Episode 124 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 124 - قلندر ذات - امجد جاوید

اونٹوں سے اتر کر ہم اس گوپے کے اندر چلے گئے۔ا س گوپے میں ایک دروازہ تھا‘ مہرخدابخش نے اس پر اپنی ہتھیلی رکھی تووہ میکانکی انداز میں کھلتا چلا گیا۔ وہ ہمیں ساتھ لیتا ہوا سیڑھیاں اترتا چلا گیا۔ نیچے ایک ہال نما کمرہ تھا‘جس میں خوشگوار خنکی پھیلی ہوئی تھی۔ وہیں دیواروں کے ساتھ ٹی وی اسکرین‘ کمپیوٹر اور نجانے کیا کیا آلات لگے ہوئے تھے۔
وہیں کافی سارے لڑکے لڑکیاں بیٹھے کام کررہے تھے۔ ان میں سرمد بھی تھا جونجانے کب وہاں سے یہاں پہنچ گیاتھا۔
”یہ ہمارا آپریشن روم ہے‘ یہاں سے صرف باہر کی دنیا سے رابطہ رکھا جاتا ہے‘ یہیں سے اپنی حدود کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ آؤ‘ تمہاری بات کروائیں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے سرمد کو اشارہ کیا۔ اس نے ہمیں دو خالی کرسیوں پر بیٹھنے کااشارہ کرتے ہوئے اسکرین پر نگاہیں جما کر کی بورڈ پر انگلیاں مارنے لگا۔

(جاری ہے)

کچھ دیر بعد سوہنی کی آواز‘ ابھری‘ وہ ہیلو کررہی تھی‘ آواز سامنے پڑے اسپیکر سے ابھر رہی تھی۔
”میں جمال بات کررہا ہوں۔“
”ہائے جمال ۔کیا تم کسی غیر ملک پہنچ گئے ہو‘ اسکرین پر کوئی نمبر ہی نہیں‘ کہاں ہو تم ۔ٹھیک تو ہونا؟“
”ایک دم اتنے سوال کردیئے تم نے۔ میں جہاں بھی ہوں‘ بالکل ٹھیک ہوں۔ ہاں تُو سنا‘ ٹھیک ہے تواور اماں کیسی ہے؟“
”ہم ٹھیک ہیں اور پوری طرح محفوظ ہیں۔
“ اس نے کہا۔
”مجھے بتا،چھاکاکیساہے؟“میں نے پوچھا ۔
”پولیس نے پکڑ لیا تھا اُسے‘ لیکن آج صبح ہی وہ نور نگر چلاگیا ہے۔ میرااس سے رابطہ نہیں ہوا‘ لیکن وہاں سے مجھے معلوم ہوگیا ہے۔“ اس نے بتایا۔
”او رشاہ زیب۔؟“ میں نے پوچھا۔
”وہ نورنگر میں ہی ہے‘ بالکل سہما ہوا ہے‘ کیونکہ ابھی اس نے کچھ نہیں کیا۔اب چھاکے سے بات ہوگی تو پتہ چلے گا۔
“ اس نے کہا۔
”اپنا خیال رکھنا‘ اور گھبرانا نہیں‘ میں بہت جلد تم لوگوں کے پاس آجاؤں گا۔“ میں نے اسے دلاسا دیا۔
”میں نے چھاکے سے کہا تھا کہ وہ میرے پاس ہی رہے ادھر لیکن پتہ نہیں کیوں وہ نور نگر ہی میں رہنے پر ضد کررہا ہے‘ خیر تم بھی پریشان نہیں ہونا۔ لو اماں سے بات کرو۔“
”پتر،اپنا بہت سارا خیال رکھنا‘ میری دعائیں تیرے ساتھ ہیں۔
“ اماں نے کہا۔
”اماں تیری دعاؤں کے سہارے تو جیتا پھر رہا ہوں۔ اک یہی تو طاقت ہے میرے پاس ‘اپنا خیال رکھنا اماں۔“
”توفکر نہ کر پتر‘ سوہنی میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ بس تو جلدی سے مجھے ملنے کے لیے آجا‘ مگر جب حالات ٹھیک ہوجائیں۔“ اماں نے اپنے دل کی بات بھی کہہ دی اور مجھے محتاط رہنے کے لیے بھی کہہ دیا۔ میں نے محسوس کیا جیسے میرا گلا نم ہو رہا ہے‘ میں نے مزید بات کرنا مناسب نہ سمجھا‘ ممکن ہے میرے ذراسی جذباتی پن سے اردگرد کھڑے لوگ میری کمزوری نہ جان لیں۔
میں نے اماں کو اللہ حافظ کہا۔تبھی ایک دم سے مجھے احساس ہوا ‘ ان کے پاس سوہنی کا نمبر کہاں سے آگیا۔ میں نے تو انہیں نہیں بتایا تھا‘ کیا یہ لوگ سوہنی تک بھی رسائی رکھتے ہیں۔ کیا یہ بات انہوں نے اس لیے کروائی تاکہ مجھے احساس دلایا جاسکے کہ وہ سوہنی تک بھی رسائی رکھتے ہیں۔ میں ایک دم سے گھبراگیا۔ تب تک انوجیت سے رابطہ ہوگیا تھا۔جسپال پوچھ رہا تھا۔
”کیسے ہوانوجیت ؟سنا ہے تم پر بہت تشدد ہوا ہے؟“
”ہاں،ہوا تو ہے‘ خیر اسے چھوڑو‘ میں پہلے ہی ان کی نگاہ میں تھا لیکن تم ہوکہاں؟“
”سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے خود نہیں معلوم‘ مجھے ہرپریت کے بارے میں بتاؤ‘ وہ کیسی ہے‘ اس کا زخم ٹھیک ہوا؟“ 
”وہ ٹھیک ہے۔ ہم کیشیو مہرہ سے مسلسل رابطے میں ہیں‘ تمہاری مسلسل تلاش جاری ہے۔
تمہارے سفارتخانے سے بھی رابطہ کیا تھا‘وینکوور سے تیرے بھائی نے سفارت خانے والوں سے بات کی ہے۔ تو فکر نہ کرو لیکن تو ہے کہاں پر؟“
”تم گھر پر ہو تو ہرپریت اور پھوپھو سے بات کرادو۔ میری فکر چھوڑو‘ میں کہاں پر ہوں۔“
”میں کرواتا ہوں‘ وہ ڈرائنگ روم میں ہیں۔ بہرحال اچھا کیا تم یہاں سے نکل گئے۔ حویلی جلانے کے بعد تو یہ لوگ بہت متشدد ہوگئے ہیں۔
”تم گھبراؤ مت‘ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں دیکھ لوں گا سب کو۔“ اس نے ایک عزم سے کہا۔ تبھی کلجیت کور کی آواز ابھری۔
”کیسے ہو پتر۔“
”میں ٹھیک ہوں،آپ کیسے ہو؟“
”واہِ گرو کی مہر ہے پتر۔ تواپنا خیال رکھنا۔ لے ہرپریت سے بات کر۔“
”اوئے سانوں چھڈ کے آپ کدھر چلے گئے ہو؟“ وہ شوخی سے بولی۔
”بہت جلد تیرے پاس آجاؤں گا‘ تیرا زخم کیسا ہے؟“
”ٹھیک ہے اب۔
”اچھا سن۔! اگر زیادہ خراب ماحول ہوجائے نا تو سیدھے وینکوور چلے جانا۔ یہاں جو بھی نقصان ہوتا ہے ہوجانے دینا‘ میں سنبھال لوں گا آکر۔“
”ٹھیک ہے۔“ اس نے بھرپور انداز سے کہا اور پھر چند رسمی فقروں کے بعد فون بند ہوگیا۔ تب مہرخدابخش نے ہمیں باہر چلنے کااشارہ کیا۔ جیسے ہی ہم باہر آئے تو میں نے پوچھ ہی لیا۔
”مہرصاحب! یہ سوہنی کا فون نمبرآپ کے پاس کیسے آگیا؟“
”مجھے یقین تھا کہ تم یہ سوال ضرور کرو گے۔
سوہنی پچھلے چند دنوں سے پولیس کے اعلیٰ حکام سے ملتی رہی ہے‘ تمہارے لیے اور چھاکے کے لیے۔ وہاں اس نے اپنا فون نمبر دیا ہوا ہے۔“ اس نے سکون سے کہا۔
”تو اس کامطلب ہے آپ کی پولیس حکام تک …“ میں نے جان بوجھ کر بات ادھوری کی ۔
”یہاں رہوگے ناتو ساری باتیں سمجھ جاؤگے ۔آؤ، تمہیں کچھ مزید دکھاؤں۔“ یہ کہہ کر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہوگیا۔
کچھ فاصلے پر ایسا ہی ایک اور گوپا تھا۔ جو پہلے سے نسبتاً بڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف باڑھ تھی‘ وہاں بہت ساری گائیں‘ بکریاں اور اونٹ تھے کچھ ریوڑ کی صورت میں واپس آرہے تھے‘ وہیں ایک طرف اکھاڑہ بنا ہوا تھا۔ ہم گوپے کے اندر گئے تو ویسے ہی سیڑھیاں اتر کرنیچے ہال میں جاپہنچے‘ وہاں جسم بنانے اور بدن کمانے کے لیے آلات سجے ہوئے تھے‘ ایک طرف بڑا سارامیٹرس پڑا ہوا تھا۔
بلاشبہ وہاں پر لڑنے کی تربیت دی جارہی تھی۔ اس وقت وہاں پر دو بندے ہی موجود تھے جن کے بدن دیکھ کر رشک آرہاتھا۔ انہیں مہرخدابخش نے کہا۔
”یہ دونوں اب یہاں آیا کریں گے۔“
”جی ٹھیک ہے۔“ قدرے ادھیڑ عمر بندے نے ہلکا سا جھک کر کہاتومہر نے ہمیں واپس پلٹنے کااشارہ کیا۔ پھر اسی طرح اونٹوں پر سوار ہوئے اور ایک مسجد کے قریب جا پہنچے۔
اس سے ملحق ایک بڑ اسا گھر تھا۔ ہم اس کے اندر چلے گئے۔ وہیں تہہ خانے کادروازہ کھلا اور ہم سیڑھیاں اتر گئے۔ ویسا ہی ہال تھا‘ لیکن وہاں انتہائی خاموشی تھی۔ سامنے ذرا سی اونچی مسند پر ایک بوڑھے‘ سفید ریش بزرگ بیٹھے ہوئے تھے‘ ان کے سامنے چند لڑکے اور لڑکیاں سفید لباس میں یوں بیٹھے ہوئے تھے جیسے مراقبے میں ہوں‘ وہ بزرگ ہماری طرف دیکھ رہے تھے‘ مہرخدابخش نے اشارے سے ہمارے بارے میں بتایا‘ انہوں نے آنکھیں بند کرکے ہمیں قبول کرنے کااشارہ کیا‘ تبھی ہم باہر نکل آئے۔
اس وقت سورج غروب ہونے کو تھا‘ جب ہم واپس مہرخدابخش کے گوپے تک آپہنچے ‘اونٹوں سے اتر کر وہ ہمارے پاس آیااور بولا۔
”پہلی وہ جگہ تھی جہاں تم لوگوں کی ذہنی تربیت ہونا ہے‘ دوسری میں جسمانی اور تیسری پر روحانی تربیت ہوگی‘ تم لوگ کتنے وقت میں کیا کچھ سیکھ سکتے ہو‘ یہ تم لوگوں پرمنحصر ہے۔“
”ہمیں اگر زندگی نے یہ موقع دے دیا ہے تو ہم اسے ضائع نہیں کریں گے۔
“ میں نے پورے خلوص سے کہا تو مسکراتے ہوئے بولا۔
”اور ہاں،تمہیں ایک چیز یہاں دینی ہوگی‘ اور وہ ہے نشانہ بازی۔تم فنکار ہو اور اپنا ہنر یہاں دوگے، اگر دینا چاہو…“
”میں حاضر ہوں۔“میں نے خلوصِ دل سے کہا۔
”کل چند لوگ تمہیں دے دیئے جائیں گے۔تم ان کی تربیت کرنا‘ اور جسپال ۔!یہ ہمارا مسلم سیٹ اپ ہے‘ تمہیں اپنے مذہب کے بارے میں مکمل آزادی ہے۔
تمہیں جو اچھا لگے قبول کرلو‘ باقی جبر نہیں‘ کیونکہ میں سمجھتا ہوں‘ کردار ہی وہ پھل ہے جس سے کسی درخت کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے‘ اور ہاں‘ یہاں قریب ہی ایک بستی ہے‘ اب تم دونوں وہاں ایک گھر میں رہوگے‘ درختوں تلے نہیں۔“اس نے کہا تو ایک مقامی نوجوان ہمیں لے کر اس بستی کی طرف چل دیا۔ اس دن نجانے مجھے کیوں یقین ہو رہاتھا کہ میری زندگی کا ایک نیادور شروع ہوگیا ہے۔
                                     # # # #

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط