Episode 116 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 116 - قلندر ذات - امجد جاوید

”بعدمیں بتاتاہوں۔“ اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہااور اٹھ گیا۔ جسپال تذبذب میں اٹھ کر ٹہلنے والے انداز میں اٹھ گیااور چلتا ہوا بس کی اوٹ سے سڑک کی جانب بڑھ گیا۔ ڈھابے سے سڑک تک کا فاصلہ کوئی دو سو گز تھا۔ اسے وہاں تک پہنچنے میں پانچ منٹ سے بھی کم وقت لگا۔ اس نے گھوم کر دیکھا‘ رانا ایک گاڑی کی ڈرائیونگ سائیڈ کے ساتھ لگا ہو اتھا۔ وہ نئے ماڈل کی ہنڈا تھی۔
چند لمحوں بعد وہ اس میں بیٹھ چکاتھا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس نے گاڑی اسٹارٹ کی ‘ پھر تیزی سے گھومتا‘ سڑک کی جانب بڑھتا چلا آیا۔ گاڑی اس کے قریب رکی تووہ اس میں بیٹھ گیا۔ رانا نے پیر پر ہی رفتار بڑھادی‘ گاڑی نئی تھی‘ اس لیے اس کی پک اپ بھی زیادہ تھی‘ کچھ دیر بعد وہ تیز رفتاری سے کافی دور تک نکل آئے۔

(جاری ہے)


”اب بتاؤ‘ منالی پریشان کیوں تھی؟“
”شاپنگ مال کے سی سی کیمروں میں تمہاری ساری کارروائی ریکارڈ ہوگئی ہے۔
ا س میں صرف تمہی نہیں‘ منالی بھی واضح ہے‘ پولیس اسے بھی تلاش کررہی ہے۔“
”منالی کو اب گھر آکر پتہ چلا…؟“ جسپال نے تیزی سے پوچھا۔
”ہاں…! دراصل تمہاری تصویر اور نام اس وقت مختلف چینلز پر چل رہے ہیں۔ تمہیں پہچان لیا گیا ہے۔ اس لیے اب چند دن کے لیے تجھے کسی محفوظ ترین ٹھکانے پر رہنا لازمی ہوگا۔“ رانا نے کافی حد تک تشویش زدہ لہجے میں کہا تو اس نے اپنے اندر شدت محسوس کی۔
ایک دم سے جو خوف اس کے اندر موجود تھا‘ وہ نجانے کہاں غائب ہوگیا۔ وہ بے خوف ہوگیا۔ جب تک وہ چھپا ہواتھا‘ اس کے ساتھ خوف بھی بندھا ہوا تھا۔ اب اگر چینلز نے اسے دنیا کے سامنے لاکھڑا کیاتھا تو پھر خوف کس بات کا‘ آمنے سامنے کی جنگ شروع ہوچکی تھی۔ وہ یہی سوچ رہاتھا کہ منالی کا فون آگیا۔
”کیا تم پولیس سے محفوظ ہو؟“ جسپال نے اس سے پوچھا۔
”مجھے زیر زمین جاتے اتنا وقت نہیں لگنا‘ میں اگلے دس منٹ میں خود کوسنبھال لوں گی۔ مجھے تمہاری فکر ہے۔ جب تک تم سیسر نہیں پہنچ جاتے‘ اس وقت تک میری ذمے داری میں ہو۔“
”تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ میری تصویر اور…“ اس نے پوچھنا چاہا تو وہ تیزی سے بولی۔
”میں خواہمخواہ تمہیں ذہنی دباؤ میں نہیں لانا چاہتی تھی‘ اب اس لیے بتایا کہ ممکن ہے وہاں تمہیں کوئی پہچان لے اور مصیبت بن جائے‘ خیر‘ چھوڑو ان باتوں کو‘ وہ رویندر سنگھ ایئرپورٹ پر پہنچ چکا ہے‘ اور رپورٹر اس سے بات کررہے ہیں سنو‘ ‘ یہ کہتے ہوئے اس نے فون ٹی وی کے قریب کردیا۔
کوئی بھاری آواز میں ٹھیٹ پنجابی زبان میں اکھڑے ہوئے لہجے کے ساتھ کہہ رہاتھا۔ ”مجھے ابھی اس قاتل کی تصویر دکھائی گئی ہے‘ یہ ا یک سوچی سمجھی سکیم کے تحت پورے پلان کے ساتھ مجھے اور میرے خاندان کو مارنے کی کوشش تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف ایک بندے کاکام نہیں ہے‘ اس میں غیر ملکی مداخلت اور شدت پسند تنظیموں کاپور اپورا ہاتھ ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمیں سیاست سے الگ کرنے کی سازش ہے۔
میرے دوبیٹوں کو قتل کیا گیا۔پولیس آفیسر بھی قربان ہو گئے او رایک بیٹا ہسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں ہے ۔میں حکومت سے مانگ کرتا ہوں کہ بڑے پیمانے پر اس گروہ کوتلاش کیاجائے‘ چوبیس گھنٹے کے اندر اس قاتل کوپکڑا جائے ورنہ میں احتجاجی طور پر پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دوں گا۔ میرے ساتھ میرے سیاسی دوست بھی ہیں۔ میں اس میں حکومت کی نااہلی سمجھوں گاکہ وہ قاتل کوچوبیس گھنٹوں میں گرفتار کرکے قانون کے حوالے نہ کرسکی ۔
کیاہماری سیاسی اور قومی خدمات کا یہ صلہ دیا گیاہے کہ ایک بوڑھے باپ کو اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھانا پڑیں۔“
”کیا آپ کے بیٹے کی آخری رسومات گاؤں میں ہوں گی‘ یایہیں چندی گڑھ میں۔“ کسی نے سوال کیا۔
”یہیں…یہیں چندی گڑھ میں۔ کل اسی وقت میں پارلیمنٹ کے سامنے ہوگا‘ اگر قاتل نہ پکڑا گیا تو‘میرا تب تک احتجاج جاری رہے گا۔
اس کے ساتھ ہی شور مچ گیا تو منالی کی آواز ابھری۔
”وہ ایئرپورٹ سے نکل گیا ہے۔“
”ٹھیک ہے‘ میں شہر کے قریب پہنچ کر تمہیں بتاتاہوں۔“ جسپال نے کہا تو وہ بولی 
” زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، تمہارا نام نہیں گیا ہے، سی سی کہمرے کی تصویر میں تم اتنے واضح نہیں ہو، ٹیک کئیر“
” اوکے “ اس نے کہا اور فون بند کردیا۔
اس کے اندر ایک سکون اور طمانیت اتر آئی تھی۔ پہلی بار اس نے رویندر سنگھ کی آواز اس انداز میں سنی تھی‘ جب وہ ٹوٹا ہوا تھا‘ پہلی بار اس کی آواز میں طنطنہ تھا‘ اس بار وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی مانند لگ رہاتھا۔ اس کی پھوپھو سکھ جیت نے بھی اپنے پریوار کے قتل پر ایسا ہی دکھ محسوس کیا ہوگا۔ وہ ایک دم ماضی میں پہنچ گیا۔ آج اگر وہ زندہ ہوتیں تو اپنے دشمن کو ٹوٹتا ہوا دیکھ کر کس قدر پرسکون ہوتیں۔
مگر ابھی انتقام پورا نہیں ہوا تھا‘ وہ رویندر سنگھ کے چہرے پر دہشت اور خوف کی وہ پرچھائیں دیکھنا چاہتاتھا‘ جس کی اسے خواہش تھی۔ وہی لمحات اس کی پوری زندگی کا حاصل تھے۔ وہ یہی سوچ رہاتھا کہ رانا چرن کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
”سیسرشہر آگیا ہے‘ منالی کو بتادے…“
اس نے فوراً فون ملایااور صور تحال کے بارے میں بتایا‘ جسپال نے فون لاؤڈ کردیاتھا۔
رانا بھی سن رہاتھا۔ اس نے شہر کے باہر ہی ایک جگہ کی نشاندہی کی کہ وہاں انہیں فوروہیل جیپ میں دو آدمی ملیں گے‘ اس نے جیپ کانمبر بھی بتادیا۔ وہ جدھر لے جائیں‘ چپ چاپ ان کے ساتھ چلیں جائیں۔ چند لمحوں بعد اس نے فون نمبر اور جیپ کانمبر بھی بھیج دیا۔ جسپال نے فوراً ہی اس نمبر پر رابطہ کیاتودوسری طرف سے ذرا مختلف لہجے لیکن پنجابی ہی میں جواب ملا‘ ان کا رابطہ ہوگیا تو جسپال کافی حد تک مطمئن ہوگیا۔
شہر میں داخل ہونے سے ذرا قبل ایک بڑا سا را چوراہاتھا۔ وہ اسی چوراہے پر کھڑے تھے۔ وہ دونوں قدآور نوجوان تھے۔ ایک ذرا صحت مند تھا‘ اور دوسرا پتلا سا‘ دونوں کے نقوش تیکھے تھے۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے ان کی کار کو دیکھ کرہاتھ ہلایا۔ ان کے عقب میں وہی فور وہیل جیپ کھڑی تھی۔ انہوں نے گاڑی قریب لے جاکر ایک طرف کھڑی کردی او ران کے پاس جاپہنچے۔
انہوں نے ہاتھ ملایا‘ پھر صحت مند نوجوان بولا۔
”میں راؤ وریام سنگھ اور یہ راؤ ہرنام سنگھ… اب آپ کا کوئی بال باکا نائیں کرسکتا۔ چلو گاڈی میں بیٹھو۔“ یہ کہہ کر وہ ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھ گیا‘ دوسرا آگے والی پسنجر سیٹ پر براجمان ہوگیا جب جسپال اور رانا پچھلی نشست پرسکون سے بیٹھ گئے ‘ جیپ چلی تو برنام بولا۔ 
”مجا آگیا جی ‘آپ کو دیکھ کے… ٹی وی پر تو آپ کا پھوٹو بڑا مدھم نجر آوے تھا۔
جوان ہو تو ایسا جی… پلس کو ہلاکے رکھ دیا۔ حکومتیں ڈھونڈ رہی ہیں۔“
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب ہم نے جانا کہاں ہے؟“ جسپال نے پوچھا۔
”دو گھنٹے دے دو ہمیں بس…صورت گڑھ میں اپنا گھر ہے‘ باپو آپ کاانتجار کررہا ہے بڑی شدت سے‘ آپ کے بغیر روٹی نہیں کھانے والے … آپ سکون کرو… “ وریام نے کہا تو وہ بہت حدتک مطمئن ہوگیا۔ اعصاب کوشل کردینے والے حالات میں ذرا سکون ملا تو اس کی آنکھیں بند ہونی شروع ہوگئیں۔
اس نے فون رانا کوتھمایااور آنکھیں بند کرلیں۔ پھروہ نیند میں ڈوبتا چلاگیا۔
جسپال کی جس وقت آنکھ کھلی تو گاڑی کے باہر کا منظر بدل چکاتھا۔ وہ بہترین شاہراہ تھی۔ جس کے دونوں طرف ریت تھی۔ بہت کم آبادی تھی ۔وہ کچھ دیر دیکھتا رہا‘ پھر سیدھا ہو کربیٹھ گیا۔ اسے جاگتا دیکھ کر ہرنام نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”جاگ گئے جی‘ بڑی گہری نیند سوئے جی‘ لگتا ہے کافی تھکن تھی۔
”ہاں…! ایسا ہی ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے پوچھا۔”ہم کہاں تک آگئے ہیں؟“
”یہی گھر سے پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر‘ آپ دو گھنٹے سوئے ہیں۔“ اس نے ہلکا ساقہقہہ لگاتے ہوئے کہا تبھی جسپال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”اچھا…! میرے خیال میں جس وقت منالی نے آپ سے رابطہ کیاہوگا‘ اس سے لے کر آپ تک ملنے میں آدھا گھنٹہ لگا ہوگا۔ آپ اتنی جلدی یہاں کیسے پہنچ گئے۔
”پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم کسی منالی کو نہیں جانتے اور نہ ہی ہماری اس سے بات ہوئی ہے۔“ وریام نے کہاتو جسپال کو ایک دم سے جھٹکا لگا۔ جبکہ وہ سامنے منہ کیے روانی سے کہتا چلا جارہاتھا۔”باپو نے فون کرکے آپ لوگوں کے بارے میں بتایا‘ ہم یہاں ”اوگاڑی“(بقایا) لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اپنا بزنس پورے راجھستان میں ہے۔ہم نہ ہوتے تو آپ کو ہمارے ملازمین لے جاتے۔
”منالی نے اگر بات نہیں کی تو…“ اس نے پوچھا تو وریام درمیان ہی سے بولا۔
”یہ باپو ہی جانے ۔“
اس کے یوں کہنے پر جسپال نے رانا کی طرف دیکھا‘ اس کے چہرے پر بھی کافی حد تک پریشانی کے آثار نمودار ہوگئے تھے۔ اب وہ پتہ نہیں کون تھے‘ دوست یا دشمن‘ وہ انجانے میں کس کے ہتھے چڑھ چکے تھے۔ اگر وہ دشمن ثابت ہوتے تو بچاؤ بہت مشکل تھا۔
انجانی جگہ اور انجانے لوگ‘ لیکن نجانے کیوں اس کا دل مطمئن تھا‘ اگروہ دشمن ہوتے تو اسے یوں سکون سے سونا نصیب نہ ہوتااور اس کے پاس جو پسٹل تھا‘ وہ اب تک چھین لیا گیا ہوتا۔ وہ گاڑی میں نہیں کہیں بندھا ہوا پڑا ہوتا۔ وہ اس شش وپنج میں تھا کہ صورت گڑھ شہرآگیا۔ سامنے ہی سائن بورڈ پر لکھا ہواتھا‘ اس نے انگریزی میں پڑھ لیا تھا۔وریام نے شہر میں داخل ہونے کی بجائے دائیں جانب والا ایک راستہ اختیار کیا۔
جسپال سکون سے بیٹھا رہا،شہر کے مضافات میں ایک بڑی حویلی کے گیٹ پر جیپ آن رکی‘ انہیں دیکھتے ہی گیٹ فوراً کھل گیا۔ وہ جیپ پورچ میں لے گئے۔ کافی کھلی حویلی تھی۔ سبزہ زیادہ تھا۔ وہ ان دونوں بھائیوں کے ساتھ چلتا ہوا حویلی کے ڈرائنگ روم میں آگیا۔ اندر سے حویلی وہی ہندوانہ طور پر گولائی میں تھی۔ گول سیڑھیاں اوپر کو جارہی تھیں۔ دالان اور برآمدے بنے ہوئے تھے۔ سامنے ہی صوفے پر سفید دھوتی کرتا پہنے‘ کاندھے پر سنہری چادر ڈالے خشخشی داڑھی اور بڑی مونچھوں والا جس کے سر کے بال بالکل صاف تھے‘ موٹے نقوش اور صحت مند جسم والا راؤ بچن سنگھ بیٹھا ہواتھا‘ انہیں دیکھتے ہی کھڑا ہوگیا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط