Episode 8 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 8 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”اب فٹافٹ بول دے۔ کون لوگ ہو تم؟ ورنہ تم لوگ جانتے ہو‘ میں ماردوں گی ہر اس بندے کو جس نے زبان نہ کھولی… بول“ یہ کہتے ہوئے اس نے زور کی ٹھوکر ماری۔
”ہم وکی سنگھ کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس نے تمہارے بارے میں بتا کر اٹھانے کو کہاتھا۔“
”اور وکی سنگھ کون ہے ؟“
”مدن لعل کا خاص آدمی۔“
”ہمیں ہی کیوں اٹھاناتھا؟“
”سارے دن کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ تو روزانہ ادھر آتی ہے‘ کل بھی تو قتل سے ذرا پہلے اٹھ گئی تھی اور وہ گاڑی بھی تیری ہی تھی۔
”قتل۔! کون سا قتل… اوہ… وہ جو ٹی وی پہ… تم لوگ مجھے اس کا قاتل سمجھ رہے ہو؟“ یہ کہہ کر اس نے اپنے گلے پرہاتھ رکھا اور بولی۔”قسم لے لو بھیا‘ میں نے اسے نہیں مارا لیکن اب تم لوگوں کوماروں گی۔

(جاری ہے)

اگروکی سنگھ کے بارے میں نہ بتایا۔“

”شہر میں کون وکی سنگھ کو نہیں جانتا۔“ اس نے کہا تو دلجیت اس سہمی ہوئی لڑکی کی جانب بڑھی‘ اسے بالوں سے پکڑ کراٹھایااور پوچھا۔
”تو کس کے لیے کام کرتی ہے؟“
”اس بندے نے تمہارے بارے میں بتا کر کہاتھا کہ جیسے ہی یہ یہاں سے جائے‘ ہمیں کال یا ایس ایم ایس کردے‘ اس کے لیے اس نے پانچ سو روپے دیئے تھے‘ اس سے زیادہ میں کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ۔“
”اچھا‘ تو لاؤ اپنا فون دومجھے۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنے لوگوں سے کہا۔”ان سب کی تلاشی لو‘ اور ان کے فون نکالو۔
“ پھر لڑکی کی طرف دیکھ کر بولی۔”میں تمہیں ایک ہزار روپے دیتی ہوں۔ ان سب کے سامنے ننگی ہوگی ،کپڑے اتار دے۔“
”نہیں بھگوان کے لیے ایسا مت کرو۔“ وہ تڑپ کر بولی۔
”اس کامطلب ہے تو ہندو ہے ۔“ پھر نجانے اس کے دماغ میں کیا آئی‘اس نے لڑکی کوپکڑ لیااور اسے لاتوں اور گھونسوں پررکھ لیا‘ کافی دھنائی کرنے کے بعد جب اس کااپنا سانس اکھڑنے لگا تووہ کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔
”یہ تیرا یار بھی انہیں نہیں جانتا ہوگا۔“
اس پر اس نے نفی میں گردن ہلائی‘ تب تک ان چھ میں سے چار کے پاس فون نکل آیا۔ اس نے پہلے والے آدمی سے کہا۔
”بتاوکی سنگھ کا فون نمبر کیا ہے؟“
وہ تیزی سے بولنے لگا‘ دلجیت نے وہ نمبر ملائے‘ اور اسپیکر آن کردیا۔ دوسری طرف سے کوئی تیز آواز میں چیخا۔
”اوئے اب تک‘ کدھر او بہن…“
”وہ میرے قبضے میں ہیں وکی سنگھ۔
“ دلجیت نے کہا۔
”اچھا تو ہے کون ، تو…اور…“
”میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں‘ فی الحال تو اپنا بچاؤ سوچ، تو جس بل میں بھی ہوگا ناچوہے‘ میں تجھے وہاں سے نکال لوں گی۔ ابھی میں ذرا ان کی سیوا کرلوں۔“
”تو جہاں کہہ میں وہیں آجاتا ہوں‘ ابھی اور اسی وقت“ دوسری جانب سے وکی دھاڑا۔
”ابھی بتاتی ہوں‘ تھوڑا صبر کر۔
ان سے تیرا پتہ پوچھ لوں‘ خود آرہی ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ پھران کی طرف دیکھ کربولی۔ ”تم میں سے کون کون وکی سنگھ سے وفاداری نبھانے والا ہے‘ تاکہ میں اسے ابھی شوٹ کردوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے قریب کھڑے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا‘ اس نے فوراً پسٹل نکال کر دلجیت کو دے دی۔ وہ بندھے ہوئے سارے لوگ خاموش تھے۔ تب ایک کی طرف اشارہ کرکے بولی۔
”تم بتاؤ‘ جو کچھ بھی جانتے ہو۔“ اس کے اتنا کہتے ہی وہ فرفربولنے لگا۔
”وہ جیوتی چوک کے پاس رہتا ہے‘ وہیں قریب ہی ایک بار چلاتا ہے‘ شراب کا بہت بڑا کاروبار ہے اس کا۔ اس پورے علاقے میں اس کاراج ہے‘ اور ہم اس کے لیے کام کرتے ہیں۔ پور اگینگ ہے اس کا۔“
”مدن لعل کے ساتھ کیا تعلق ہے اس کا؟“
”میں زیادہ تو نہیں جانتا لیکن اتنا پتہ ہے کہ وہ جب جالندھر میں آتا ہے تووکی سنگھ اسی کے پاس ہوتا ہے۔
مدن لعل کے قریبی سارے لوگ ہی منوہر لعل کے قاتلوں کو تلاش کررہے ہیں۔ ان میں وکی سنگھ بھی ہے جو اس کے زیادہ قریب ہے۔“
”دیکھو‘ ہمیں نہیں معلوم کہ منوہر کو کس نے مارا‘ ہم تو اپنے ہی کسی کام سے جالندھر میں ہیں ‘تم لوگوں نے چھیڑ کر اچھا نہیں کیا‘ سردار نہال سنگھ کو مارا‘ حالانکہ اس کامنوہر سنگھ کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔خیر۔
! بولو‘ مدن لعل کے بارے میں کیا اور کتنا جانتے ہو۔“
”یہی کہ وہ ایک کاروباری آدمی ہے‘ بڑی پہنچ ہے اس کی۔“ اس نے تیزی سے کہا۔
اس کامطلب ہے تم لوگ کچھ نہیں بتارہے ہو۔“ یہ کہہ کر اس نے کونے میں بیٹھی لڑکی سے کہا۔”اے تو چل ادھر آ‘ تیری تو میں ننگی فلم بنا کر دیتی ہوں انٹرنیٹ پر،تو جوستی سوتری بن کرمیرے ساتھ جھوٹ بول رہی ہے‘ لے جاؤ اسے‘ اوران سب کو بھی ڈالو گاڑی میں۔
اس کے ساتھ دو لڑکے حرکت میں آئے‘ اور اسے اٹھا کر لے گئے۔ اور باقیوں کو ہانک کر اوپر لے جانے لگے۔
ان ساتوں کو گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ فوکس وین میں وہ ٹھس ٹھنسا کر آگئے۔ سب فرش پر لیٹے تھے‘ ان کے اوپر ترپال ڈال دی گئی۔ وہاں موجود سب لڑکے لڑکیاں ڈرائنگ روم میں تھے۔ دلجیت نے انہیں دیکھا اور پوچھا۔
”سب کچھ نکال لیا ہے؟“
”جی…“ ایک لڑکی نے کہا جو آتے ہی ڈرائنگ روم میں ملی تھی۔
”میں اور جمال‘ انہیں لے کر جارہے ہیں‘ اور تم“ اس نے موٹے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔”کار لے کر ہمارے ساتھ آؤ‘ باقی سب فرینڈز کالونی‘ اس لڑکی کا خیال رکھنا‘ اس سے بہت سی کام کی باتیں نکالنی ہیں۔ اسے کچھ پتہ نہ چلے کہ وہ کہاں پر ہے۔ بہت احتیاط سے جانا۔“ یہ کہہ کر وہ واپس مڑی اور وین کی ڈرائیونگ سیٹ پر جابیٹھی۔ میں اس کے ساتھ بیٹھا تو ہم نکلتے چلے گئے۔
شہر سے باہر ویران سی سڑک پر اس نے وین روک دی۔ پھر اونچی آواز میں کہا۔
”وکی سنگھ کانمبر ملاؤ۔“ یہ کہہ کر اس نے انہی سے چھینا ہوا سیل فون نکالااور نمبر پش کردیئے۔ لمحوں میں رابطہ ہوگیا۔ تو اس نے اسپیکر آن کردیا۔”اوئے وکی سنگھ‘ تو اپنے بندوں کو بچانا چاہتا ہے تو بچالے‘ میں نے چار گھنٹے کا بم لگادیا ہے ان کی گاڑی میں اور وہ سارے بندھے ہوئے پڑے ہیں۔
”اگر انہیں کچھ ہوگیا تو میں …“
”نکل اپنے بل سے۔میں تو یہی چاہتی ہوں۔ اگر تو مرد کابچہ ہے تو نکل۔آجااور بچالے اپنے بندوں کو‘ چار گھنٹے ہیں۔ بڑا وقت دے دیا ہے تجھے۔ اگر کہوتو مزید کم کردیتی ہوں وقت۔“ دوسری طرف سے رابطہ ختم ہوگیا تو اس نے سیل فون ترپال کے اوپر پھینک دیا۔پھر ان کی طرف منہ کرکے بولی۔”لو بھئی۔! اب تمہاری قسمت! اب دیکھو‘ تم بم سے مرتے ہو یا تمہارا باس وکی سنگھ تم لوگوں کو بچالیتا ہے۔
ہم تو چلے۔“ دلجیت ڈرائیونگ سیٹ سے اتری اور زور سے دروازہ بند کیا‘ میں بھی اتر گیا‘ اتنے میں موٹا کار ہمارے قریب لے آیا۔ ہمارے بیٹھتے ہی اس نے یوٹرن لیااور ہم وہاں سے واپس آگئے۔
فرینڈز کالونی کے اس بڑے سے گھر میں پہنچتے ہوئے ہمیں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ راستے میں کہیں کسی نے نہیں پوچھااور نہ ہی کہیں ہلچل دکھائی دی۔ دلجیت ان بندوں کو خواہ مخواہ نہیں مارنا چاہتی تھی‘ بس ایک ڈراوادے کر چھوڑ دیا تھا‘ ایک خوف تھا جو ان پرطاری کردیا تھا‘ وہ سیدھی اس لڑکی کے پاس گئی جو ایک کمرے میں ننگے فرش پربیٹھی ہوئی تھی۔
وہ بہت زیادہ خوف زدہ تھی۔ اسے دیکھتے ہی رونے لگی۔
”دیکھ لڑکی۔! اگر سچ بولے گی تو کچھ نہیں کہوں گی‘ چھوڑ دوں گی‘ جھوٹ میں برداشت نہیں کرتی۔ وہ ساتوں کے ساتوں مرچکے ہیں اور باقی بچی ہے تو، اب ساری کہانی سنادے۔“
”میں وکی سنگھ ہی کے لیے کام کرتی ہوں لیکن مجھے اتنا زیادہ عرصہ نہیں ہوا‘ میں یہاں پڑھتی ہوں‘ صرف دولت حاصل کرنے کے لیے‘ اس کے چھوٹے موٹے کام کردیتی ہوں۔
تاکہ میرا خرچ چلتا رہے‘ کالج میں لڑکوں کو شراب کی سپلائی میں…“
”بکواس کرتی ہے ۔ تو جھوٹ بول رہی ہے۔ ایسے نہیں مانے گی۔ تجھ پر لڑکے چھوڑتی ہوں۔کل تک تو تجھے سمجھ آہی جائے گی کہ سچ بولتی تو ٹھیک تھا۔“ یہ کہہ کر وہ واپس پلٹ گئی تو لڑکی یکدم بولی۔
”ٹھہرو“ دل رک گئی۔”میں مدن لعل کے لیے کام کرتی ہوں‘ ان سارے لوگوں کو ہینڈل کررہی تھی۔
پورے شہر میں مختلف جگہوں پر منوہر کے قاتلوں کی تلاش جاری ہے۔ میں بھی انہی میں سے ایک…“ یہ کہتے ہوئے وہ خاموش ہوگئی۔
”اب آئی ہولائن پر۔منوہر کا تو ہمیں معلوم نہیں‘ یہ نہال سنگھ جی کو کیوں قتل کیا؟“
”میں نہیں جانتی؟“ وہ تیزی سے بولی۔
”اچھاٹھیک ہے‘ تم ادھر رہو‘ مجھے کچھ کام سے جانا ہے آکر پھر تم سے باتیں کرتی ہوں۔
“ یہ کہہ کر دلجیت وہاں سے چل دی۔ میں اس کے ساتھ چلتا ہوا ایک سجے سجائے کمرے میں آگیا۔ اس نے ایک الماری سے اپنے لیے کپڑے نکالے‘ پھرایک نیلی جین اور سفید شرٹ نکال کر بولی۔”یہ تو تیرے کو پورے آجائیں گے‘ فریش ہوجاؤ۔پھر بات کرتے ہیں۔“
مجھے اس کاانداز بہت برُا لگ رہاتھا۔ مجھے یوں احساس ہو رہاتھا کہ جیسے مجھے یہاں صرف اس کاحکم ماننے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
وہ جو کہے میں کرتاجاؤں‘ جیسے کوئی کرائے کاغنڈہ کرتا ہے‘ میرے مقصد کی یہاں اب تک کوئی چیز دکھائی نہیں دی تھی۔ اب تک اس نے مجھ سے دو قتل کروادیئے تھے۔ مجھے اب تک یہ سمجھ نہیں آئی تھی میں یہاں پر کیوں ہوں؟ دلجیت کا تعلق کن لوگوں سے ہے اور یہ سب کچھ کیوں کرتی چلی جارہی ہے ‘میں اپنے آپ کو محض باڈی گارڈ محسوس کررہاتھا جوحکم کا غلام ہوتا ہے۔
میرا دماغ کسی حد تک تپ گیاتھا۔ میں فریش ہو کر نکلا تووہ اپنے سامنے چائے کے دو کپ رکھے میری منتظر تھی۔ اس نے سیاہ رنگ کی ڈریس پینٹ اور ہلکے پیلے رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ میرے بیٹھتے ہی بولی۔
”جمال۔! کوئی سوال ہے تمہارے ذہن میں تو بولو۔“
”نہیں۔“ میں نے یکسر کہہ دیا۔
”توپھر یہ دیکھو۔!“ اس نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالااور میرے سامنے پھیلادیا۔
”یہ مدن لعل کے گھر کانقشہ ہے‘ یہ جہاں جہاں کراس لگے ہوئے ہیں‘ یہاں اس کے سیکیورٹی گارڈ ہوتے ہیں‘ گھر کے اندر بھی چند لوگ ہوتے ہیں۔“ پھر ایک جگہ انگلی رکھتے ہوئے بولی۔ ”اور یہ… یہ کمرہ مدن لعل کا ہے… اس کابیڈروم… اس کی ایک کمزوری ہے کہ وہ پیتابہت ہے‘ صبح کے دو تین گھنٹے وہ ٹُن ہوتا ہے اسے کوئی ہوش نہیں ہوتی۔ ہمارے دو آدمی اس کے گھر میں سیکیورٹی گارڈ بن چکے ہیں اور…“ 
”تو پھر وہ اسے قتل کیوں نہیں کردیتے؟“
”اسے مارنا نہیں ہے۔
ابھی صرف اسے اغوا کرنا ہے۔اب تک جو سارا ماحول بنا ہے‘ وہ خوف کی فضا پیدا کرنے کے لیے تھااور دوسری بات…اس مدن لعل کا پتہ ہی نہیں چلتاتھا کہ یہ کب کہاں ہوتا ہے‘ منوہر کومارنے کامقصد ہی یہی تھا کہ اسے گھیر کر جالندھر میں لایا جائے‘ اور وہ یہاں پر ہے۔ ایک دو دن میں اس نے پھر غائب ہوجانا ہے۔“
”ممکن ہے‘ وہ اب کافی دن یہاں رہے۔
اس کابیٹا“
”وہ رک ہی نہیں سکتا۔اس کی مجبوری ہے‘ اس کا چاہے سارا خاندان مرجائے۔ایک بار ہم نے اسے تھائی لینڈ میں پکڑنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہے تھے اور جمال‘ ہم اسے ویسے بھی ختم کردیں لیکن‘ اسے تیرے لیے پکڑاجائے گا۔“
”میرے لیے۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کسی حد تک حیرت سے پوچھا۔
”ہاں۔! جب یہ قابو میں آجائے گا تو تجھے معلوم ہوگا کہ یہ تیرے لیے کس قدر اہم ہے۔
“ اس نے دلچسپی سے کہاتو میں کاندھے اچکا کر بولا۔
”دیکھ دلجیت‘ میں تو ویسے ہی تیرے لیے کام کررہا ہوں، کیوں کررہاہوں؟ یہ تم بھی جانتی ہو‘ تم جو کہہ رہی وہ میرے لیے چارہ نہ بناؤ۔ اب بولو کرنا کیا ہے؟“
”تم کہہ سکتے ہو جمال۔! کیونکہ ابھی تجھے معلوم نہیں‘ خیر، اسے اغوا کرنا ہے اور پھر باقی سب لوگوں کا کام ختم۔“
”کب کرنا ہے اسے اغواء۔
“ میں نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”آج رات ہی، بلکہ رات کے بالکل آخری حصے میں۔“ اس نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا تو میں نے اگلے ہی لمحے کہا۔
”ٹھیک ہے‘ پلان کیا ہے؟“
میرے پوچھنے پر وہ اس کاغذ کی مدد سے مجھے پلان سمجھانے لگی۔ وہ ان دوسیکیورٹی گارڈز پر بہت بھروسہ کر رہی تھی‘ جو میرے خیال میں غلط تھا۔ میں نے اس کا پور اپلان سمجھ لیا۔
                             …###…

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط