سہ پہر ہوتے ہی ہم مہرخدابخش کے گوپے کے سامنے تھے۔ ہمارے پہنچتے ہی سرمدباہر آیااور ہمیں اندر آنے کااشارہ کیا۔ ہم ذرا سی اونچائی چڑھتے ہوئے گوپے کے دروازے تک پہنچے اور پھر اندر داخل ہوگئے۔سامنے ہی مہرخدابخش کے ساتھ ایک بوڑھے سے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے سر‘ داڑھی‘ مونچھیں ‘بھنوئیں بھی سفید ہوچکی تھیں۔ گلابی رنگ اور تیکھے نقوش‘ بڑی ساری سفید پگڑی میں سے لمبے بال کاندھوں تک جھول رہے تھے۔
انہوں نے سفید کرتا اور سفید ہی دھوتی پہنی ہوئی تھی۔ پاؤں میں مقامی کھسہ پہنا ہوا تھا‘ جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے‘ انہوں نے ہم دونوں کو دیکھااور پھر ان کی نگاہ مجھ پرٹک گئی۔ مہرخدابخش نے مجھے ایک طرف پڑی چارپائی پر بیٹھنے کااشارہ کیا‘ اور جسپال کو ایک پیڑھے کی طرف‘ ہم بیٹھ گئے تووہ بزرگ بولے۔
(جاری ہے)
”اچھا تو یہ ہیں وہ دونوں…“ پھر میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولے۔
”تجھے پتہ ہے کہ تو کون ہے؟ تیری ذات کیا ہے؟“
”میں نہیں جانتا۔سکول میں استاد نے پوچھا تھا‘ تب میری ماں نے”گجر“ لکھوایا تھا۔ پھر کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔“
”ہاں تجھے واقعی نہیں پتہ، تو کون ہے؟ تیری روح کیا کہہ رہی ہے‘ تجھے تیری اپنی ذات کا پتہ ہی نہیں چلا۔“ انہوں نے خود کلامی کے سے انداز میں کہاتو میں مودب لہجے میں بولا۔
”تو آپ بتادیں۔“
”تو…تو… قلندرذات کا ہے… قلندر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو شکرگزاری کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچ کر قرب الٰہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ رب تعالیٰ بھی ان کی خواہش کو رد نہیں کرتا۔ دوسرے وہ جو ذات کے قلندر ہوتے ہیں۔ ان کا پیشہ بندر ‘ریچھ اور کتے نچانا ہوتا ہے۔ تو جان لے کہ تو وہی ہے… اوریہ…“ انہوں نے جسپال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”یہ تیرا احسان چکانے تیرے ساتھ آیا ہے۔ تم دونوں نہیں جانتے ہو لیکن میں تمہاری تین نسلیں دیکھ رہا ہوں۔“
”ہماری تین نسلیں باباجی۔“ جسپال نے چونک کر پوچھا۔
”ہاں پتر… تین نسلیں۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے‘ جب تم دونوں پر اپنا آپ واضح ہوجائے گا۔ کون کیا ہے‘ یہ سب کھل جائے گا‘ تم دونوں پر۔“ انہوں نے جذب سے کہا۔
”مگر میں قلندر…بندر ریچھ‘ اور کتے …یہ …“ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے سوال کیا تو وہ بولے۔
”پتر! تیرے پیداہوتے ہی یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ تو کیا ہوگا۔ یہ سفر ہے جو تجھے طے کرنا ہے۔ میری کوئی پیشن گوئی تجھے تیرے راستے سے نہیں ہٹاپائے گی۔ تو نہ چاہتے ہوئے بھی اسی راستے پر چلے گا جو متعین ہوچکا ہے۔ اور باقی رہی قلندر کی بات… قلندر کوئی محض روحانی مقام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک طرز زندگی کا نام بھی ہے‘ جس میں جو حال بھی ہو ‘ بس شکر گزاری ہے۔
اور جان لو…حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ قلندر اعظم بھی ہیں۔ ان کا طرز زندگی شکرگزاری کے اعلیٰ ترین مقام پر ہے۔ خیر… میری یہ بات ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی ہماری ایک دفعہ پھر کہیں نہ کہیں ملاقات ہونی ہے‘ تب تمہیں بھی سمجھ آچکی ہوگی ۔ وہ ملاقات بڑی اہم ہوگی۔“
”کیا اب مجھے بندر‘ریچھ اور کتے نچاناہوں گے۔“ میں نے پوچھا تووہ دھیرے سے مسکرادیئے پھر بولے۔
”یہ تو تجھے نچانا ہوں گے‘ ورنہ تو خود ناچتارہ جائے گا۔ یہ سارا کچھ کیوں ہے‘ یہ جب ہماری اہم ملاقات ہوگی نا…تب تم پر کھل جائے گا۔ اس وقت تک تجھے بہت ساری عقل سمجھ بھی آچکی ہوگی۔“ انہوں نے یہ کہااور پھر جسپال کی طرف دیکھ کر بولے۔ ”جس طرح کوئی دریا میں غوطے کھاتا ہوا کسی انجان کنارے پر جالگے، تم بھی اسی طرح لڑھکتے ہوئے یہاں تک آن پہنچے ہو‘ تم دونوں کا ایک ساتھ یہاں تک آنا اتفاق نہیں ‘ وقت ہوگیا تھا کہ تم دونوں کویہاں لایا جائے۔
تم دونوں کچھ وقت یہاں گزارو، یہی وقت کی آواز ہے۔“
”کتنا وقت ہمیں یہاں رہنا ہوگا؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”جب تک تم بچھڑے کو گرا کر ذبح نہیں کرلیتے‘ اس کی دعوت کھاؤ اور چلے جاؤ۔“ انہوں نے گہری سنجیدگی سے کہا تو ہمارے درمیان ایک دم سے خاموشی چھاگئی۔
”کیاہمارا یہاں ٹھہرنالازمی ہے؟“ جسپال نے پوچھا۔
”ہاں۔
! نہ ٹھہرنا چاہوتو وہ تم لوگوں کافیصلہ ہے‘ بس یہ جان لو‘ جو وقت کی آواز نہیں سنتا‘ وقت اسے یوں پیچھے دھکیل دیتا ہے کہ وہ ماضی میں گم ہو کررہ جاتے ہیں۔ فطرت کا سفر جاری ہے‘ اسے چلانے کے لیے قدرت کاانتظام ہماری عقل وسمجھ سے بھی ماورا ہے‘ فیصلہ تم دونوں کا اپنا ہے‘ ٹھہرو‘ یاچلے جاؤ۔یہ تمہارا اپنا اختیار ہے۔“
”باباجی ،میں یہ بچوں والا سوال نہیں کروں گا کہ ہمیں یہاں کیوں ٹھہرایا جارہا ہے یقینا یہ کسی مقصد کے لیے ہوگا۔
میں اپنا آپ ‘ آپ کے سپرد کرتا ہوں۔“ میں نے پورے خلوص اور جذب سے کہا تو جسپال تیزی سے بولا۔
”اور میں بھی یہ دیکھنا چاہوں گا کہ یہ جمال کس طرح بچھڑے کو ذبح کرتا ہے۔“
وہ بزرگ چند لمحے ہماری طرف دیکھتے رہے‘ پھر اٹھتے ہوئے بولے۔
”آؤ… تم دونوں میرے قریب آؤ…“
ہم بھی کھڑے ہوکران کی قریب چلے گئے۔ پہلے انہوں نے جسپال کو گلے لگایا۔
چند لمحے وہ انہیں اپنے سینے سے لگائے رہے‘ پھر چھوڑ کر مجھے اپنے سینے سے لگایا۔ وہ چند لمحے جو میں ان کے سینے سے لگا تومجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں بے جان ہوگیا ہوں ۔میرا کوئی وزن ہی نہیں رہا۔ یوں جیسے میں خلا میں معلق ہوگیاہوں۔ پھر مجھے احساس ہوگیا کہ میرا وزن اتنابڑھ گیا ہے کہ شاید زمین میں دھنس جاؤں گا۔ چند لمحوں میں اپنی تیزی سے بدلتی حالتوں پر میں خود حیران رہ گیاتھا۔
انہوں نے مجھے خود سے الگ کیااور بولے۔
”لو بھئی… میں چلا…“ انہوں نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور گوپے سے نکلتے چلے گئے۔ مہرخدابخش ان کے پیچھے لپکا تو ہم بھی آگے بڑھے۔ وہ پیدل چلتے چلے جارہے تھے۔ اس عمر میں اور اس قدر تیزی کے ساتھ‘ یہ میرے لیے واقعی حیرت انگیز بات تھی۔ ان کا رخ صحراکی طرف تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ٹیلے پر چڑھے اور پھر دوسری طرف اتر کر نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔
”آؤ۔!“مہرخدابخش کی آواز پر میں پلٹااور واپس گوپے میں آگیا۔ تب تک چائے آچکی تھی۔ تانی پیالیوں میں چائے انڈیل رہی تھی۔ جب وہ پیالیاں سرو کرچکی تو مہرخدابخش بولا۔ ”یقینا تم لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہوگے؟“
”ہاں…کیوں…نہیں؟“ میں نے چونکتے ہوئے کہا۔
”میں بھی ان کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں‘ چند برس قبل‘ انہی ویرانوں میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی اور تب سے میں یہیں پر ہوں۔
جب بھی انہیں مجھے کوئی حکم دینے کی ضرورت ہوتی ہے‘ یہ خود مجھے مل لیتے ہیں‘ میں نہ ان کانام جانتاہوں اور نہ ان کا ٹھکانہ… میں انہیں بابا جی ہی کہتا ہوں۔“
”ہمیں یہاں کرنا کیا ہوگا؟“ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا توچند لمحے سوچتے رہنے کے بعد وہ بولا۔
”انسان روح اور جسم کا عظیم شاہکار ہے‘ جسم جس قدر کثیف ہوگا‘ نفس بھی اسی قدر مضبوط ہوگا۔
اور روح جس قدر لطیف ہوگی‘ وہ طاقتور ہوگی‘ مضبوط جسم ہی میں روح طاقت ور ہوتی ہے‘ یہاں جسم ہی کی نہیں نفس کی بھی تربیت ہوگی۔“
اس پر میں نے کوئی سوال نہیں کیا اور نہ ہی جسپال بولا‘ ہم خاموشی سے چائے پیتے رہے‘ جب پی چکے تو اس نے ہمیں اٹھنے کااشارہ کیا اور ہم اٹھ گئے۔ تب وہ بولا۔
”میں تم لوگوں کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔ اگرباباجی کاحکم نہ ہوتا تو آج کل میں تم لوگوں کو یہاں سے روانہ کرچکا ہوگا‘ لیکن جس رات تم یہاں پر آئے تھے‘ اس شام مجھ تک پیغام پہنچ گیا تھا کہ دولوگ مختلف سمتوں میں آئیں گے‘ انہیں سنبھال لوں۔
ابھی تم لوگوں کو یہ ساری باتیں حیرت انگیز لگ رہی ہوں ‘ لیکن کچھ عرصے بعد یہ حیرت نہیں رہے گی ‘اب یہ تم لوگوں پرمنحصر ہوگا کہ کتنا سیکھ سکتے ہو‘ اپنے دامن میں کیا کچھ بھرسکتے ہو‘ کنکر‘ چنتے ہو یا ہیرے ۔آؤ“ یہ کہہ کر وہ گوپے کے باہر جانے کے راستے پر ہولیا۔ ہم بھی اس کے پیچھے چلتے ہوئے باہر آگئے۔ سامنے ہی تین اونٹ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمیں ان پربیٹھنے کااشارہ کرکے وہ خود ایک پر بیٹھ گیا۔ ہم اونٹوں پر سوار ہوئے اور کچھ دیر ایک سمت کو چلتے رہے‘ ایک بڑے سارے گوپے کے قریب ہم جارُکے۔