Episode 105 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 105 - قلندر ذات - امجد جاوید

جسپال رات کے پہلے پہر ہی جالندھر جاپہنچا تھا۔ اوگی پنڈ سے نکلتے وقت اس کے ذہن میں انوجیت ہی کا خیال تھا کہ بعد میں پولیس انہیں تنگ کرے گی وہ تو پہلے ہی عتاب کاشکار ہیں۔ دوسرا اس کادماغ پر ہرپریت کور چھائی ہوئی تھی۔ وہ زخمی حالت میں گھر پرپڑی تھی۔ ایسے میں اگر پولیس والے انہیں تنگ کرتے تو اس گھرانے کے لیے بہت مشکل پیدا ہوجانے والی تھی۔
یہ سب ظلم اس کی وجہ سے ان پر ہونے والے تھے۔ اس کا دل نہیں کررہاتھا کہ یوں بھاگ کر وہاں سے نکلے‘ لیکن کیشیو مہرہ کا فون آگیا تھا‘اس نے یہی زو ردیاتھا کہ جس قدر وہ جلدہی اوگی سے نکل سکتا ہے نکل آئے‘ بعد میں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ وہ کیشیو مہرہ کے اصرار پر اوگی سے نکل تو آیا تھا مگر اس کاضمیر اسے ملامت کررہاتھا کہ مشکل وقت میں وہ انوجیت اور ہرپریت کو چھوڑ کر جارہا ہے۔

(جاری ہے)

اوگی پنڈ سے چند کلومیٹر باہر آجانے تک وہ یہی سوچتا رہا‘پھر ایک جگہ اس نے بریک لگا کر گاڑی سڑک کے کنارے روک دی۔ وہ فیصلہ کرنا چاہتاتھا کہ جالندھر جائے یا نہیں۔ ابھی وہ اسی الجھن میں تھا کہ انوجیت کا فون آگیا۔
”او ہ جسپال…جالندھر پہنچے ہو یانہیں؟“
”نہیں‘ راستے میں کھڑا ہوں‘ میرا دل نہیں کررہا ہے جالندھر جانے کو‘ میں واپس آنا چاہتاہوں۔
“ اس نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”ہے پاگل… اوئے وہ کیوں؟“
”تو اورہرپریت اکیلے ہو‘ پھوپھو… میں اتنے مشکل وقت میں تم لوگوں کو چھوڑ کر کیسے جاؤں۔“ اس نے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
”اوہ نہیں اوئے جسپال‘ ایسے مت سوچ‘ یہ حالات تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ہم نے اس سے بھی مشکل اور سخت حالات دیکھے ہیں۔ ہم ان کامقابلہ نہ کرسکتے ہوتے تو اب تک زندہ ہی نہ ہوتے۔
ان کی جرات نہیں کہ ہماری طرف انگلی بھی اٹھاسکیں۔“ اس نے کافی سخت لہجے میں کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں…“ جسپال نے کہناچاہا تو وہ ٹوکتے ہوئے بولا۔
”تیرا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے اور یہ صرف چند دن کی بات ہے‘ بات پولیس کی نہیں یہاں کے غنڈوں کی ہے‘ میں نے اپنے لوگ بلوالیے ہیں‘ اس کی تم فکرمت کرو‘ میری پوری کوشش ہے کہ معاملہ قانونی بن جائے‘ پولیس والے پریال سنگھ وغیرہ کوچھوڑ رہے ہیں لیکن وہ حوالات سے باہر نہیں آرہے ہیں کیونکہ انہیں غیر قانونی طو رپرپکڑا ہے‘ پولیس والوں کوگمان بھی نہیں تھا کہ تم بلجیت کے ساتھ ایسا کردوگے۔
کچھ دیر بعد اوگی میں بہت سارے لوگ پہنچ رہے ہیں۔ کیشیو مہرہ بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آرہا ہے‘تم بس دوچار دن کے لیے اپنے آپ کومحفوظ کرلو۔“ انوجیت نے پوری تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے‘ پھر جیسا تم چاہو۔میں رابطے میں رہوں گا۔“انوجیت نے کہا‘ چند منٹ باتوں کے بعد اس نے فون بند کردیا۔ فون بند ہوا ہی تھا کہ کیشیو مہرہ کافون آگیا۔
”میں جالندھر نکودر روڈ پرہوں‘ تم کہاں ہو؟“
”میں بھی اسی روڈ پر جالندھر آرہاہوں۔“
”ٹھیک ہے‘ میری سرخ گاڑی ہے‘ میرے ساتھ دو تین گاڑیاں اور بھی ہیں۔ راستے میں ملتے ہیں۔“یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔جسپال نے گاڑی بڑھادی۔ تقریباً دس منٹ سفر کے بعد اسے دور ہی سے سرخ گاڑی دکھائی دی۔ جسپال نے فون پر بتادیا کہ میں تم لوگوں کو دیکھ رہا ہوں۔
اگلے ایک منٹ میں وہ دونوں سڑک پررک چکے تھے۔ سرخ گاڑی سے کیشیو مہرہ باہر نکلا تو اس کے ساتھ سارے لوگ باہر آگئے۔ جسپال بھی باہر آگیا تو کیشیو مہرہ نے کہا۔
”جسپال! تم اپنی چھوڑ کر اس سرخ گاڑی میں آجاؤ اور اپنی گاڑی ہمیں دے دو‘ یہاں سے دشمنوں کے لیے تمہارا سراغ ختم ہوجانا چاہیے۔ تم دو دن سکون کرو‘ پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے‘ بلجیت کے بارے میں اطلاعیں چندی گڑھ سے دہلی تک پہنچ گئی ہیں۔
بہت احتیاط کرنا۔“
”اوکے۔“جسپال نے کہااور اپنی گاڑی سے پسٹل کے علاوہ دوسری چیزیں نکال کر سرخ گاڑی کی جانب بڑھا۔ اس نے پسنجر سیٹ والا دروازہ کھولاتو اس کی نگاہ ڈرائیوینگ سیٹ پربیٹھی ایک لڑکی پرپڑی‘ وہ جیسے ہی بیٹھا‘ لڑکی نے گاڑی بڑھادی۔ پھرتیزی سے یوٹرن لے کرواپس جالندھر کی جانب چل دی۔ جسپال نے بیک مرر میں دیکھا‘ کیشیو مہرہ کی گاڑیاں بھی چل پڑیں تھیں اور لمحہ بہ لمحہ ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا گیاتھا۔
تبھی ڈرائیونگ کرتی ہوئی لڑکی نے کہا۔
”ہائے جسپال! نمریتا نام ہے میرا۔ نمریتا کور … اب چونکہ دوچار دن ہم نے ساتھ ہی رہنا ہے ‘ اس لیے تعارف ابھی ہوجائے تو اچھا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ جسپال کی طرف بڑھادیا۔ گلابی بھرا بھرا ہاتھ اس کے سامنے تھا۔ تبھی اس نے نمریتا کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے غور سے دیکھا‘ سفید گول چہرہ جس پرموٹے نقوش تھے‘ آنکھیں خاصی بڑی اور بال گھنگھریالے تھے۔
خاص طور پر اس کے گال بہت سرخ تھے۔ بھرے بھرے نرم بدن پرگلابی ٹی شرٹ اور نیلی جین تھی ‘اس کی رانیں بہت موٹی اور بھاری تھیں۔ پاؤں میں سفید سینڈل ‘جسپال نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ ”کیسی لگی ہوں میں؟“
”کس حوالے سے؟“ جسپال نے شوخ سے انداز میں سوال کردیا۔
”پہلی نگاہ میں دیکھنے کے حوالے سے‘باقی خوبیاں تو شاید بعد میں کھلیں گیں۔
“ یہ کہتے ہوئے وہ ہلکا سا قہقہ لگاکرہنس دی۔
”اچھی ہو‘ امید ہے کہ اچھی دوست بھی ثابت ہوگی۔“ جسپال نے کہا۔
”وہ تو ہوں۔ خیر…! کیشیو جی نے کہا ہے کہ آپ نے کم از کم چار دن تک باہر نہیں نکلنا اور اتنے دن گھر میں رہنے کی کوئی وجہ تو ہونی چاہیے۔ کیاپسند ہے آپ کو‘ اس کا بندوبست کردیا جائے گا۔“
”کچھ نہیں‘ بس تم ڈرائیونگ پر دھیان دو‘ باقی باتیں بعد میں۔
“ اس نے کہا اور سڑک پر دیکھنے لگا۔ نمریتا نے کاندھے یوں اچکائے جیسے اس کی بات کو وہ نظر انداز کرچکی ہو۔ پھر گاڑی کی اسپیڈ تیز کردی۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ جالندھر شہر میں داخل ہوگئے لیکن پریتم کالونی تک جاتے ہوئے انہیں آدھے گھنٹے سے بھی زیادہ لگ گیا۔ یہ شہر کا وہ علاقہ تھا جہاں پرانے انداز کی رہائشی عمارتیں تھیں۔ تقسیم کے بعد یہی پوش علاقہ مانا جاتاتھا۔
اب آبادی کے بے تحاشہ بڑھنے کی وجہ سے وہ اندرون شہر میں آگیا تھا۔ اس لیے اس علاقے میں کافی رش تھا۔ ایک بڑے سارے گھر کے وہ سامنے رکی‘ پھر ہارن کے جواب میں چوکیدار نے گیٹ کھولا تووہ اندر چلاگیا۔ رات کے سائے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ دوسری منزل پر ایک کشادہ بیڈروم میں اسے بٹھا کر نمریتا غائب ہوگئی تھی۔ کافی دیر بعد وہ آئی تو اس کے ساتھ ایک اور لڑکی تھی۔
نازک سی‘ تیکھے نقوش والی‘ اس نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔نمریتا اس کے پاس بیڈ پربیٹھتے ہوئے بولی۔
”جو کھانے میں پسند ہے اسے بتادو… یہ بنادے گی۔“
”جو مل جائے۔“ جسپال نے پرسکون لہجے میں کہاتو نمریتا نے اسے کہا۔
”جاؤ…! جو تمہاری سمجھ میں آتا ہے بنالو‘ بازار سے منگوالو…لیکن کھانا بہت اچھا ہونا چاہیے۔“
یہ سنتے ہی وہ لڑکی واپس چلی گئی تو نمریتا اسے یوں بیٹھا دیکھ کر بولی۔
”جسپال…!یار کیا سوگوار سے بیٹھے ہو۔ جاؤ‘ جاکر فریش ہوجاؤ‘ پھر کھاناکھاکر جوچاہے کرنا۔ اوکے۔“
اس پر جسپال نے اسے جواب نہیں دیا۔ بلکہ اٹھ کر واش روم کی طرف چلاگیا۔
آدھی رات سے زیادہ کا وقت گز رچکاتھا۔ جسپال کو سکون نہیں آرہاتھا‘ نمریتا گپ شپ لگا کر اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔ اس کا سارا دھیان اوگی کی طرف تھا۔ جہاں سے ابھی تک اسے کوئی خبر نہیں ملی تھی۔
اس نے خود اس لیے رابطہ نہیں کیا تھا کہ نجانے وہ کس طرح مصروف ہوں گے اور وہ ا نہیں ڈسٹرب کرے۔ یہی سوچتے ہوئے اسے خیال آیا کہ کیوں نہ ہرپریت سے بات کرے۔ یہ خیال آتے ہی اس نے سیل فون اٹھایا ‘ہرپریت کے نمبر ڈائل کردیئے۔ دوسری بیل پر اس نے فون اٹھالیا۔
”کیسے ہو جسپال؟“
”میں ٹھیک ہوں…تم سناؤ۔“
”میں بہت خوش ہوں۔ تم نے بلجیت کو جس بے رحمی سے مارا‘ اس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی‘ وہ تھاہی اس قابل‘ جالندھر ہی کے کسی ہسپتال میں ہے۔
امید نہیں ہے کہ وہ بچے گا۔“
”چلو اچھا ہے‘ لیکن میں چاہتاہوں وہ زندہ رہے۔ مگر اپاہجوں والی زندگی گزارے‘ سناؤ ابھی تک انوجیت نہیں آیا؟“
”گھرآکر پھر گیا ہے‘ کسی جگہ کوئی بہت بڑی پنچائیت ہے‘ سنا ہے کہ اس میں رویندر سنگھ بھی آئے گا۔ یہ لوگ چاہ رہے ہیں کہ اسے سیاسی ایشو بنایاجائے‘ لیکن انوجیت لوگ چاہ رہے ہیں کہ یہ قانونی مسئلہ بنے۔
حویلی جلانے پرہی یہ واقعہ پیش آیا‘ میرے خیال میں ‘یہاں پنچائیت میں اس معاملے کو ٹھپ دیا جائے گا‘ اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔“
”معاملہ وقتی طور پر دبے یانہیں‘ مجھے تم لوگوں کی فکر ہے۔ وہ کہیں قانونی شکنجے میں…“
”نہیں جسپال نہیں! تم ہماری فکر نہ کرو‘ سب ٹھیک ہوجائے گا۔“
”میں تمہیں بہت مس کررہاہوں۔“ اس نے اپنے دل کی بات کہی۔
”کاش میں تمہارے پاس ہوتی۔“ اس نے بھی کہہ دیا۔ تو دونوں کافی دیر تک یونہی گپ شپ کرتے رہے‘ پھر جسپال نے فون بند کیااور سوگیا۔
صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو نمریتا اس کے ساتھ بیڈ پر پڑی سو رہی تھی۔ اس نے مہین سی نائٹی پہنی ہوئی تھی‘ جس میں اس کا سارا بدن دکھائی دے رہاتھا۔ ایک لمحے کے لیے تو جسپال چکراگیا کہ یہ اس قدر بولڈ ہوکر میرے ساتھ کیوں پیش آرہی ہے‘ کیا ایسا سب کچھ کرنے کے لیے اسے کہا گیا ہے یایہ خود سے ہی ایسا کررہی ہے۔
یہی سوچتے ہوئے وہ باتھ روم میں گیا۔ اچھی طرح فریش ہونے کے بعد جب وہ واپس آیا تو نمریتا جاگ رہی تھی۔
”صبح بخیر جسپال…! میرے خیال میں تمہاری رات بہت اچھی گزری ہے۔“
”ہاں…! لیکن یہ تم کیا دکانداری چمکائے ہوئے ہو۔ جاؤ‘ کوئی ڈھنگ کے کپڑے پہن کر آؤ۔“اس نے نمریتا کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
”اوہ…! یہ کہتے ہوئے وہ خود میں سمٹ گئی۔
حالانکہ ایسے سمٹنے سے کچھ فرق نہیں پڑا تھا۔”وہ دراصل میں آئی تھی کہ تم سے اوگی کے بارے میں بات کروں‘ مگر تم سو رہے تھے۔“
”ہاں بولو… کیا ہے اوگی کے بارے میں…“ اس نے تجسس سے پوچھا۔
”رات گئے تک وہاں پنچائیت چلی ہے‘ جس میں بلجیت سنگھ کا باپ رویندر سنگھ اور پولیس کی اعلیٰ حکام بھی تھے۔ ظاہر ہے کیشیو مہرہ کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے‘ انوجیت کے بھی لوگ تھے۔
”بنا کیا‘ وہ بتاؤ۔“ نے تنگ آکر کہا۔
”کسی فیصلے کے بغیر وہ پنچائیت ختم ہوگئی لیکن یہ ثابت ہوگیا کہ بلجیت سنگھ کی شرارت کے باعث یہ حادثہ ہوا۔ اس کے بارے میں دلبیر سنگھ نے گواہی دی تھی۔ پولیس نے یہ کیس رجسٹرڈ کرلیاہے۔ چوکی انچارج معطل ہوگیا ہے۔ اب کیس عدالت میں چلے گا‘ لیکن تمہاری گرفتار ی کے بعد…“ نمریتا نے کہا تووہ بولا۔
”اوہ…خیر کوئی بات نہیں‘ وہ تومیری ضمانت ہوجائے گی۔“
”ہاں‘ اس کے لیے آج کوشش کی جائے گی ،نکودر میں‘ لیکن اگربلجیت نہ رہا تو صورت حال تبدیل ہوجائے گی‘ اس کے بارے میں اطلاع یہ ہے کہ وہ بچتا دکھائی نہیں دیتا۔“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط