اس و قت میں بائیک پر بیٹھا ہی تھااور چابی اگنیشن میں لگائی ہی تھی کہ قصبے کی طرف سے پولیس گاڑیاں آتی ہوئی دکھائی دیں۔ میں چونک گیا‘ نجانے کیوں میری چھٹی حس نے مجھے خطرے کا احساس دے دیا۔میں اس طرف غور سے دیکھ رہاتھا۔ اگر وہ حویلی کی جانب مڑجائیں تو خطرے والی کوئی بات نہیں تھی لیکن اگر وہ آگے آتی ہیں تو مجھے اپنابچاؤ بہرحال کرنا چاہیے تھا۔
میں نے انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ وہاں سے نکل پڑا‘ میں سڑک کنارے چلتا ہوا گاؤں کی طرف ایک پگڈنڈی پر اتر گیا۔ پولیس گاڑیاں وہیں سڑک پر دکانوں کے پاس رک گئی تھیں۔ کیا میری مخبری ہوگئی تھی؟ اگرچہ مجھے یقین نہیں آرہاتھا لیکن مجھے بہرحال احساس ضرور ہوگیاتھا۔ میں رکا نہیں‘بلکہ گاؤں کے اوپر سے نکلتا ہوا چل پڑا۔
(جاری ہے)
مجھے قصبے تو جانا ہی تھا۔
ایک لمباچکر کاٹ کرمیں نہر کنارے آگیا۔ میں نے سڑک کا راستہ نہیں لیا‘بلکہ نہر کنارے چلتاچلاگیا‘اس وقت اندھیرا پوری طرح پھیل چکاتھا۔ جب میں قصبے کے قریب پہنچ گیا۔
میرے لیے سب سے اہم سوال یہی تھا کہ چھاکا‘ اماں اور سوہنی کو لے کر کہاں جاسکتا ہے؟ میرے ذہن میں تین ہی نام تھے۔وہ تینوں میرے جگری دوست تھے اورچھاکے کو ان کے بارے میں پوری طرح علم تھا۔
وہ انہی پر یقین کرسکتاتھا‘ان تینوں کے گھر مجھے باری باری جاناتھا۔ میں نے اپنے ذہن میں ایک ترتیب رکھی اورقصبے کی گلیوں میں گھس گیا۔ تقریباً بیس منٹ بعد میں اپنے پہلے دوست کے گھر پر تھا۔اگرچہ اس سے کچھ دیر گپ شپ کرتا رہا‘ مگر کہیں بھی اس کی باتوں سے مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ اماں ‘سوہنی اور چھاکا اس کے پاس ہوں گے۔ اس طرح جب میں سہیل کے گھرگیا تو وہ مجھے دیکھتے ہی کھل گیا۔
”اوئے تو صبح کا کدھر غائب ہوگیاتھا‘ہم تو سوچ سوچ کر پاگل ہوگئے کہ تو‘یاتو پولیس کے ہاتھوں کھپ گیا یاپھر فرار ہوگیا… چل آاندر آ…“
”تومجھے کہاں تلاش کرتا رہا۔“ میں نے محتاط انداز میں پوچھا تو وہ گیٹ کھولتے کھولتے رک گیا۔
”میں اور چھاکا‘ صبح ہی تھانے گئے تھے‘ اس وقت تک وہ تجھے لے کر نکل گئے تھے۔ پتہ یہی چلا کہ وہ تجھے شہر کی عدالت میں لے کرجائیں گے‘ ہم جب وہاں پہنچے ہیں تو پتہ چلا کہ تم آئے ہی نہیں ہو۔
“
”پھر…؟“ میں نے پوچھا۔
”پھرکیا‘ ہم سب ہی پریشان ہوگئے۔ اک کانسٹیبل سے ذرا سا سراغ ملاتھا کہ تمہیں راستے ہی میں اتا ردیا تھا بس پھرہم نے اپنے طور پر اندازے لگائے‘ تو بتاگیا کدھرتھا؟“ اس نے انتہائی تجسس سے پوچھا۔
”وہ تومیں تجھے بتاتاہوں لیکن تویہ بتا کہ اماں اور سوہنی کدھر ہیں‘ اب چھاکا کہاں پر ہے؟“
”وہ توشام کے وقت چلے گئے لاہور‘ابھی ر استے ہی میں ہوں گے‘ سوہنی نے جیپ منگوائی تھی۔
اس میں گئے ہیں۔“ سہیل نے مجھے بتایا۔
”اوہ…!“ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔”ویسے وہ خیریت سے تھے نا…؟“ میرے انداز پر وہ حیران ہوتاہوا بولا۔
”وہ ٹھیک تھے۔چھاکے کواطلاع ملی تھی کہ شاہ زیب وغیرہ حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ا نہیں لے کر سیدھا میرے پاس آگیا۔ آج صبح مجھے اطلاع ملی کہ …خیر‘ آؤ اندر آ۔“وہ چونکتے ہوئے بولا۔
میں نے بائیک اندر کرلی اور صحن میں آکربیٹھ گیا۔ بھابی کچن میں تھی‘ اور بچے اندر ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
”اب مجھے بتا‘ وہ کب گئے ہیں؟“
”یہی کوئی دو گھنٹے پہلے‘ ان کا پروگرام یہی ہے کہ چھاکا انہیں چھوڑ کر واپس آجائے گا۔پھر ہم دونوں تیرا کوئی سراغ تلاش کریں گے… وہ تیرے لیے پریشان تھے…“ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے سیل فون نکالااور نمبر ملاتے ہوئے بولا۔
”لے بات کرلے ان سے‘ تجھے اطمینان ہوجائے گا۔“ کچھ دیر بعد رابطہ ہوگیا‘ فون سوہنی ہی نے اٹھایا تھا۔ میری آواز سنتے ہی وہ چہک ا ُٹھی۔
”توٹھیک توہے ناجمال…“
”میں ٹھیک ہوں‘ تو اماں کے بارے میں بتا‘ چھاکا کدھر ہے؟“
”وہ دونوں ٹھیک ہیں اور میرے ساتھ لاہور جارہے ہیں۔ تو بھی ایسا کر لاہور ہی آجا‘وہاں اطمینان سے بیٹھ کر کچھ سوچتے ہیں۔
“
”تو میری اماں سے بات کروا…“میں نے اس کی بات کونظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ چند لمحے بعد اماں کی آواز فون میں گونج اٹھی۔
”میں ٹھیک ہوں پُتر! تواپنی سنا۔“
”بس جب تک تیرا پتہ نہیں مل رہاتھا‘ میں پریشان تھا‘ اب میں پریشان نہیں ہوں۔“
”تیرے لیے وہاں بہت خطرہ ہوگا‘ جیسا یہ کہتی ہے‘ ویسے مان لے…“ اماں نے کہا۔
”اماں…!تو بس دعا کر… میں سارے مسئلے حل کرلوں‘ پھر سکون ہوگا۔چھاکے سے میری بات کروادے۔“
چند لمحے بعد چھاکا لائن پر تھا۔
”تو فکر نہ کرجمال…!میں انہیں لاہور چھوڑ کر واپس آجاؤں گا تو ادھر سہیل کے پاس ہی ٹھہر‘میں نے وقت سے پہلے ہی اماں اور سوہنی کو وہاں سے نکال لیاتھا۔ دوسرا تیرے چھت والے کمرے کا سارا سامان بھی ٹھکانے لگادیاتھا۔
توفکر نہ کر‘ میں آجاؤں تو دونوں مل کرسب کچھ کریں گے۔اگرکہتا ہے تو ہم واپس آجاتے ہیں۔“
”نہیں… سوہنی کے ذہن میں کوئی محفوظ ٹھکانہ ہوگا‘ انہیں وہاں چھوڑ کر تو فوراً واپس آ جا‘تیری ضرورت ہے مجھے۔سوہنی سے بات کروا۔“
”ہاں بول جمال کیا کہتا ہے۔“سوہنی کی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی۔
”سوہنی…! تیرے پاس کوئی ایسا ٹھکانہ ہے جہاں تم اور اماں محفوظ رہ سکو‘ اور ملک سجاد…؟“
”توفکر نہ کر…میرانمبر ہے ناتیرے پاس… اس سے رابطہ رہے گا‘بلکہ نہیں… میں لاہور جاتے ہی اپنا نمبر تبدیل کرلوں گی‘ اور چھاکے کو دے دوں گی‘ تو مجھ سے رابطہ رکھنا‘ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
“
”ٹھیک ہے‘ میں چھاکے کاانتظار کروں گا۔ اسے کل تک بھجوادینا واپس۔“میں نے کہا اورپھر چند باتوں کے بعد فون بند کردیا۔مجھے اطمینان ہوگیاتھا۔
میں نے سہیل کو ساری روداد بتائی تو وہ چند لمحے سوچتارہا‘ پھر بولا۔
”اب تجھے بہت محتاط رہنا ہوگا جمالے۔ ایک طرف شاہ زیب ہے تو دوسری طرف پولیس‘ اور یہ جو پیرزادہ وقاص ہے نا۱ اس پربھروسہ نہیں کیاجاسکتا‘ ایسے لوگ دوسروں کوفقط شطرنج کا مہرہ خیال کرتے ہیں۔
جس سے شاہ کو بھی مارا جاسکتا ہے یاپھر اگر پٹ جائیں تو انہیں فرق نہیں پڑتا۔“
”میں سمجھتا ہوں سہیل‘ اب میں چلتا ہوں۔“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”کہاں جائے گا تو…ادھر سکون سے سوجا‘ ابھی کھانا کھاتے ہیں۔ پھر گپ شپ کریں گے۔“ سہیل نے بے تکلفی سے کہاتومیں انکار میں سرہلاتے ہوئے بولا۔
”نہیں ! مجھے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
تیراشکریہ اب بس مجھے اجازت دے۔“
”نابھائی… کھانا کھا کرجانا‘بس پانچ منٹ میں لائی۔“ بھابی نے کچن میں سے کہا تو مجھے وہاں بیٹھناپڑا۔
رات کاپہلا پہرگزرچکاتھا۔ جب میں سہیل کے گھر سے نکلا۔ میرا رخ گاؤں نورنگر ہی کی طرف تھا۔ میں نے سوچ لیاتھا کہ مجھے کیا کرنا ہے‘ بیس پچیس منٹ بعد میں اپنے ڈیرے پر تھا۔ بھیدہ ابھی سویانہیں تھا۔
اس نے میرے لیے بستر بچھایا تو دل میں اک ہوک اٹھی۔ دو دن پہلے تک میرا اپنا گھر تھا۔ جسے دشمنوں نے جلادیاتھا۔آج اگر میرے پاس یہ ڈیرہ نہ ہوا تو میں دربدر تھا۔ میں بستر پر لیٹا نہیں‘یہی سوچتا رہا‘ تبھی بھیدہ میرے پاس آکربیٹھ گیا۔
”توپریشان نہ ہوجمالے‘ رب سوہنا کرم کرے گا۔“
”ہاں اس رب ہی سے تو امیدیں ہیں ساری…“میں نے کہااور پھر لیٹتے ہوئے اس سے کہا۔ ”بھیدے…تو ایسا کر یہ بائیک لے جااور جاکر جانی شو کرکو دے دے‘ میرے بارے میں پوچھے تو بتادینا کہ میں ادھر ڈیرے پرہوں۔“