Episode 26 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 26 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

دوپہر ہونے والی تھی‘ مگر گیانی صاحب کافون نہیں آیاتھا۔ میں کمرے میں بیٹھا ہوا اُکتا گیاتھا۔ میں ٹی وی دیکھنے کی بجائے حالات پرغور کررہاتھا جبکہ نوین کور لیپ ٹاپ پرگندی فلمیں دیکھ کر اپنا نشہ پورا کررہی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے احساس ہوا تھا کہ یہ فلمیں کس حد تک لت کی طرح بندے کو لگ جاتی ہیں۔ اس نے ضد کرکے ایک فلم کا تھوڑا حصہ مجھے دکھایا تھا‘ وہ ایک ایسی فلم تھی‘ جس میں تشدد دکھایا جارہاتھا۔
مجھ پراس کاالٹااثر ہوا۔ مجھے صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں کے اس ہتھیار کے بارے میں سوچنے پرمجبور کردیا‘ کس قدر زہر انسانیت کی رگوں میں دوڑادیا گیاتھا۔ صرف مسلمان ہی اس زہر کے عادی نہیں ہوئے تھے بلکہ پوری انسانیت کو اس میٹھے زہر کا عادی بنادیاگیاتھا۔ ان کی اپنی قوم نے اس خنجر سے خود کو زیادہ لہولہان کرلیاتھا۔

(جاری ہے)

میں نے نوین کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔

یہاں تک کہ دوپہر ہوگئی۔ اس کا احساس میں نے اسے دلایا تو وہ ایک دم سے اٹھ کر چلنے کوتیار ہوگئی۔ پھروہاں سے نکل کر پیدل چلتے ہوئے ایک سڑک تک آئے‘ وہاں سے رکشہ لیااور شہر کے پررونق علاقے میں چلے گئے۔وہیں میں نے نوین سے ہنستے ہوئے کہا۔
”یار‘ تیرے شہر میں یہ جو پل پرکاریں چل رہی ہیں‘ ان کی سیر کرنا تھی‘ یہ تو کی ہی نہیں۔“
”کی جاسکتی ہے‘ اگر ہم بس اسٹاپ پر ہوں‘ یا ہرمندر صاحب…درمیا ن میں نہیں‘ چلو‘ وہاں چلتے ہیں۔
میں تمہیں سیر کروادوں۔“ نوین کور نے پل پر چلتی ہوئی کار کو دیکھ کر کہا۔
”نہیں‘ فی الحال کہیں سے اچھا سا روایتی کھانا کھاتے ہیں‘ پھر…“
”یہیں قریب ہی ’بھائیوں کا ڈھابہ‘ ہے۔ وہاں چلتے ہیں۔ “ اس نے مجھے بتایا۔
”لیکن پہلے مجھے ایک پبلک بوتھ سے فون کرنا ہے۔“ میں نے کہا تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی۔
”اوکے …وہ دیکھو‘ وہ سامنے …چلو۔
“ اس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
پبلک بوتھ پرپہنچ کر میں نے وہ فون نمبر ملایا تودوسری طرف سے مردانہ مگر ملائم سی آواز سنائی دی۔
”میں دلجیت سنگھ ٹہورا بات کررہاہوں۔ پرم جیت سنگھ جی سے بات کرنا ہے۔“میں نے کہا تو دوسری جانب سے بڑی سنجیدگی سے بات ہونے لگی۔ظاہر ہے وہ کوڈ ورڈ تھے جس کے بعد میں نے ڈھابے کے بارے میں بتایا۔
اس نے مجھے کوڈ میں ایک کار کانمبر بتایا جسے میں نے ذہن نشین کرلیا اور فون بند کردیا۔ مجھے کھانے کے بعد باہر نکل کر اس کار کے پاس آجاناتھا اور ڈرائیور کو بلا کر اپنا نام بتاناتھا۔
نوین کور خاموشی سے میرے ساتھ کھانا کھاتی رہی۔بِل چکانے کے بعد جب ہم اُٹھنے لگے تو میں نے اس سے کہا
”نوین ، اب تیری اور میری راہیں الگ الگ ہیں۔
زندہ رہے توکبھی ملاقات ہوگی۔ اس لئے تم یہاں سے ذرا بعدمیں نکلنا، میں پانچ منٹ بعد واپس نہ آیاتو تم چلی جانا۔ اوکے؟“
” اوکے۔ تم مجھے یاد رہو گے۔“ اس نے اپنی عینک کے اوپر سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔میں اٹھ کر باہر آگیا۔ میں محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک سرخ رنگ کی کار کھڑی تھی۔
میں بلا جھجھک اس کے پاس گیا تو اس کا ڈرائیور باہر آ گیا۔ میں اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا نام بتایا وہ بغیر کچھ بولے مڑا اور پچھلی نشست کادروازہ کھول دیا۔
ہماری منزل ایک پرانے طرز کی حویلی تھی جو کم از کم ڈیڑھ سو سال پرانی تھی۔ مگر رنگ وروغن اور دیکھ بھال کے علاوہ توجہ دینے پر وہ بالکل نئی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کا طرز تعمیر بہترین تھا۔
جس میں انڈین اورانگلش تعمیر کاامتزاج پایا جاتاتھا۔ حویلی کے سامنے لان میں گھاس‘ پودے اور درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے‘ جس سے میں نے آسودگی جیسی فرحت محسوس کی۔ پورچ میں کار رُکی تو باوردی ملازم نے گیٹ کھولا۔ جس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہاں جس قدر بھی ہے‘ اہمیت ضرور ہے۔ وہ مجھے ڈرائنگ روم میں لے گیا جو جدید اور قدیم اشیاء سے سجاہواتھا۔
میں وہاں پہنچ کر کسی حد تک مرعوب ہوا تھا۔شاید اس کی تاریخی حیثیت تھی یا وہاں سے اس حویلی کے مکینوں کے بارے میں اظہار ہو رہاتھا۔ میں وہاں رک گیا۔
”آئیے۔!“ باوردی ملازم نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کااشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میں اس کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ کمرے سے باہر نکل کر دائیں ہاتھ میں سیڑھیاں تھیں‘ وہ ان پر چڑھتا چلاگیا۔ میں بھی اس کے پیچھے دوسری منزل پرآگیا۔
سامنے ہی ایک بڑے سارے چھجے کے نیچے کرسیاں دھری ہوئی تھیں‘ جن میں سے ایک کرسی پربھاری بھرکم جثے والا ادھیڑ عمر سکھ بیٹھا ہواتھا۔ جس نے زرد رنگ کی پگڑی ، سفید کرتااورپاجامہ پہنا ہواتھا۔ روایتی کرپال کی پٹی کا رنگ نیلا تھا۔ سفید داڑھی‘ گہری شربتی آنکھیں لیے وہ میری جانب ہی دیکھ رہاتھا۔ وہ چند لمحے یونہی دیکھتا رہا پھر دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے فتح بلائی۔
”ست سری اکال‘ جی آیاں نوں‘ جمال‘ آبیٹھ۔“
اس نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
”بہت شکریہ…“ یہ کہتے ہوئے میں کرسی پر بیٹھ گیا تو مجھے اپنے ساتھ لانے والا ملازم واپس پلٹ گیا۔
”مجھے رتن دیپ سنگھ کہتے ہیں۔تم جب سے یہا ں آئے ہو مجھے معلوم ہے‘ مدن لعل اور رویندر سنگھ والا معاملہ بھی‘خیر… تم ہمارے مہمان ہو‘ یہاں رہو۔
“ اس نے بڑے سکون اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں یوں کہا جیسے یہ واقعات اس کے لیے کچھ بھی حیثیت نہ رکھتے ہوں۔
”بہت خوشی ہوئی جی آپ سے مل کر‘ مہمان بنانے پر‘ دیکھیں مہمان نے ایک دن جانا ہوتا ہے‘ وہ آتا اپنی مرضی سے ہے‘ جاتا میزبان کی مرضی سے‘ کب تک میں…“ میں نے کہناچاہا تووہ قدرے مسکرا کر بولا۔
”اوئے جمال یار‘ تجھے آئے دو منٹ نہیں ہوئے اور جانے کی بات کررہا ہے۔
باقی تمہاری بات ٹھیک ہے‘ مہمان نے جانا توہوتا ہے ‘ وہ میں تمہیں بتادوں گا۔ لیکن فی الحال میری کچھ باتیں سن لو۔“
”جی فرمائیں۔“میں نے متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
”بھارتی خفیہ کو یہ تو معلوم ہے کہ کوئی بندہ ہے جو یہاں امرتسر سے جالندھر تک کارروائیاں کررہا ہے۔ کون ہے‘ اس بارے میں نہیں معلوم۔جسپال کے بارے میں خاصی الجھن رہی‘ اسے پہلے ہی دن ایجنٹ سمجھ لیا گیا اور اس پر کڑی نگاہ رکھی گئی۔
جسپال کامحتاط رویہ اور رویندر سنگھ کی غلط بیانیاں‘ اس نے الجھن ڈال دی‘ خیر اب وہ بھی نہیں‘ جسپال بھی چلاگیا لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ جسپال نے دوبارہ آنا ہے‘ لہٰذا اس کی واپسی کی راہ ہموار رہنی چاہیے۔“
”کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو گیانی صاحب سوچ رہے تھے۔“ میں نے پوچھا۔
” بہت حد تک معاملات گیانی دیکھتا ہے‘ لیکن اصل فیصلے کہیں او رہوتے ہیں۔
یہ سوچ اس کی اپنی نہیں کسی اور معتبر جگہ کی ہے۔ خیر،خفیہ کو غلط راہ پر ڈالنے کے لیے ہی رات والا ڈرامہ کیا گیا اور آج جو کچھ اخبارات میں ہے‘ وہ بھارتی خفیہ کو غلط راہ پر ڈالنے کے لیے ہے۔“
”ایسا کیوں سردار جی؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”اس لیے جمال کہ انہیں اپنی اوقات کاپتہ چلتا رہے۔ میں مانتاہوں ان کے وسائل بہت ہیں‘ قوت بھی زیادہ ہے لیکن لڑتے ،جذبے ہیں اور کام ہمیشہ حوصلہ ہی آتا ہے۔
آگ میں چھلانگ لگانے کے لیے جرات چاہیے ہوتی ہے۔ “اس نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا۔ ایسا کہتے ہوئے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
”تو یہ بات ہے۔“ میں نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا۔
”مدن لعل نے” را“کی مدد سے لاہور میں سیٹ اپ بنایا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ کیونکہ” را“ اور لاہور کے درمیان رابطہ کٹ گیا۔ لاہور والے لوگ ایسے ہی ہیں‘ جیسے کوئی مضبوط منشیات فروش جو کسی بھی شہر میں ہوتا ہے۔
“ اس نے سانس لیا‘ اور میری طرف دیکھا‘ میں خاموش رہا تووہ بولا۔ ”جمال! میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ تم سچ کہوگے۔“
”آپ پوچھیں میں سچ ہی کہوں گا۔“ میں نے جواباً کہا۔
”تمہاری یہ ساری بھاگ دوڑ کس لیے ہے؟ کیا مقصد ہے تمہارا؟ کس لیے تم نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی ہوئی ہے؟“ یہ کہہ کر اس نے میری آنکھوں میں دیکھا۔
میں خاموش رہا‘ کیونکہ میں خود تذبذب میں پڑ گیا‘ پھر کچھ دیر بعد بولا۔
”رتن دیپ سنگھ جی‘ سچ پوچھیں تو میرا کوئی مقصد نہیں ہے‘ شاید میں نے زندگی کی حفاظت کے لیے موت کا سامنا کرلیا ہے ۔حالات ہی ایسے بنتے گئے ہیں اور بس میں چلتا چلا جارہا ہوں۔“
”سچ کہا تم نے‘ کوئی دھرم کے لیے لڑرہا ہے کوئی زمین اور وطن کے لیے‘ اور کوئی اپنا وجود بچانے کے لیے‘ ہمیں دیکھو‘ سکھ دھرم کوختم کرنے کی پوری پوری کوشش کی جارہی ہے اور ہندو اس میں سب سے آگے ہے ۔
ہم اپنا وطن چاہتے ہیں اور ہماری لڑائی اپنا آپ بچانے کے لیے ہے۔ میں اس کے لیے دلائل کے انبار لگاسکتاہوں لیکن صرف ایک مثال دوں گا۔ سانحہ1984ء میری ان ساری باتوں کاجواب ہے۔“
”سبھی لڑرہے ہیں‘ لیکن اپنے اپنے انداز میں۔ معاف کیجیے گا‘ جس طرح سکھ پنتھ کی اب حالت ہوگئی ہے‘ اس سے یہ سارے ہدف حاصل کرنا بہت مشکل ہوگئے ہیں۔“ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”واہگرومہر کرے گا جمال‘ میں مایوس نہیں ہوں۔ دراصل یہ ہندو بنئیے اپنی اوقات سے باہر ہوگئے ہیں ۔اشو کا کے بعد سے 47ء تک یہ غلامی کی زندگی گزارتے آئے ہیں۔اب یہ آپے سے باہر ہوگئے ہیں۔ سنگھ پریوار جب چاہے قتل عام شروع کردیتا ہے‘ تم یقین رکھو‘ وہ دن دور نہیں جب اسی بھارت کے کئی ٹکڑے ہوں گے۔ کیونکہ جس ملک میں دِلت عوام‘ نچلے طبقے کے لوگ اپنا ترنگا لہرانے پر قتل کردیئے جائیں‘ وہ ایسی جمہوریت کے ماتھے پر کالک سے زیادہ کچھ نہیں۔
”یہ بھارتی تو اپنی جڑیں خود کاٹتے جارہے ہیں؟“ میں نے کہا۔
”بالکل‘ اپنی ساری کرتوتیں‘ مختلف ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں پرڈال دیتے ہیں۔ جیسے خالصتان تحریک کوپاکستانی آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں‘ میرے سامنے میرے باپ کوزندہ جلادیاگیا‘ وہ چیخیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ میری ماں کو اُس حویلی میں بے دردی سے قتل کردیاگیا۔
کیا یہ آگ آئی ایس آئی نے لگائی تھی یاان ہندوؤں نے؟“ وہ بے حد جذباتی ہوگیاتھا‘ پھر ایک طویل سانس لے کربولا۔ ”خیر…یہ باتیں توختم ہی نہیں ہوں گی ۔تم یہاں رہو اور تھوڑے بہت کام ہیں وہ کرو‘ جب ہمارا یہ مہمان جائے گا تو بہت اچھا ہوگا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے اپنی بات سمیٹ دی۔ کیونکہ دو تین ملازم کھانے پینے کا سامان کافی مقدار میں لے آئے تھے۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط