”جیسے تیری مرضی جمالے… مگر ابھی خطرہ ٹلا تو نہیں ہے۔“طلحہ مانڈی بولا۔
”اب میرے لیے ہر وقت خطرہ ہی خطرہ ہے۔ کب تک سہارے تلاش کروں گا۔“ میں نے کہا تو اس نے چند لمحے میری طرف دیکھااورپھر پلٹ کر اپنے لوگوں کے پاس چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر سڑک کی مخالف سمت چل دیا۔ جانی شوکر اپنی بائیک پر تھا‘ وہ آگے چل پڑا۔میں جیپ لے کر اس کے پیچھے چلا۔
کچھ ہی دیر بعد ہم سڑک پر چلتے ہوئے وہاں آگئے جہاں حویلی کو راستہ مڑتاتھا۔ وہاں گیٹ پرخاصی ہلچل تھی‘ مگروہ لوگ خاصے دور تھے۔ ظاہر ہے ان میں شاہ زیب نہیں تھا۔میں آگے بڑھ گیا۔ میرا رُخ اب گاؤں کی طرف تھا ‘جانی شوکر پہلے ہی گاؤں میں مڑچکاتھا۔
میں نے جاتے ہی چھاکے کے گھر کے آگے گاڑی روکی۔ وہ واپس آچکاتھا۔
(جاری ہے)
مجھے دیکھتے ہی میرے ساتھ آکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
”یہ جیپ تو سرداروں کی ہے۔ یہ دھماکے تونے ہی کیے ہیں نا۔“ اس نے تصدیق کرنے والے انداز میں پوچھا تو میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں…! ان کا ڈیرہ جلادیا میں نے۔“
”اب حویلی …؟“ اس کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی۔ تبھی میں نے پوچھا۔
”دیکھتے ہیں‘ پرتو مجھے اماں اور سوہنی کے بارے میں بتا۔“
”یہاں سے چل۔
دلبر کے ڈیرے پر۔“
”پیچھے دیکھو۔ اسے بھی سنبھالنا ہے۔“ میں نے اس کی توجہ اسلحہ کی طرف دلائی تووہ دیکھ کر بولا۔
”اس کو سنبھال لیتے ہیں تو اُدھر چل۔“
میں نے جیپ ادھر بڑھادی‘ تب وہ مجھے بتانے لگا۔
”ہم رات کے آخری پہر لاہور پہنچ گئے تھے۔ وہ اپنی اس کوٹھی میں نہیں گئی‘ جہاں پہلے رہتی تھی‘ بلکہ ماڈل ٹاؤن میں چلی گئی ہے۔
جہاں پہلے ہی کوئی ماضی کی فلمی اداکارہ رہتی ہے۔ اس نے مجھے وہاں کا سارا پتہ ٹھکانہ سمجھایا ہے‘ اپنا نمبر دیا ہے جس سے اب رابطہ ہوسکتا ہے ۔ میرے خیال میں وہ وہاں پرمحفوظ ہے۔“
”تو کہتا ہے تومیں یقین کرلیتا ہوں۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہاتووہ بھی ہنس دیا۔ ہم اس خوشگوار موڈ میں دلبر کے کنویں پرجاپہنچے۔ جہاں معمول کے مطابق کافی سارے لوگ بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔
مجھے دیکھتے ہی وہ نعرے مار کر اٹھ بیٹھے ۔ انہوں نے تاش ایک طرف پھینک دی تھی۔ وہ خوشی کااظہار اس لیے کررہے تھے کہ میں نے شاہ زیب کو دن میں تارے دکھادیئے اور اسے ناچنے پرمجبور کردیا۔ وہ میرا گھر تو جلابیٹھااب بزدلوں کی طرح اپنا علاقہ اور حویلی چھوڑ کر بھاگا ہوا ہے۔
فتح ہمیشہ وقتی ہوتی ہے‘ اس کادورانیہ چاہے جتنا طویل ہو‘ کیونکہ اس میں ہمیشہ شکست کاخطرہ موجود رہتا ہے۔
تاہم جدوجہد میں نہ صرف لذت ہے بلکہ اس میں کوئی نہ کوئی مقصد شامل ہوتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی جستجو میں انسان کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ یوں فتح اور کامیابی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس وقت وہ لوگ میری فتح اور جرات مندی کی باتیں کررہے تھے لیکن میں محسوس کررہاتھا کہ یہ سب فضول ہے۔ میرا مقصد سردار شاہ دین کوختم کرنا تھا۔وہ کردیا لیکن اس کے بعد میں جو کچھ بھی کررہاتھا‘ یہ مجھے کسی اور ہی راستے پر لیے جارہاتھا۔
کچھ دن بعد تک جب میں پولیس کے ہاتھ نہیں آؤں گا تو مجھے اشتہاری قرار دے دیاجائے گااور پھراپنی آخری سانس تک میں خود کو بچاتے گزار دوں گا۔ اشتہاری کی موت کبھی اچھی نہیں ہوتی۔ یہ میں اچھی طرح جانتا تھا۔ وڈیرے‘ جاگیردار اور یہ سردار یہی تو کرتے ہیں‘ جوبندہ بھی علاقے میں سراٹھاتا ہے‘ اسے اپنی چھترچھاؤں میں لے کر اشتہاری بنادیتے ہیں۔
یہ کوئی مثبت رویہ نہیں ‘ لیکن اس منفی رویے سے ان کی حاکمیت‘ قائم رہتی ہے۔اب میں بھی اپنی جان بچانے اور شاہ زیب کو مارنے کی فکر میں تھا‘ پھراس کے بعد ایک طویل جنگ تھی جو کسی نہ کسی کے ساتھ لڑتے رہناتھا۔
”کیا سوچ رہے ہو؟“ چھاکے نے پوچھا۔
”یہی کہ اب شاہ زیب تک کیسے پہنچا جائے؟“
”اس کاپتہ بھی چل جائے گا۔ فی الحال اپنا کوئی ٹھکانہ تو بنائیں۔
“ میں نے کہا۔
”چند دن تو یونہی گزارناپڑیں گے۔ جتنے دن تک دوبارہ گھر نہیں بن جاتا‘ اتنے دن تو شاہ زیب کو تلاش کرنے میں بھی لگ جائیں گے۔“ چھاکے نے مجھے سمجھایاتو میں نے کہا۔
”اچھا یار! کوئی بندہ بھیدے کے گھر جائے‘ میں اپنے پرانے کپڑے اسے دیتا رہا ہوں۔ کوئی جائے اور کوئی صاف جوڑا تو لے آئے۔“
میرے کہتے ہی ایک نوجوان سا لڑکا اٹھااور بائیک پرسوار ہو کر گاؤں کی طرف چلا گیا۔
اس کے بعد وہاں خیال آرائی ہونے لگی کہ شاہ زیب کہاں ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان سب کا یہی خیال تھا کہ جب تک شاہ زیب والا معاملہ حل نہیں ہوجاتا‘ کہیں مستقل ٹھکانہ نہ رکھا جائے‘ بلکہ جہاں تک ممکن ہوسکے کسی کوٹھکانے کے بارے میں علم ہی نہ ہواور پھر اتنی بھیڑ بھی اپنے ساتھ نہ رکھے‘ وہ سب پورے خلوص سے مشورہ دے رہے تھے اور میں نے سوچ لیاتھا کہ مجھے کیا کرنا ہے‘ میں نے یہی سوچا کہ میں رات کے وقت اپنے نورنگر کے علاقے میں رہوں گااور دن کے وقت کسی جگہ چھپ کے وقت گزاروں گا۔
مجھے صرف شاہ زیب کو ختم کرنا تھا۔ تب تک میرا نورنگر میں کوئی کام نہیں تھا۔ سو میں نہادھو کرقصبے کی طرف نکل جانے کاارادہ رکھتاتھا تاکہ وہ رات سہیل کے پاس گزاروں۔
میں نے وہیں ڈیرے پر نہا کرکپڑے بدلے اور تروتازہ ہوگیا۔ اس وقت میں وہاں سے اٹھنے کے لیے پرتول رہاتھا کہ دور سے مجھے ایک موٹر سائیکل والا نوجوان آتادکھائی دیا۔ اس کے پیچھے ہمارے گاؤں کاایک بزرگ تھا جنہیں ہم نے پنچائیت کا رکن بنایا ہوا تھا۔
وہ تیزی سے ہمارے قریب آتے چلے جارہے تھے۔ میرے سمیت وہاں پرموجود ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ یہ یہاں کیوں آرہے ہیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے ڈیرے پر موٹر سائیکل روکی اور وہ بزرگ ہمارے درمیان آکر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے اپنے سامنے بٹھالیا تو سبھی ہمہ تن گوش ہوگئے۔
”دیکھ پتر جمال! ہم جانتے ہیں کہ شاہ ز یب نے خواہ مخواہ تم سے دشمنی بنائی ہے۔
اس کی وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس میں تمہارا نقصان ہوا اور تم دن بدن جرم کی راہ پر چلتے چلے جارہے تھے ۔ اس کے بعد ہوگا، کیاتم اشتہاری بن جاؤگے اور تم موت کے خوف سے پہلے ہی مرجاؤگے۔“
”لیکن اب میں کروں بھی کیا؟ میں اپنے آپ کوبھی نہ بچاؤں‘ میری ماں کدھر ہے؟ اس کا جواب ہے آپ کے پاس؟ اب میرے یا شاہ زیب کے درمیان دشمنی چل پڑی ہے‘ ہم میں سے کوئی ایک ختم ہوگا تو اس کاانجام ہوگا ورنہ نہیں۔
“
”اس کی درمیانی راہ بھی نکل سکتی ہے۔ یہ دشمنی کسی کے ختم ہوئے بغیر بھی ختم ہوسکتی ہے۔“ بزرگ نے پورے خلوص سے کہا۔
”کیسے ؟ “ میں نے پوچھا۔
”بیٹا مجھے غلط مت سمجھنا‘ میں تمہیں ایک مشورہ دینے جارہا ہوں‘ اس پرخوب سوچ لینا‘ پھر بات کرنا‘ میں نہیں کہتا کہ تم شاہ زیب سے معافی مانگ لو‘ بلکہ شاہ زیب نے اپنے باپ کے قتل کا الزام اگر تم پرلگایا ہے تو اس کاسامنا کرو‘ تم نے اگر یہ گناہ نہیں کیا تو پھر نہیں کیا‘ یہ ثابت کردو۔
“
”بابا…! آپ پرانی باتیں کررہے ہیں‘ میں جس رات حوالات میں تھا‘ اس رات شاہ زیب کے لوگوں نے میرے گھر کو جلایا‘ میں نے تو اس نیت سے خود کو پولیس کے حوالے کیاتھا‘ مگر وہاں کیا ہوا؟ میری گرفتاری تک نہیں ڈالی گئی‘ اور اگلے دن مجھے ماورائے عدالت ہی قتل کرنے کی سازش بنائی گئی تھی۔ انہوں نے یہ طے کرلیا کہ مجھے جان سے مارنا ہے تو پھر یونہی سہی۔
جن لوگوں نے میرے گھر کو جلایا تھا‘ ان سے تو میں نے بدلہ لے لیا۔ اب بس شاہ زیب باقی ہے۔“
”ڈیرے پر جو تم نے گولی چلائی ہے نا‘ اس میں دو بندے مرگئے ہیں‘یہ قتل تمہارے سر ہوگئے ہیں۔ سردار شاہ دین کے قتل میں جو ہم سمجھتے ہیں کہ تم پرالزام ہے‘ اس سے تو بچ جاتے لیکن اب ان میں تم پولیس کومطلوب ہوگئے ہو او ردن بدن تم اس دلدل میں پھنستے چلے جاؤگے۔
“
” اب پھر کیا ہوسکتا ہے؟“ میں نے اس بزرگ کا عندیہ معلوم کرنا چاہا۔ جو اب تک اس نے نہیں بتایا تھا۔
”دیکھو! تم خود کو پولیس کے حوالے کردو‘ تم قانونی جنگ لڑو‘ میں نہیں چاہتا کہ تم پولیس کے ہاتھوں کسی مقابلے میں مارے جاؤ‘ کیونکہ اس وقت پولیس نے پورے نورنگر کو گھیرا ہوا ہے‘ پولیس کو اسی وقت اطلاع ہوگئی تھی جب تم نے ڈیرے پرقبضہ کیاتھا۔
انہیں معلوم ہے کہ تم اس علاقے میں ہو‘ نہ جانے انہیں یہ بھی معلوم ہو کہ تم اس ڈیرے پرموجود ہو۔ وہ گھیرا تنگ کریں گے‘ تم نکلنا چاہوگے اور وہ جو شاہ زیب چاہتا ہے‘ وہ ہوجائے گا۔“
”اور اگر جمالا یہاں سے نکل جائے تو…“ چھاکے نے کافی حد تک غصے میں کہا۔
”نکل گیا تو نکل گیا‘ کیا پھر خطرہ ٹل جائے گا۔ رسک ہے نا میرا پتر‘ جمالے کے ساتھ ان سب میں سے کسی کی جان بھی جاسکتی ہے۔
“ بزرگ نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”بابا…! تو ہمیں ڈرانے آیا ہے یاپولیس کوپیغام لے کر‘ تیرا مقصد کیا ہے؟“ چھاکے نے پوچھا۔
”دوپہر سے پولیس گاؤں میں ہے‘ اردگرد کے علاقے کے کچھ معززین بھی وہیں موجود ہیں۔ آج یا کل جو بھی ہوا اس کی پورے علاقے کو خبر ہوچکی ہے‘ پہلے جو کچھ ہوا‘ وہ کیا تھا اس بارے میں ہم نہیں جانتے‘ لیکن اس بار اگر تو گرفتاری دے دیتا ہے تو یہ گرفتاری یونہی نہیں ہوگی‘ بہت کچھ طے کرکے یہ گرفتاری دی جائے گی۔
شاہ زیب کا گند، اب ہمی نے سمیٹنا ہے۔“
”مطلب‘ جمال جائے اور پولیس کوگرفتاری دے دے…“ چھاکے نے چونکتے ہوئے کہا۔
”اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘ ورنہ خواہ مخواہ میں خون خرابہ ہوگااور اس کاحاصل کچھ بھی نہیں ہے۔“ بزرگ نے متانت سے کہا۔
”وہ کیا طے کریں گے۔“ میں نے پوچھا۔
”یہ تُو بتادے۔ پھر بیٹھ کر اچھا ہی کریں گے۔ اب اس علاقے میں مزید خون ریزی برداشت نہیں ہوسکتی۔“ بزرگ نے سکون سے کہا۔