Episode 102 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 102 - قلندر ذات - امجد جاوید

اس و قت میں بائیک پر بیٹھا ہی تھااور چابی اگنیشن میں لگائی ہی تھی کہ قصبے کی طرف سے پولیس گاڑیاں آتی ہوئی دکھائی دیں۔ میں چونک گیا‘ نجانے کیوں میری چھٹی حس نے مجھے خطرے کا احساس دے دیا۔میں اس طرف غور سے دیکھ رہاتھا۔ اگر وہ حویلی کی جانب مڑجائیں تو خطرے والی کوئی بات نہیں تھی لیکن اگر وہ آگے آتی ہیں تو مجھے اپنابچاؤ بہرحال کرنا چاہیے تھا۔
میں نے انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ وہاں سے نکل پڑا‘ میں سڑک کنارے چلتا ہوا گاؤں کی طرف ایک پگڈنڈی پر اتر گیا۔ پولیس گاڑیاں وہیں سڑک پر دکانوں کے پاس رک گئی تھیں۔ کیا میری مخبری ہوگئی تھی؟ اگرچہ مجھے یقین نہیں آرہاتھا لیکن مجھے بہرحال احساس ضرور ہوگیاتھا۔ میں رکا نہیں‘بلکہ گاؤں کے اوپر سے نکلتا ہوا چل پڑا۔

(جاری ہے)

مجھے قصبے تو جانا ہی تھا۔

ایک لمباچکر کاٹ کرمیں نہر کنارے آگیا۔ میں نے سڑک کا راستہ نہیں لیا‘بلکہ نہر کنارے چلتاچلاگیا‘اس وقت اندھیرا پوری طرح پھیل چکاتھا۔ جب میں قصبے کے قریب پہنچ گیا۔
میرے لیے سب سے اہم سوال یہی تھا کہ چھاکا‘ اماں اور سوہنی کو لے کر کہاں جاسکتا ہے؟ میرے ذہن میں تین ہی نام تھے۔وہ تینوں میرے جگری دوست تھے اورچھاکے کو ان کے بارے میں پوری طرح علم تھا۔
وہ انہی پر یقین کرسکتاتھا‘ان تینوں کے گھر مجھے باری باری جاناتھا۔ میں نے اپنے ذہن میں ایک ترتیب رکھی اورقصبے کی گلیوں میں گھس گیا۔ تقریباً بیس منٹ بعد میں اپنے پہلے دوست کے گھر پر تھا۔اگرچہ اس سے کچھ دیر گپ شپ کرتا رہا‘ مگر کہیں بھی اس کی باتوں سے مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ اماں ‘سوہنی اور چھاکا اس کے پاس ہوں گے۔ اس طرح جب میں سہیل کے گھرگیا تو وہ مجھے دیکھتے ہی کھل گیا۔
”اوئے تو صبح کا کدھر غائب ہوگیاتھا‘ہم تو سوچ سوچ کر پاگل ہوگئے کہ تو‘یاتو پولیس کے ہاتھوں کھپ گیا یاپھر فرار ہوگیا… چل آاندر آ…“
”تومجھے کہاں تلاش کرتا رہا۔“ میں نے محتاط انداز میں پوچھا تو وہ گیٹ کھولتے کھولتے رک گیا۔
”میں اور چھاکا‘ صبح ہی تھانے گئے تھے‘ اس وقت تک وہ تجھے لے کر نکل گئے تھے۔ پتہ یہی چلا کہ وہ تجھے شہر کی عدالت میں لے کرجائیں گے‘ ہم جب وہاں پہنچے ہیں تو پتہ چلا کہ تم آئے ہی نہیں ہو۔
”پھر…؟“ میں نے پوچھا۔
”پھرکیا‘ ہم سب ہی پریشان ہوگئے۔ اک کانسٹیبل سے ذرا سا سراغ ملاتھا کہ تمہیں راستے ہی میں اتا ردیا تھا بس پھرہم نے اپنے طور پر اندازے لگائے‘ تو بتاگیا کدھرتھا؟“ اس نے انتہائی تجسس سے پوچھا۔
”وہ تومیں تجھے بتاتاہوں لیکن تویہ بتا کہ اماں اور سوہنی کدھر ہیں‘ اب چھاکا کہاں پر ہے؟“
”وہ توشام کے وقت چلے گئے لاہور‘ابھی ر استے ہی میں ہوں گے‘ سوہنی نے جیپ منگوائی تھی۔
اس میں گئے ہیں۔“ سہیل نے مجھے بتایا۔
”اوہ…!“ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔”ویسے وہ خیریت سے تھے نا…؟“ میرے انداز پر وہ حیران ہوتاہوا بولا۔
”وہ ٹھیک تھے۔چھاکے کواطلاع ملی تھی کہ شاہ زیب وغیرہ حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ا نہیں لے کر سیدھا میرے پاس آگیا۔ آج صبح مجھے اطلاع ملی کہ …خیر‘ آؤ اندر آ۔“وہ چونکتے ہوئے بولا۔
میں نے بائیک اندر کرلی اور صحن میں آکربیٹھ گیا۔ بھابی کچن میں تھی‘ اور بچے اندر ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
”اب مجھے بتا‘ وہ کب گئے ہیں؟“
”یہی کوئی دو گھنٹے پہلے‘ ان کا پروگرام یہی ہے کہ چھاکا انہیں چھوڑ کر واپس آجائے گا۔پھر ہم دونوں تیرا کوئی سراغ تلاش کریں گے… وہ تیرے لیے پریشان تھے…“ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے سیل فون نکالااور نمبر ملاتے ہوئے بولا۔
”لے بات کرلے ان سے‘ تجھے اطمینان ہوجائے گا۔“ کچھ دیر بعد رابطہ ہوگیا‘ فون سوہنی ہی نے اٹھایا تھا۔ میری آواز سنتے ہی وہ چہک ا ُٹھی۔
”توٹھیک توہے ناجمال…“
”میں ٹھیک ہوں‘ تو اماں کے بارے میں بتا‘ چھاکا کدھر ہے؟“
”وہ دونوں ٹھیک ہیں اور میرے ساتھ لاہور جارہے ہیں۔ تو بھی ایسا کر لاہور ہی آجا‘وہاں اطمینان سے بیٹھ کر کچھ سوچتے ہیں۔
”تو میری اماں سے بات کروا…“میں نے اس کی بات کونظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ چند لمحے بعد اماں کی آواز فون میں گونج اٹھی۔
”میں ٹھیک ہوں پُتر! تواپنی سنا۔“
”بس جب تک تیرا پتہ نہیں مل رہاتھا‘ میں پریشان تھا‘ اب میں پریشان نہیں ہوں۔“
”تیرے لیے وہاں بہت خطرہ ہوگا‘ جیسا یہ کہتی ہے‘ ویسے مان لے…“ اماں نے کہا۔
”اماں…!تو بس دعا کر… میں سارے مسئلے حل کرلوں‘ پھر سکون ہوگا۔چھاکے سے میری بات کروادے۔“
چند لمحے بعد چھاکا لائن پر تھا۔
”تو فکر نہ کرجمال…!میں انہیں لاہور چھوڑ کر واپس آجاؤں گا تو ادھر سہیل کے پاس ہی ٹھہر‘میں نے وقت سے پہلے ہی اماں اور سوہنی کو وہاں سے نکال لیاتھا۔ دوسرا تیرے چھت والے کمرے کا سارا سامان بھی ٹھکانے لگادیاتھا۔
توفکر نہ کر‘ میں آجاؤں تو دونوں مل کرسب کچھ کریں گے۔اگرکہتا ہے تو ہم واپس آجاتے ہیں۔“
”نہیں… سوہنی کے ذہن میں کوئی محفوظ ٹھکانہ ہوگا‘ انہیں وہاں چھوڑ کر تو فوراً واپس آ جا‘تیری ضرورت ہے مجھے۔سوہنی سے بات کروا۔“
”ہاں بول جمال کیا کہتا ہے۔“سوہنی کی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی۔
”سوہنی…! تیرے پاس کوئی ایسا ٹھکانہ ہے جہاں تم اور اماں محفوظ رہ سکو‘ اور ملک سجاد…؟“
”توفکر نہ کر…میرانمبر ہے ناتیرے پاس… اس سے رابطہ رہے گا‘بلکہ نہیں… میں لاہور جاتے ہی اپنا نمبر تبدیل کرلوں گی‘ اور چھاکے کو دے دوں گی‘ تو مجھ سے رابطہ رکھنا‘ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
”ٹھیک ہے‘ میں چھاکے کاانتظار کروں گا۔ اسے کل تک بھجوادینا واپس۔“میں نے کہا اورپھر چند باتوں کے بعد فون بند کردیا۔مجھے اطمینان ہوگیاتھا۔
میں نے سہیل کو ساری روداد بتائی تو وہ چند لمحے سوچتارہا‘ پھر بولا۔
”اب تجھے بہت محتاط رہنا ہوگا جمالے۔ ایک طرف شاہ زیب ہے تو دوسری طرف پولیس‘ اور یہ جو پیرزادہ وقاص ہے نا۱ اس پربھروسہ نہیں کیاجاسکتا‘ ایسے لوگ دوسروں کوفقط شطرنج کا مہرہ خیال کرتے ہیں۔
جس سے شاہ کو بھی مارا جاسکتا ہے یاپھر اگر پٹ جائیں تو انہیں فرق نہیں پڑتا۔“
”میں سمجھتا ہوں سہیل‘ اب میں چلتا ہوں۔“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”کہاں جائے گا تو…ادھر سکون سے سوجا‘ ابھی کھانا کھاتے ہیں۔ پھر گپ شپ کریں گے۔“ سہیل نے بے تکلفی سے کہاتومیں انکار میں سرہلاتے ہوئے بولا۔
”نہیں ! مجھے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
تیراشکریہ اب بس مجھے اجازت دے۔“
”نابھائی… کھانا کھا کرجانا‘بس پانچ منٹ میں لائی۔“ بھابی نے کچن میں سے کہا تو مجھے وہاں بیٹھناپڑا۔
رات کاپہلا پہرگزرچکاتھا۔ جب میں سہیل کے گھر سے نکلا۔ میرا رخ گاؤں نورنگر ہی کی طرف تھا۔ میں نے سوچ لیاتھا کہ مجھے کیا کرنا ہے‘ بیس پچیس منٹ بعد میں اپنے ڈیرے پر تھا۔ بھیدہ ابھی سویانہیں تھا۔
اس نے میرے لیے بستر بچھایا تو دل میں اک ہوک اٹھی۔ دو دن پہلے تک میرا اپنا گھر تھا۔ جسے دشمنوں نے جلادیاتھا۔آج اگر میرے پاس یہ ڈیرہ نہ ہوا تو میں دربدر تھا۔ میں بستر پر لیٹا نہیں‘یہی سوچتا رہا‘ تبھی بھیدہ میرے پاس آکربیٹھ گیا۔
”توپریشان نہ ہوجمالے‘ رب سوہنا کرم کرے گا۔“
”ہاں اس رب ہی سے تو امیدیں ہیں ساری…“میں نے کہااور پھر لیٹتے ہوئے اس سے کہا۔ ”بھیدے…تو ایسا کر یہ بائیک لے جااور جاکر جانی شو کرکو دے دے‘ میرے بارے میں پوچھے تو بتادینا کہ میں ادھر ڈیرے پرہوں۔“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط