Episode 113 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 113 - قلندر ذات - امجد جاوید

”یہ تو تجھے جج صاحب کے سامنے جاکر معلوم ہوگانا‘ کیا ہوتا ہے تیرے ساتھ اور پھرچودہ دن تو میرے ہاتھوں میں ہے۔“ ا س نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرادیا۔ نجانے کیوں اس وقت مجھے انسانی نفسیات بڑی عجیب سی لگی‘ بزدل ‘ گھٹیا اور منافق انسان ہمیشہ اس وقت کھلتا ہے جب سامنے والا انسان اسے بے بس دکھائی دے۔ میں جو خود کو اس قانونی عمل سے گزارنے کے لیے خود کوپیش کرچکاتھا‘ اورمیرے ذہن کے کسی کونے میں یہ بھی تھا کہ اگر سردار شاہ دین کا قتل مجھ پر ثابت بھی ہوجاتا ہے تومیں جیل بھگتنے کے لیے تیار تھا۔
میں اتنا تو جانتاتھا کہ پھانسی تک لے جانے والے ثبوت ان کے پاس نہیں ہوں گے‘ لیکن ابھی کچھ بھی نہیں ہوا تھااور منیر باجوہ اپنے دل کی ناجائز خواہش مجھے بتارہاتھا۔

(جاری ہے)

ایک بارتومیرے دل میں اٹھی کہ یہاں سے بھاگ جاؤں‘ میں نے اپنے طو رپر جائزہ لے لیاتھا کہ چاہے میں ہتھکڑی میں ہوں ان کے چنگل سے نکل کر بھاگ سکتاہوں۔ مگر یہ جلد بازی تھی‘ میں دیکھنا چاہتاتھا کہ یہ مجھے کس طرح پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔


دوپہر سے ذرا پہلے ہمیں آواز پڑی تو منیر باجوہ مجھے ہتھکڑی سمیت عدالت میں لے گیا۔ میں حیران تھا اور کسی حد تک مجھے افسوس بھی ہو رہاتھا کہ پیرزادہ وقاص وعدہ کرنے کے باوجود بھی عدالت نہیں آیا تھا۔ چلو وہ نہ آتا تو کم از کم اس کا کوئی وکیل ہی ہوتا۔ تھوڑی بہت کوشش تو ہوتی‘ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہواتھا۔ میں اکیلاتھا‘ نورنگر کے یااس علاقے میں سے کوئی بندہ وہاں موجود نہیں تھا جن لوگوں نے معاہدے کے ساتھ میری گرفتاری دلوائی تھی۔
میں سمجھ گیا کہ اب میری قسمت مجھے کہاں لیے جارہی ہے‘ سو میں نے اپنے آپ کو قسمت اور حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔
میں جب عدالت سے باہر آیا تو اس وقت میں انتہائی خطرناک مجرم تھا۔ مجھ پر سردار شاہ دین کے قتل سے لے کر کئی دوسرے قتل بھی کرنے کا الزام تھا۔ شاہ زیب نے بڑی اچھی پلاننگ کی تھی۔ ایسے وقت پر پیرزادہ وقاص سے سمجھوتہ کرلیاتھا جب مجھے گرفتار کرلیا گیا۔
اس دوران جو ثبوت پیش کیے گئے وہ سبھی ”ریڈی میڈ“ تھے۔ ضمانت تو اب کیا ہونی تھی‘ اب تو مقدمہ ہی چلناتھا۔ نجانے کب تک حوالات مقدر میں تھی اور پھرجیل کی زندگی‘ پھانسی ہوتی یاعمر قید، جو بھی تھا، اس فیصلہ کے انتظار میں کتنا وقت بیت جاناتھا۔ اس دوران رہائی کی امید تو کی جاسکتی تھی لیکن نصیب میں رہائی کے لیے مجھے جنگ لڑناتھی۔ میں سمجھ رہاتھا کہ اب یہ پیسے اور تعلقات کا کھیل ہے۔
مہنگا وکیل اور ریڈی میڈ گواہوں کے بل بوتے پر مقدمے کا رخ کہیں سے کہیں کیاجاسکتاتھا۔ کچھ دیر کے لیے مجھ پرمایوسی چھاگئی تھی‘ لیکن اگلے ہی لمحے نجانے کیوں مجھے اماں کی دعاؤں پر بھروسے کا خیال آگیا تو میرے اندر ایک دم سے حوصلہ بھرگیا۔ کیاہوا جو وقتی طور پر منافقین جیت گئے ہیں‘ مجھے بہرحال ان سے لڑنا ہے اور اس وقت تک لڑنا ہے جب تک میری آخری سانس ہے۔
اس جنگ کی نوعیت کسی قسم کی بھی ہو اور میدان جنگ کیسا بھی ہو۔عدالت کی غلام گردشوں سے نکل کر قیدیوں کی گاڑی تک آتے ہوئے مایوسی کا دریا پار کرگیا تھا اور اب میں حوصلے کے میدان میں تھا۔ میرے ساتھ تینوں حوالاتی تھے۔ وہ بھی آگئے تو ہمیں گاڑی میں سوار کرایا گیا۔ انسپکٹر منیر باجوہ ہمیں اپنی نگرانی میں سوار کرارہاتھا۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ مجھے بے چین کررہی تھی۔
جس وقت میں نے گاڑی میں داخل ہونے کے لیے قدم اٹھایا تو اس نے انتہائی حقارت سے کہا۔
”اُوچل جلدی کربیٹھ‘ واپس چل کر تیرے اندر سے بدمعاشی کونکالنا ہے‘ دیکھتے ہیں تو میری خاطر تواضع کس قدر برداشت کرتا ہے۔“
میں ایک دم سے بھنا گیا۔ مگر اس وقت مجھے خود پر قابو پانا ہی تھا۔ میں سمجھتاتھا کہ وہ گھٹیا لوگ ہوتے ہیں جو کسی کو گھیر کر بڑھکیں مارتے ہیں‘ میں اس وقت اکیلا تھا‘ میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی اور میں نہتاتھا۔
وہ مجھے غصہ ہی اس لیے دلارہاتھا کہ میں کچھ ایسا کروں کہ وہ میرے جرائم کی فائل میں ایک نئے ورق کااضافہ کردے۔ میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ میں نے خود پر قابو پایااور گاڑی میں سوار ہوگیا۔ ان تینوں حوالاتیوں کے ملنے والے آئے تھے‘ وہ انہیں کافی کچھ کھانے پینے کو دے گئے تھے جبکہ میرے لیے کوئی نہیں آیا تھاَانہوں نے مجھے کافی کچھ کھانے پینے کو دیاَ میں نے سب طرف سے ذہن کو جھٹک کر کھانے پینے کی طرف توجہ کردیَ جو ہونا ہے وہ تو ہو کرہی رہناہے‘ بھوکا تو نہ رہاجائے ۔
دوپہر کے بعد ہم وہاں سے چل دیئے۔ اچھی خاصی دھوپ تھی اور موسم صاف تھا۔
اس وقت ہمیں سفر کرتے ہوئے تقریباً آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا۔ ہم شہر اور قصبے کے درمیان میں تھے‘ جب ہماری گاڑی آہستہ ہوئی۔ ٹریفک کے دوران ایسا ہوتا ہے کہ کبھی تیز اور کبھی آہستہ ڈرائیونگ کی جاتی ہے‘ میں یہی سمجھا تھا لیکن ایسا نہیں تھا۔بلکہ جان بوجھ کر اس کے آگے ایک ایسی گاڑی لائی گئی تھی کہ گاڑی کو آہستہ ہوجانے پرمجبور کیا جائے۔
یہ مجھے بعد میں پتہ چلا تھا۔تبھی اچانک ایک فائر ہوااور قیدیوں والی گاڑی کا پچھلاٹائر برسٹ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی دوسری طرف کا ٹائر برسٹ ہوگیا۔ گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی رک گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک دم سے شدید فائرنگ ہونے لگی‘ جو تقریباً آدھے منٹ تک رہی‘ پھر ایک دم سے خاموشی چھاگئی۔ ان تینوں حوالاتیوں سمیت میں بھی جالی میں سے باہر دیکھنے کی کوشش کررہاتھا۔
اچانک میری نگاہ جانی شوکر پرپڑی‘ اگرچہ اس نے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا لیکن میری نگاہوں سے تووہ نہیں چھپ سکتاتھا۔ میرے بدن میں بجلی کی لہر دوڑ گئی۔ میں تڑپ کر باہر جانے والے راستے پر آگیا۔ وہ دس بارہ لوگ تھے اور ان میں سب سے آگے چھاکا کھڑا تھا جو سپاہیوں سے کہہ رہاتھا۔
”ہماری تم لوگوں سے دشمنی نہیں ہے‘ جو ہتھیار پھینک کر ایک طرف ہوجائے گا‘ اسے کچھ نہیں کہیں گے‘ فوراً ہٹ جاؤ۔
انہوں نے گاڑی کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ میں باہر نکلا لیکن میرے ساتھ والے حوالاتی باہر نہیں آئے‘ وہ وہیں دبکے بیٹھے رہے۔ میں تیزی سے باہر نکلااور چھاکے کے پاس جاپہنچا‘ اس نے کوئی بات کیے بغیر پسٹل مجھے دے دیاتو ایک طرح کی قوت میرے اندر بھرگئی۔
”چل نکلتے ہیں۔“ چھاکے نے کہا تو میں نے منیر باجوہ کی طرف دیکھتے ہوئے چھاکے سے کہا۔
”ذرا ٹھہرو‘ تھوڑا ادھار چکالوں۔“
”تم نکل جاؤ‘ میں تمہیں کچھ نہیں کہتا۔“ وہ مجھے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر بولا۔
”تو کچھ نہ کہہ لیکن مجھے تو کچھ کہنا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے بولٹ مارااور اس کی ران پرنال رکھ کر فائر کردیا۔ وہ دھم سے زمین پر گر گیا۔ میں نے دوسرا فائر اس کی دوسری ران میں کیا تووہ تڑپنے کی ساتھ اونچی آواز میں چیخنے لگا۔
تب میں اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا ” میں تجھے ماروں گا نہیں کیونکہ‘ زندہ رہے گا تو دوبارہ ملاقات ہوگی۔“
میں انہیں ویسے ہی چھوڑ کر چھاکے کے ساتھ کار میں آبیٹھا۔ انہوں نے دو کاریں اور موٹر سائیکل لے کر یہ کارروائی کی تھی۔ ہم نے وہاں زیادہ دیر ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا‘بلکہ وہاں سے نکلتے چلے گئے۔
”مجھے رات ہی معلوم ہوگیاتھا ان کی خباثت کا‘ اس لیے میں نے سوچا کہ جب وہ پوری طرح اپنی خباثت دکھا لیں تو میں ایسا کروں۔
“ چھاکے نے مجھے بتایا
”ہم واپسی نورنگر تونہیں جاسکیں گے۔“ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
”نہیں‘تجھے سوہنی کے پاس بھیج دینا ہے‘ تو چند دن وہاں رہ کر سکون کر‘ پھر دیکھتے ہیں۔“چھاکے نے یوں کہاجیسے وہ پہلے ہی سوچ چکا ہو‘ میں خاموش ہوگیا۔ ہمیں سفر کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دس منٹ ہوئے ہوں گے کہ اچانک ہم پرفائر ہونا شروع ہوگئے‘ اس افتاد پر ہم چونک گئے کہ یہ کون ہے‘ پولیس والے اتنی جلدی ہمارے پیچھے نہیں آسکتے تھے‘ میں نے گھوم کر دیکھا‘ ہمارے پیچھے فور وہیل جیپیں تھیں۔
ایک فور وہیل کی چھت سے سرنکالے ایک بندہ فائر کررہاتھا۔
”یہ کون ہے؟“ چھاکے نے تذبذب میں کہا۔ اب کس کو کیا معلوم کہ وہ کون ہوسکتا ہے۔ جانی شوکر اگلی گاڑی میں تھااور موٹر سائیکل اس سے آگے۔ اچانک ہماری کار کاٹائر برسٹ ہوگیا‘ اور کار ہچکولے کھانے لگی۔ اس کی رفتار بھی زیادہ تھی ۔ڈرائیور نے بہت مشکل سے اسے قابو میں کیا لیکن پھر بھی وہ ایک کیکر کے درخت میں جا لگی۔
اچانک ہی سب کچھ آناً فاناً ہوگیا۔ خود کو بحفاظت پاکرمیں تیزی سے باہر نکلا‘ تب تک جانی شوکر اور اس کے ساتھی حملہ آوروں کی فائرنگ کا جواب دینے لگ گئے تھے۔ وہ سڑک میدان جنگ بن گئی تھی۔ میری پشت پر ریلوے لائن تھی۔
فوروہیل گاڑیاں وہ پارنہیں کرسکتی تھیں۔ اس لیے میں نے چھلانگ ماری اور ریلوے ٹریک کے دوسری طرف چلا گیا۔ وہاں تپتی ہوئی زمین پر لیٹ کر میں نے چھت سے سر نکالے حملہ آور پرفائر کردیا۔
گولی اس کے سر میں لگی تھی اور وہ لڑھکتا ہوا گاڑی میں غائب ہوگیا۔ ایسا ہی میں نے پچھلی گاڑی والے کے ساتھ کیا۔ وہ بھی لڑکھڑاتے ہوئے گاڑی کے اندر غائب ہوگیا۔ میں نے دیکھا‘ چھاکا اور ڈرائیور بھاگ کر جانی شوکر والی گاڑی میں چلے گئے ہیں۔ وہ ایک سمت سے شدید فائرنگ کرنے لگے تو حملہ آور کی طرف سے بھی اس طرح کی شدت ہونے لگی۔ میرے میگزین میں چند گولیاں تھیں‘ جنہیں میں حکمت عملی ہی سے استعمال کرسکتاتھا۔
میں شست لیے لیٹا ہواتھا کہ کوئی میری رینج میں آئے۔ میں کسی طرح بھی چھاکے وغیرہ کے پاس نہیں جاسکتاتھا۔ میرے ذہن میں یہی خیال آرہاتھا کہ کسی نہ کسی طرح اس فائرنگ میں کمی ہو تو پتہ چلے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں؟ بلاشبہ ان کا تعلق ہمارے انہی دشمنوں سے تھا جومجھے گھیر کر مارنا چاہتے تھے اور وہ شاہ زیب کے علاوہ کون ہوسکتا ہے۔ میں نے شست لے کرچار گولیاں اس طرح چلائیں کہ ان کی گاڑیوں کے دو دو ٹائر برسٹ کردیئے۔
ان کی گاڑیاں ناکارہ ہوگئی تھیں اور وہ وقتی طور پر پر پیچھا نہیں کرسکتے تھے۔ اچانک میری نگاہ سڑک پر دور سے آتی ہوئی پولیس گاڑیوں پرپڑی‘ ممکن ہے۔ وہ انہی کی اطلاع پر آئی ہوں یا منیر باجوہ وغیرہ کے‘ وہ کسی نزدیکی تھانے سے تھیں یا کیاتھا‘ بہرحال پولیس کی گاڑیاں دندناتی ہوئی آرہی تھیں۔ غنیمت یہ تھا کہ وہ حملہ آوروں کی سمت کی طرف سے آرہی تھیں۔
عقل مندی کاتقاضا تو یہی تھا کہ چھاکا لوگ وہاں سے بھاگ جائیں‘ ورنہ جو لاشیں گرتی سو گرتیں‘ باقی گرفتار ہوجاتے‘ اور انہوں نے یہی عقل مندی کی وہ فائرنگ کرنا چھوڑ کر ایک دم سے سرپٹ بھاگ نکلے۔ اب میرا وہاں بیٹھے رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں جنوب کی طرف نشیب میں اُترااور تقریباً بھاگتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوجانا چاہتاتھا۔ میرے سامنے دور تک ریتلی زمین تھی جس میں جابجا جھاڑیاں تھیں۔
میں اس پر بھاگتا چلا جارہاتھا۔ ایک جگہ مجھے جھاڑیوں کا جھنڈ سادکھائی دیا۔ میں اس میں سستانے اور سانس لینے کے لیے چھپ کر بیٹھ گیا۔ مجھے جب ذرا سا ہوش آیا تو میں نے پلٹ کردیکھا۔ میں تقریباً کلومیٹر سے زیادہ سفر طے کر آیا تھااور کچھ لوگ ریلوے ٹریک پر پھررہے تھے۔ دور دور تک وہاں ریتلی زمین تھی جس میں چھوٹی بڑی جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں تھا، میں وہاں دبک کربیٹھا رہااور ان لوگوں کو دیکھتا رہا‘۔کچھ دیر بعد وہ وہاں دکھائی نہیں دیئے لیکن میں نے رسک نہیں لیا۔ میں یہ دیکھنا چاہتاتھا کہ میری طرح بھی کہیں چھپے اس تاک میں تو نہیں کہ اگر میں یہاں ہوں تو باہر نکلوں گا۔ مگر شام تک کچھ ایسا نہیں ہوا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط