”ایساہی ہے‘ لیکن میں اپنے بارے میں اتنا بتادوں کہ میں جرائم پیشہ نہیں ہوں۔“
”میں نہیں جانتا کہ تم دونوں جرائم پیشہ ہو یانہیں‘ لیکن تم دونوں کے پاس سے جدید پسٹل برآمد ہونا‘ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ ماردھاڑ‘ قتل وغیرہ تم دونوں کے کریڈٹ پر ضرور ہوگا۔“یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا‘ پھر ہماری طرف سے کوئی جواب سنے بغیر بولا۔
”آرام کرلیا‘ کھانا کھالیا‘ جانا چاہتے ہو تو جاسکتے ہو۔“
”ہمیں تو اندازہ ہی نہیں کہ ہم کہاں پر ہیں ‘پھر کیسے کس طرح …“ جسپال نے تشویش سے کہا۔
”لڑکے…! میں اس کاجوابدہ نہیں ہوں اور نہ ہی یہ بتاسکتاہوں کہ تم اس وقت کہاں ہو‘ یہ میری مجبوری ہے‘ میں تم لوگوں کو کہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا۔“ اس نے سختی اور روکھے پن سے کہا۔
(جاری ہے)
”ہمیں تو سمت کااندازہ نہیں کہ ہم کس طرف جائیں گے۔ پلیز آپ ہمیں کسی قریب ترین شہر کے پاس پہنچانے کابندوبست کردیں پھر ہم جانیں اور ہماری قسمت۔“ جسپال نے کافی حد تک نرم اور منت بھرے انداز میں کہا۔
”دیکھو جسپال! میں نے تم لوگوں کو پیغام نہیں بھیجا تھا کہ تم یہاں آؤ‘ خود آئے ہو توخود ہی چلے جاؤ‘ اور پھر میں تمہاری مدد کیوں کروں…؟“ اس نے منطقی انداز میں کہا۔
”آپ کیا چاہتے ہیں؟ دولت…وہ میں…“
”نہیں‘ مجھے دولت نہیں چاہیے۔ میری تین شرطیں ہیں‘ان میں سے کوئی ایک پوری کردو‘ تو میں شہر کے قریب پہنچادوں گا۔ جو تم میں پہلے شرط پوری کرے گا‘ اسے پہلے …“
”کیا ہیں وہ شرطیں۔“ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا تو مہرخدابخش نے میری جانب غور سے دیکھااور پھر بولا۔
”میرے ساتھ پنجہ آزمائی کرنا ہوگی‘ مجھے ہرادو تو میں تمہاری بات مان لوں گا۔
“
”دوسری شرط۔“ جسپال نے تیزی سے پوچھا۔
”یہ ہے کہ اس لڑکی تانی کے ساتھ جو فائٹ کرکے اسے زخمی کردے گا‘ اس کی بات مانی جائے گی۔“ اس نے یوں کہاجیسے وہ ہمارا مذاق اڑارہاہو۔
”اور تیسری شرط؟“ میں نے پوچھا۔ اتنے میں ایک سال بھر کابچھڑا‘ ایک طرف سے بھاگتا ہوا دوسری طرف نکل گیا‘ مہرخدابخش کی نگاہ اس پرپڑی تووہ بولا۔
”وہ بچھڑا دیکھا ہے‘ مجھے بڑاپیارا ہے‘ جو اسے گرا کر اس کی گردن پر چھری پھیر دے گا‘ میں اس کی بات مان لوں گا۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوا‘ پھر بولا۔ ”لیکن یہ یاد رکھنا‘ ان تینوں میں سے کوئی ایک شرط مان لینے کے بعد اگر ہار گئے تو پھر میری بات ماننا ہوگی۔ میں پھر جب تک چاہوں تم لوگوں کو یہاں رکھوں‘ جانا ہے تو ابھی چلے جاؤ‘ ورنہ میں پھر بھاگنے نہیں دوں گا۔
“
نجانے کیوں مجھے مہرخدابخش کی باتیں اوپری لگ رہی تھیں۔ مگر ان باتوں میں دم تھا‘ ایسا چیلنج جس میں ہمیں اس طرح للکارا گیاتھا کہ وہ ہمیں بے بس ثابت کرنا چاہ رہاتھا۔ میں نے ایک لمحے کو سوچا‘ پھر انتظار کرنے لگا کہ جسپال کیا کہتا ہے۔ وہ بھی خاموش تھا۔ جس طرح وہ تانی اب تک خاموش تھی۔ اس نے ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالاتھا‘ مگر اس کے حسن کے جلوے ماحول کو خوشگوار بنائے ہوئے تھے۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو جسپال نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے جواب دینے کو کہا۔ تب میں نے بہت نرم لہجے میں کہا۔
”جہاں تک آپ کی پہلی شرط ہے‘ آپ ہمارے لیے ایک بزرگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا بنتا ہی نہیں کہ آپ کے مقابلے پر اتریں۔ ہمارے بڑوں نے ہمیشہ بزرگوں کو عزت دینے کا ہی سبق دیا ہے۔ لہٰذا میں ایسا نہیں کرسکتا اور میرا خیال ہے جسپال بھی نہیں۔
“ میرے یوں کہنے پر جسپال نے نفی میں گردن ہلادی۔
”توپھر…؟“مہرخدابخش نے ہنکارے کے سے انداز میں پوچھا۔
”تانی ایک لڑکی ہے‘ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا بلاہے‘ یامحض ایک کمزور لڑکی‘ ہم عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتے‘ اس لیے تانی کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے ہی نہیں۔“ میں نے صاف لفظوں میں کہاتو مہرخدابخش نے بڑے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
”توپھر بچھڑے کو گرا کر اس کی گردن پر چھری پھیردو‘ جاؤ میں تم دونوں کو یہ مہلت بھی دے دیتاہوں کہ جتنے دن چاہے لے لو‘ اور جتنی بار مرضی کوشش کرلو‘ جس دن بچھڑے کی گردن پر چھری پھیر لو‘ اس دن جہاں کہوگے‘ وہاں پہنچادوں گا۔ جاؤ کرو کوشش۔“ اس نے کہا تو تانی نے ایک چھری نکال کرمیری جانب بڑھادی۔ اس چھری کا پھل بڑا اور چمکدار تھا۔
ان دونوں میں اتنابڑا اعتماد دیکھ کر میں واقعتا حیرت زدہ رہ گیاتھا۔ میں نے آگے بڑھ کر تانی کے ہاتھ سے چھری لینا چاہی تو اس نے میرے پکڑنے سے پہلے ہی چھری چھوڑ دی۔
میں نے لاشعوری طور پر چشم زدن میں چھری کوزمین پر گرنے سے پہلے ہی قابو کرلیا۔ جیسے ہی وہ چھری میرے ہاتھ میں آئی، اسی لمحے میں سمجھ گیا کہ دراصل وہ ہمارا امتحان لے رہے ہیں۔
میں تانی کی طرف دیکھ کرمسکرادیاتو اس کی بھی آنکھیں مہین سا ہنس دیں۔بچھرا مجھ سے کافی دور کھڑا تھا، اس کی گردن میں رسہ نہیں تھا۔ وہ کھلا ہی چھوڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا تووہ خاصا پلا ہوا تھا۔ مجھے نہیں اندازہ تھا کہ میں اسے قابو کربھی پاؤں گایانہیں‘ لیکن یہ حوصلہ ضرور تھا کہ بچپن سے لے کر اب تک مویشیوں اور ڈھورڈنگروکے ساتھ بہت وقت گزاراتھا۔
طرح طرح کے جانور ہاتھ سے نکلے تھے۔ میں تیز تیز قدموں کے ساتھ اس بچھڑے کے قریب جاپہنچا۔ شاید اسے بھی احساس ہوگیاتھا کہ میں اس کے لیے آیا ہوں‘ وہ میری طرف دیکھنے لگا‘ پھرجیسے الرٹ ہوگیا۔ میں اور وہ آمنے سامنے ہوگئے۔ اس کے تھوڑے تھوڑے سینگ نکل آئے تھے۔ وہ اگر میرے سینگ مار دیتاتو میرے بدن میں دوسوراخ ہوجاتے۔ میرے ایک ہاتھ میں چھری تھی۔
جوا سے گرانے میں مشکل پیدا کررہی تھی۔ میں نے چھری کو دانتوں سے پکڑااور ایک دم سے بچھڑے پر چھلانگ لگادی۔ میراارادہ تھا کہ میں بچھڑے پر سوار ہو کر اس کی ایک ٹانگ اوپر اٹھاؤں گا لیکن میرا خیال محض خیال ہی رہا‘ اس نے اپنے منہ کے تھپڑے سے مجھے ہوامیں اچھال دیا۔ میں کم از کم دس فٹ تک اچھلا ہوں گا۔ اس دوران چھری میرے دانتوں میں سے نکل گئی اور میں دھپ سے زمین پر آگرا۔
مجھے یوں لگا جیسے میری ساری ہڈیاں ٹوٹ گئیں ہوں۔ میرا سر ایک دم سے چکرا گیا اور مجھے یوں لگا جیسے میں ابھی بے ہوش ہوجاؤں گا۔ مجھے اپنی بے عزتی کااتنا زیادہ دکھ نہیں تھا جتنا ہارجانے کے بعد وہاں سے نکل نہ سکنے کادکھ تھا۔ میں زمین پرپڑا رہا۔ تبھی تانی میرے قریب آئی‘ اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا‘ میں نے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا تو اس نے سہارا دے کرمجھے اٹھالیا۔
میں چند قدم اس کے سہارے چلا پھر خود ہی قدم بھرتا ہوا چارپائی پر آگرا۔
”جاؤ جسپال …!“ مہرخدابخش نے کہا۔
”میرا ہڈیاں تڑوانے کا ابھی موڈ نہیں ہے۔“ اس نے صاف انداز میں کہہ دیا۔
”جمال تو گیااور…“ مہرخدابخش نے سنجیدگی سے کہا۔
”میں جانوروں کے ساتھ کیوں ٹکراؤں۔“ جسپال نے کاندھے اچکا کر کہا۔
”انسان جانوروں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
سانپ کے زہر کاتو پھر بھی علاج ہے‘ لیکن انسانی زہر سے بچنا بہت مشکل ہے۔ یہ اتنا سریع الاثر ہوتا ہے کہ کئی نسلوں تک زہر کااثر نہیں جاتا پھر جاؤ‘ جاکر انہی درختوں کے پاس جاکر آرام کرو‘ کل بات ہوگی تم لوگوں سے۔“ یہ کہہ کر وہ ایک دم سے اٹھااور واپس گوپے کی جانب بڑھ گیا۔ میں حسرت سے ان دونوں کو جاتے دیکھتا رہا۔
# # # #