”اب چلو بھی… جتنی جلدی پہنچاؤگے اتنا خوش کردوں گا۔“ جسپال نے ہنستے ہوئے کہا تووہ چل پڑا۔ جالندھر کی چند سڑکوں کو چھوڑ کر باقی ساری ایسی ہیں جن پر اگر رکشے میں سفر کیاجائے تو سارے جوڑ ہل جائیں۔ رکشے والا تیزی سے رکشہ چلائے جارہاتھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کن راستوں سے کدھر جارہا ہے۔ وہ چپ چاپ بیٹھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ وہ یہ سوچنا چاہ رہاتھا کہ پولیس اس تک کیسے ہنچی‘ مگر دماغ اس کا ساتھ نہیں دے پارہاتھا۔
اس نے اس سوچ کو ایک طرف رکھا اور سامنے دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد جب رکشہ رکا تو اسے سامنے جالندھر اسٹیشن کی عمارت دکھائی دینے لگی۔ وہی انگریز دور کی طرز تعمیر تھی جس پرہندی اور پنجابی کے سائن بورڈ لگے ہوئے تھے۔ جسپال نے رکشے سے اتر کربڑا نوٹ جیب سے نکالااور پھر اسے دیتاہوا بولا۔
(جاری ہے)
”لوجی‘ باقی پیسے دے دو۔“
وہ چاہتا تو سارے ہی پیسے اسے دے کر جاسکتاتھا لیکن وہ کسی کو بھی شک نہیں ہونے دے رہا تھا کہ اسے کوئی کسی حوالے سے یاد بھی رکھے۔
باقی پیسے لے کر اس نے بغیر گنے جیب میں ڈال لیے اور پھر عمارت کی جانب چل پڑا۔ عمارت کے ا ندر جاکر اسے احساس ہوا کہ ٹکٹ لینے والی جگہ تو اسے دکھائی دے گئی ہے لیکن اسے ابھی چندی گڑھ کی گاڑی مل بھی جائے گی یا انتظار کرنا پڑے گا؟ یہ معلومات اسے کہاں سے لینا تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تاکہ کسی سے پوچھ سکے‘ تبھی اسے ایک قلی دکھائی دیا۔ وہ اس کی طرف بڑھاہی تھا کہ اس کافون بج اٹھا۔
”میں منالی ہوں جسپال…! تمہاری دوست… رُکو میں آرہی ہوں۔“ اس کے ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔ جسپال نے فون بند کرکے ادھر ادھر دیکھا‘ سامنے ہی سفید شلوار قمیص اور بڑے سارے آنچل کے ساتھ‘ کھلے بال اور اس پر مرکوز آنکھوں کی ساتھ وہ خوابیدہ دکھائی دینے والی لڑکی چلتی چلی آرہی تھی۔ اگرچہ اس نے سادہ سا لباس پہن رکھاتھا مگر وہ اس میں خوب جچ رہی تھی۔
وہ اس کے قریب آکر کھڑی ہوگئی‘ پھر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی پھر چند لمحوں بعد اس سے الگ ہو کر بولی۔
”تم پریشان ہوں گے کہ پولیس تم تک کیسے پہنچ گئی۔ اس کی وجہ تمہارا یہ سیل فون ہے۔ وہ اب بھی کچھ دیر بعد تم تک پہنچ سکتی ہے‘ لہٰذا‘ اسے مجھے دو۔“
جسپال اس کے معصوم چہرے سے نگاہیں ہٹاہی نہیں پارہا تھا‘ اس نے اپنا سیل فون یوں اس کی جانب بڑھادیا جیسے کوئی معمول اپنے عامل کاحکم مانتا ہے۔
اگلے ہی لمحے ایک نوجوان ان کے قریب آیا تو منالی نے وہ فون اسے دے دیا۔ پھر بڑی ادا سے بولی۔
”اب وہ تمہیں جالندھر ہی میں تلاش کرتے رہیں گے‘ کیونکہ تمہارا فون ادھر ہی رہے گا۔ رابطے ختم‘ چندی گڑھ سے نئے رابطے ہوں گے۔“
”ٹرین جائے گی کب…؟“ جسپال نے رعب حسن سے مغلوب ہوتے ہوئے کہا۔
”ابھی کچھ دیر میں…آؤ…“ اس نے جسپال کا ہاتھ پکڑا تو اسے لگا جیسے کسی نے ریشم کے گالے نے اُسے چھوا ہے‘ وہ اس کے ساتھ چل پڑا۔
سامنے پلیٹ فارم پر لوگ گاڑی کی آمد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرین پلیٹ فارم پر آن رُکی۔ وہ ایک ڈبے میں سوار ہوگئے۔ وہ اے سی کمپارٹ تھا۔ اس نے جسپال کو سامنے بیٹھنے کو کہااور خود اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ چند منٹ بعد ٹرین نے وسل دی تو جسپال کو احساس ہوا‘ تبھی اس نے پوچھا۔
”کیاہم دونوں ہی ہیں…؟“
”کچھ لوگ ہیں ہمارے ساتھ… فکرنہیں کرو‘ پرسکون ہوجاؤ۔
“ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ دو نوجوان ان کے پاس آئے‘ ان کے پاس کچھ سامان تھا۔ وہ انہوں نے رکھااور واپس پلٹ گئے۔
”کچھ کھاؤپیوگے جسپال؟“
”ہاں۔“ اس نے سرہلاتے ہوئے کہاتو منالی اسی سامان کی طرف اٹھ گئی‘ ٹرین چل پڑی تھی۔
# # # #
دوپہر ہوچکی تھی۔ پیرزادہ وقاص کی طرف سے کافی سے زیادہ بندے آگئے تھے۔
ان میں سے چند واپس چلے گئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ اس بوڑھے اور دونوں لڑکیوں کو بھی لے گئے تھے۔ میں نے وہاں ڈیرے کے فون سے شاہ زیب سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی‘ لیکن اس نے وہ فون ہی نہیں اٹھایا جو ڈیرے کے نمبروں سے آرہاتھا۔ اس سے مجھے یہ یقین ہوگیاکہ شاہ زیب کوڈیرے پرقبضے کے بارے میں علم ہوچکا ہے۔ وہیں ڈیرے پرکافی مال ڈنگر بندھے ہوئے تھے۔
میں نے وہ سارے کھول دیئے‘ اس کامطلب تھا کہ وہ جس کے بھی ہاتھ لگتے‘ چاردن ان کافائدہ ضرور لیتے‘ اگر واپس کامطالبہ نہ کیاگیا تووہ مویشی انہی کے ہوجانے تھے۔ میں نے چاچے بیرو سے بکرے ذبح کرنے کو کہاتھا‘ اس لیے دوپہر کے وقت اچھا خاصا کھاناسب لوگوں کے لیے تیار ہوگیا۔ ہم سبھی نے ایک ہال میں کھانا کھایا‘ پھرمیں جانی شوکر اور طلحہ مانڈی‘ شاہ زیب والے کمرے میں آکربیٹھ گئے‘ باقی سب اپنی اپنی پوزیشن پربیٹھ گئے‘ تبھی جانی شوکر نے کہا۔
”جمالے …! ایک بات کہوں‘ لیکن اس کا جواب تم بہت سوچ سمجھ کر دینا۔“
”ہاں بولو۔!“ میں نے اس کے لہجے پرچونکتے ہوئے کہا۔
”میرے خیال میں سرداروں کا یہ ڈیرہ ہمارے لیے محفوظ نہیں ہے‘ تمہارا کیاخیال ہے‘ اس میں شاہ زیب کی بے عزتی نہیں ہے کہ ہم اس کے ڈیرے پرقبضہ کرکے بیٹھے ہیں۔“
”بالکل! بڑی عزتی ہے‘ علاقے میں تو شور مچ گیا ہوا ہے کہ جمالے نے سرداروں کو دبا کررکھ دیا ہے۔
آج اس نے ڈیرے پرقبضہ کرلیا ہے، کل وہ حویلی پر قبضہ کرلے گا۔“طلحہ مانڈی نے دیدے پھیرتے ہوئے کہا تو میں نے جانی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”تُو کہنا کیا چاہتا ہے؟“
”شاہ زیب چاہے سامنے نہ آئے‘ لیکن وہ اپنے بندوں کی مدد سے اور پولیس کی مدد سے ڈیرے پر سے قبضہ ضرور واپس لے گا۔ آج نہیں کل‘ ہم زیادہ دیر تک اس پرقبضہ نہیں جماسکتے۔ اورپھروہ بندے جو یہاں سے بھاگ کر گئے ہیں ان میں پتہ نہیں کون زندہ ہے‘ کون مرگیا ہے‘ وہ بھی اپنے ہی گلے پڑیں گے۔
میرے خیال میں ہم جتنی جلدی یہاں سے نکل سکیں‘ نکل جائیں‘ کہیں ہم بھی اس چوہے دان میں نہ پھنس جائیں۔“
”بات تو تیری ٹھیک ہے‘ ہم نکل جاتے ہیں لیکن یہاں سے نکلنے کے بعد جائیں گے کہاں؟“ میں نے اس سے پوچھا۔
”بہتیرے ڈیرے ہیں‘ ابھی شام ہونے میں آدھا دن پڑا ہے۔ سرداروں کی گاڑیاں ہیں‘ ان پر انہی کا اسلحہ لادتے ہیں اور کہیں بھی ٹھکانہ بناتے ہیں۔
“
”چل ٹھیک ہے۔ پھر تھوڑی دیر کیوں‘ ابھی نکلتے ہیں۔“ میں نے کہااور پیرزادہ وقاص کو فون کرکے موجودہ صورت حال کے بارے میں بتایاتووہ بولا۔
”شام تک اس علاقے میں رہو‘ میرامطلب ہے گاؤں اوراس کے اردگرد‘ شام پڑتے ہی چوہدری شاہنواز کے ڈیرے پر یا سیدھے میرے پاس میران شاہ آجانا‘ میں یہ تھوڑا سا وقت وہاں گزارنے کے لیے کیوں کہہ رہا ہوں؟ اس کی وجہ ہے‘ پورے علاقے میں تیری دھاک بیٹھ گئی ہے‘ کہ جمال سرداروں کے سامنے کھڑا ہوگیا ہے۔
اور سمجھو کہ آج کے دن سے تم دہشت کی علامت بن گئے ہو۔ شاہ زیب کو احساس ہوناچاہیے کہ تم اسی علاقے میں ہو۔ اس پر خوف طاری رہے اور اپنے بچاؤ کے لیے بھاگتا پھرے۔“
”میں ساری بات سمجھتا ہوں پیرزادہ‘ ٹھیک ہے۔ اب اسے صرف میرے اشارے پر ناچنا ہوگا“ میں نے کہا اور فون رکھ دیا۔ نجانے کیوں مجھے اس کی باتیں اچھی نہیں لگی تھیں۔ ایک احساس ہوا کے جیسے وہ اب مجھے صرف اور صرف اپنا مہرہ خیال کررہا ہے اور مجھے اپنے طو رپر چلانے کی کوشش کررہا ہے‘ اتنی بات تو میں سمجھتا تھا کہ پورے علاقے میں یہ خبر تو جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئی ہوگی میں یہی سوچنے لگا۔
”کیا سوچنے لگے ہو؟“ جانی شوکر نے پوچھا تو میں اپنے خیالات سے باہر آگیا۔
”کچھ نہیں‘ چلو اٹھونکلو…“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر بعد ہم سب ڈیرے کے صحن میں آگئے۔ سارا اسلحہ نکال کر ایک فوروہیل گاڑی میں رکھ دیا۔ سبھی لوگ باہر آگئے۔ میں نے چند ہینڈ گرینڈ اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ چاچابیرو یہ سب دیکھ رہاتھا۔ تبھی میں نے اس سے کہا۔
”چاچا…باہر آجا۔“
وہ چپ چاپ باہر آگیا اور پھر اس کچے راستے پر چل دیا جو پکی سڑک پرجاتاتھا۔ جو حویلی کے سامنے سے ہو کر قصبے کو جاتی تھی۔ جس کے دوسری طرف ہمارا گاؤں نورنگر تھا۔ میں نے انتہائی تیزی کے ساتھ مختلف کمروں میں ہینڈ گرینڈ پھینکنا شروع کردیئے۔ اس وقت میں ڈیوڑھی میں تھاجب پہلا گرینڈ پھٹا۔ میں بھاگ کر جیپ میں سوار ہواتھا۔
باقی لوگ دور نکل گئے تھے۔ میرے بیٹھتے ہی جیپ چل دی۔ تبھی یکے بعد دیگرے وہاں دھماکے ہونے لگے۔ سڑک پرجاکر میں نے ایک نگاہ ڈیرے پر ڈالی تووہ کھنڈربن چکاتھا‘اور کئی کمروں سے آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ مجھے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ ان دھماکوں کی آواز گاؤں میں ضرور سنی گئی ہوگی۔ ہم سڑک پر رُکے تو میں نے طلحہ مانڈی کو اپنے پاس بلا کر کہا۔
”اب تم جاؤ واپس…“
”کیا اب ہماری ضرورت نہیں رہی؟“ وہ حیرت سے بولا۔
”میرے خیال میں نہیں…پیرزادہ کومیرا شکریہ کہنااور بتانا کہ جلد ہی میں اسے ملنے کے لیے آؤں گا۔ آج رات کے بعد کسی وقت…“ میں نے اس سے کہا۔