Episode 112 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 112 - قلندر ذات - امجد جاوید

”فی الحال ہم سپرہائی وے پرجائیں گے تب تک میڈم کا فون آجائے گا۔“ ڈرائیور نے کہااور پوری توجہ سڑک پر لگادی۔ تبھی اچانک انہیں سڑک پر پولیس کی گاڑیاں تیزی سے جاتی ہوئی دکھائی دیں۔ جسپال چونک گیا کہ شہر میں ہلچل مچ گئی ہے۔ اس دوران منالی کا فون آگیا۔
”جسپال! اگرچہ ہم نے مقصد تو حاصل کرلیا ہے‘ مگر یہ ہماری غلط فہمی تھی کہ وہ لوگ محتاط نہیں ہوں گے۔
”کیا ہوا؟“ وہ چونکا۔
”میں ابھی تک شاپنگ سینٹر میں پھنسی ہوئی ہوں۔ یہ تم نے اچھا کیا کہ دیوار توڑ کر نکلے‘ ورنہ دھر لیاجانا تھا۔ اب پولیس پورے شہر میں ناکہ بندی کرچکی ہوگی۔“
”ہوا کیا؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”مجھے لگ رہاہے کہ جیسے وہ لوگ تمہاری یہاں آمد کے بارے میں جانتے تھے۔

(جاری ہے)

جالندھر اسٹیشن پر رابطہ نہیں کٹا‘ ہم نگاہوں میں تھے۔

“ منالی نے کہا۔
”پھرتیرے لیے تو بہت مشکل ہوجائے گی ۔ میں واپس آرہاہوں۔“
”ہرگز نہیں‘ بلکہ فون ڈرائیور کودو۔“ اس نے تیزی سے کہا‘ میں نے فون اسے دے دیا۔ وہ چند منٹ سنتا رہا‘ پھر فون بند کرکے جسپال کودے دیا۔
”میڈم کہہ رہی ہے کہ جس قدر جلدی اس شہر سے نکل سکتا ہوں‘ نکل جاؤں‘ جیسے جیسے وقت گزرے گا یہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔
”توپھر…؟“ اس نے پوچھا۔
”دیکھتے ہیں کدھر نکلتے ہیں؟“ یہ کہہ کر اس نے گاڑی کی رفتار آہستہ کردی اور پھر ایک ذیلی سڑک پر ڈال لی جہاں سے کچھ آگے جاکر بسوں کاایک اسٹاپ تھا‘ ڈرائیور نے گاڑی وہاں آگے روکی اور جسپال کو اشارہ کرکے نیچے اتر آیا۔ دونوں پیدل چلتے ہوئے واپس اسٹاپ پر آگئے۔
”چندی گڑھ سے اپنی سواری میں نکلنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
ہر جگہ اپنی شناخت دینا پڑے گی۔ یہاں بس میں بیٹھ کر شہر سے نکلتے ہیں۔“
”اوکے !“ جسپال نے سمجھتے ہوئے کہا اور اسٹاپ پر آکر کھڑا ہوگیا۔چند لمحوں بعد اس نے ڈرائیور سے پوچھا۔”تیرانام کیا ہے؟“
”اپنی دنیا کے لوگوں کا کیا نام ہوگا‘ آپ جو مرضی پکار لو۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
”پھر بھی یار‘ اب ہمارا ساتھ تو ہے نا…“
”رانا چرن ،نام ہے میرا‘ اب آپ جو چاہو بلالو۔
اس نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔ حالانکہ اس میں شرمندگی والی کوئی بات نہیں تھی۔
انہیں وہاں کھڑے ہوئے چند منٹ ہوئے تھے کہ ایک طرف سے چند لوگ آکر کھڑے ہوگئے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی‘ تقریباً دس منٹ میں وہاں سات آٹھ سواریاں ہوگئیں۔ تبھی چندی گڑھ کی طرف سے بس آتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ لوکل بس تھی اور جب وہ ان کے قریب آکر رکی تو راناچرن نے تیزی سے کہا۔
”یہ بس سیسر تک جائے گی‘ قریب ہی شہر ہے چھوٹا سا۔“
”یہ تو تمہیں معلوم ہے کہ کدھر جانا ہے۔“ جسپال نے الجھتے ہوئے کہاتو اسی تیزی سے بولا۔
”سیسر راجھستان میں ہے‘ وہاں پہنچتے ہی ادھرکی پولیس سے چھٹکارا مل جائے گا۔ بس وہاں پہنچنے کی دیر ہے۔ جلدی بیٹھیں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ بالکل آخر میں سوار ہونے والی سواری کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔
وہ دونوں بس میں سوار ہوگئے‘ جس میں پہلے ہی سے بہت رش تھا۔ جسپال کو لگا جیسے وہ کہیں پنجرے میں پھنس گیا ہے‘ لیکن پولیس سے بچنے کے لیے یہ جائے پناہ اچھی تھی۔ اسے بیٹھنے کے لیے کہیں سیٹ دکھائی نہ دی تووہ سکون سے کھڑا ہوگیا۔ وہ بیٹھ کر ہی منالی کوپیغام بھیج سکتا تھا۔
                                # # # #
حوالات کی سلاخوں کے پیچھے رات جیسے تیسے گزر گئی۔
میرے ساتھ جو تین بندے تھے‘ وہ ایک دن پہلے تک ایک دوسرے سے اجنبی تھے‘ شام تک وہ بھی یوں ہوگئے تھے جیسے برسوں سے یارانہ ہو۔ تقریباً دو گھنٹے بعد میں ان کے ساتھ گھل مل گیا۔ انہیں تاش کھیلنے کے لیے چوتھے بندے کی ضرورت تھی‘ وہ میری صورت میں ان کے پاس آگیا تھا۔ حوالات کے مدقوق پیلے بلب کی روشنی میں رات گئے تک تاش کی بازیاں چلتی رہیں۔ پھر پتہ نہیں کب سوئے تھے کیونکہ صبح جب آنکھ کھلی تو روشنی ہر جانب پھیل چکی تھی۔
تھانے کا گیٹ کھلاتو بھیدہ میرے لیے ناشتہ لیے کھڑا تھا۔ اس کے پیچھے ہی سہیل تھا‘ میرے ساتھی حواتیوں نے جب تک کھانا کھایا‘ تب تک میں نے بھی ناشتہ کیا پھر بھیدے سمیت سہیل سے بھی باتیں کرتا رہا۔ بھیدہ سہیل کی وجہ سے پہلے جھجکتا رہا تھا‘ پھر جب وہ پہچان گیا کہ وہ بھی جگری دوست ہے تو اس نے مجھے چھاکے کا پیغام دیا۔
”وہ نا چھاکے نے ایک اڑتی اڑتی خبر سنی ہے‘ وہ تمہیں بتانا تھی۔
“ اس نے آہستگی سے کہا۔
”کیا ہے خبر؟“ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”ڈی ایس پی سے معاہدہ تو یہی ہوا ہے ناکہ آج تم عدالت میں پیش ہوگے تو تمہاری ضمانت ہوجائے گی‘ پیرزادہ وقاص تمہاری ضمانت دے گا‘ ریمانڈ نہیں ہوگا۔“
”ہے تو ایسی ہی…“ میں نے کہا۔
”لیکن راتوں رات ڈی ایس پی تبدیل ہوگیا ہے۔ نیا جو ہے وہ شاہ زیب کے ہاتھ کابندہ ہے ‘اس سے کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ کیا کرے۔
“ بھیدے نے تو مجھے چونکا دیا۔
”اگر ایسا ہوگیا تو معاملہ بہت خراب ہوجائے گا۔ یہ جو نیا ڈی ایس پی آیا ہے‘ اور شاہ زیب کے ہاتھ کابندہ ہے۔ اسے ایویں ہی راتوں رات تبدیل نہیں کروایا گیا۔ اب اتنی کوشش کرکے جو اسے یہاں لگوایا ہے تو ۔۔۔“ میں نے تشویش زدہ لہجے میں کہا تو سہیل نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اب یہ دیکھ لو‘ شاہ زیب نے بڑے وقت پر پتہ کھیلاہے۔
پہلے وہ ریمانڈ کے چکر میں تمہیں ادھ موا کریں گے‘ پتہ نہیں کیا کیا جرم تیرے گلے میں ڈالیں گے‘ اس کااندازہ تمہیں اس وقت ہوجائے گا‘ جب تم جج کے سامنے پیش ہوگے‘ بس دوچار گھنٹے ہی ہیں‘ ابھی سب پتہ چل جائے گا۔“
”مطلب پیرزادہ وقاص کوشش کرے گا‘ لیکن یہ کوشش پوری نہیں ہوگی۔“ میں نے سوچتے ہوئے کہا‘ پھر دھیرے سے ہنستے ہوئے کہا۔ ”اب کیا کیا جائے‘ قسمت ہی میں ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی‘ برداشت کریں گے جو ہوگا دیکھاجائے گا۔
”توفکرنہ کر‘ میں تم سے پہلے عدالت میں ہوں گا‘ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔“ سہیل نے مجھے تسلی دی‘ جو بہرحال دل کو تسلی دینے والی بات تھی۔ اصل معاملہ تو تب کھلناتھا جب میں جج کے سامنے پیش ہوتا۔ ابھی تک تو قیاس آرائیاں ہی تھیں۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں برتن لے کر واپس چلے گئے میں آئندہ کے بارے میں سوچنے لگا کہ اب کیا ہوگا؟
تقریباً سات بجے کے قریب قیدیوں کو لے جانے والی گاڑی تھانے کے اندر آگئی۔
ہم چاروں ہی تھے۔ ہمارے ساتھ پانچ کانسٹیبل اور انسپکٹرمنیر باجوہ اگلی سیٹ پربیٹھ گیا۔ گاڑی چل پڑی اور میں ذہنی طور پر تیار ہوگیا کہ مجھے واپس پلٹ کر اسی حوالات میں آنا ہے‘ میں قصبے کی حوالات میں تھااور نزدیک ترین شہر‘ جس میں سیشن جج بیٹھتاتھاوہ تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ جس سڑک پر ہم نے سفر کرنا تھا‘ اس کے دائیں طرف سرسبز وشاداب کھیت تھے اور بائیں جانب ریلوے ٹریک ‘ جس کے آگے جنوب تک چولستان کا وسیع وعریض علاقہ تھا۔
موسم خاصاگرم ہوچکاتھا۔ قصبے سے نکلتے ہی ایک حوالاتی نے کان پر ہاتھ رکھ کر ماہیاگانا شروع کردیا۔ جس سے میں ان سوچوں سے باہر نکل آیا کہ مجھ پر کیا کیا الزامات لگائے جائیں گے جس کی وجہ سے میری ضمانت نہیں ہوپائے گی۔ ویسے بھی یہ خام خیالی ہی تھی کہ قتل کے ملزم کو فوراً ضمانت پر نہیں چھوڑا جاسکتاتھا۔ وہ ماہیا گاتا رہا اور دوسرے اس سے محظوظ ہوتے رہے لیکن میں اپنی ہی سوچوں کی بھول بھلیوں میں کھویا رہا۔
مجھے تھانے اور کچہری کی دشوار گزار اور تھکادینے والی راہوں سے گزرنا ہوگا۔ میں دراصل ان سے نہیں گھبراتاتھا‘ میں صرف ان سازشوں سے ڈرتاتھا کہ پتہ نہیں کب اور کس وقت ماورائے عدالت میرے لیے کوئی حکم جاری ہوجائے۔ اصل میں ہمارے ملک کا جو تفتیشی نظام ہے یا پھر جو سزا وجزا کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں‘ اس میں اِس قدر لچک ہے کہ سیاہ کوسفید اورسفید کوسیاہ کیاجاسکتا ہے۔
سفید چمڑی والے جونظام چھوڑ کر گئے تھے‘ کالے انگریزوں نے اس کو اب تک مسلط رکھا ہوا ہے‘ جس میں انسانی تذلیل زیادہ ہے ۔انہی سوچوں میں الجھتے ڈوبتے ہم ضلعی عدالت میں جاپہنچے۔ ہمیں کواتوالی میں رکھا گیا۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ ہمیں آواز پڑے اور ہم جج کے سامنے پیش ہوں۔ نیا ڈی ایس پی اب تک سامنے نہیں آیا تھا۔ اور اسے آنے کی ضرورت بھی نہیں تھی‘ منیر باجوہ ہی کافی تھا کچھ دیر بعد وہ گھوم کرمیرے سر پرآن کھڑا ہوا‘ کچھ دیر میری طرف دیکھتا رہا‘ پھر طنزیہ لہجے میں بولا۔
”بہت مان تھاناتجھے خود پر‘ دیکھ یہاں عدالت میں تیرے لیے کوئی بھی نہیں آیا‘ بڑا پیرزادہ پیرزادہ کرتاتھا‘ وہ اب نہیں آئے گا۔“
”چلو نہیں آتاتو نہ آئے‘ وہ کون سامیرے مامے کاپتر ہے۔“ میں نے تنک کر کہا۔
”وہ تیرے مامے کا پتر بن بھی نہیں سکتا‘ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگواتیلی‘ جاگیرداروں کے یار جاگیردار ہی ہوتے ہیں۔
رات اس نے شاہ زیب سے سودے بازی کرلی ہے‘ تجھے اس نے ایک مہرے کے طور پراستعمال کرکے پھینک دیا۔“ اس نے طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے نفرت سے سر کو جھٹکا۔
”چل میں تو مہرہ کی طرح استعمال ہوگیا‘ تو ان کی خدمت داری نوکروں کی طرح کررہا ہے یا وفا داری…“ میں نے کہنا چاہا تووہ میری بات کو سمجھ کر ٹوکتے ہوئے بولا۔
”بکواس نہ کر اوئے‘ میں افضل رندھاوا نہیں‘ جو تیرے ساتھ یاری نبھاتے ہوئے معطل ہو کربیٹھا ہے، میں منیر باجوہ ہوں‘ جانتاہوں کس بندے کو کس طرح انگلی پرنچایاجاتا ہے۔
”جب تک تیرا ڈی ایس پی نہیں بدلاتھا‘ اس وقت تک تُوکس کی انگلیوں پر ناچ رہاتھا؟“ اس بار میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”اوئے بات سن اوئے‘میں نے تھانیدار ہی رہنا ہے‘ شاہ زیب نے ایم این اے بن جانا ہے اور پیرزادے کامعاہدہ ہوا ہے کہ وہ ایم پی اے بنے گا لیکن تیرے جیسے حوالات میں ریمانڈ پر مار کھاتے ہیں اور پھر جیلوں میں سڑتے ہیں۔
تو ضمانت کے خواب نہ دیکھ‘ کم از کم چودہ دن کا ریمانڈ میں نے لینا ہے‘ اور تیری ساری اکڑ نکالنی ہے۔ یہ خواہش میں بڑے دنوں سے اپنے دل میں لیے پھرتا ہوں۔“
”یار! تونے جو کرنا ہے کرلینا‘ عورتوں کی طرح دھمکیاں کیوں دے رہا ہے۔ ویسے کتنے قتل ڈالنے کو کہا ہے شاہ زیب نے اوراس کے لیے کتنی رقم دی ہے ؟“ میں نے اسے چڑانے کے لیے کہہ دیا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط