Episode 18 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 18 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

وہ باغ کے درمیان میں بنائی گئی تھی۔ جسے میں دیکھ رہا تھا‘ پھر اس کی طرف بڑھ گیا‘ جبکہ نوین کور بتا رہی تھی۔
1920ء کے اگست میں مدن موہن مالویہ نے ساڑھے پانچ لاکھ کی مالیت سے اس باغ کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی لیکن پھر 1961ء میں ”شعلہ کی یادگار“ بنا کر بھارتی صدر نے باقاعدہ اس کومیموریل کے ذریعے اس حالت میں لانے کی کوشش کاآغاز کیا۔
اب یہاں پر تو بچوں کے لیے کافی دلچسپیاں…“ وہ نجانے کیا کہتی چلی جارہی تھی، جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ہم اس وقت ان دیواروں کے پاس چلے گئے تھے جہاں گولیوں کے نشان تھے اور کئی جگہوں پر اب بھی خون کے نشان تھے، جو اب سیاہ ہو چکے تھے۔ میرے اندر نجانے کیاہونے لگا تھا۔ ایک دم سے میرا تصور اس وقت کی طرف چلا گیا۔ جب یہاں نہتے لوگ بیساکھی پر جمع تھے۔

(جاری ہے)

نوین کور کی آواز آنابند ہوگئی تھی۔وہ دوپہر سے پہلے کا وقت تھا لیکن مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے غروب آفتاب کا وقت ہو گیا ہو۔ میرے سامنے کی ساری ہریالی ایک دم سے ختم ہوگئی۔ ایک اجاڑ سامیدان میرے سامنے ابھرآیا۔ میں اپنی اس کیفیت پر ششدر تھا کہ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ اس اجاڑ میدان میں لوگوں کی آواز آرہی تھی‘ جیسے بہت بڑا ہجوم ہو اور وہ سب باتیں کررہے ہوں۔
چند لمحے ایسے ہی گزر گئے۔ پھراچانک ہی فائرنگ کی آواز آنا شروع ہوگئی۔ لوگوں کی چیخ وپکار اٹھی‘ یوں لگ رہاتھا جیسے شدید فائرنگ میں لوگ مررہے ہیں‘ کراہ رہے ہیں‘ چیخ رہے ہیں‘ مجھے یوں لگ رہاتھا جیسے میں 13اپریل 1919ء کے اس دن میں ہوں‘ اس ہجوم کا کوئی حصہ ہوں اور میرے اندر میری اپنی حالت خراب ہو رہی ہو۔ ایک خوف تھا جو سر سے پاؤں تک مجھے لرزا رہا تھا۔
میں اپنی حالت کو سمجھ نہیں پارہاتھا۔ پھرایک دم سے سب کچھ خاموش ہوگیا۔ وہی سارا منظر دوبارہ اُبھرآیا۔ نوین باتیں کرتی چلی جارہی تھی اورمیں اپنی حالت پرشدید پریشان تھا۔ یہ کیا ہواتھا؟ کیامیں واقعتا اس ماحول میں چلاگیاتھا؟ کیامیرے ساتھ انہونی ہوگئی ہے؟ یا فقط یہ میرا تصور تھا؟ اگر یہ تصور ہی تھا تو اس قدر مضبوط؟ کیامیں اس دور کی ایک جھلک سن اور دیکھ چکاہوں؟ یہ سب کیا تھا؟
”جمال…صاحب…یہ آپ…کوکیاہورہاہے…آپ کا رنگ… چہرہ …پسینہ…“ نوین کور نے گھبرا کر میری جانب دیکھا۔
وہ میری جانب دیکھ کر حد درجہ پریشان تھی۔
”نوین۔!جتنی جلدی ہوسکے‘ مجھے یہاں سے لے چلو۔ میں یہاں ایک لمحہ بھی نہیں رہنا چاہتا۔“ میں نے تیزی سے کہا۔ میں اس وقت خود پر قابو نہیں پارہاتھا۔
مجھے نہیں یاد کہ ہم وہاں سے کیسے نکلے‘ کب کار تک آئے اور راستے میں کیا کچھ تھا۔ راستے میں نوین کور نے پوچھا بھی تھا۔
”آپ اگر کہیں تو میں آپ کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلوں؟“
”نہیں‘ بس گھر چلو۔
“ میں نے تیزی سے کہا۔ پھراس نے کچھ نہیں کہا اورگھر آگئی۔ وہ میرے ساتھ چلتی ہوئی ڈرائنگ روم تک آئی‘ پھر پانی منگوا کر پلایا‘ تب تک میں خود پر قابو پاچکاتھا۔ اس وقت پہلا جو خیال میرے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ میری اس کیفیت بدلنے کی وجہ کیا تھی؟ کیا یہ حقیقت تھی یامحض میرے تصور کی کارفرمائی؟ اگر حقیقت تھی تو یہ کیونکر سامنے آئی؟ اور اگر میرے تصور کی کارفرمائی تھی تو کیا کوئی میری ذہنی صلاحیت انگڑائی لے کر بیدار ہوچکی ہے؟ اورپھر یہ بھی اک سوال تھا کہ کیا یہ میری وجہ ہی سے ہوا؟ میرے اندر سے یااس کی وجہ کوئی اور ہے؟ یہ خیال آتے ہی میں نے نوین کور کی طرف دیکھا‘ اس کے چہرے پرمعصومیت پھیلی ہوئی تھی۔
وہ انتہائی پریشانی میں میری طرف متوجہ تھی۔ کیا یہ کوئی پراسرار ہستی ہے؟ وہ عینک کے شفاف شیشوں سے میری جانب بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور بلاشبہ میرے چہرے پر ہونق پن ہوگا۔
”مسٹر جمال! آپ ٹھیک ہیں؟“ اس نے مجھ سے پوچھا تو میں اپنے خیالات سے باہر آیا۔
”میں ٹھیک ہوں نوین، بیٹھو۔“ میں نے اپنے ساتھ صوفے پربیٹھنے کااشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ بیٹھ گئی پھر بولی۔
”میرے خیال میں اگر آپ ایک بار خود کوڈاکٹر سے …“
”نہیں‘ اگر آپ سارے دن کے لیے آئی ہو تو میں اب باہر جانے سے معذرت چاہوں گا۔ میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔“
”آپ جب تک کہیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔اگر آپ باہر نہیں جانا چاہتے ‘ آرام کرنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔آپ میرا سیل نمبر لے لیں‘ جب کال کریں گے میں آجاؤں گی۔
’اوکے !“ میں نے کہا اور سیل فون نمبر لے کر محفوظ کرلیا،پھر صوفے سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔ اس نے کوئی بات نہیں کی اور چپ چاپ باہر کی طرف چلی گئی۔جب وہ گیٹ کراس کرگئی تو میں اپنے بیڈروم کی جانب بڑھ گیا۔ جہاں بیڈ پر لیٹ کر میں اسی عقدے کوحل کرنے کے لیے سوچنے لگا۔ یہ کوئی خواب ناک کیفیت نہیں تھی۔ میں نے اپنے ہوش وحواس میں یہ سب دیکھا تھا۔
آخر یہ تھا کیا؟ شام ہونے کو آگئی لیکن مجھے اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ تب میں نے اس پرسوچنا ہی چھوڑ دیا۔ وہ رات میں نے ٹی وی دیکھنے اور سونے میں گزاردی۔
اگلے دن گیانی صاحب ذرا دیر سے آئے۔ اس وقت میں ناشتہ وغیرہ کرکے ‘ ایک اردو اخبار دیکھ رہاتھا۔ گیانی صاحب کے ساتھ نوین کور اورایک نوجوان سکھ لڑکا تھا۔ لمباتڑنگا‘سیاہ پتلون اور ہلکی نیلی شرٹ ‘سر پربسنتی پگڑی پہنے ہوئے تھا۔
وہ غور سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔
”بکرم جیت سنگھ…“ گیانی نے صوفے پر بیٹھ کر اس نوجوان کا تعارف کرایا۔”ببرخالصہ سے تعلق ہے۔ ابھی چند دن پہلے لدھیانہ سے آیا ہے۔ دونوں گپ شپ لگاؤگے تو جان پہچان ہوجائے گی۔نوین کور سے تو تم مل ہی چکے ہو‘ ویسے کل ہوا کیاتھا؟“
”بس اچانک طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ شاید کچھ کھانے پینے کا اثر تھا۔
“ میں نے جواب دیا۔
”جب نوین نے کہاتھا کسی ڈاکٹر کودکھانے کو تو دکھادیتے؟“ گیانی نے صلاح دی۔
”نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں اب‘ بس وہ وقتی تھا۔“ میں نے کہاتو وہ بولے۔
”بلجیت کی آخری رسومات ادھرامرتسر میں ہی ادا کی جائیں گی۔“
”تو کیا یہ اچھی بات نہیں ہے۔“ میں نے چونکتے ہوئے کہاتو وہ انتہائی سنجیدگی سے بولے۔
”ہاں۔
!ہے تو اچھی بات‘ لیکن آج بہت زیادہ رش ہوگا۔ بہرحال اس کاسیکیورٹی پلان بکرم کے پاس ہے‘ اور یہ نوین تم لوگوں کے ساتھ ہوگی۔ آپ تینوں کاپلان ہے‘ اور جمال تم ان دونوں کے ہیڈ ہونگے۔ اب جو کرنا ہے تمہی لوگوں نے کرنا ہے۔“
”ٹھیک ہے‘ ہم دیکھ لیتے ہیں۔“ میں نے کہااور پہلے بکرم کو دیکھا‘ جس کے چہرے پرسنجیدگی تھی اور پھر نوین کو دیکھا تو چونک گیا۔
اس کاچہرہ جذبات سے عاری تھااوروہاں معصومیت پھیلی ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر یوں لگ رہاتھا جیسے ہم کسی فلسفے کی گتھی سلجھا رہے ہوں یا کسی پکوان کے اجزائے ترکیبی پر بات کررہے ہوں۔ وہ مجھے کافی حد تک پراسرار لگی۔ شاید گیانی نے میری نگاہیں پڑھ لی تھیں۔
”جمال۔! نوین کور کو دیکھ کر مایوس مت ہونا۔ اس کاچہرہ سمندر کا سکوت ہے۔ یہ اپنے حلقے میں ”ریشمی تلوار“ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
“گیانی نے کہا تو نوین کے پتلے ہونٹوں پر ذرا سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور پھرغائب ہوگئی۔
”ریشمی تلوار۔!“ میں نے اس کانام زیرلب دہرایا تواچھا لگا۔ تبھی وہ بولی۔
”گیانی جی۔! جمال میں فقط ایک خرابی ہے‘ یہ یہاں کاپنجابی لہجہ نہیں اپناسکا‘یہ کمی اسے دور کرنی چاہیے۔ اگر اسے یہاں رہنا ہے تو…“
”تم ٹھیک کہتی ہو نوین خیر‘ آج سے تم تینوں ادھر ہی یا پھراکٹھے ہی وقت گزاروگے۔
میری آپ تینوں سے ملاقات اب اس آپریشن کے بعد ہی ہوگی۔ چاہو تورہنے کابندوبست کہیں اور کردوں۔“
”یہاں سے اگر ہم ایک بار نکل گئے تو پھر دوبارہ ہم شاید ہی واپس یہاں آئیں گے۔“بکرم نے گیانی کی بات سمجھتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے‘ اگر کوئی بہت پریشانی ہو تو مجھے کال کرسکتے ہو‘ یاپھر نوین کو معلوم ہے کہ رابطہ کس سے کرنا ہے۔ اب مجھے اجازت دو، یہاں سے ہرشے آپ لوگوں کو مل جائے گی۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا۔ پھرہاتھ جوڑ کر فتح بلاتے ہوئے‘ واہ گرو‘ واہ گرو کرتا ہوا باہر چلا گیا۔ تبھی ہم تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرا دیئے۔
                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط