”نمک تو منگواؤ…“ میرے سرد لہجے سے وہ سمجھ گیا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے دہشت زدہ انداز میں میری جانب دیکھاتو میں نے کہا۔ ”تیرے بیوی بچے‘ اس وقت بنکاک میں ہیں… منوہر یہاں تھا‘ مرگیا… اب ان کی باری ہے… تم نے سنا ہوگا مدن لعل مراہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوجاتا ہے۔تیری لاش… عبرت کانشان بن جائے گی…میں بناؤں گا…“
”تو بنا دو… مجھے کیا سنارہے ہو…“ اس نے انتہائی نفرت سے کہا۔
اس وقت دلجیت نمک لے آئی۔
”اس کامطلب ہے تم کچھ نہیں بتاؤگے۔“ میں نے اپنی پنڈلی سے بندھا ہوا خنجر نکال کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ خاموشی سے میری طرف دیکھتا چلا جارہاتھا۔ تبھی میں نے پینترا بدلتے ہوئے کہا۔”ایک جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے… یہ تم جانتے ہو نا…“
”کیامطلب …؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
(جاری ہے)
”کیاتم سمجھتے ہو کہ تم ہی یہاں سے دولت کما سکتے ہو… تو ہمارے لیے مرا ہوا ہاتھی بنے گا سوالاکھ کا… تو مرجائے گا… تیری جگہ ہم لیں گے… تیرا سارا کاروبار ہم سنبھالیں گے… میں جانتا ہوں کہ تیرا نیٹ ورک کہاں کہاں پر ہے… صرف تم سے تصدیق چاہ رہا تھا… ممکن ہے ہمارے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوجاتا لیکن…“ یہ کہتے ہوئے میں نے خنجر اس کی ران میں پرودیا۔
وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ میں نے خنجر نکالااور اس میں نمک بھردیا۔ اس کی چیخیں بلند ہونے لگیں تو دلجیت نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے خنجر اس کی دوسری ران میں پرویا تو ساکت سا ہوگیا اور دونوں ہاتھ لہرانے لگا۔ دلجیت نے اس کامنہ چھوڑ دیا۔
”کوئی سمجھوتہ… ہو…سکتا…ہے…“ اس نے بمشکل کراہتے ہوئے کہا۔
”لاہور میں کون ہے …؟“میں نے سرد لہجے میں پوچھا۔
”شش…شیخ ظہیر…گل…برگ…تھ…ری…“ اس نے کراہتے ہوئے کہا۔ میں نے اس کے زخم میں نمک بھردیا۔
”بکواس کرتے ہو تم…“ میں نے اندھیرے میں تیرپھینکا۔
”وکی سنگھ‘ ان کے ساتھ ڈیل کرتا ہے… اس سے تصدیق ہوجائے گی… سمجھوتہ بولو…“ اس نے کہا۔
”اسے بھی یہیں لارہے ہیں…فکر نہ کرو…“ دلجیت نے کہا۔ ”تم دیکھوگے… ہم کتنے اچھے مہمان نواز ہیں… تم سمجھوتہ کرنا ہی نہیں چاہتے… ورنہ سچ اُگل دیتے۔
“
”میں بتابھی دوں…تو…وہ تمہارے کسی…کام…کا… نہیں…اُسے…را…ہینڈل کرتی… ہے۔“مدن لعل بولا۔
”اور’را‘ کے کتنے لوگ تیرے خلاف ہوچکے ہیں۔ یہ تجھے نہیں معلوم…“ میں نے کہا تو اس نے چونک کر میری جانب دیکھا۔ تو میں نے کہا۔ ”تیرا مرنا لازمی ہے۔ بتا جائے گا تو تیرے بچے … بنکاک میں …“
”بتایا نا…شیخ ظہیر… “ا س نے پوری قوت لگا کر کہا۔
”امپورٹ ایکسپورٹ کابزنس ہے‘ وہ سب… ڈیل کرتا…ہے۔“
یہی وہ لمحہ تھا جب دلجیت کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے کال پِک کی۔ چند لمحے فون سننے کے بعد اس کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں تشویش ملی حیرت ٹپکنے لگی۔ اس نے یوں کہا جیسے خود کلامی کررہی ہو۔
”کہاں غلطی ہوگئی… پولیس اور خفیہ کے لوگ اس علاقے کو گھیر رہے ہیں۔“
یہ سنتے ہی مدن لعل نے قہقہہ لگایا۔
جو اگرچہ جاندار نہیں مریل ساتھا لیکن اس میں فتح مندی کا احساس چھلک رہاتھا۔ اس نے طنزیہ انداز میں میری طرف دیکھا‘ پھر دلجیت کی طرف دیکھ کر بولا۔
”تم کیا سمجھتے ہو‘ علاقے پر بادشاہت ایویں ہی ہوجاتی ہے۔ ابھی چند منٹ میں وہ لوگ یہاں پہنچ جائیں گے۔ چاہے تم لوگ مجھے ماردو… لیکن تم اور تمہارے سارے ساتھی …کوئی زندہ نہیں بچے گا۔
آں …آں ۔“ وہ کراہ کررہ گیا۔ پھرانتہائی نفرت سے بولا۔ ”بے غیرت سکھو اور مُسلو… تم لوگوں سے اپنا بھارت شدھ کرکے چھوڑیں گے۔ اس میں چاہے جتنا وقت لگ جائے… بھگوان کی کرپا سے…لاہور کا نیٹ ورک چلے گا… جو پاکستان کی جڑیں ختم کرے گا… اب مارو مجھے … ختم کردو مجھے… “ یہ کہتے ہوئے اس نے اضطراری انداز میں اپنی کلائی پربندھی گھڑی کو گھمایا… میں نے اسے دیکھا‘ وہ عجیب سی بھاری ڈائل والی تھی۔
میں لمحے کے ہزارویں حصے میں سمجھ گیا‘ وہ مدن لعل کی نشاندھی کرنے والا آلہ بھی تھا۔
”دلجیت …! اس کی بکواس مت سنو… اور سب کو لے کر فوراً نکلو یہاں سے‘ صرف دو منٹ ہیں۔“ یہ کہہ کر میں نے اس کاہاتھ پکڑااور خنجر سے اس کی کلائی کاٹ دی۔ اس کے منہ سے بھیانک چیخ نکلی۔ دلجیت جاچکی تھی۔ میں نے مدن لعل سے کہا۔
”سنو…! جب تک ہم جیسے سر پھرے لوگ ہیں ‘تم جتنی بھی کوشش کرلو… پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے… میں دیکھوں گا تیرا نیٹ ورک…“ یہ کہتے ہوئے میں نے خنجر اس کی گنجی کھوپڑی میں گاڑ دیا۔
اس نے ایک سسکی لی اور مرگیا۔
تقریباً دو تین منٹ کے دوران وہاں پرموجود سب لوگ مختلف سمتوں میں پھیل کر نکل گئے۔ ہم ایک فور وہیل جیب میں سوار وہاں سے نکلے… ہمارے ساتھ وہ لڑکی بھی تھی‘ جسے دلجیت اغوا کرکے لائی تھی۔ اس وقت وہ بے ہوش تھی۔ میں نے اس وقت لڑکی پر نہیں سوچا‘ بلکہ میری ساری توجہ اس گھڑی کو ٹھکانے لگانے پر تھی۔ جیسے ہی ہم مین روڈ پر آئے‘ ہمارے قریب سے ایک ٹرک گزرا‘ میں نے وہ گھڑی‘ اس پر پھینک دی۔
اور پرسکون ہوگیا۔
”یہ گھڑی…“ دلجیت نے پوچھا۔
”مدن لعل کی نشاندہی کرنے والا آلہ… اب سارے ناکے ٹوٹ جائیں گے… ہمیں صرف گھنٹہ آدھا گھنٹہ چاہیے… “ لفظ ابھی میرے منہ ہی میں تھے کہ کافی دور کاریں کھڑی نظر آئیں‘ انہیں چیک کیا جارہاتھا۔ اسے دیکھتے ہی میں نے کہا۔”دلجیت رُکو…“
اس نے فوراً گاڑی روک دی۔
”کیابات ہے… وہ ناکہ …“
”اس لڑکی کابہانہ کرکے نکل جائیں گے… بیمار ہے‘ اسپتال…“ وہ بولی۔
”نہیں‘ رسک نہیں لینا۔ نکلو…“ میں نے اترتے ہوئے کہا۔ اس نے فوراً کار چھوڑ دی۔ اور پھر تیزی سے سڑک کنارے سے ہٹ کر اندھیرے میں چلے گئے۔ تبھی دلجیت کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔
”ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا…“
”تو نکلو…میں تو جالندھر کے بارے میں نہیں جانتا نا…“ میں نے کہا۔
اس نے چند لمحے سوچا اور ہم بائیں جانب آبادی کی جانب چل پڑے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم گلیوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے کہیں نکل جائیں گے۔ جہاں سے کسی محفوظ مقام کے بارے میں سوچا جاسکتاتھا۔
کافی دیر تک چلتے رہنے کے بعد ہم نے گلیاں پار کرلیں تو ہمارے سامنے ریلوے ٹریک تھا۔ میں نے آسمان پر دیکھااور سمت کااندازہ کیا ۔ صبح ہونے میں تھوڑا وقت ہی رہ گیا تھا‘ ہم ریلوے ٹریک پر شمال کی جانب چلتے چلے جارہے تھے۔
تبھی دلجیت نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔
”سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کسے کال کروں…سڑک پر چلنا خطرناک اور صبح تک …“ وہ کہہ رہی تھی کہ اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے جلدی سے اسکرین پر نمبر دیکھے‘ پھر بڑبڑاتے ہوئے بولی۔ ”اجنبی نمبر… کون… ہوسکتا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے فون ریسیو کرلیا۔ پھر اگلے ہی لمحے حیرت سے بولی۔ ”جمال تیرا کوئی جاننے والا ہے۔
“
میں نے فون کان سے لگایا‘ اور ہیلو کہا تو دوسری طرف سے جسپال کی آواز آئی۔
”اوئے کہاں ہے تو…؟“
”اوہ فرشتہ ہی لگے ہو یار… تجھے نمبر کیسے …؟“ میں نے کہنا چاہا تو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”بکواس نہیں کر… جلدی سے بتاتو ہے کہاں‘ میں جالندھر میں تجھے تلاش کر ر ہا ہو ں …“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”یہ دلجیت سے پوچھ لے …“ یہ کہہ کر میں نے فون دلجیت کو دیا تووہ اسے لوکیشن سمجھانے لگی۔
ہم فرینڈز کالونی سے موتی نگر تک آگئے تھے۔ ریلوے ٹریک سے ہٹ کر ہم دوبارہ رو ڈپر آئے تو ایک مخصوص جگہ پر وہ ہمیں کھڑا ہوا ملا‘ اس کے ساتھ ایک خوبصورت سی لڑکی تھی۔ ان سے چند فٹ کے فاصلے پر کار کھڑی تھی ۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ کار میں جا بیٹھے ۔جیسے ہی ہم اس کارمیں بیٹھے وہ چل دیا۔ وہ خاموش تھا۔ اس کی ساری توجہ ڈرائیونگ پر تھی ۔ کچھ دیر بعد وہ سڑک چھوڑ کر ایک گلی میں گھس گیا‘ جس کی رہنمائی ہرپریت کررہی تھی۔
…###…