Episode 4 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 4 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

جیسے ہی جسپال نے پریس کانفرنس ختم کی‘ اس پر سوالوں کی بوچھاڑ ہوگئی۔ بہت سارے صحافی سب کچھ جان لینا چاہتے تھے لیکن کیشیو مہرہ نے جسپال کو ان سب کے درمیان سے نکالنے کے لیے اپنے بندوں کواشارہ کردیا۔ انہوں نے جسپال کو گھیرے میں لیااور باہر کی جانب چل پڑے۔ چند لمحے بعد کیشیومہرہ بھی اس کے ساتھ باہر آگیا‘ وہ دونوں کار میں بیٹھے تو کار چل دی۔
تب وہ بولا۔
”جسپال! اب میرا اور تمہارا ساتھ ایک وکیل اور کلائنٹ ہی کارہ گیا ہے‘ اب تم جن کے ساتھ ہو وہ بہت بڑے لوگ ہیں۔“
”میں سمجھا نہیں‘ مہرہ جی‘ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہو؟“ جسپال نے پوچھا۔
”تمہارے یہاں آنے سے پہلے تک مجھے خبر نہیں تھی کہ تم کہاں ہو اور اتنا عرصہ کہاں رہے ہو۔ بہرحال مجھے اور جسمیندر کو یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اب تم ان لوگوں کی ذمے داری ہو۔

(جاری ہے)

اس معاملے میں انہوں نے اچھی خاصی بریفنگ دی ہے‘ اب میرا معاملہ صرف اتنا ہے کہ چند دن کے اندر اندر تمہاری جائیداد والا معاملہ حل کردوں اورمجھے امید ہے کہ وہ اب تک حل بھی ہوگیا ہوگا۔ میری تو صرف فارمیلیٹی ہوگی۔“ اس نے یوں کہا جیسے وہ مرعوب ہوگیا ہو۔ تب جسپال نے پھر پوچھا۔
”کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ؟ وہ لوگ کون؟ میں سمجھا نہیں۔
”بہت جلد سمجھ جاؤگے۔اب تم سیدھے اوگی جاؤ بے فکر ہو کر۔“ اس نے مبہم سی بات کی اور ایک جگہ ڈرائیور کو رکنے کااشارہ کیا۔ ڈرائیور رک گیا۔ کیشیو مہرہ اتراتو کار پھر سے چل دی۔
سورج مغربی افق میں ڈوب چکاتھا۔ جب جسپال اوگی میں کوٹھی کے سامنے پہنچا۔ اس نے دور ہی سے دیکھا‘ کوٹھی کے سامنے بہت سارے لوگ جمع تھے۔ یہ ایک طرح سے خطرناک معاملہ تھا۔
اگرچہ ان کاانداز استفہامیہ ہی لگتا تھا مگران میں کوئی دشمن بھی ہوسکتاتھا۔ وہ محتاط ہوگیا۔ جیسے ہی ان کے پاس کار رکی‘ وہ اتر آیا۔ لوگوں نے پھولوں کے ہار اس کے گلے میں ڈالے‘ ایک طرف ڈھول بجنے لگا۔ ان میں وہی لوگ پیش پیش تھے جو ایک بار اسے گھر آکرملے تھے۔ وہ کچھ دیر ان سے ملتا ملاتا رہا‘ پھر اندر کی جانب چل دیا۔ بنتا سنگھ نے گیٹ بند کردیا۔
سامنے کلجیت کور‘ ہرپریت اور انوجیت کھڑے تھے۔ ہرپریت اسے بڑی گہری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ سب سے گلے ملا‘ پھر ڈرائنگ روم میں اس نے وہی کہانی سنائی جو کچھ دیر پہلے پریس کانفرنس میں سناچکاتھا۔ تبھی انوجیت نے کہا۔
”تم نے دیکھا‘ تمہاری واپسی پر اوگی پنڈ والوں میں اتنا جوش وخروش کیوں ہے؟“
”ہاں‘یہ میں جاننا چاہوں گا۔
“ جسپال نے تجسس سے پوچھا۔
”تم نے جو بلجیت سنگھ کے ساتھ کیا تھا‘ یہ ان کی اندر کی خواہش تھی‘ وہ دوبارہ لوٹ کر اوگی آہی نہیں سکا ہے‘ ابھی تک دہلی میں ہے‘ اپنے باپ کے پاس۔ ان کا تو جیسے یہاں سے صفایا ہی ہوگیا ہے۔“ انوجیت نے بتایا۔
”میں نے سنا تم پرپولیس نے بہت تشدد کیا؟“ جسپال نے آہستگی سے پوچھا تووہ قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے بولا۔
”یار یہ توچلتا ہی رہتا ہے تم بے فکرر ہو۔“
”چل پتر۔! اب تو فریش ہوجا‘ میں اتنی دیر میں کھانا لگواتی ہوں۔“ کلجیت کور نے کہا تو اس نے سرہلاتے ہوئے ہرپریت کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ جذبات سے عاری تھااور وہ بڑے غور سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے مبہم سااشارہ کرکے اُٹھ گیا۔
جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں پہنچا تو اسے احساس ہوا کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں بدلا۔
جبکہ اس کی اپنی دنیا بدل چکی تھی۔ ہرشے ویسے کی ویسے ہی پڑی ہوئی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد ہرپریت اندر داخل ہوئی۔ وہ اس کی طرف گہری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ یوں لگ رہاتھا جیسے اس میں جوش وخروش ختم ہوکررہ گیا ہو۔ وہ اس کے پاس گیا اور دونوں ہاتھ اس کے کاندھے پر رکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانک کرپوچھا۔
”پریتی#! کیا ہوا تجھے‘ ایسا کیوں؟“ اس نے پریشانی میں پوچھا۔
وہ اس کی طرف دیکھتا رہا۔ اور وہ کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔ پھر ایک دم سے اس کے سینے کے ساتھ لگ کر رونے لگی۔ ”پریتی! کیاہوا؟مجھے بتاؤ‘ تم کیوں رو رہی ہو؟“
”پہلی بار! مجھے خوف آیا ہے تیرے جانے کے بعد۔میں تجھے کھونا نہیں چاہتی جسپال۔ میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں۔“
”اوہ۔! میں سمجھا‘ پتہ نہیں کیا ہوگیا۔“ اس نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے اسے الگ کیاتو ہرپریت کا چہرہ ویسا ہی ستا ہوا اور آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔
اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا۔
”نہیں جسپال‘ بہت کچھ بدل گیا ہے۔“
”کچھ بھی نہیں بدلااور اپنا یہ موڈ ٹھیک کرو‘ میں نے تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔“ جسپال نے خوشگوار موڈ میں کہا تو وہ دھیرے سے غم زدہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
”اب تو تیرے ساتھ باتیں کرنی ہیں‘ یا پھر تیری ہی باتیں کرنی ہیں۔ تیرے بنا اب رہ کیا گیا ہے۔
“ اس کے یوں کہنے پر جسپال نے ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”نہیں ہرپریت۔! میں تمہیں پہلے جیسا ہی دیکھنا چاہتی ہوں۔ زندگی سے بھرپور۔“
”ٹھیک ہے۔“ اس نے کہااور آنسو پونچھتی ہوئی ادھر ادھر دیکھ کربولی۔”تم جاؤ باتھ روم‘ میں تمہارے لیے کپڑے نکال دیتی ہوں۔“
جسپال نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور باتھ روم کی طرف چل دیا۔
کھانے پر دیر تک باتیں چلتی رہیں۔
اس نے اپنے بارے میں کم اور وہاں کی صورت حال کے بارے میں زیادہ بات کی۔ بظاہر اوگی میں اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔ بلجیت اور اسکا خاندان یہاں سے جاچکاتھا۔ انوجیت کو پھنسایا گیا تھا لیکن دلبیر سنگھ نے اس کی بہت مدد کی تھی۔پولیس کے علاوہ جہاں جہاں بھی ضمانت دینے کی ضرورت پڑی ‘وہاں دلبیر سنگھ نے ہی ضمانت دی۔ اس کے ساتھ ہی وہ سارے لوگ جو بلجیت سنگھ سے تنگ تھے‘ وہ سبھی انوجیت کے حق میں ہوگئے‘ مجموعی طور پر اوگی پنڈ کا ماحول بدل چکاتھا۔
”انوجیت‘ جو بھی ہوجائے‘ میں نے رویندر سنگھ کے خاندان کو ختم کرنا ہے‘ بلجیت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اب کہاں ہے؟ دہلی کے کس ہسپتال میں ہے‘ یا…“ میں نے بات ادھوری چھوڑ دی تو انوجیت بولا۔
”وہ نہ زندوں میں ہے نہ مردوں میں۔ میرے خیال میں وہ زیادہ سزا بھگت رہا ہے۔ اپنے باپ کے پاس دہلی ہی میں ہے‘ مجھے تو یہی معلوم ہے‘ آگے رب جانے۔
”چل ٹھیک ہے‘ میں پتہ کرلوں گا۔ “ میں نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا تو ہرپریت نے جسپال کی طرف بڑے غور سے دیکھا‘ جس کی اسے سمجھ نہیں آسکی۔
کھانے کے بعد جسپال اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے ذہن میں جمال تھا۔ نجانے اب وہ کہاں ہوگا‘روہی میں جو ایک ساتھ وقت گزراتھا‘ اس باعث جمال کی عادت سی ہوگئی تھی۔ وہ اکیلا پڑا آئندہ آنے والے دنوں کے بارے میں سوچ رہاتھا کہ کیا کرنا ہوگا۔
بلجیت کی حالت کے بارے میں جان کر نہ تو اسے افسوس ہواتھا اور نہ خوشی‘ شاید وہ اسے اپنے ہاتھوں سے مارنا چاہتاتھا۔ وہ انہی خیالوں میں کھویا ہواتھا کہ ہرپریت ایک چھوٹے سی ٹرے میں چائے کے دو مگ رکھے آگئی۔ اس نے خاموشی سے بیڈ پر ٹرے رکھی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ پھر بولا۔
”ہرپریت۔! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہاں گئے تمہارے وہ دعوے‘ ایک گولی کھا کر تم اتنی بدل گئی ہو؟ کیا اب موت سے ڈر لگنے لگا ہے۔
یہ سن کر وہ چند لمحے جسپال کے چہرے پر دیکھتی رہی‘ پھر بولی تو اس کے لہجے میں افسردگی چھلک رہی تھی۔
”جسپال! میں اب بھی ویسی کی ویسی ہی ہوں‘ لیکن افسوس میں ہوں کہ مجھے یہ گولی اس لیے لگی کہ میں تیرے ساتھ تھی‘ جس مقصد کے لیے میں زندہ ہوں‘ یہ گولی‘ اس کے لیے مجھے نہیں لگی‘ میں اپنے مقصد سے ہٹ گئی تھی‘ شاید رب کومیرا یہ عمل پسند نہیں آیا۔
میں عورت ہوں‘ میرے بھی جذبات ہیں‘ میں چاہے جتنی بھی سخت ہوجاؤں‘ فطری طور پر محبت تو میرے اندر ہے نا۔تیری جدائی نے مجھ پر یہ راز انکشاف کیا تو مجھے لگا میں ناکام ہوگئی۔“
”پریتی۔! میں تیری ساری باتیں مانتا ہوں‘ لیکن مجھے بتا‘ ا س میں میرا دوش کیا ہے اور جہاں تک تیری ناکامی کی بات ہے تو یہ جان لے‘ میرا مقصد پورا ہوگیا تو میں تیرے مقصد کے لیے لڑوں گا‘ اس کی مجھے آگہی ہوگئی ہے۔
”سچ جسپال‘ تو ”سِکھی“ کے لیے لڑے گا۔“ اس نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
”ہاں پریتی۔! مجھے لڑنا ہوگا‘ لیکن اس طرح نہیں جیسے یہاں کے لوگ جرم کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں انہیں جرم کے راستے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی حریت پسند تنظیم جب جرم کے راستے پر ڈال دی جائے تو نہ صرف اپنا مقصد کھو بیٹھتی ہے بلکہ وہ اپنی قوم کا نقصان کرتی ہے۔
”میں سمجھی نہیں‘ تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟“ ہرپریت نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”دیکھ۔! اس وقت ہتھیاروں کی لڑائی بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ دشمن نے بڑے گہرے وار کردیئے ہیں سکھ قوم پر۔ شراب کو ان کی رگوں میں ایسے ڈال دیا ہے کہ وہ اس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور نہیں کرسکتے‘ گانوں کے ذریعے ‘ فلموں کے ذریعے اور نجانے کس کس طرح ان کے اندر جواں مردی کی علامت شراب پینا بتایا گیا ہے اور سکھ قوم شراب پی رہی ہے۔
تجھے معلوم ہے پورے بھارت میں سب سے زیادہ شراب پنجاب میں پی جاتی ہے۔ کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے سکھ قوم کو، بندوق اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا نوالہ کا جوپیغام ہے‘ اب سکھ نوجوان اس سے دور بھاگتے ہیں۔ تُو خود بتا‘ ساکا چوراسی کے نام سے کس قدر شرمناکی محسوس کرتے ہیں۔ نام نہیں لیتے‘ صرف تیسری نسل کے لوگ ہیں جو انتقام کے چکر میں ہیں۔
پھر اس کے بعد کیا ہے، کچھ بھی نہیں۔“
”تمہارا مطلب ہے‘ پہلے سکھ قوم کی ذہن سازی کی جائے۔“ ہرپریت نے کہا۔
”تو اور کیا،سکھ قوم کی قوت جن نظریات سے تھی‘ وہ ختم ہو رہی ہے۔ اب دیکھو‘ ساکا چوراسی سکھ قوم کے خلاف ہوا‘ اور سکھوں کے روحانی مرکزہرمندر صاحب میں ہوا‘ سکھ قوم کا قتل عام ہوا‘ سکھوں ہی کی عبادت گاہ میں۔ اب سکھ قوم اپنی ہی عبادت گاہ میں اس سانحہ کی یادگار نصب کرنا چاہتی ہے‘ ہرمندر صاحب میں‘ لیکن نہیں کرپارہے‘ اپنی ہی عبادت گاہ میں اپنی یادگار نصب نہیں کرپارہے پریتی‘ وہ کون سی قوت ہے جو ایسا نہیں کرنے دے رہی۔
وہ دشمن نہیں ‘بلکہ اپنے ہی ہیں‘ ہم میں اتحاد نہیں‘ اس سے ہی اپنی قوت کااندازہ لگالو۔“
”تو بڑی مایوسی والی باتیں کررہا ہے جسپال ۔“ وہ واقعتا مایوسانہ لہجے میں بولی۔
”جب تک بیماری کا علم نہ ہو‘ علاج کیسے ممکن ہوگا۔ میں تو حقیقت بیان کررہا ہوں۔ آج بھی ایک سکھ سوا لاکھ ہندوؤں پر بھاری ہوسکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے باباجی مہاراج کے خیالات کو اپنانا ہوگا۔
میں جو سوچ رہا ہوں‘ وہ میں تجھے بتاؤں گا‘ لیکن یہ زمینیں اور جائیداد میرے نام ہوجائیں۔ مایوس نہیں ہونا۔ ہم فریڈم فائٹر ہیں اور رہیں گے لیکن ہمارا اپنا انداز ہوگا‘ سکھ تنظیمیں جو کرتی ہیں‘ وہ کرتی رہیں‘ وہ ان کا کام ہے‘ ہم اپنا کام کریں گے۔“
” جسی جی‘ ایک بات کہوں۔“ وہ بڑے پیار سے بولی۔
”بولو۔! “اس نے کہا۔
”تیرے لہجے اور بات کرنے میں بڑااعتماد آگیا ہے۔
کہاں رہا ہے تو اتنے دن۔“ اس نے پوچھا۔
”میں نے بڑی اذیت میں وقت گزارا ہے۔ کسی بھی لمحے زندگی ختم ہوسکتی تھی۔ یہ واہ گرو کی مہر ہے کہ میں اب تمہارے سامنے زندہ ہوں۔ موت کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ کر اعتماد آہی جاتا ہے۔“ جسپال نے کہااور چائے کا مگ اٹھا کر لمبا سپ لیا۔ ہرپریت نے بھی مگ اٹھا کر چائے کی چسکی لی اور چند لمحے سوچتی رہی‘ پھر بولی۔
”ایک وقت کے لیے تو ایسا لگا تھا کہ سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ پر نہیں واہ گرو‘ ہم سے کوئی کام لینا چاہتا ہے۔“
”وہ سارے کام ہوجائیں گے پرتو وہ پہلے والی ہرپریت بن جا،شوخ وچنچل۔“ جسپال نے کہا تو وہ ایک دم سے ہنس دی۔ وہ اس کی طرف دیکھتا رہ گیا پھر بولا۔
”کل صبح تیار رہنا‘ ہم نے جالندھر جانا ہے۔ وہاں کے پولیس چیف سے ملاقات ہے‘ ہوسکتا ہے ہمیں دہلی بھی جانا پڑے‘ اپنے سفارت خانے۔
”تو جہاں رہے گا‘ میں تیرے ساتھ رہوں گی جسپال۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اس کے بالکل قریب ہوگئی۔ جسپال نے بھی اسے سہارا دے دیا۔ وہ دونوں بیڈ کے سہارے لگ کر بیٹھ گئے۔ پھر خاموشی سے چائے پیتے رہے۔ مگ ایک طرف رکھ کر وہ بولی۔ ”میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم یوں بچھڑ کر پھرایک ساتھ یوں بیٹھیں گے‘ حسرت ہی ہوگئی تھی۔“
”اب تو اپنے ذہن سے سب کچھ نکال دے۔
ساری مایوسی ایک طرف رکھ دے اور صرف یہ سوچ کہ آئندہ آنے والے دنوں میں کیا ہوسکتا ہے اور اس سے ہم نے نبرد آزماکیسے ہونا ہے۔“ یہ کہہ کر جسپال نے اسے مزید قریب کرلیا۔ وہ اس کی بانہوں میں یوں پھیل گئی جیسے برسوں سے ترسی ہوئی ہو۔ اس کا بدن ہولے ہولے کانپ رہا تھا‘جبکہ جسپال اس کوحوصلہ دینے کے انداز میں تھپکی دینے لگا۔
                            …###…

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط