Episode 19 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 19 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

جالندھر کی فضاؤں میں اچھی خاصی نمی تھی۔ بارش خوب برسی تھی‘ لیکن صبح بہت روشن تھی۔ نیلے آسمان پر سفید بادل تھے جو کبھی کبھی سورج کے سامنے آکر دھوپ کو روک لیتے تھے۔ دوپہر ہونے کوتھی جب جسپال سنگھ اور ہرپریت کور ریوینو آفس میں پہنچے۔ وہاں کیشیو مہرہ کے ساتھ دو اور لوگ تھے۔ وہ سبھی بڑے آفیسر کے پاس گئے۔وہ ان سے بڑے تپاک سے ملا۔ کچھ دیر گپ شپ کے بعد اس نے دراز سے فائل نکالی اور جسپال سنگھ کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا۔

”یہ لیں جی۔! آپ کو اپنی جائیداد مبارک‘ وقت اس لیے لگا کہ آپ کی شناخت اور کچھ قانونی معاملات درپیش تھے۔“
”بہت شکریہ۔“ جسپال سنگھ نے فائل پکڑتے ہوئے کہااور وہ کیشیو مہرہ کی جانب بڑھادی۔ اس نے کچھ دیر ان کاغذات کی جانچ پڑتال کی‘ تب سبھی اٹھ گئے۔

(جاری ہے)

دفتر سے باہر آکرمہرہ نے کہا۔

”لیں جی جسپال‘ اب آپ قانونی طور پر اپنی جائیداد کے مالک ہیں۔
ہم شام کے بعد آئیں گے اوگی پنڈ اور پھر آپ سے وہیں ٹریٹ لیں گے‘کیوں مس ہرپریت۔“
”جی کیوں نہیں‘ہم آپ کاانتظار کریں گے۔“ ہرپریت نے خوشدلی سے کہا تووہ تیزی سے بولا۔
”لیکن میں آنے سے پہلے فون کروں گا۔ ممکن ہے کوئی کام پڑ جائے۔“ اس نے یہ بات کہہ کرمعنی خیز انداز میں ان کی طرف دیکھا‘ پھر مسکراتے ہوئے ان سے جدا ہوگیا۔ تبھی وہ بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر آفس سے نکلے تو ہرپریت نے کہا۔
”اب سیدھے اوگی چلو‘ راستے میں کہیں رکنے کی ضرورت نہیں ہے۔“
”مگر میں تمہارے لیے کچھ شاپنگ کرنا چاہتا ہوں۔“ جسپال نے تیزی سے کہا۔
”مجھے بھی شاپنگ کرنا ہے‘ لیکن اس کے لیے کل یاپرسوں آئیں گے‘ اب چلو۔“ ہرپریت نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو جسپال نے گاڑی کا رخ نکودر روڈ کی جانب کرلیا۔
جس وقت وہ کوٹھی کی طرف مڑنے والی سڑک پر آئے تو جسپال یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے گھر کے سامنے بہت سارے مشتعل لوگ جمع تھے اور مسلسل ان کے گھر پر پتھراؤ کررہے تھے۔
اندر سے کسی بھی قسم کی مزاحمت نہیں تھی۔ انہیں دیکھتے ہی ہرپریت کے منہ سے نکلا۔
”اوہ !ربّا، یہ کیا؟“
”جلدی سے پولیس کوفون کرو۔“ جسپال نے کافی فاصلے پر گاڑی روکتے ہوئے کہا۔ پھرتیزی سے انوجیت کے نمبر ملائے‘ اس نے فوراً ہی فون پِک کرلیا۔”یہ باہرہنگامہ، کیسے ہو تم؟ اور کہاں ہو؟“
”لگتا ہے تم آگئے ہو۔میں گھر کے اندر ہی ہوں‘ بنتا سنگھ کافی زخمی ہے‘ اس کی مرہم پٹی کررہاہوں۔
“ 
”اوہ۔! پولیس کو فون کیا؟“
”ہاں۔! میرے لوگ بھی آنے والے ہوں گے… تم دور رہنا‘ پتہ نہیں وہ …“ اس نے کہنا چاہا تو جسپال نے تیزی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”میں ان کے سامنے ہوں۔ وہ لوگ ہمارے گھر پرحملہ کررہے ہیں اور میں تماشائی بن جاؤں، میں دیکھتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ تب تک ہرپریت پولیس کو اطلاع کرچکی تھی۔
اس نے تیزی سے اتر کر پچھلی سیٹ کو اٹھایااور گن اٹھالی‘ ہرپریت نے ڈیش بورڈ میں پڑا پسٹل اٹھایااور دونوں گاڑی سے باہر آگئے۔ اس دوران ہجوم میں سے کچھ لوگوں نے انہیں دیکھ لیاتھا‘ اس کے ساتھ ہی شور مچ گیا۔وہ نعرے لگاتے ہوئے ان کی طرف دوڑے تو جسپال نے ہوائی فائر کردیئے۔ مجمع ایک دم سے ٹھٹک کررک گیا۔ جسپال نے اندازہ لگالیاتھا کہ ان میں متحرک لوگ کون سے ہیں۔
ایسے ہی مشتعل ہجوم میں چند لوگ ہی ہوتے ہیں جو اس پورے ہجوم کا”موڈ“ بناتے ہیں۔ وہی سب سے زیادہ شور مچاتے ہوئے ہجوم کو کچھ بھی کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ کیونکہ جیسے ہی ہوائی فائرنگ سے ہجوم ٹھٹک کررک گیا اس کے ساتھ ہی چند لوگ ”آگے بڑھو‘ مارو…“ کے نعرے لگانے لگے۔
”ہرپریت۔! تم دیکھ رہی ہو‘ یہ کون لوگ ہیں جوبڑھاوا دے رہے ہیں؟“
”ہاں۔
“ اس نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا۔
”انہی کونشانہ بنانا ہے‘ لیکن سنبھل کر …جب ضرورت ہو…“ جسپال سنگھ نے تیزی سے کہا۔اور ان کی طرف دیکھنے لگا۔ ہجوم رک گیا تھا‘ تبھی ایک شخص نے پسٹل نکال لیااور اس نے بھی ہوائی فائر کردیا۔ یہ ایک طرح کی دھمکی تھی کہ اگر تم نے ہم پرگولی چلائی تو اسلحہ ہمارے پاس بھی ہے‘ اس کے ساتھ ہی ہجوم میں سے کسی اور نے فائر کردیا۔
اس کے ساتھ ہی کسی نے چیخ کر کہا۔
”آگے بڑھو… مارو…بلجیت سنگھ کے قاتل کو مارو…“
ہجوم کو سہارا مل گیاتھا۔ تبھی ان کاحوصلہ بلند ہوگیا۔ وہ آگے بڑھے تو جسپال نے پھر ہوائی فائر کردیا۔ اسی دوران کوٹھی کی چھت پر سے انوجیت نے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ انہی لمحات میں کچھ گاڑیاں سڑک پرسے نیچے اتر کر ان کے قریب سے ذرا فاصلے پر آکر کھڑی ہوگئیں۔
ان میں سے کئی سکھ نوجوان نکلے اور باہر نکلتے ہی گنیں سیدھی کیں۔ اس پر جسپال نے اونچی آواز میں کہا۔
”کوئی بندہ نہ مارنا… ہوائی فائر۔“
ایک ساتھ جب فائرنگ ہوئی تو ہجوم بے قابو ہو کر دوڑنے لگا۔ فصلوں کے درمیان سے اوگی کافاصلہ زیادہ سے زیادہ آدھا کلومیٹر تھا‘ وہ لوگ اس جانب دوڑ پڑے تھے۔وہ بھی ان کے پیچھے بھاگے‘ جسپال ان کے ساتھ تھا۔
وہ چاہتاتھا کہ جن لوگوں نے نعرے لگائے ہیں‘ ان میں سے کوئی ایک ہی پکڑا جائے۔ وہ گاہے بگاہے فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ اوگی تک پہنچتے ہوئے وہ ہجوم غائب ہوگیا۔ اس وقت تک انوجیت بھی ان کے ساتھ آشامل ہوا۔ اس نے آتے ہی کہا۔
”چلو اب بس کرو… وہ بھاگ گئے ہیں۔“
”تم پہچانتے ہو‘ ان میں سے کون لوگ تھے؟“ جسپال نے پوچھا۔
”ہاں‘ ان میں سے تقریباً سبھی لوگوں کو جانتا ہوں۔ اور جو تم پوچھنا چاہ رہے ہو کہ بلجیت کے لوگ کون تھے‘ انہیں بھی جانتا ہوں۔“
”توپھر سنو انوجیت۔! جتنا چاہے وقت گزر جائے‘ انہیں قابو میں کرنا ہے‘ چاہے کوئی ایک پکڑا جائے‘ ورنہ ان کی ہمت بڑھ جائے گی، آج اور ابھی…“
”چلو۔!“انوجیت نے کچھ سوچے بغیر کہااور وہ سب لوگ اوگی پنڈ کی جانب بڑھ گئے۔
گاؤں بھر میں ہلچل مچ گئی تھی۔ وہ لوگ پیدل ہی ہجوم کے پیچھے آئے تھے۔ وہ آتے ہی ”ستھ“ میں آکربیٹھ گئے۔ وہاں کافی سارے لوگ تھے۔ اسی دوران کئی سارے لوگوں کو لے کر رام داس بھی آگیا۔ وہ ایک دن جسپال سے ملنے کوٹھی آیا تھا اور اپنی ہر طرح کی مدد کے بارے میں کہاتھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پر لوگ اکٹھے ہوگئے۔ہرکوئی اس شدید فائرنگ کے بارے میں جاننا چاہ رہاتھا۔
گاؤں میں ہلچل ہو اور دلبیر سنگھ کومعلوم نہ ہو‘ ایسا ممکن نہیں تھا۔ وہ بھی ایک لڑکے کے ساتھ موٹر سائیکل پر وہاں آگیا۔ تب انوجیت نے کوٹھی پرحملے کی بابت ان سب کو بتایا اور نام بتائے کہ ان میں کون کون لوگ شامل تھے۔ اس کے ساتھ ہی جسپال نے اونچی آواز میں کہا۔
”دلبیر سنگھ جی، آپ ہمارے بزرگ ہیں اور اس وقت ہم آپ ہی کو سرپنچ مانتے ہیں۔
آپ کے پاس دو گھنٹے ہیں‘ آپ ان سب کو یہاں لے آئیں اوران سے پوچھیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ ورنہ پھر ہم خود ان کو تلاش کرلیں گے۔“
”دیکھو پتر۔! انہوں نے جو کچھ بھی کیا‘ غلط کیا‘ لیکن میں بنتی کروں گا کہ تحمل سے کام لو‘ انہیں بلاتے ہیں اور انہیں پولیس کے حوالے کردیں گے۔ میرا وشواش کرو۔“ دلبیر سنگھ نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔
”آپ ہیں‘ اور اوگی کے لوگ بھی یہاں پر ہیں‘ یہ سب سن لیں کہ آج ہی مجھے میری جائیداد کے کاغذات مل گئے ہیں۔ میں اب آپ سب کی طرح اس گاؤں کا حصہ ہوں۔ کوئی میرے گھر پرحملہ کرے‘ میں اس کی آنکھیں نکال لوں گا۔ دو گھنٹے بعد میں یہیں آؤں گا۔“ جسپال نے کہاتو دلبیر سنگھ نے سکون سے کہا۔
”اگر تم مجھے اپنا بزرگ مانتے ہو تو میرا وشواس کرو۔
میں سب سنبھال لوں گا۔ تم ابھی گھر جاؤ‘ میں جانتا ہوں کہ بنتا سنگھ زخمی ہوگیا ہے‘ میں نے ڈسپنسری کاڈاکٹر بھجوایا ہے‘ تم جاؤ۔ میں اس کا کوئی نہ کوئی اُپائے کرتاہوں۔ میں رام داس جی کو بھی ساتھ لے لیتا ہوں‘ تم فکرنہ کرو۔“
اس کے تسلی دینے پرجسپال نے انوجیت کی طرف دیکھا‘ اس نے آنکھوں کے مبہم اشارے سے گھر چلنے کو کہا تووہ وہاں سے نکل پڑا۔
اس کے ساتھ سارے لوگ تھے جو باہر سے آئے تھے۔
باہر سے آئے نوجوان کھاپی کرچلے گئے۔ انہوں نے شام کو آنے کا کہاتو اس پر جسپال نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ بنتا سنگھ کی مرہم پٹی کرکے اسے آرام کے لیے لٹادیاتھا۔ اس کے ساتھی چوکیداروں کو وہاں تعینات کردیا۔ تب کہیں جاکر وہ ڈرائنگ روم میں گیاتو کلجیت کور اس کی منتظر تھی۔ اسے دیکھتے ہی وہ اٹھی اور اسے گلے لگا کربولی۔
”جسپال پتر۔! پتہ نہیں میں کب سے اس گھڑی کاانتظار کررہی تھی‘ تیری امانت تیرے حوالے ہوئی۔ اب میں سکون سے اپنے رب کے پاس جاسکوں گی۔ چاہے اب مجھے آج ہی بلالے۔“
”اوہ پھوپھو! آپ کیسی باتیں کررہی ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے کلجیت کور کوخود سے الگ کیا‘ پھر صوفے پربٹھا کربولا۔ ”دیکھو پھوپھو! یہ سب کچھ کل بھی انوجیت کا تھااور آج بھی اسی کا ہے ۔
میں نے تو چند دن کے بعد چلے جانا ہے۔ ابھی رب کے پاس جانے کاپروگرام کینسل کرو۔ہم نے انوجیت کی شاد ی کرنی ہے۔ ابھی تو اچھے دن شروع ہوئے ہیں۔“
”رب تیری خیر کرے پتر‘ مجھے بہرحال آج سکون آگیا ہے۔“ کلجیت کور نے پرسکون لہجے میں کہا۔ پھر جوُتی کی طرف دیکھ کربولی۔ ”چل جا جوُتی! مٹھائی لااور سب کو کھلا‘ یہ کرما مارے لوگوں نے تو سب بھلادیا۔
“ یہ کہہ کر اس نے انوجیت سے بولی۔ ”اب تو سن۔! کل گرودوارہ صاحب میں ارداس کرانی ہے‘ اس کابندوبست کرنا ہے۔“
”تو جو کہے ماں جی‘ وہی ہوجائے گا۔“ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا تو ہرپریت اس کی فائل لے آئی۔
”لوجی‘ پکڑو اپنی امانت‘ اس کی وجہ سے ہجوم کے پیچھے نہیں جاسکی۔“
”چل پھر کبھی سہی۔“ جسپال نے کہا تو سبھی ہنس دیئے۔ اس نے وہ فائل انوجیت کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
”یہ سب تیرا ہے میرے ویر۔! جب چاہے اپنے نام کروا لینا۔ ان چند دنوں میں یا پھر جب میں دوبارہ واپس آیا تو…“
”ہرپریت۔! یہ سنبھال کررکھ لواور فی الحال کھانا لگواؤ، بھوک لگ رہی ہے۔“ انوجیت نے اس بحث ہی کو سمیٹ دیا۔
                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط