Episode 118 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 118 - قلندر ذات - امجد جاوید

”تو یہ ہے وہ جوان…“
”ہاں یہی ہے‘ دیکھو اسے کوئی تجربہ نہیں ہی‘ اسے تو بس ادھر سے ادھر بھیجنا ہے‘ آگے وہ خود دیکھ لیں گے۔“ وریام نے کہا۔
”دیکھیں جی ‘ راؤ صاحب کا حکم آیا ہے تو ہم نے اچانک تیاری کی ہے۔ دوبندے ساتھ ہوں گے‘ وہ ساتھ تو ہوں گے لیکن ذمے داری نہیں ہے‘ کیونکہ آگے ہماری بات نہیں ہوئی‘ اس صور تحال کاشکوہ نہیں دینا۔
”نہیں ہوگا‘ اب بتاؤ جانا کب ہے۔“
”ابھی آٹھ بج رہے ہیں۔ دس بجے کے بعد ‘بندہ آکر بتائے گا‘ تب تک ڈیرے پرچلتے ہیں۔ کھاتے پیتے ہیں‘ اور…“ اس نے معنی خیز انداز میں کہا تو وریام ہنس دیا۔ پھر وہ پیدل ہی گاؤں سے باہر ڈیرے کی طرف چل دیئے۔
کچے کمروں کے سامنے کھلا ساراصحن تھا‘ جس میں سفید چاندنیاں بچھی ہوئی تھیں۔

(جاری ہے)

وہاں چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔

وہ بھی جاکر گدوں پربیٹھ گئے۔ تبھی کچے کمرے میں سے دو نوجوان لڑکیاں برآمد ہوئیں‘ دونوں ہی گوری چٹی اور روایتی راجھستانی لباس پہنے ہوئے تھیں۔گھاگھرااور چولی‘ کھلا گریبان‘ کمربرہنہ‘ پنڈلیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں‘ تبھی دوچار لوگ ایک طرف آکربیٹھ گئے۔انہوں نے کپڑے تلے پڑا سی ڈی پیئر آن کردیا۔ دھیمی دھیمی موسیقی شروع ہوگئی۔ ایک لڑکی وریام کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔
تبھی لمبے آدمی نے ہنستے ہوئے کہا۔
”یہی تھی اس دن والی… ابھی دس منٹ پہلے پہنچی ہے یہ…“
”ماردیا اس ظالم نے تو اُس دن… آج بھی کمال کر دینا ظالم…“ یہ کہتے ہوئے اس نے اس لڑکی کو بانہوں میں لے کر جھنجوڑ دیا۔ وہ کچھ دیر مچلتی رہی پھروریام نے چھوڑا تو اٹھ کر ناچنے لگی۔ گانا شروع ہوتے ہی ان کے سامنے شراب بھرے پیتل کے گلاس لاکررکھنے لگے‘ وریام نے ایک جام جسپال کے سامنے رکھا تو اس نے دھیرے سے کہا۔
”میں شراب نہیں پیتا۔“
”اوظالم ! پھر جیتا کیسے ہے؟“ یہ کہہ کر وہ ہنس دیا۔
”بس نہیں پیتا‘ شروع سے عادت ہی نہیں بنی۔“ جسپال نے سکون سے کہا۔
”چل ٹھیک ہے‘ کوئی بات نہیں‘ تو دیکھ… ان میں شراب سے بھی زیادہ نشہ ہے۔ پاگل کردیا ہوا ہے اس نے…“ وریام شاید اس طوائف پرمرمٹاتھا‘ شراب کے جام پرجام چلتے رہے ۔بھنا ہوا گوشت ان کے سامنے آتا رہا۔
پندرہ بیس لوگ تھے۔ وہ سب کھاتے پیتے اور ناچ دیکھتے رہے۔ وقت آہستہ آہستہ گزرتا چلاگیا۔
رات ٹھہرچکی تھی دونوں لڑکیاں خوب ناچ رہی تھیں۔ ایسے میں ایک نوجوان سا لڑکا ڈیرے کے احاطے میں داخل ہوا۔ اسے دیکھتے ہی وہ لمبا آدمی اٹھ گیا۔ اٹھتے ہوئے وریام کوبھی اٹھنے کا اشارہ کیا۔ جسپال کے ساتھ وہ بھی اٹھ گیا۔ وہ تینوں آگے پیچھے باہر نکلتے چلے گئے۔
”لوجی وریام جی‘ آپ نے موجی مستی کرنی ہے تو ادھر رہو یاجانا ہے تو جاؤ،اب آگے ہمارا کام ہے۔“ اس لمبے آدمی نے ڈیرے سے باہر نکل کر کہاتو وریام نے جسپال کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
”لے بھئی جسپال ! رب کے حوالے … واہگرو تم پر مہر کرے ‘ بس تیری خدمت نہ کرسکا۔“
دونوں ایک دوسرے سے گرمجوشی سے ملے‘ پھر الگ ہو کر ایک دوسرے کودیکھا‘ لمبے آدمی نے جسپال کاہاتھ پکڑااور اندھیرے میں چل دیا۔
وریام واپس چلاگیاتھااور وہ دونوں پیدل ہی چل پڑے ۔کافی آگے جانے کے بعد انہیں اونٹ بیٹھے ہوئی دکھائی دیئے۔
”یہ ہمارے سدھائے ہوئے اونٹ ہیں۔ یہ ہی سرحد پار کرائیں گے۔ یہ سیدھے اپنے ٹھکانے پر جائیں گے۔ انہیں اپنی مرضی سے نہیں ہانکنا۔یہ جدھر لے جائیں ‘ ادھر چلے جانا ہے اور دوسری بات تمہارے ساتھ ایک اور بندہ ہوگا۔وہ اتنی سمجھ بوجھ والا بندہ نہیں ہے۔
“ لمبے آدمی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ “ جسپال نے سرہلاتے ہوئے کہاتو لمبے آدمی نے قطبی ستارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ۔
”یہ دیکھ‘ یہ تارا دیکھ رہا ہے‘ یہ تیرے دائیں کاندھے کی طرف رہے بس‘ پھر تو صحیح سمت میں جائے گا‘اسے مت بھولنا۔“
”ابھی کہہ رہے ہو کہ اونٹ…“جس پال نے سمجھنا چاہا۔
”اگر تجھے سمت سمجھنے کی ضرورت پڑے تو… ورنہ یہ تجھے اونٹ ہی اپنے ٹھکانے پر لے جائیں گے‘ واہگرو کا نام لے اور بیٹھ اس پر…“ لمبے آدمی نے ایک اونٹ کی طرف اشارہ کیا‘ جسپال نے پہلے کبھی بھی اونٹ کی سواری نہیں کی تھی۔
اس لیے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ کوہان کے پیچھے مضبوطی سے بیٹھ گیا‘ تبھی لمبے آدمی نے ایک اونٹ کو اٹھایا تو باقی بھی اٹھنے لگے‘ جسپال ان اونٹوں کی درست تعداد نہ معلوم کرسکا۔بس اندازہ تھا کہ چھ یا سات ہوں گے۔ اس کااونٹ تیسرا یا چوتھا تھا۔ لمبے آدمی نے ایک اونٹ کی مہار پکڑی اور سب سے آگے پیدل چلنے لگا۔تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے وہ رک گیا۔
سامنے ایک آدمی کھڑا تھا۔ اس سے دھیمی دھیمی باتیں ہوئیں تو پہلا اونٹ بٹھا دیا گیا۔ وہ بندہ اس پرسوار ہواتو اونٹ کھڑا ہوگیا۔ اونٹ چل پڑے۔ سامنے لوہے کی اونچی اونچی باڑ دکھائی دینے لگی تھی‘ جو روشن تھی۔ اس پر بڑی بڑی سرچ لائٹس لگی ہوئی تھیں۔ اچانک وہ لائٹس بند ہوگئیں تو اونٹ تیزی سے چل پڑے۔ سامنے ایک بڑا سارا سیاہ دروازہ تھا‘ وہ یک لخت کھلا‘ سبھی اونٹ اس میں سے گزرتے چلے گئے۔
یہ سارا عمل تین یا چار منٹ کا رہاہوگا۔ جب وہ چند کھیت آگے چلے گئے تو بتیاں پھر سے روشن ہوگئیں۔ اب اونٹ قطار میں نہیں تھے بلکہ پھیل گئے تھے۔وہ آدمی جسپال کے قریب اپنا اونٹ لے آیا۔
”جوان‘ مضبوط بیٹھنا‘ اونٹ کوریگستان کا جہاز کہتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگادیا۔
”کیااب ہم پاکستان میں ہیں؟“ جسپال نے پوچھا۔
”ابھی نہیں‘ چند کھیت اور پار کرلیں تو پھر… یہ باڑ عین سرحد کے اوپر نہیں لگی…“اس نے جواب دیا۔
”یہ بتیاں کیوں بند کی گئی تھیں‘ جب ان سے بات…“ جسپال نے پوچھنا چاہاتووہ تیزی سے بولا۔ 
”رات کے اس وقت مردوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے اور وہ بہت پھیل کربیٹھتے ہیں۔ انہیں بھی چیک کرنیوالے ہوتے ہیں۔ بس رسک نہیں لیا۔ بڑی چوکی پر لائٹ بند کی تھی۔ یہ چلتا ہے۔ تُو اب بھارت کو بھول جا۔ یہ آگے جہاں سے کھیت ختم ہو رہے ہیں‘ اس سے آگے ریگستان ہے ۔
اس ریگستان سے پاکستان شروع ہوجائے گا۔“
”مطلب پھر ہم پرسکون ہوجائیں گے۔“ جسپال نے اطمینان سے کہا۔
”ارے نہیں‘ سکون تو ٹھکانے پر ہی آئے گا۔ آگے پاکستانی چوکیاں بھی تو ہیں۔ ان سے بھی بچنا ہے۔ بس تو سنبھل کے بیٹھ‘ جہاز اڑنے کو ہیں۔“ اس نے پھر سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ جیسے قہقہہ لگانا اس کی عادت ہے۔ جسپال خاموش ہوگیا۔چند منٹ بعد اونٹ کی رفتار تیز ہونے لگی اور پھر وہ باقاعدہ بھاگنے لگے‘ جب وہ آہستہ چل رہے تھے تو ہچکولے کم تھے‘ لیلن جیسے ہی وہ تیز ہوئے تو جسپال کو لگا کہ جیسے سارا کھایاپیا باہر آجائے گا۔
بہت شدید ہچکولے تھے۔ اس نے ایک بار سامنے کی طرف دیکھا‘ اونٹ پھیل کر یوں بھاگ رہے تھے جیسے ان کی ریس لگی ہوئی ہو۔ اس نے اپنا سر اونٹ کی کوہان کے ساتھ لگادیا۔ وہ خود پر قابو پارہاتھا۔
نجانے انہوں نے کتناسفر کیا تھا۔ ایک دویا چند کلومیٹر‘ تبھی بائیں جانب سے دور کہیں کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس دکھائی دیں۔ وہ دو گاڑیاں تھیں۔ اسے لگا کہ جیسے وہ تیزی سے قریب آرہی ہیں۔
اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ سب کیا ہے؟ وہ نوجوان پتہ نہیں کس اونٹ پر تھا۔ اونٹ بھاگتے چلے جارہے تھے۔ وہ گاڑیوں کی طرف دیکھنے َگا تھا۔ اس سے یہ ہوا کہ اس کی ساری توجہ ان ہیڈ لائٹس کو دیکھنے اور سمجھنے کی طرف لگ گئیں۔ وہ کبھی دکھائی دیتیں اور کبھی ایک دم سے غائب ہوجاتیں۔ یہ آنکھ مچولی کافی دیر تک چلتی رہی۔ اچانک وہ گاڑیاں ان کے عقب میں آگئیں‘ پھر اس کے ساتھ ہی ایک فائر ہوا جس نے سناٹے کو چیر کر رکھ دیا۔
فائر کی آواز کیا گونجی تھی کہ اونٹ باؤلے ہوگئے۔ یکے بعد دیگرے تین فائر مزید ہوئے۔ جسپال کے لیے اونٹ پربیٹھنامحال ہوگیا ہوا تھا۔ اسے لگا جیسے اس کے بدن کا ہر عضو الگ الگ ہوجائے گا۔ اسے اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اسے لگا جیسے ریڑھ کی ہڈی ابھی چکنا چور ہوجائے گی۔ وہ سمجھ گیا کہ عقب سے ہونے والے ہوائی فائر ہیں۔وہ انہیں مارنا نہیں چاہتے بلکہ گھیر کر ان اونٹوں کو اپنے ٹھکانے پر لے جانے کی کوشش ہوسکتی ہے۔
اونٹ تیزی سے چلتا چلا جارہاتھا کہ اچانک وہ لڑکھڑایا‘ جسپال اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا‘ وہ اونٹ سے یوں گرا جیسے کسی نے اسے دھکا دے دیا ہو‘ نیچے ریت ہونے کے باعث اسے کوئی چوٹ تو نہیں آئی‘ لیکن وہ آناً فانا! بھاگتے ہوئے اونٹ کو نہ پکڑ سکا‘ چندلمحوں تک اس سے اٹھاہی نہیں گیا۔ اسے یقین ہوگیا کہ وہ اونٹ کو نہیں پکڑ سکتا تووہ وہیں بیٹھ گیا۔
اسے اپنے حواس بحال کرنے میں کتنے ہی منٹ لگ گئے۔ جب اس نے سراٹھا کردیکھا تو نہ وہاں اونٹ تھے‘ نہ کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس‘ صحرا کی گونجتی ہوئی مخصوص آواز تھی جو بلاشبہ دہشت پیدا کررہی تھی۔ جسپال چند لمحے بیٹھا سوچتا رہا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ اچانک اسے قطبی ستارے کا خیال آیا۔ وہ اس کے بایاں کاندھے پر تھا۔ اس نے اپنی سمت متعین کی اور چل پڑا۔
یہاں بیٹھے رہنے سے زیادہ چلتے رہنا بہتر ہوسکتاتھا۔ یہاں پر بیٹھ کر اوٹ پٹانگ سوچنے کے اور کربھی کیا سکتاتھا۔ وہ چلنے لگا۔ صحرا میں پیدل چلنا بھی کافی حد تک دشوار ہوتا ہے۔ ناہموار زمین پر وہ محتاط انداز میں چلتا چلا جارہاتھا۔ اسے لگا جیسے صدیوں سے اسی طرح صحرا میں سفر کررہا ہے۔ نجانے وہ کتنی دیر تک چلتا رہا تھا۔ اس کے اعصاب جواب دینے لگے تھے۔ پیاس سے زبان سوکھ گئی تھی۔ اسے فقط اتنا یاد تھا کہ عقب میں آسمان پر روشنی کی لکیر دیکھی تھی‘ پھر اسے ہوش نہیں رہاتھا۔ وہ لڑکھڑا کر ریت پر گر گیا۔
                                     # # # #

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط