی کی زبان میں بات کروں گا‘اورباقی رہی شام کی بات تو شام کس نے دیکھی ‘جو پنچائیت کافیصلہ ہے وہ کرلے‘ پھر میرا جوفیصلہ ہوگا‘ وہ میں سناؤں گا۔“
”ہم نے بھی قانون کے مطابق تم سے بات کہہ دی ہے۔ اب شام تک تمہیں انتظار کرنا ہوگا۔“ دلبیر سنگھ نے کہا اور لوگوں کوگھیر کر واپس لے جانے لگا۔
جسپال نے بلجیت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں‘ وہ کچھ دیر ایک دوسرے کوگھورتے رہے‘ پھر بلجیت اپنی کارمیں بیٹھ کر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد صرف وہی وہاں پررہ گئے۔ تبھی پریال نے کہا۔
”بھائی جی‘ میں نے دیکھ لیا ہے‘ ان میں لڑنے کی ہمت نہیں ہے۔“
”کتا کبھی شیر نہیں ہوسکتا پریال‘ جس طرح کمی کمین اپنی عادتوں سے پہچانا جاتا ہے‘ اسی طرح بے غیرت اورگھٹیا انسان بھی اپنی عادتوں ہی سے ظاہر ہوجاتا ہے۔
جوبندہ بھی سازش اورمکر سے لوگوں کونقصان پہنچانے کا عادی ہو کبھی سامنا نہیں کرسکتا لیکن محتاط رہنا‘ کتے اور سانپ کا کبھی بھروسہ نہیں کرو۔“ جسپال نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”میں سمجھ گیا بھائی جی۔“ پریال نے کہا تو جسپال نے جیب میں سے اپنی کار کی چابی نکالی اور چل دیا۔
جس وقت وہ کوٹھی میں داخل ہوا تو ذہنی طور پر کافی دباؤ میں تھا۔
جس طرح وہ سوچ رہاتھا‘ دشمن بھی اسی ٹریک پر سوچ رہے تھے۔ انہیں بھی احساس ہوگیا تھا کہ اب وہ یہاں پرحویلی کواپنا مرکز بنائے گااور ان کی طاقت ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔اسی لیے وہ اس مرکز کوبننے سے پہلے ہی ختم کردینا چاہتے تھے۔ یہ بات تو چھپی نہیں رہی ہوگی کہ گاؤں کے لوگ بھی جسپال سے جاکر ملے تھے ۔ کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی گرفت کمزور ہو۔
انوجیت گھر پر تھا‘ وہ سیدھا ہرپریت کے کمرے میں گیا‘وہ جاگ رہی تھی، اسے دیکھتے ہی مسکرادی۔ پھراس کے چہرے پر دیکھ کربولی۔
”جسی جی‘ یہ چہرے پر کیا ہوا۔“
”کیاہوا؟“اس نے ہاتھوں سے چہرے کو صاف کرتے ہوئے کہاتووہ ہنستے ہوئے بولی۔
”اوہ نہیں جسی جی‘ تمہارا چہرہ بتارہا ہے کہ کوئی بات ہوئی ہے۔“
”کس کاچہرہ کیابتارہا ہے؟“انوجیت کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
”میرے چہرے پر۔“ جسپال نے کہا‘ پھر ایک کرسی پربیٹھ کر حویلی کے سامنے جو کچھ ہوا اس کی روداد اختصار سے سنادی۔وہ دونوں غور سے سنتے رہے‘ تبھی انوجیت نے کہا۔
”یار یہ جوپنچائیت کواختیارات دیئے گئے ہیں نا… یہ ہیں تو اچھے مقاصد کے لیے‘ مگر یہ لوگ اسے اپنے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ میرے خیال میں سب سے پہلے حویلی کے بارے میں کوئی قانونی حوالہ تمہارے پاس ضرورہونا چاہیے‘ کم از کم ان کی یہ دھمکی تو ختم ہو۔
“
”میرا خیال بھی یہی ہے‘ اب نکودر میں تمہارے گل صاحب ایڈووکیٹ بھی کچھ نہیں کرپائے اور دوسری طرف کیشیو مہرہ بھی ابھی تک کوئی ایسا سرا تلاش نہیں کرسکا جس سے کم از کم یہ مسئلہ تو حل ہو۔“ جسپال نے کسی حد تک اُکتائے ہوئے کہا۔
”یار‘ یہ بھارت کی عدالت کے معاملات ہیں‘ اتنی جلدی حل نہیں ہونے والے‘ یہ تو کسی دفتر سے کوئی گیدڑپروانہ ہی لیناپڑے گا۔
“ انوجیت نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اچھا تم ایساکرو‘ گل ایڈووکیٹ سے بات کرو‘ میں کیشیومہرہ سے بات کرتا ہوں‘ ابھی تو دفاتر کا وقت ہوگا‘ دوپہر نہیں ڈھلی۔“ جسپال نے کہا۔
”اوکے…! میں کرتاہوں۔“انوجیت نے اپنا سیل فون نکالتے ہوئے کہا۔ تبھی جسپال نے اپنا فون نکالاور کیشیومہرہ کو فون کرنے لگا۔ چند لمحوں بعد رابطہ ہوگیا تووہ کمرے سے باہرآگیا۔
تمہیدی جملوں کے بعد وہ بولا۔
”ابھی چند…“
”میں نے سب سن لیا ہے‘ پریال نے مجھے بتادیا ہے۔ میں ابھی تمہیں فون کرنے ہی والا تھا۔ تم ایسے کرو‘ ابھی نکلو اور یہاں آجاؤ‘ اسی ریسروٹ میں آکر ٹھہرو اور میراانتظار کرو۔ میں کوئی نہ کوئی حل نکالتاہوں۔میں تمہیں اس لیے بلوارہاہوں کہ ممکن ہے کسی آفیسر سے ملواناپڑجائے۔ اگرایسا ہوا تو پھرتمہیں جہاں بلواؤں وہاں آنا پڑے گا۔
خیر تم وہاں سے نکلو پھربات کرتے ہیں۔“کیشیو مہرہ نے تیزی سے کہااور فون بند کردیا۔
واپس کمرے میں آکرانوجیت سے مشورہ کرنے کے بعد جسپال کو وہاں سے نکلتے آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ اب اسے مزید آدھا گھنٹہ لگناتھا جالندھر تک پہنچنے کا‘ اس بار جب وہ گیٹ سے نکلا تو کوئی بندہ نہیں تھا۔ وہ جالندھر کی طرف اکیلاہی چل پڑا۔
وہ بائی پاس روڈ کے اس ریسروٹ میں پہنچ کربڑے اطمینان سے چائے پی چکا تھا۔
وہ کیشیومہرہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔ جالندھر میں داخَل ہونے پر اس نے خوش خبری سنادی تھی کہ کام ہوگیا ہے‘ وہ وہاں انتظار کرے۔ تب سے وہ وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ تقریباً چار بج گئے تھے۔ جب کیشیو مہرہ وہاں آگیا۔
”سوری یارمجھے دیر ہوگئی۔ دراصل بڑا صاحب گھر چلاگیاتھا‘ اس سے دستخط کروانے کے چکرمیں اتنی دیر ہوگئی‘ یہ لو۔“ اس نے اپنی جیب سے ایک سفید کاغذ نکالتے ہوئے کہا۔
”اس کی قانونی حیثیت کیا ہے۔“ جسپال نے پوچھا۔
”ویسے تو قانونی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے‘ لیکن یہ معمولی سا سفیدکاغذ بہت بڑا بیرئیر ہے۔ اس کاغذ کے مطابق تمہارا کیس اس آفیسر کے پاس ہے۔وہ دیکھ رہے ہیں چونکہ اس حویلی کا کوئی دوسرا دعویدار موجود نہیں ہے اس لیے حویلی میں رہنے اوراسے استعمال کی اجازت دی جاتی ہے‘ جب تک…جب تک… کیس کافیصلہ نہیں ہوجاتا۔“ کیشیو مہرہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”اُوگڈ…!مطلب‘ میں ان کی ایک فوٹو کاپی پنچائیت والوں کو دے دوں۔ ان کے اطمینان کے لیے یہ کافی ہوگا۔“