Episode 15 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 15 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

میری آنکھ فون کی تیز آواز سے کھلی۔ایک لمحہ تو مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ فون کس کابج رہا ہے‘ پھرمجھے یاد آیا کہ دلجیت نے مجھے فون دیاتھا۔ میں نے فون پِک کیاتو دوسری جانب دلجیت تھی۔ اس نے کینیڈا میں پہنچ جانے کا بتایا۔
”چلوشکر ہے‘رب کا تم خیریت سے وہاں پہنچ گئی ہو۔“
”سچ پوچھونا جمال‘ جب سے میں بھارت گئی تھی‘ اب جاکر مجھے کمپنی ملی تھی‘ ورنہ اجنبیوں کے درمیان ہی وقت گزرتا گیاتھا۔
“ اس نے اداس لہجے میں کہا۔
”چل کوئی بات نہیں۔ اب تو سکون سے رہ ،آرام کر۔“ میں نے کہا۔
”کیا کررہے ہو تم لوگ…“ اس نے پھر اسی اداس لہجے میں پوچھا۔
”کرنا کیا ہے‘ سو رہے ہیں اور میرے خیال میں صبح ہونے والی ہے۔“ میں نے آسمان پر دیکھتے ہوئے کہا۔

(جاری ہے)

”کہاں پر ہو؟ سب نے میرے بارے میں پوچھا تھا؟“ وہ بچوں کی طرح بولی‘ تب میں نے اس کی دلجوئی کے لیے کہا۔
”لنگر خانے میں جاکر میں نے انہیں بتادیاتھا۔ سبھی ایک دم سے اداس ہوگئے تھے۔ واپس آکر رات گئے تک تمہیں یاد کرتے رہے‘ میں ‘ جسپال اور ہرپریت یہاں ٹہوار صاحب کے مکان کی چھت پر سوئے ہیں۔ سونے تک تیری ہی باتیں کرتے رہے۔“
”اُوہ…!“ و ہ جیسے سسک پڑی‘ پھر چند لمحوں بعد بولی۔”اور تم جمال…!“
”اب تم چلی گئی ہونا تو احساس ہو رہا ہے‘ تمہاری آفر مان لیتاتو اچھا تھا۔
“ میں نے کہاتووہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ پھر چند لمحے الوداعی باتوں کے بعد فون بند کردیا۔ میں نے فون سرہانے رکھا‘ اور سوچنے لگا۔ اس نے وکی سنگھ کے بارے میں نہیں پوچھا تھا کہ اس کا کیا بنا۔ مجھے اس سے اندازہ ہو رہاتھا کہ ان پانچ دنوں میں وہ میرے ‘ذہنی طور پر کتنا قریب آچکی تھی۔ کچھ دیر میں اُسے یاد کرتا رہا۔ پھراٹھ کر چھت کی منڈھیر پر آگیا۔
نیلگوں روشنی پھیلنے لگی تھی۔ وہیں کھڑے کھڑے مجھے اپنا گاؤں نورنگر یاد آگیا۔ میں وہاں ہمیشہ جلدی اٹھنے کاعادی تھا۔ ایسی روشنی میں اماں جائے نماز پر بیٹھی ہوتی تھی اور میں ڈیرے کی طرف نکل جایا کرتاتھا۔ پنجاب چاہے مشرقی ہو یامغربی‘ یہ تو سیاسی لکیر ہے‘ لیکن پنجاب کی اپنی ایک مہک ہے‘ خاص مٹی کی خاص سوندھی سوندھی مہک‘ میں کچھ دیر وہاں کھڑا رہا‘ پھرپلٹ کر چارپائی پر آکربیٹھ گیا۔
تبھی جسپال بولا۔
”دلجیت اتنی ہی یاد آرہی ہے جمال؟“
”اوئے نہیں اوئے‘ نور نگر یاد آرہا ہے۔“
”سیدھا کیوں نہیں کہتے اماں یاد آرہی ہے۔“
”ہاں‘ وہ بھی۔“ میں نے ہولے سے کہا تو ہرپریت بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر بولی۔
”ویسے ٹہوار صاحب کہہ رہے تھے کہ ہم چند دن ان کے پاس یہاں رہیں لیکن لگتا ہے ہمیں آج ہی اوگی جانا پڑے گا۔
جمال اداس جو ہوگیا ہے۔“
”نہیں ہرپریت‘ میں اداس نہیں ہوااور پھر ہمیں آج ہی یہاں سے نکلنا ہوگا۔ جسپال جتنے دن باہر رہے گا‘ اس پر شک بڑھے گا۔“ میں نے کہا تو جسپال تیزی سے بولا۔
”اویار میری جائیداد کے کاغذات ایک دو دن میں ملنے والے ہیں اور میرا جالندھر میں رہنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں آج ہی نکلنا ہوگا۔“
”اب ہم پراڈو تو استعمال نہیں کرسکتے۔
کل دیکھا تھا اخبار میں‘ عام سواری ہی سے جاناپڑے گا۔“ وہ بولی۔
”تو کوئی بات نہیں‘ یہ تو بہت اچھا ہوا کہ وکی سنگھ کو ٹھکانے نہیں لگانا پڑا۔ یہاں سے مدد مل گئی۔“ جسپال نے کہا تو میں نے فیصلہ کن انداز میں کہہ دیا۔
”چلوٹھیک ہے ناشتے کے بعد ٹہوار صاحب سے اجازت لے لیں گے۔
اس وقت ہم فریش ہو کرنیچے صحن میں آگئے تھے۔ ٹہوار صاحب گھر پر نہیں تھے۔
ہم اس وقت لسی پی چکے تھے ،جو ان کی بیٹی نے ہمیں لاکر دی اور ہمارے ساتھ ہی بیٹھ کرپی تھی۔ تبھی میں نے اس سے پوچھا۔
”یہاں نیٹ کی سہولت ہے نا…“
”بالکل ہے… چاہیے آپ کو…“ وہ خوشگوار انداز میں بولی۔
”اگر مل جائے تو…“ میں نے کہا تو اٹھ کر اندر چلی گئی۔ پھر کچھ دیر بعد وہ لیپ ٹاپ اٹھا لائی۔ ہرپریت اور وہ باتیں کرنے لگیں۔
جسپال میرے قریب کھسک آیا۔ میں نے اپنا اکاؤنٹ کھولا۔ روہی سے ایک ہی میل تھی۔ انہیں دلجیت کے واپس جانے اورا سکا سیل فون میرے پاس ہونے کی اطلاع تھی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ میں اس وقت کہاں ہوں۔ میں نے وہ تمام تفصیلات پڑھیں۔ بالکل آخر میں مجھے امرتسر جانے کو کہا گیا تھا‘جہاں پہنچ کر میں نے ہرمندر صاحب ہی میں رہنا تھا۔ وہاں مجھے کال کی جانی تھی او راس بندے کے ساتھ میں نے چلے جانا تھا‘یہ سب کچھ پڑھ کر جسپال ایک دم سے اُداس ہوگیا۔
”تو اس کامطلب ہے تو میرے ساتھ اوگی پنڈ نہیں جاسکے گا۔“
”اب تیرے سامنے ہے‘دیکھ لو… خیر‘ تم جالندھر نکلو‘ پھر دیکھتے ہیں۔“ میں نے کہااور پھر میل کا جواب دے کر لیپ ٹاپ واپس دے دیا۔ میں نے وکی سنگھ سے لی معلومات کے بارے میں انہیں آگاہ کردیاتھا۔
ٹہوار صاحب سے بڑی مشکل سے اجازت لی۔ وہاں سے نکلتے نکلتے ہمیں دوپہر ہوگئی۔
ان کے گاؤں ہی سے ہمیں دوکاریں ڈرائیور سمیت مل گئیں۔ مین سڑک پر جاکر ہم مخالف سمتوں کی طرف چل دیئے۔ جسپال کے ساتھ ہرپریت خاصی اداس دکھائی دے رہی تھی۔ جبکہ میں اس حصار میں نہیں آنا چاہتاتھا۔ بھارت میں آنے کے بعد میں پہلی بار اکیلا نکل رہاتھا۔ میرے پاس اپنی شناخت کی کوئی دستاویز نہیں تھی۔ اگرچہ مجھے بتایاگیاتھا کہ ساری دستاویز تیار ہیں لیکن اس وقت میرے پاس نہیں تھیں۔
میں ڈرائیور کے ساتھ گپ شپ لگاتا رہا۔ پھر جلد ہی میں پچھلی نشست پر میں نے آنکھیں بند کیں اور سوچنے لگا کہ آئندہ میرے ساتھ کیا کچھ ہوسکتا ہے۔
میں اس وقت ہرمندر صاحب میں موجود تھا۔ سفید کرتا اور پاجامہ پہنے‘ سرپر بسنتی رنگ کی پگڑی سے میں اس وقت سکھ ہی دکھائی دے رہاتھا۔ بس میرے ”کیس“ نہیں تھے۔ جبکہ داڑھی خاصی بڑھی ہوئی تھی۔ صرف امرت دھاری سکھ اپنے کیس رکھتے ہیں۔
باقی اپنے بال کٹوالیتے ہیں۔ میں پرسکون سا ”پرکر ما“ کے ساتھ دلان میں بیٹھا ہواتھا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے سفید بادل تھے۔ مجھے شدت سے کال کاانتظار تھا۔ اگر کال نہ آئی تو پھر میرے لیے رات گزارنے کا مسئلہ ہوناتھا۔ ہوٹل میں کوئی نہ کوئی دستاویز چاہیے تھی‘ جبکہ امرتسر میں میرا جاننے والا کوئی نہیں تھا۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا‘ اک آسراتھا کہ جسپال اور ہرپریت کے علاوہ ٹہوار صاحب کانمبر میرے پاس فون میں محفوظ تھا۔
ایسی کسی افتاد کے لیے میں ان سے مدد لے سکتاتھا۔ کیونکہ ایسی ہی کسی صورت حال کے لیے جسپال نے کہاتھا کہ میں اسے کال ضرور کروں۔ اس وقت شام کے سائے لہرانے لگے اور ہرمندر صاحب کی روشنیاں جگمگااٹھی تھیں جب سیل فون پرکال آئی۔ وہ شخص ہرمندر صاحب ہی میں موجود تھا۔ اس نے اپنے بارے میں بتایااور فون بند کردیا۔ میں اٹھااور اس طرف چل دیا جہاں اس نے بتایا تھا۔
وہ ایک موٹا سا سکھ تھا‘ ادھیڑ عمر‘ خشخشی داڑھی‘ بڑھا ہواپیٹ ‘ چیک دار شرٹ‘ اور سیاہ پتلون ‘ گہرے نیلے رنگ کی پگڑی تھی۔ اس نے یہی نشانی بتائی تھی۔ میں نے اس کے قریب جاکر سیل فون نکالا اور اسے کال کردی۔ اس نے اپنے فون کو دیکھااور پھرمجھے‘ پھر فوراً ہی آگے بڑھ کربولا۔
”جی‘ میں ہی ہوں سردار دلجیت سنگھ…“ اس نے اپنا نام بلاشبہ غلط بتایا تھا تاہم دلجیت کاحوالہ ضرور دے دیاتھا۔
میں نے اس کے لئے ہاتھ جوڑ کر فتح بلائی تو اس نے بھی ہاتھ جوڑ کرفتح بلائی۔”ست سری اکال جی آپ کو‘ آؤ چلیں۔“
ہم دونوں ہرمندر صاحب سے نکلتے چلے گئے۔شمالی سڑک پر آکر اس نے ایک سائیکل رکشہ والے کو روکا اور ہم اس میں بیٹھ گئے۔ وہ کافی زیادہ بولتاتھا۔ یونہی بازاروں اور وہاں پرموجود دکانوں کے بارے میں مجھے بتانے لگا۔ تقریباً آٹھ دس منٹ رکشہ چلاتھا کہ وہ اسے روک کرنیچے اتر گیا۔
میں بھی اتر آیا‘وہ قریب کی ایک پارکنگ میں بڑھا اور سیاہ رنگ کی ہنڈائی نکال لایا۔ میں اس کے ساتھ بیٹھا تووہ بڑھتا چلاگیا۔ تبھی وہ پھر شروع ہوگیا۔
”ہم پارکنگ تک پیدل بھی آسکتے تھے لیکن ہرمندر صاحب میں خفیہ والے بہت ہوتے ہیں۔ آپ وہاں کافی دیر سے تھے ‘ میں نے سوچا ممکن ہے آپ کسی کی نگاہوں میں آگئے ہوں۔ کیونکہ آپ نے کڑا تو پہنا ہوا ہے لیکن کرپان نہیں ہے۔
میں یہ شے دیکھ سکتا ہوں تو خفیہ والے کیوں نہیں‘ بس اسی لیے احتیاط کی تھی۔“
”اچھا کیا آپ نے احتیاط کی۔“ میں نے کہا اور سامنے سڑک پر دیکھنے لگا۔ خاصا رش تھا‘ اور ایسے رش میں اگر کوئی تعاقب بھی کررہا ہو تو پتہ نہیں چلناتھا۔ مجھے احساس ہوگیا تھا کہ سردار دلجیت سنگھ اب مجھے گھما پھرا کر ہی منزل تک لے جائے گا۔ وہ یونہی امرتسر کی باتیں کرتا رہا اور میں سنتا رہا۔
اس کاموضوع یہی تھا کہ کس جگہ سے کھانے پینے والی کون سی چیز اچھی ملتی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہم یونہی سڑکوں پر پھرتے رہے۔ میں اس دوران دیکھتا رہا کہ کوئی ہمارا تعاقب تو نہیں کررہا۔ جب یہ احساس ہوگیا کہ کوئی نہیں ہے تووہ ایک پوش علاقے کی طرف لے گیا۔ وہ نیوماڈل ٹاؤن کی آبادی تھی۔ جس کے ایک خوبصورت سے گھر میں وہ مجھے لے گیا۔
ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہی تھے کہ ایک لمبا تڑنگا بوڑھا سکھ آگیا۔
میں اسے دیکھتے ہی چونک گیا۔ یہ وہی گیانی تھا‘ جس نے ایک دن دلجیت کور کے گھر میں بھاشن دیاتھا۔ وہ مسکراتا ہوا بڑی گرم جوشی سے مجھے ملااور پھر”سرداردلجیت کور“ کی طرف دیکھ کربولا۔
”آپ اب جائیں۔“
”جی!“ یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے مڑااور چلتا چلاگیا۔ اس کے جانے کے بعد ہم دونوں ایک ہی صوفے پربیٹھ گئے۔ 
”میرا نام کرم جیت سنگھ ہے۔
تم مجھے صرف گیانی بھی کہہ سکتے ہو۔ سوری‘ تمہیں ہرمندر صاحب میں کافی دیر انتظار کرناپڑا۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ اگر تیرے پیچھے کوئی خفیہ والا لگاہوتا تو معلوم ہوجاتا۔“
”یہاں آکر خفیہ والوں کابہت ذکر سنا ہے‘ اس کی وجہ …؟“ میں نے یونہی پوچھا۔
”پاکستان کی سرحد ساتھ ہے نا‘ اور پھر سکھوں کی مرکزی عبادت گاہ بھی یہی ہے اور سکھوں کی مختلف تحریکیں سرگرم ہیں۔
اس لیے یہاں پرکون کس بھیس میں ہے ،پہچانا جانا بہت مشکل ہوتا ہے‘ جیسے تم ایک مسلمان ہو اور سکھ کے بہروپ میں آدھے سے زیادہ دن وہاں رہے ہو۔ بہت احتیاط کرنا پڑتی ہے۔“ گیانی نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پرسکون انداز میں کہا۔
”ہاں‘ یہ تو ہونا چاہیے۔“ میں نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔وہ چند لمحے پرسکون رہا‘ پھر بولا۔
”دلجیت کور تو گئی‘ جس کی مدد کے لیے تمہیں بلایا گیا تھا۔
اب یہاں رہ کر تم نے جسپال کی مدد کرنی ہے‘ اس سے پہلے کہ جسپال رویندر سنگھ کومارے‘ اسے تم نے مارنا ہے۔“
”وہ تو میں کرلوں گا‘ لیکن جسپال کی حسرت تو…“
”نہیں‘ بعض اوقات جذباتی فیصلوں سے بچا جاتا ہے۔“
”اس کایہاں آنے کا سارا مقصد ختم ہوکررہ جائے گااگرا س نے رویندر سنگھ کو اپنے ہاتھوں سے نہ ماراتو…“ میں نے انتہائی جذباتی انداز میں کہاتووہ اسی تحمل سے بولا۔
”دیکھو،خفیہ اور خصوصاً ”را“ کی اس پر گہری نگاہ ہے‘ انہیں اس کی تین ماہ کی غیر موجودگی ہضم نہیں ہوپارہی ہے۔ وہ رویندر سنگھ سے ہر طرح کی تصدیق کرچکے ہیں کہ جسپال کو اغوا کیا ہے یانہیں۔ ممکن ہے وہ جسپال کے اس بیان کوسچ تسلیم کرلیتے لیکن چندی گڑھ میں جو سی سی کیمروں کی فوٹیج ہے‘ اس میں یہ نمایاں ہے‘ صرف ایک الجھن کی وجہ سے یہ بچ رہا ہے۔
اس ساری ویڈیو میں کہیں بھی اس کاپورا چہرہ نہیں آیا۔ اس لیے شک کی گنجائش رہ گئی ہے۔ ورنہ وہ اب تک گرفتار ہوچکا ہوتا۔“
”پھراس کے یہاں رہنے کافائدہ تو کوئی نہیں ہے۔“ میں نے تیزی سے کہا۔
”نہیں‘ شاید تم نہیں جانتے‘ اس کاویزہ ختم ہونے والا ہے۔ ایک دو دن میں اسے اپنی جائیداد کی ملکیت والے کاغذات مل جائیں گے۔ اسے واپس کینیڈا جاناپڑے گا۔
پھروہ دوبارہ آجائے گا تو شہریت کے بارے میں درخواست دے سکے گا۔ یہ کچھ قانونی معاملات ہیں۔ یہاں کے نہیں‘ کینیڈا کے‘ خیر۔! یہاں تک اس کے یہاں رہنے کا فائدہ ہے‘ میں اسے یہاں سیاست میں لانا چاہتا ہوں۔ ہمیں ایسے بندے چاہیے جو پارلیمنٹ میں آواز اٹھا سکیں‘ بہرحال یہ ایک لمبا پلان ہے۔“
”گیانی جی‘ میں آپ سے ابھی کہہ دوں۔ جسپال سیاست نہیں کرسکتا۔
“ میں نے حتمی انداز میں کہا۔
”میں تمہارے یقین کو قطعاً نہیں جھٹلاؤں گا لیکن یہ اوگی پنڈ کے علاقے سے ہماری قوت تو بنے گا۔“ اس نے بڑے تحمل سے کہا۔
”ٹھیک ہے‘ جیسا آپ چاہیں ۔ میرے لیے حکم؟“ میں نے بات کو ایک دم سمیٹتے ہوئے کہا۔
”فی الحال تو تم آرام کرو‘ اوریہ سکھ والابہروپ ابھی ختم نہ کرو۔ اس حیثیت سے تمہاری ایک شناخت ہے‘ تمہاری دستاویزات بن جائیں گئیں، سکھ ہونے کے ناطے تجھے کوئی پوچھے گا نہیں۔
رویندر سنگھ والا معاملہ کیسے حل کرنا ہے‘ یہ بعد میں سوچ لیں گے۔ کل ہوتی ہے پھر ناشتے کے بعد ملاقات۔“ اس نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا تو میں بولا۔
 ”ٹھیک ہے۔“
”اس گھر میں صرف تین لوگ ہیں‘ اور وہ ملازم ہیں۔ یہ گھر میری ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ لیکن تم اسے اپنا گھر ہی سمجھنا۔ کسی قسم کے تکلف کی ضرورت نہیں۔ میں ایکتا کالونی میں رہتا ہوں۔
“ یہ کہہ کر وہ کھڑا ہوگیا۔ میں بھی اٹھ گیا۔ تبھی تینوں ملازم وہاں آگئے‘ ان میں ایک ادھیڑ عمر سکھ خاتون‘ ایک نوجوان اور دوسرا بوڑھا سکھ تھا‘ وہ مجھے ایک ہی خاندان سے لگتے تھے۔ نوجوان نے مجھے بیڈروم تک پہنچایااور الماری میں پڑے ملبوسات دکھائے۔ میں پرسکون ہوگیا۔ اور بیڈ پر لیٹ گیا۔
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط