رات کا آخری پہر شروع ہوچکاتھا‘ دلجیت کور پوری طرح تیار ہو کر کمرے سے باہر آچکی تھی۔ اس نے جین‘ ٹی شرٹ اور جاگر پہنے ہوئے تھے۔ میں اس کے انتظار میں تھا۔ جس وقت ہم دونوں کار تک گئے تو میں نے پوچھا۔
”ہمارے کور کے لیے کوئی ہوگا؟ یامہم میں صرف ہم دونوں ہی ہوں گے۔“
”بھیڑ نہیں چاہیے۔ ایک لڑکے اور لڑکی کو میں نے بھیج دیا ہے‘ بس وہی اردگرد ہوں گے۔
“ اس نے ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھتے ہوئے کہا۔
”اسے رکھنا کہاں ہے؟ یہ تو طے ہوچکا‘ اگر تم ادھر اُدھر ہوگئی تو مجھے راستہ نہیں معلوم۔اس بارے میں سوچا تم نے؟“ میں نے پوچھا۔
”دیکھتے جاؤ ہوتا کیا ہے؟“ اس نے عادت کے مطابق سسپنس رکھا تومیں خاموش ہوگیا۔ میں نے اپنا پسٹل چیک کیااور سیٹ کے ساتھ ٹیک لگادی۔
(جاری ہے)
وہ نارمل رفتار سے کار لیے جارہی تھی۔
اس کے ہاتھ میں سیل فون تھا‘ جس پر بار بار اس کی نگاہ پڑتی تھی۔ میرے خیال میں وہ مدہن لعل کے گھر سے کسی پیغام کی منتظر تھی۔ مجھے یہ بڑا عجیب سا لگا کہ شہر میں کہیں بھی کوئی چیک پوسٹ نہیں تھی۔ کل سے اتنے ہنگامے ہوگئے تھے لیکن پولیس کا رویہ عجیب ساتھا‘ مجھے اب تک کوئی گاڑی دکھائی نہیں دی تھی جو گشت پر ہو‘ پتہ نہیں ان کا کیا بناہوگا‘ جنہیں بم کی دھمکی دے کر سڑک پر چھوڑ دیاتھا۔
میں انہی خیالوں میں تھا کہ ایک کار تیزی سے ہمیں کراس کرتی ہوئی آگے نکل گئی۔ میری نگاہ اسی پر جم گئی۔ اس کی رفتار کم نہیں ہوئی تھی‘ بلکہ لمحوں میں وہ دور ہوتی ہوئی چلی گئی۔ اچانک دلجیت کور کے فون پرپیغام موصول ہوا۔ اسے پڑھتے ہی وہ بولی۔
”جمال۔! اس وقت مدن لعل سو رہا ہے‘ سیکیورٹی پر ایک درجن بندے ہیں اور ہم اس کے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہیں۔
“
”تو کوئی بات نہیں‘ چلو پہنچو وہاں ۔“ میں نے پرسکون انداز میں کہا۔ میری بات سنتے ہی اس نے پوری توجہ سڑک پر لگادی ۔ میں نے دیکھا‘ اس کے جبڑے بھنچ گئے تھے۔ مجھے نہیں لگا کہ وہ ایک لڑکی ہے‘ اس وقت وہ ایسی بھوکی شیرنی لگ رہی تھی جو اپنے شکار پر جھپٹنے کے لیے بے تاب ہو۔
وہ شہر کا پوش علاقہ معلوم ہو رہاتھا‘ کھلی سڑکوں کے اردگرد بڑے بڑے بنگلے تھے جو درختوں اور پودوں کی بہتات میں گھرے ہوئے تھے۔
الیکٹرک پولز پر روشنی کا بہتر بندوبست تھا۔ وہ پورا علاقہ روشن تھا۔ جو کم از کم ہمارے حق میں نہیں تھا۔ اس نے دو تین سڑکیں پار کیں۔ ایک جگہ وہی کار دکھائی دی جو کچھ دیر پہلے ہمارے برابر سے تیزی کے ساتھ گزری تھی۔تبھی دلجیت کور نے تیزی سے کہا۔
”جمال۔! وہ سامنے… سفید گیٹ والا گھر مدن لعل کا ہے۔“
میں نے دیکھا‘ دروازے کے باہر سیکیورٹی گارڈ الرٹ کھڑے تھے۔
اس قلعہ نمابنگلے کے آہنی گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ تعینات تھے۔ چار دیواری کافی اونچی تھی۔ جس پر خاردارتار لگے ہوئے تھے۔ رہائشی عمارت دو منزلہ تھی‘ جہاں نارنجی سی پیلی دھیمی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ چند کھڑکیوں سے روشنی چھن کر باہر آرہی تھی۔بنگلے کے اندر سکوت تھا اور میرے اندر سنسنی پھیلی ہوئی تھی۔ اگرچہ دلجیت مجھے پلان سمجھا چکی تھی لیکن یہاں آکر اندازہ ہوا تھا کہ سوچ اور عمل میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
یہاں کی سیکیورٹی کو پار کرکے ہی مدن لعل تک پہنچنا تھا‘ جو بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔ ہم گیٹ کے سامنے سے گزر کر دائیں جانب والی سڑک پر آگئے۔ ایک چکر لگا کر جب ہم واپس آئے تو نُکر والے بُرج میں سے رسہ لٹک رہاتھا۔ وہ سیکیورٹی والوں کا بُرج تھا۔ اندھیرے میں وہ رسہ نظر آنا مشکل تھا‘ لیکن بہت غور کرنے پروہ دکھائی دے رہاتھا۔ دلجیت نے کار روک دی ۔
ا س نے چھوٹے بیرل کی گن کاندھے سے لٹکائی اور مجھے باہر نکلنے کااشارہ کیا۔ اس کے پاس مزید ہتھیار کیا تھے‘ اس کامجھے اندازہ نہیں تھا۔ میں بہرحال پوری طرح لیس تھا۔ ہم دیوار کے قریب چلے گئے۔ میں نے رسے کی مضبوطی کااندازہ لگایا اور اوپر چڑھنے لگا۔ میں بُرج میں پہنچ گیا۔ وہاں ایک سیکیورٹی گارڈ تو مستعد تھا لیکن دوسرا بے ہوش تھا۔ میں نے صورت حال کا جائزہ لیا‘ تب تک دلجیت بھی وہیں آگئی۔
”یہ ایک گھنٹے سے پہلے ہوش میں نہیں آئے گا۔“ اس گارڈ نے دھیمی آواز میں کہا تو دلجیت بولی۔
”اور تم ذرا سا بھی اپنے لیے خطرہ محسوس کرو تو نیچے اتر کر گاڑی لے جانا۔“
اس کے یوں کہنے پر گارڈ نے سر ہلادیا۔ ہم دونوں آگے پیچھے بُرج سے نیچے اُتر آئے۔ چار دیواری سے تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر درختوں اور پودوں کی ایک طویل قطار تھی۔
ہم اس کی آڑ میں چلتے ہوئے اس راستے پر آگئے جہاں سے رہائشی عمارت کا دروازہ دکھائی دے رہاتھا۔ اس راستے کے دونوں طرف پھول دار پودے لگے ہوئے تھے۔ ہم ان کی آڑ میں آگے بڑھتے گئے‘ یہاں تک کہ دروازے کے پاس پہنچ گئے۔ صرف دو یاتین فٹ کا فاصلہ رہ گیاتھا کہ میں نے دیکھا‘ دو گرے ہاؤنڈ ہمارے سامنے کھڑے تھے۔ وہ بھونکنا تو چاہتے تھے مگر بھونک نہیں پارہے تھے۔
وہ نشے کی انتہا پر تھے۔ یا پھرزہر اپنا اثر دکھاگیاہوگا‘ اس وقت مجھے کتے کی فطرت کااندازہ ہواتھا۔ وہ انتہائی بے بسی کے عالم میں بھی مالک سے وفاداری کررہاتھا۔ اس وقت میں یہ سوچ ہی رہاتھا کہ دلجیت نے اپنا سائلنسر لگا پسٹل نکالااور ہلکی سی ٹھک کی آواز آئی۔ ایک کتا لڑھک گیا‘ اسی طرح دوسرے پرفائر کیا۔ دوسرا بھی دہلیز پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔
چند منٹ انتظار کے بعد دلجیت آگے بڑھی‘ اس نے دروازے کو دھکیلا جو کھلتا چلا گیا۔ سامنے ہی وردی میں ملبوس ایک سیکیورٹی گارڈ کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پسٹل تھااور وہ ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔دلجیت ایک لمحہ کو ٹھٹکی اور آگے بڑھ گئی۔ اس نے آہستہ آواز میں منمناتے ہوئے کہا
”تم لوگوں کے پاس فقط دس منٹ ہیں۔ اندر کے تین سیکیورٹی گارڈ اس وقت نشے میں دھت پڑے ہیں ‘ میں نے انہیں وہی نشہ دے دیا ہے جو ان کتوں کو دیا تھا۔
ہر پندرہ منٹ بعد اندر سے باہر رابطہ ہوتا ہے اور جس نے رابطہ کرنا ہے وہ بے ہوش ہے‘ ہری اپ…“ گارڈ کے لہجے میں تیزی تھی۔ میں نے سیڑھیوں کی طرف دیکھا جو چند فٹ کے فاصلے پر تھیں‘ میں اس جانب بڑھ گیا۔
دوسری منزل پر پہنچ کر میں نے جیپ سے ماسٹر کی نکالی اور مدن لعل کے بیڈروم والے دروازے میں گھسادی۔ اسی وقت دلجیت بھی وہاں پہنچ گئی۔
چند لمحوں بعددروازہ کھل گیا۔ وہ ایک شاہانہ بیڈروم تھا۔ جس کے درمیان میں جہازی سائز بیڈ پر ایک چھوٹے قد کا‘ گہرا سانولا‘ سر سے گنجا‘ موٹا سا شخص پڑاتھا۔ اس نے سفید کرتااور دھوتی پہنی ہوئی تھی۔ وہ بے سدھ پڑا ہواتھا۔میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں دلجیت سے تصدیق چاہی۔
”یہی ہے…“اس نے دھیمی آواز میں کہا اور مدن لعل کے سر پر پہنچ گئی۔
اسے گردن سے پکڑااور زو سے ایک تھپڑ اس کے منہ پر رسید کردیا۔ وہ ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔ اس کی آنکھیں نشے اور نیند کے باعث سرخ ہو رہی تھیں۔ اس نے ہم دونوں کی طرف دیکھ کر حیرت بھری آواز میں پوچھا۔
”کون ہو تم لوگ…اور یہاں تک کیسے پہنچے ہو…؟“
”وہ بھی بتادیتے ہیں لیکن ابھی تمہیں ہمارے ساتھ جانا ہوگا۔ اٹھو یا پھر ہم اٹھائیں…“ دلجیت نے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارتے ہوئے کہا۔
وہ بھنا کر اسے دیکھنے لگا۔ پھراپنا ہاتھ سرہانے کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ وہ بولی۔ ”نہیں مدن لعل…نہیں…اب کچھ نہیں ہوسکتا… اٹھو…“ یہ کہہ کر اس نے خود سرہانے کے نیچے ہاتھ ڈال دیا۔ وہاں پسٹل پڑاہواتھا۔ تبھی اس نے بڑے اعتماد سے کہا۔
”تم لوگ یہاں میرے بیڈروم تک پہنچے کیسے …؟“
”سارا کچھ بتائیں گے اور بہت کچھ پوچھیں گے بھی…چل…“ دلجیت نے کہا تووہ بولا۔
”دیکھو… میں داد دیتاہوں تمہاری بہادری کو کہ تم…“ اس نے یہ کہاہی تھا کہ میں آگے بڑھااورایک زور دار گھونسہ اس کے منہ پر دے مارا‘ پھراسے گردن سے پکڑ کر بیڈ سے نیچے دے مارا۔ اور کہا۔
”سالا بکواس کیے جارہا ہے…چل…“
اس کے ساتھ ہی دلجیت نے اُسے تھپڑوں، مکوں اور لاتوں پررکھ لیا۔ وہ اسے سیڑھیوں تک ایسے ہی مارتے ہوئے لائی۔
تب اس نے اسے ٹانگ سے پکڑا۔ میں اس وقت تک سیڑھیوں کے آخری زینے تک جاپہنچا۔ دلجیت نے اسے دھکا دے دیا۔ وہ لڑکھڑا تا ہوا نیچے تک آیا۔ سیڑھیوں پر قالین کی وجہ سے اسے کم چوٹیں آئی تھیں۔ ایک بار تو مجھے لگا کہ جیسے وہ مرگیا ہے۔ میں نے اٹھایا تووہ گہرے گہرے سانس لے رہاتھا۔ اس وقت تک وہ سیکیورٹی گارڈ بھی آگیا۔میں نے دلجیت کے نیچے آتے ہی کہا۔
”سنبھالواسے…میں نکلتاہوں۔“
میں داخلی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ اندر سے بند تھا۔ میں نے اسے کھولااور ہلکی سی دارز سے باہر جھانکا۔ کافی فاصلے پر آہنی گیٹ کے ساتھ سیکیورٹی گارڈ موجود تھے۔ دوباہر تھے اور جو ساتھ سیکیورٹی روم میں تھے ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ میں نے گھڑی پر وقت دیکھا‘ تقریباً تین منٹ باقی تھے۔ میں باہر نکلا اور باڑ کی آڑ میں بھاگتا ہوا‘ان سیکیورٹی گارڈز سے فاصلے پر جارکا۔
میں نے ان میں سے ایک کانشانہ لیا‘ مجھے ٹھک کی آواز سنائی دی لیکن سیکیورٹی گارڈ چیخ مار کر گرگیا۔ دوسرا فوراًگھبراہٹ میں الرٹ ہوکر ادھر ُادھر دیکھنے لگا۔ میں نے اس کابھی نشانہ لیا‘ وہ بھی چکراتا ہوا گرگیا۔ اس وقت تک ہلچل مچ گئی۔ سیکیورٹی روم سے تین گارڈ باہر نکلے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ فائر کس طرف سے ہوا ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔
دلجیت پورچ میں آچکی تھی اور گارڈ کے سہارے مدن لعل کو وہاں موجود چند گاڑیوں میں سے ایک کار میں بٹھا چکی تھی۔ میں نے ان تینوں میں سے ایک کا جیسے ہی نشانہ لیا ‘ الارم بج گیا۔ اب وہاں پر ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ میں نے یکے بعد دیگرے ان تینوں کانشانہ لیا‘ وہ وہی سڑک پر گرتے چلے گئے۔ مجھے یقین تھا کہ ایک آدھ بندہ ابھی روم کے اندر ہوگا‘ جس نے الارم بجایا تھا۔
مختلف برجوں کی طرف سے آلارم کی آواز پر فائرنگ ہونا شروع ہوگئی تھی۔ جیسے ہی دلجیت گیٹ کے قریب آئی‘ روم میں سے ایک شخص نکلا‘ اس نے گن سیدھی کرکے فائر کرنا چاہا‘ لیکن میری چلائی ہوئی گولی اسے چاٹ گئی‘ گیٹ پر اب کوئی نہیں تھا۔ دلجیت کے ساتھ بیٹھا ہوا گارڈ گیٹ کھولنے لگا‘ اور میں اتنے میں کار کی پچھلی نشست پر مدن لعل کے ساتھ آبیٹھا جو ادھ موا ساتھا۔
کار چشم زدن میں گیٹ سے باہر نکلی‘ گارڈ ایک جانب بھاگتا چلا گیا اور اندھیرے میں گم ہوگیا۔ جبکہ دو سفید کاریں ہمارے آگے پیچھے چل پڑیں۔ جو اس پوش علاقے سے نکلتے ہی مخالف سمت میں مڑ گئیں۔
دلجیت انتہائی تیز رفتاری سے کار بھگائے چلی جارہی تھی۔ اس کی پوری توجہ سڑک پر تھی۔ میں نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کوئی گاڑی ہمارے پیچھے نہیں تھی۔
تاہم میرے اندر ایک بے چینی در آئی تھی۔ جسے میں سمجھ نہیں پارہاتھا۔ فرینڈز کالونی کے اس بڑے سے گھر کا گیٹ پار کرتے ہی وہ کار پورچ میں لے جانے کی بجائے سرونٹ کوارٹر کی جانب لے گئی۔ کچھ ہی دیر بعد ہم مدن لعل کو لے کر کوارٹر کے اندر تھے۔ اسے ننگے فرش پر بٹھا دیا تھااور میں حیران تھا کہ ادھ مواہونے کے باوجود بااعتماد تھا۔ اس نے کراہتے ہوئے کہا۔
”میں نہیں جانتا… تم لوگوں نے کس طرح مجھ تک رسائی حاصل کی ہے…پر بہت بڑی غلطی کرچکے ہو… تم لوگ… سب مارے جا ؤ گے… سب…“یہ کہتے ہوئے اس نے زور سے آنکھیں بھینچ لیں۔ تبھی دلجیت نے اس کی پسلی پر لات مارتے ہوئے کہا۔
”بے غیرت… تیری وجہ سے میرا اکلوتا بھائی… لکھوندر سنگھ اس دنیا میں نہیں ر ہا… یاد آیا کچھ… تیرے کتوں نے اسے مارا… تیرے سامنے… یاد آیا…“
”جو بھی میری راہ میں آیا… میں نے اسے مار دیا… تم چاہو تو مجھے مار دو… میں مرنے کے لیے تیار ہوں… لیکن تم میں سے کوئی نہیں بچے گا… تو بھی نہیں…“ اس نے کراہتے ہوئے زخم خوردہ لہجے میں کہا۔
”ایک سال سے تیرے اردگرد ہوں کتے … دیکھا ‘تیری سیکیورٹی…تیرے سی سی کیمرے … تیری قلعہ بندی‘ سب ختم کردی میں نے … اب تیرا سارا نیٹ ورک بھی ختم کروں گی۔“
”آہ… نیٹ ورک… نیٹ ورک کو فرق نہیں پڑتا… میں چاہے مر بھی جاؤں… “ اس نے طنزیہ کہا۔
”بکواس کررہا ہے تو… ابھی تیری کیمیکل فیکٹری اُڑجائے گی… توپھر دیکھیں گے تیرا نیٹ ورک کیسے چلتا ہے … خیر…! بول پاکستانی پنجاب میں تیرا نیٹ ورک کون چلا رہا ہے؟ بول؟“
جیسے ہی اس نے یہ سنا‘ اس نے چونک کر ہم دونوں کو دیکھا‘ پھر جیسے اسے ساری سمجھ آگئی۔
تب وہ بڑے اعتماد سے مگر پھنکارتے ہوئے بولا۔
”تو تم لوگ دہشت گرد ہو؟ ورنہ…یہاں کے کسی بندے کی جرات نہیں تھی مجھ تک پہنچنے کی۔ یہ بھول جاؤ کہ میں تم لوگوں کو کچھ بتاؤں گا۔“
”تیرا ہر ایک عضو بولے گا… “میں اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا۔
”ہونہہ…! ہر عضو…“ اس نے طنزیہ انداز میں نفرت بھری نگاہوں سے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا تو میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دلجیت سے کہا۔