Episode 24 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 24 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”ہے کوئی‘ لیکن وہ اکیلا نہیں ہے‘ و ہ دیکھو ‘ اس کے پیچھے۔“
وہ دو آدمی تھے‘ بڑے محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ میں یہ فیصلہ نہیں کرپارہاتھا کہ ان کا مقابلہ کیاجائے یا پھریہاں سے فرار ہوا جائے ۔ میں نے نوین کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”بولو… !مقابلہ یا فرار…؟“
”مقابلہ۔“ اس نے سرسراتے ہوئے کہا تو میں اسے لیتاہوا باہر آگیا۔
”ایسے کرو‘ یہاں کے ملازمین کو جگاؤ‘ فوراً،میں اوپر جاکر چھت پر سے دیکھتا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے میں سیڑھیاں چڑھتا چلاگیا۔ دوسری منزل کی چھت پر پہنچ کرمیں نے دیکھا‘ باہر گلی میں ایک کار دکھائی دی‘ جس کے پاس کوئی نہیں تھا‘ ممکن ہے اس کے اندر کوئی ہو‘ کمپاؤنڈ میں وہی دو افراد اب نظروں سے اوجھل تھے۔

(جاری ہے)

مجھے سیکیورٹی گارڈ پرغصہ آرہاتھا کہ وہ کیا کررہے ہیں‘ سوئے ہوئے ہیں یا بے ہوش ہیں؟ کیونکہ گیٹ پر کوئی نہیں تھا۔

میں نے چاروں طرف پھر کر دیکھ لیا۔ اب کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہاتھا۔ اچانک مجھے خیال سوجھااور پھرمیں نے اگلے لمحے اس پرعمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے پچھلی طرف سے نیچے جھانکااور چھت پر سے نیچے جانے کا کوئی ”راستہ“ تلاش کرنے لگا۔ جلد ہی مجھے ایک پائپ دکھائی دیا۔ میں نے محتاط انداز میں اس پر پاؤں رکھا‘ اور پھر شیڈ کا سہارا لیتے ہوئے نیچے اترتاچلاگیا۔
یہاں تک کہ میرے پاؤں فرش پر لگے۔ میں فوراً ہی نیچے بیٹھ گیا۔ میں نے بجائے انہیں تلاش کرنے کے باؤنڈری وال کے اس طرف گیا‘ جس کے ساتھ کار کھڑی ہوئی تھی۔ میں قریبی درخت پر چڑھا‘ پھر باؤنڈری وال پر قدم رکھااور باہر کی جانب اتر گیا۔ وہ کار کا عقب تھا۔ میں نے محتاط انداز میں کار کے اندر جھانکا۔ ایک شخص سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا‘ جہاں گیٹ تھا۔
میں سانس روکے اس کے سر پر جاپہنچا‘ پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر پسنجر سیٹ پر جابیٹھااور پسٹل اس کی گردن پر رکھ دیا۔
”کون ہو تم؟“
وہ حیرت کے مارے ساکت ہو کر رہ گیاتھا۔ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی یوں اسے دبوچ لے گا۔ ایک یا دو لمحے بعد اس کے اوسان بحال ہوگئے۔ اس نے گردن موڑے بغیر کہا۔
”پسٹل ہٹاؤ اور بتاؤ‘ تم کون ہو؟“
”یہاں کیا کرنے آئے ہو۔
“ میں نے اس سے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ۔
”ممکن ہے تمہیں یا تیرے جیسے بندے کو تلاش کرنے کے لیے۔“ اس نے اعتماد سے کہا۔
”کتنے لوگ ہو؟“ میں نے پوچھا۔
”بہت سارے‘ تمہارے گمان میں بھی نہیں ہے… میں نے کہا ہے پسٹل ہٹاؤ…“ اس نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ جیسے وہ مجھے کوئی چیونٹی تصور کررہا ہو۔
”مطلب‘ تم کچھ نہیں بتاؤگے۔
“ میں نے کہااوراس کی طرف دیکھا‘ اندھیرے میں اس کے چہرے پر پھیلے جذبات میں نہیں دیکھ پایاتھا۔
”تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔“ اس نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے مجھے دھمکی دی۔ تومیں نے پسٹل ہٹاتے ہوئے کہا۔
”لو۔! پسٹل ہٹالیا‘ اب بتاؤ کیا کروگے‘ مجھے گرفتار کروگے… کرلو…“ میں نے کہاتو اس نے ذرا سا کسمسانے کی کوشش کی‘ میں نے چشم زدن میں پسٹل کا دستہ اس کی کنپٹی پردے مارا۔
وہ حیرت بھری آنکھوں کے ساتھ بے ہوش ہوتا چلاگیا۔ میں اتنا تو جانتاتھا کہ کار میں پڑے شخص اور اندر گئے لوگوں کا آپس میں رابطہ تو تھا‘ممکن ہے ہماری آوازیں ان کے کسی ہیڈ کوارٹر تک بھی گئیں ہوں۔ میں زیادہ وقت نہیں دینا چاہتاتھا‘ میں نے اس شخص کی تلاشی میں دو سے تین منٹ لگائے‘ گاڑی میں متوقع اسلحہ دیکھا‘ میں نے اس شخص کا کارڈ‘ سیل فون اور کاغذات جیب میں ڈالے اور اگنیشن سے چابی نکال کر پھینک دی۔
میں اس طرح واپس چار دیواری پر چڑھا‘ بلاشبہ اندر جو لوگ تھے وہ کمانڈو تھے۔ انہیں قابو میں کرنا یاان سے پوچھ تاچھ کرنا اچھا خاصا رسک تھا۔ میں ان سے خوف زدہ نہیں تھا‘ لیکن میں کوئی رسک لینے کے موڈ میں نہیں تھا‘ میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ میں انہیں اندر سے کیسے نکالتا۔ میں نے چند لمحے سوچا‘ پھر باؤنڈری وال سے نیچے اتر آیا۔
میں نے اس بے ہوش شخص کو باہر نکالا‘ اس کی شرٹ نکالی‘ پھر سیل فون کی لائٹ میں چابی تلاش کی‘ وہ جلد ہی مجھے مل گئی۔ میں نے کار کے پیٹرول ٹینک کا ڈھکن کھولااور اس کی شرٹ کو پیٹرول میں بھگویا‘ اب مسئلہ آگ لگانے کا تھا‘ میرے پاس ماچس یا لائٹر نہیں تھا۔ میں نے پسٹل سے ایک گولی چلائی‘ ٹھک کی آواز کے ساتھ گولی نکلی اور شرٹ جلنے لگی۔
میں نے انتہائی تیزی سے اپنا آپ بچایااور چاردیواری پرچڑھ گیا‘ پھر اگلے ہی لمحے اندر کود گیا۔ میں بھاگتا ہوا رہائشی عمارت کی جانب بڑھا‘ اس میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگے ہوں گے‘ اچانک چار دیواری کے باہر زور دار دھماکہ ہوا۔ کار کے شعلے ہوا میں بلند ہوگئے۔
اس وقت میں نے ان دونوں کمانڈوز کو دنیا کا احمق ترین کمانڈو مان لیا جب وہ تیزی سے باہر نکلے‘ انہوں نے پسٹل تانے ہوئے تھے اور اٹھتے ہوئے شعلوں کو دیکھ رہے تھے۔
میں اگر ان کی جگہ ہوتا تو اندر سے نوین یا کسی ملازم کو اپنی ڈھال بناکرباہر لاتا‘ ظاہر ہے باہر کسی نے کارروائی کی ہے تو کسی کی موجودگی کے واضح امکانات تھے۔ ممکن ہے وہ ابھی گھر کے اندر افراد تک پہنچے ہی نہ ہوں۔ بہرحال وہ میرے لیے بڑا آسان شکار تھے‘ میں نے تاک کر نشانہ لیا اور ایک کے سر میں سوراخ کردیا‘ وہ ڈکراتا ہوا وہیں ڈھیر ہوگیا۔
میں نے دوسرے کو وقت نہیں دیا۔ اس کی رانوں میں گولیاں مار دیں‘ وہ لڑکھڑاتا ہوا گر گیا۔ میں فوراً ہی اس کے پاس چلاگیا۔ پسٹل اس کے ہاتھ میں سے نکل چکاتھا۔ میں نے اس کے ماتھے پر نال رکھتے ہوئے پوچھا۔
”کیا کرنے آئے تھے یہاں؟“ میں نے پوچھا۔
”ڈا…ڈاکہ… “ اس نے تیزی سے مگر کراہتے ہوئے کہا۔
”اس کامطلب ہے ‘ تم مرنا چاہتے ہو۔
دیکھو‘ صحیح بات بتاؤ گے تو اس طرح زندہ چھوڑ دوں گا…ورنہ … “یہ کہتے ہوئے میں نے نال کا دباؤ ڈالا تو وہ بولا۔
”یہاں دہشت گردوں کی اطلاع ملی تھی، ہم صرف دیکھنے آئے تھے ۔“ اس نے کراہتے ہوئے کہا۔
”کس نے بتایا؟“ میں نے پوچھا تو اتنے میں اندر سے نوین باہر آگئی۔ اس نے صور تحال دیکھی۔
”شک ہوا تھا،ایئرپورٹ سے…“ یہ کہتے ہوئے وہ درد سے کراہا۔
”مار دو اسے اور نکلو۔“ نوین چیخی۔
”نہیں نوین۔! میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ میں اسے نہیں ماروں گا۔“ میں نے کہااور پسٹل اس کے ماتھے پر سے ہٹالیا۔
اس بندے نے میری طرف ممنونیت سے دیکھا‘ تبھی نوین نے پوری نفرت سے اس کی طرف دیکھا‘ پسٹل نکالااور گولی مار دی۔
”اس نے ہمیں دیکھ لیا ہے‘ اب وقت نہیں ہے‘نکلو۔“ پھر پلٹ کر ادھیڑ عمر سکھ سے بولی۔
”شام کے وقت مہمان آئے تھے یہاں، رات ہونے سے پہلے ہی چلے گئے۔ ان لوگوں کو سیکیورٹی والوں نے مارا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے پورچ میں کھڑی اپنی ماروتی کی جانب بڑھی‘ میں نے کہا۔
”یہ کار تو نظروں میں آچکی ہے۔“
”اوئے یہاں سے تو نکلیں۔“ اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ میں اس کے ساتھ پسنجر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گیٹ پر پہنچ کر دیکھا‘ دونوں سیکیورٹی والے بے حس پڑے ہوئے تھے۔
بے ہوش تھے یا مرگئے تھے یہ دیکھنے کا وقت نہیں تھا۔ میں نے گیٹ کھولااور ہم وہاں سے نکلتے چلے گئے۔ گلی میں کئی کھڑکیاں کھل چکی تھیں اور کچھ لوگ باہر بھی نکل آئے تھے۔ نوین کور وہاں سے نکلتی چلی گئی۔ راستے میں اس نے گیانی جی سے رابطہ کیا۔
”مجھے پتہ چل گیا ہے‘ فی الحال تم دونوں کہیں چھپ جاؤ۔ وہ ملازمین بھی وہاں سے نکل گئے ہیں۔“ اس نے کہا پھر لمحہ بھر توقف کے بعد بولا۔
”وہ سیف ہاؤس تھا‘ ختم ہوگیا۔ نوین تجھے محفوظ مقام تک لے جائے گی اور جب تک میں نے کہوں یہاں سے نہیں جانا۔“
”اوکے۔!“ میں نے اختصار سے کہااور فون بند کردیا تو نوین کور بڑے جذباتی لہجے میں بولی۔
”اوئے مت گھبراؤ‘ایسے نجانے کتنے سیف ہاؤس ہیں یہاں امرتسر میں۔ تم ببرخالصہ کے مہمان ہو۔ فکر مت کرو۔ واہ گرو سب ٹھیک کرے گا۔“ یہ کہہ کراس نے اپنی نگاہ سامنے سڑک پر لگادی۔
پھر جلد ہی اس نے مین شاہراہ سے گاڑی چھوٹی سڑکوں پر ڈال دی۔ وہ کچھ دیر گھومتی رہی‘ پھر ایک جگہ گاڑی کھڑی کرکے بولی۔ ”اپنی سیٹ کے نیچے ہاتھ ڈالو‘ کچھ میگزین اورایک دستی بم ہوگا نکالو۔“
میں نے وہ دونوں چیزیں نکال لیں۔ تب تک وہ باہر نکل آئی تھی۔ اس نے میگزین اپنی جیبوں میں ٹھونسے اور دستی بم کی پن نکال کر ایک گلی کی جانب بھاگ گئی۔
میں بھی اس کے پیچھے لپکا۔ کچھ ہی دیر بعد ہمیں اپنی پشت پر دھماکا سنائی دیا۔ ہم سکون سے وہ گلی پار کر گئے۔
ہمارے سامنے سڑک کنارے ایک ڈاٹسن کھڑی تھی۔ ہم چہل قدمی کے انداز میں اس کے قریب گئے‘ پھراس کادروازہ کھولااور کار میں بیٹھ گئے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر ایک سکھ نوجوان اور دوسری پر لڑکی تھی‘ جس نے بڑا مختصر سا لباس پہن رکھاتھا۔ ہمارے بیٹھتے ہی گاڑی چل پڑی۔
نجانے کن راستوں سے چلتے چلے جارہے تھے۔ پھرایک ایسے علاقے میں جاپہنچے ‘جہاں وہ علاقہ ابھی آباد ہو رہاتھا۔ ایک بڑے سے بنگلے میں ہم جاپہنچے جو ابھی زیر تعمیر تھا‘دوسری منزل پر ایک کمرہ اچھا خاصا سجاہواتھا۔
”لگتا ہے تم دونوں یہاں تھے۔“ نوین نے لڑکی کی طرف دیکھااور پھر آنکھ مارتے ہوئے پوچھاتھا۔
”اور کیا، بڑے مزے میں تھے۔
“ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
”توچلو اب مزے کرو۔ ہمیں کوئی دوسرا کمرہ دکھادو۔“ نوین نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا تو ہمیں لے کر ذرا سا ہٹ کر بنے ایک کمرے میں لے گئی‘ جہاں رہائش کے لیے تقریباً ساری ہی سہولیات میسر تھیں۔
”یہاں بیٹھو۔! میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔ فی الحال یہی ملے گا‘ اور اگر پینی ہے تو خود جاؤ اور فریج میں سے نکال لاؤ۔
”نہیں پینی نہیں۔“ نوین نے تیزی سے کہا۔
”اوکے۔! میں چائے بناتی ہوں۔“
وہ چلی گئی تو میں نے کھڑکی کھول کرباہر دیکھا۔ خاصی ویران جگہ تھی‘ اندھیرا زیادہ تھا۔ کہیں کہیں کسی پول پر کوئی بلب روشن تھا۔ میں بظاہر دیکھ رہا تھا لیکن میرا دماغ ابھی تک اس واقعے میں اُلجھا ہوا تھا‘ نوین واش روم میں چلی گئی تھی۔ میں کافی دیر تک کھڑا رہا۔
تبھی میرے عقب سے نوین کور کی آواز آئی۔
”اوئے۔! اتنا مت سوچو‘پتہ چل جائے گا،یہ سب کیسے ہوا؟“
”کب‘ کس سے ؟“ میں نے تیزی سے مڑتے ہوئے پوچھا۔
”ایک دو دن میں…پتہ چل جائے گا۔ ہمارے ذرائع ہیں۔ تب تک یہاں سکون سے رہیں گے۔“ یہ کہہ کر وہ بیڈ پر دراز ہوگئی۔ وہ یوں پھیل کرلیٹی تھی جیسے سستا رہی ہو۔ مجھے خاموش دیکھ کر اس نے کہا۔ ”یہ محفوظ ”سیف ہاؤس“ ہے۔ یہ جو ابھی لڑکا تم نے دیکھا ہے‘ اس بنگلے کو بنوا رہا ہے۔ ابھی چند دن یہاں کام رکا ہوا ہے۔ یہ دونوں آپس میں دوست ہیں۔ اکثر یہاں پائے جاتے ہیں۔ دونوں ہی اپنے بندے ہیں۔ایسے ہی زیرتعمیر بنگلے ہمارے کام آتے رہتے ہیں۔ “ اس نے کہاتو میں نے قریب پڑی ایک کرسی پربیٹھتے ہوئے کہا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط