شام کے سائے پھیلے تو اوگی پنڈ پر بھی خوف چھاگیا۔ ایک طرف دلبیر سنگھ ان سبھی نوجوانوں کو سامنے لے آیا تھا‘جو اس ہجوم میں تھے اور انوجیت کے گھر پر پتھراؤ کے ذمہ دار تھے۔جو بھاگ گئے تھے یا موجود نہیں تھے یا پھر سامنے نہیں آئے تھے۔ ان کے والدین میں سے کسی ایک کو وہاں بلالیاگیاتھا۔ ستھ میں اچھا خاصا رش لگاہواتھا‘کچھ لوگ چارپائیوں پربیٹھے تھے ۔
پنچ اونچی سی جگہ پر اور بہت سارے لوگ کھڑے تھے۔ پنچ حضرات کے پاس ہی جسپال سنگھ تھا‘اور اس سے کچھ فاصلے پر انوجیت تھا۔ انہوں نے بھی اچھی خاصی تعداد میں لوگ بلائے ہوئے تھے کہ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہو تو ان سے نپٹ لیا جائے۔ پنچائیت کی کارروائی شروع ہوتے ہی خاصی گرماگرمی ہونے لگی تھی۔ حملہ آوروں کا یہ موقف تھا کہ جسپال کی وجہ سے بلجیت سنگھ مرا ہے‘ اس لیے انہیں غصہ تھا۔
(جاری ہے)
کچھ دیر ان کی باتیں سننے کے بعد دلبیر سنگھ نے کہا۔
”تو اس کامطلب یہ نہیں کہ آپ اس کے گھر پر چڑھ دوڑیں۔ خیر۔! میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون تھے جنہوں نے عام نوجوانوں کو اُکسایااور وہاں پر فائرنگ کی؟“
اس کے ساتھ ہی وہاں پر چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ بھنبھناہٹ میں مختلف نام سامنے آنے لگے۔ یہاں تک کہ چھ سات نوجوان سامنے آگئے۔
ان میں سے کچھ روپوش تھے‘اس لیے ان کے ماں باپ وہاں پر سامنے تھے۔
”اس بے چارے بنتا سنگھ کا کیا قصور تھا۔ اسے اس قدر زخمی کردیا‘وہ کوٹھی کاملازم ہی نہیں‘ گھر کاایک فرد بھی تھا۔ اگر وہ مرگیاتو اس کاذمے دار کون ہوگا؟“ جسپال سنگھ نے پنچائیت سے کہا۔
”ظاہر ہے‘ یہی ذمے دار ہیں۔ اب پنچائیت انہیں کیا سزادیتی ہے۔“ دلبیر سنگھ نے سب پنچوں کی طرف دیکھ کر کہا تو جسپال نے سب کی طرف دیکھااور اجازت لے کربولا۔
”میں ان سب کومعاف کرتاہوں‘ لیکن اگر آئندہ کسی نے ایسی حرکت کی تو میں معاف نہیں کروں گا۔“ اس کے یوں کہنے پر ایک دم سے سب کے چہروں پر خوشی دوڑ گئی۔ کئی لوگ حیران تھے کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ کتنا دیالو ہے کہ اس نے سزا نہیں ہونے دی بلکہ معاف کردیا۔ کئی لوگوں نے جذبات میں آکر یہ اظہار بھی کردیاتو اس نے کہا۔ ”دیکھو! آج تک میرے گاؤں والے ظلم وستم کاشکار رہے ہیں۔
دبے رہے ہیں‘یہاں زندگی کی سہولتیں نہیں آئیں‘آپ سب کو یہ معلوم ہوجانا چاہیے کہ سب زمین جائیداد میرے نام ہوگئی ہے ۔رویندر سنگھ خاندان نے میری راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ یہاں سکول بنیں گے‘ فیکٹریاں لگیں گی‘ ہسپتال تعمیر ہوگا‘یہ جو”ویہلے نوجوان“ ہیں‘ لوگوں کے گھروں کو آگ لگاتے پھر رہے ہیں‘ یہاں کام کریں گے۔
خوشحال ہوں گے۔اس سے میرے باپ کلوندر سنگھ کی آتما کو سکون ملے گا۔ اس سے آپ لوگوں کو بھی پہچان ہوجائے گی کہ رویندر سنگھ خاندان کیساتھا؟ کس طرح انہوں نے اپنی سرپنچی بچانے کے لیے اسی گاؤں کے نوجوانوں کو اندراگاندھی حکومت کے گماشوں کے سامنے ڈال دیا تھا‘جنہوں نے ان نوجوانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا‘ جن میں میرا باپ بھی تھا۔یہ سارے اوگی کے لوگ جانتے ہیں۔
“ جسپال سنگھ انتہائی جذباتی انداز میں کہہ رہاتھا کہ کئی لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ وہاں سماں ہی کچھ اور بن گیا تھا۔ ایسے میں ایک شخص کا سیل فون بج اٹھا۔ وہ دوسری طرف سے کچھ سنتا رہا پھر فوراً ہی فون بند کرکے اونچی آواز میں بولا۔
”اوئے سنو اوگی والو۔! رویندر سنگھ قتل ہوگیا۔“
وہاں ایک دم سے خاموشی چھاگئی۔ رویندر سنگھ کے حمایتی پنچوں کے رنگ اڑ گئے۔
پھر سرگوشیاں ایک شور میں بدل گئیں۔ خبر کی تصدیق ہونے لگی۔ کچھ دیر بعد ماحول ہی کچھ اور ہوگیا۔
”ٹھیک ہے آپ لوگ جاسکتے ہیں لیکن آئندہ ایسی حرکت نہ ہو۔“ دلبیر سنگھ نے ان کی طرف دیکھ کرکہاتو لوگ فوراً ہی وہاں سے کھسکنے لگے۔
جسپال اور انوجیت کارمیں بیٹھ کر واپس کوٹھی کی طرف جارہے تھے جسپال کاموڈ انتہائی خراب تھا۔ اسے شدید غصہ آرہاتھا۔
تبھی وہ بڑبڑانے والے انداز میں بولا۔
”ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا‘ میں نے اسے مارنا تھا،اسے کوئی دوسرا کیسے مار سکتا ہے؟“
”دھیرج رکھو یار جسپال‘ یہ لفظ بھی منہ سے مت نکالو۔ اچھا ہوا وہ مرگیا۔ تیرا مشن پورا ہوگیا۔“ انوجیت نے تحمل سے کہا۔
”میرے اندر کا غصہ تو ٹھنڈا نہیں ہوگانا، میں اپنے ہاتھوں سے مارتا، اس بے غیرت کو…“ جسپال کاغصہ کسی طور بھی کم نہیں ہو رہا تھا۔
اس پرانوجیت نہیں بولا‘ بلکہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا ‘ یہاں تک کہ وہ گھر آگئے۔ ان کے آنے سے پہلے ہی ہرپریت تک یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ اس کی ایک سہیلی نے بتادیا تھا۔ اس نے جسپال کا موڈ دیکھا تو خاموش رہی۔ وہ سبھی ڈرائینگ روم میں تھے اور اپنی اپنی جگہ خاموش تھے۔ تبھی جسپال نے کہا۔
”اسے کون مارسکتا ہے؟ اور پھر وہ مرا کیسے ؟“
”اس کی تفصیلات تو خبریں دیکھ کر ہی ہوسکتی ہے۔
“ ہرپریت نے کہا پھرچند لمحے بعد کہا۔ ”تم چلو کمرے میں‘ وہیں لیپ ٹاپ ہے‘ کوئی آن لائن ٹی وی دیکھتے ہیں۔“
جسپال اور ہرپریت دونوں ہی بیڈ پر بیٹھے ہوئے اسکرین پرنظریں جمائے ہوئے تھے۔ امرتسر کے ایک مقامی چینل سے وہ تفصیلات بتائیں جارہی تھیں۔ وہ سب کچھ دیکھتی رہنے کے بعد اچانک اس کے منہ سے نکلا۔
”یہ جمال کے سوا دوسرا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
“
”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟“ہرپریت نے تیزی سے پوچھا تووہ لیپ ٹاپ ایک طرف رکھتے ہوئے بولا۔
”یہ اس کااسٹائل ہے‘ وہ بہت پختہ نشانہ باز ہے‘ تم دیکھ نہیں رہی‘ ایک رپورٹر یہ بات کہہ رہی ہے کہ منوہراور رویندر کاقتل ایک جیسا ہے‘ میں تو پھر اس کے ساتھ رہا ہوں۔ “اس نے ایک طویل سانس لے کر کہہ دیا تو ہرپریت نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
”مان لیا‘ اگر اسی نے یہ قتل کیا ہے تو پھر،تم کیا کہتے ہو؟“
”توپھر کوئی بات نہیں۔اس نے مار لیا‘ یامیں نے ‘بات ایک ہی ہے‘ جمال کو نہیں معلوم کہ یہ رویندر سنگھ کیاہے‘ اس پٹّی میں یہ چوتھا بڑ اقتل ہے‘ وہ گھیراجاسکتا ہے‘ مجھے اس کے لیے کچھ کرناہوگا۔“ جسپال ایک دم سے پریشان ہوگیا۔
”کیاکروگے تم؟ اور کیا کرسکتے ہو؟ چار دن بعد تم یہاں سے جانے والے ہو۔
اگر تم اس کاساتھ دیتے ہوئے گھیرے گئے تو؟“
”نہیں‘ مجھے امرتسرجانا ہوگا‘ مجھے اسے کسی نہ کسی طرح نکالنا ہوگایہاں سے‘ میں نکل جاؤں اور وہ یہاں پھنس جائے۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔“ اس نے بے حد جذباتی انداز میں کہا۔
”پاگل مت بنو۔“ وہ تیزی سے بولی‘پھر اسے اپنی بانہوں میں لے کر دھیرے سے کہا۔ ”دیکھو۔! تم کینیڈا جاکر ایک طویل عرصے کے لیے دوبارہ یہاں آسکتے ہو۔
پھر جو چاہے اس کے لیے کرسکتے ہو‘ ابھی رسک نہیں لیاجاسکتا۔“
”تمہارا کیا خیال ہے‘ میں ایک دن جاؤں گااور دوسرے دن واپس آجاؤں گا۔ اس میں ایک دو ہفتے لگ سکتے ہیں ممکن ہے زیادہ وقت لگ جائے۔ وہ اگر یہاں …“ اس نے خود کو ہرپریت سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
”تم میری بات تو سن لو‘ ہم امرتسر جاتے ہیں‘ اسے اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں۔
تم پرواز کرجاؤ‘ ہم اسے اوگی لے آئیں گے‘ پھر کچھ عرصے بعد وہ جیسے سرحد پار کرسکے گا کروادیں گے‘ اور اگر ممکن ہوا تو تمہارے آنے تک اسے یہاں رکھ لیں گے۔“
”ویسے تم کہہ تو ٹھیک رہی ہو‘ جہاں چار دن بعد جانا ہے‘ وہاں دو دن پہلے ہی سہی۔“ جسپال نے کہااور جمال کے نمبر ملانے لگا۔ ذرا سی دیر بعد رابطہ ہوگیا۔
”میں کل امرتسر آرہا ہوں‘ باقی باتیں وہیں ہوں گی۔“ جسپال نے کہا۔
”جارہے ہو؟“ اس نے پوچھا۔
”ہاں‘ پراپنا بہت خیال رکھنا‘ ملتے ہیں کل…“ اس نے تیزی سے کہا۔
”ٹھیک ہے‘ میں انتظار کروں گا۔“ جمال نے کہا تو فون بند کردیا پھر سیل فون ایک طرف رکھااور ہرپریت کی طرف دیکھنے لگا۔ چند لمحے یونہی دیکھتے رہنے کے بعد بولا۔
”پریتو۔! تیاری کرلو، صبح صبح نکلیں گے یہاں سے،دوپہر ہونے سے پہلے وہاں پہنچ جائیں۔“
”تم جارہے ہو؟“ ہرپریت نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا‘ پھر تیزی سے اس کے ساتھ لپٹ گئی۔ پھر کتنی ہی دیر تک وہ اس کے ساتھ لگ کرروتی رہی‘ جسپال اسے ہولے ہولے تھپکتارہا۔
”پریتو۔! آج اور ابھی جتنا چاہے رولو، پھر بعد میں نہیں۔“
کچھ دیر بعد جب ساری بھڑاس نکل گئی تو وہ اس سے الگ ہوگئی۔ پھر آنکھیں پونچھتے ہوئے بولی۔
”نہیں روؤں گی۔“
”چل آ، پھوپھو کے پاس چلیں‘ اسے بتا ئیں ۔ “ یہ کہہ کر وہ بیڈ سے اتر گیا۔ ہرپریت بھی اس کے ساتھ چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔