Episode 27 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 27 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”کیا کام ہوں گے؟“ میں نے پوچھا۔
”ابھی کیا جلدی ہے۔ ابھی کھاؤ پیئو اور سکون سے سوجاؤ۔ آرام کرو‘ بتادوں گا۔“ اس نے گہری سنجیدگی سے کہااور اپنے سامنے پڑے ہوئے سیب کواٹھالیا۔ اس کے ساتھ ہی کھانے پینے اور باتوں کا سلسلہ دراز ہوگیا۔
وہ حویلی کے سرے پر ایک شاندار کمرہ تھا۔ وہی قدیم وجدید انداز میں سجاوٹ تھی۔ اونچی چھت والا یہ کمرہ خوشبوؤں میں بسا ہواتھا۔
کھڑکی کے باہر مہندی کے پودے لگے ہوئے تھے۔جن کی مہک مسحور کن تھی۔ میں نے کمرے کا لاک لگایا، پسٹل نکال کر تکیے کی نیچے رکھااور سکون سے بیڈ پر پھیل کے لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے نیند نے آلیا۔
میری نیند ایک دم سے ٹوٹ گئی تھی۔ میں جلدی سے اٹھااور ادھر ُادھر دیکھا۔ میں نے دیکھا، دروازے میں ایک سروقد لڑکی کھڑی تھی۔

(جاری ہے)

اس کے بلیک ٹائیٹس نما پتلون پہنی ہوئی تھی‘ گلابی سلیولیس شرٹ‘ لمبی گردن‘ کھلے ہوئے لانبے گیسو‘ تیکھے نقوش اور لمبے ناک والی میری طرف گھور کر دیکھ رہی تھی۔

میں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا‘ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات کرتا‘ وہ مسکرائی اور بولی۔
”لیٹے رہو‘ دلجیت سنگھ جی‘ میں کوئی غیر نہیں‘ تمہاری میزبان گائیڈ ‘ دوست اور جو تم چاہو میں وہی ہوں…“ یہ کہتے ہوئے وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی میرے بیڈ کے قریب آگئی اور بے تکلفی سے بیٹھ گئی۔ خوشبو کاایک جھونکاآیا‘ اس نے کوئی دل آویزقسم کا پرفیوم لگایاہواتھا ۔
اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ بڑھا کر بولی۔”بانتیاکور آپ مجھے ”بنتو“ کہہ سکتے ہو‘ میرا نکِ نیم…“
میں نے اس کاہاتھ تو تھام لیا‘مگر مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے کیسا رسپانس دوں۔ اس نے مجھے دلجیت سنگھ کے نام سے ملایاتھا جو میرا یہاں کوڈ نیم تھا۔ پھراگلے ہی لمحے مجھے سمجھ آگئی کہ یہی نام یہاں اسے بتایا ہوگا‘ ورنہ اسے کوئی خواب تھوڑی آگیا ہے۔
میں اس کی آنکھوں میں دیکھ کر آہستگی سے مسکرادیا‘ پھراس کے بدن کو دیکھ کر بولا۔
”دیکھنے میں تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو‘ اب معلوم نہیں میزبانی کربھی پاؤگی کہ نہیں …“
”بعض اوقات بندہ بڑے غلط اندازے لگالیتا ہے‘ کہتے ہیں کہ بندہ اس وقت درست اندازے لگاتا ہے جب وہ بہت تجربے کار ہوگیا ہو۔“ اگرچہ اس نے یہ بات بڑے تحمل سے اور مسکراتے ہوئے کہی تھی لیکن مجھ پرطنز کرگئی تھی ۔
جس کامجھے قطعاً برانہیں لگا ‘بلکہ ایک طرح سے فرحت محسوس ہوئی‘ میں ہنس دیا۔
”چلیں‘ اپنا اندازہ یقین میں بدل کے دیکھتے ہیں۔“
”ممکن ہے‘ مجھے بھی ایسا ہی کوئی یقین کرنا پڑے ۔ سننے اور دیکھنے میں بڑافرق ہوتا ہے۔“ اس نے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کسی حد تک ہنستے ہوئے کہاتومیں نے پوچھا۔
”دروازہ تم نے کھولا یا پھر یہاں کے لوگوں نے ۔
”یہیں کے لوگوں نے‘ مگر یہ حویلی میرے لیے اجنبی نہیں ‘ سارے لوگ ہی جانتے ہیں مجھے۔“ اس نے کاندھے اچکا کر کہاتو میں سیدھے مطلب کی بات پراتر آیا۔
”میری گائیڈ‘ مجھے کیا راہنمائی دے گی؟“
”یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر امرتسر جنکشن ہے‘ بڑا ریلوے اسٹیشن ہے‘ کیا تم وہ دیکھنا پسند کروگے۔“
”ابھی چلنا ہے یا کچھ دیر ٹھہر کر۔
“ میں نے لیٹے لیٹے ہی کہا۔
”ابھی تو کچھ وقت تمہیں تیارہونے کو لگے گا‘ پھر میں تجھے آم پاپڑ کھلاؤں گی‘ بہت مشہور سوغات ہے یہاں کی‘ پھراگر دل کیاتو کوئی مووی شووی دیکھ لیں گے یا پھر کسی ڈانس کلب میں چلتے ہیں یا کسی ریستوران میں کھانا کھالیں گے‘ جو دل میں آیا۔“ اس نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”تیاری میں خود کروں گا یا تم کراؤگی۔
“ میں نے پوچھا تووہ بے تکلفی سے بولی۔
”دونوں مل کر کریں گے‘ میں تمہارے لیے خود کپڑے خرید کرلائی ہوں۔ گاڑی میں پڑے ہیں۔ ابھی آجاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنے نازک سے بلیک سینڈل اُتارے اور بیڈ پرپھیل کر بیٹھ گئی۔ وہ میرے سامنے تھی۔ اس کارنگ گورا نہیں تھا‘ مگر اس قدرسانولا بھی نہیں تھا ۔یہی کھلتا ہوا گندمی رنگ‘ سیلولیس شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھلے ہوئے تھے ۔
مجھے ایک دم خیال آیا کہ میں اس کے بدن میں اُلجھتا جارہاہوں۔ اس لیے میں اٹھااور باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد میں تیار ہوچکا تھا۔ سیاہ ڈریس پتلون‘ پرپل شرٹ کے ساتھ سیاہ پگڑی پہن لی تھی‘ پاؤں میں بلیک شوز‘ داڑھی کوخوب کنگھا کیا‘ مونچھوں کی نوکیں نکالیں اور تیار ہوگیا۔ اس دوران بانیتا کور بھی تیار ہوگئی۔
اس نے سیاہ جین اور گہرے نیلے رنگ کی بازؤوں والی ٹی شرٹ پہن لی‘ پاؤں میں بلیک لیدر شوز‘ بالوں کو کسی حد تک باندھ لیا تھا۔ میں اپنا پسٹل نکال کر جیب میں ڈالنے لگا تو بانیتا نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
”اسے رہنے دو‘ میرے پاس گاڑی میں پڑا ہے تمہارے لیے‘ خوبصورت تحفہ‘ فالتومیگزین بھی ہیں۔“
اس کے یوں کہنے پرمیں نے پسٹل واپس رکھ دیا‘ اور پھر اس کے ساتھ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
باہر شام اتر کر رات میں بدل گئی تھی۔ میں نے کھلی فضا میں ایک سانس لیا پھر ہم بلیک ڈاٹسن میں بیٹھ کر حویلی سے نکلتے چلے گئے۔
امرتسر شہر کی روشنیاں جگمگارہی تھیں۔ ٹریفک بھی بڑھ گیا تھا۔ میرے ساتھ پہلو میں ڈرائیونگ کرتی بانیتا ابھی تک خاموش تھی۔ شاید وہ کچھ سوچ رہی تھی۔ کیونکہ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔ میں نے بھی اسے مخاطب کرنا مناسب خیال نہیں کیا۔
وہ چلتی چلی گئی، یہاں تک کہ ہم ایک شاہراہ پر ملٹی پلیکس سینما کے سامنے آن رکے۔ اس نے کار پارکنگ میں لگائی اور بولی۔
”اپنے پسٹل اور میگزین لے لو اور باہر کی طرف جاکر کھڑے ہوجاؤ، میں آرہی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے نکلی اور پارک کرنے کے پیسے دے کر اندر کی جانب چلی گئی۔ میں کار سے نکل کر باہر آگیا۔ شاید شوشروع ہونے والا تھا۔اس لیے کافی سارے لوگ تھے۔
کچھ دیر بعد وہ بھی آگئی۔ میرے پاس آکر ایک ٹکٹ میری طرف بڑھا کربولی۔ ”یہ رکھ ‘ شاید کام آجائے؟“
میں نے ٹکٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھااور اپنی جیب میں رکھ لیااور اس کے ساتھ چل پڑا۔ کچھ دیر تک ہم پیدل چلتے گئے۔ پھر ایک آٹو رکشہ میں بیٹھ گئے جو کچھ دیر چلتا رہا پھر ایک جگہ اس نے رکنے کو کہا۔ رکشے کی ادائیگی کرکے وہ اتر گئی۔ میں خاموش رہا ۔
ہم شاہراہ پرکھڑے تھے اور رواں ٹریفک کی روشنیاں ہم پرپڑرہی تھیں۔ بانیتا نے میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالااور ایک طرف چل پڑے۔ کچھ ہی فاصلے پر ریلوے ٹریک تھا۔ ہم اس کے درمیان میں چلنے لگے۔ تب وہ بولی تو اس کالہجہ انتہائی سنجیدہ اور تشویش بھرا تھا۔
”دلجیت! اس ٹریک پرآگے جاکر امرتسر اسٹیشن ہے‘ لیکن یہ ایک بڑا جنکشن بھی ہے تھوڑا آگے جاکر یہی ایک ٹریک ‘ کئی ٹریک میں بدل جائے گا۔
ہمارے دائیں ہاتھ پر ریلوے کالونی ہوگی۔ وہاں ایک گودام ہے‘ جہاں سے اسلحہ ‘ بارود اور منشیات پھیلائی جارہی ہے، اور وہ صرف اور صرف سکھوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ اطلاع ہے کہ ایک بڑی کھیپ یہاں اتری ہے ،جوراتوں رات ٹرین اور ٹرکوں کے ذریعے یہاں سے نکلے گی۔ ہمیں اس کھیپ سے غرض نہیں‘ لیکن اس بندے سے غرض ہے جو یہاں اپنی نگرانی میں یہ سپلائی دے رہا ہے۔
اس سے کافی ساری باتیں کرنی ہیں‘ اس لیے زندہ چاہیے…“
”بانیتا میں نہیں جانتا کہ تم سکھوں کی کس تنظیم سے تعلق رکھتی ہو ‘لیکن یہاں آکر میں نے محسوس کیا ہے کہ ان تنظیموں میں لڑکیاں بہت زیادہ فعال ہیں۔ وہ زیادہ شدت سے کام کرتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟“ میں نے پوچھا تووہ چند لمحے خاموش رہی‘ پھر ایک طویل سانس لے کر سامنے دیکھا‘ جہاں کئی ٹریک نزدیک آرہے تھے۔
وہ بولی۔
”تمہارا تجزیہ ٹھیک ہے‘ رہی زندگی تو میں تمہیں یہ تفصیل سے بتاؤں گی۔ یہ چند لفظوں میں سمجھا دینے والی بات نہیں ہے۔“
”اوکے ‘جیسا تم چاہو۔ “ میں نے کاندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔ میری توجہ بھی ادھر ہوچکی تھی۔ کچھ دیر بعد ہم وہاں جاپہنچے جہاں سے کچھ فاصلے پر خالی بوگیاں کھڑی تھیں۔ اگرچہ وہاں روشنی تھی لیکن ایک طرف بالکل اندھیرا نہیں مگر ملگجی روشنی تھی۔
جو چھن کرآرہی تھی۔ تبھی بانیتا نے مجھے بازوسے پکڑ کرروکا اور مجھے لے کر اندھیرے کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ پھر سرگوشی میں بولی۔
”وہ دیکھو‘ وہ بوگیاں ہیں اور اس میں سامان رکھا جارہا ہے‘ ایک آدمی آرہا ہے‘ وہ دیکھو، ایسا ہی مال انہوں نے مختلف شہروں کی طرف جانے والی ٹرینوں میں رکھنا ہے۔“ 
”بانیتا! تم نے کہا ہے کہ یہاں کے نگران بندے کوپکڑنا ہے‘ ہمیں وہاں جانا ہے‘ یہاں سے ان کا تماشہ کیوں دکھا رہی ہو؟“
”میراخیال ہے کہ ہم اس تک یونہی نہیں پہنچ سکتے‘ وہ اپنے سیکیورٹی کے بندوں کے درمیان وہاں موجود ہوگا اور شاید کالونی میں ہم اسے پکڑ نہ سکیں۔
وہاں سے نکلنے کے کئی راستے ہیں۔اسے یہاں لانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اسے بِل سے باہر لانے کے لیے یہاں کوئی نہ کوئی ہنگامہ کیا جائے۔ وہ یہاں نہ بھی ہواتو یہاں پہنچ جائے گا۔ “ اس نے الجھتے ہوئے کہا۔ میں چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا۔
”آؤ،اب جیسے میں کہوں ویسا کرنا۔“
میں یہ کہہ کر اندھیرے میں بڑھتا چلاگیا۔ میں نے وہاں کا ہر طرح سے جائزہ لے لیاتھا۔
اگرچہ ریلوے شیڈ میں آنے کے لیے راستے مخصوص ہوتے ہیں مگر لوگ شارٹ کٹ کے لیے راستے بنالیتے ہیں۔ کالونی سے شیڈ تک آنے میں ایک شارٹ کٹ راستہ بنا ہواتھاجو درختوں اور پودوں کے درمیان میں سے تھا۔ چھنتی ہوئی روشنی وہاں پڑرہی تھی۔ میں نے دیکھا ایک شخص وہاں سے سر پرپیٹی لے کر نکلتااور تیزی سے بوگی کی طرف بڑھتا‘ وہ پیٹی وہاں بوگی کے دروزاے پررکھتااور واپس پلٹ جاتا۔
اسی طرح دو تین بندے میرے سامنے سے گزر گئے تھے۔ لازمی طور پر بوگی میں لوگ موجود تھے جو سامان کو ٹھکانے لگا رہے ہوں گے۔ ان بوگیوں میں بہتیرے ایسے چور خانے ہوتے ہیں۔میں نے اپنے طور پر فیصلہ کیا اور بانیتا سے کہا۔
”تم کور پر رہنا‘ اب میں دیکھتا ہوں۔“
یہ کہتے ہوئے میں نے پسٹل نکالا‘ سائیلنسر چیک کیا‘ پھر سامنے سے جاتے ہوئے بندے پرفائر کردیا۔
ٹھک کی آواز آئی‘ جس کے ساتھ اس بندے کی چیخ فضا میں بلند ہوئی‘ جس نے سناٹے کو چیر کررکھ دیا۔ اس وقت تک ایک بندہ پیٹی لے کر ریلوے لائینوں کے درمیان آچکاتھا‘ میں نے اس کا نشانہ لیا اور فائر کردیا۔ اس کے حلق سے بھی درد ناک چیخ برآمد ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی وہاں ہلچل مچ گئی۔ بوگی میں سے دوبندوں نے سرباہر نکال کر دیکھا‘ وہ دونوں باہر کی صور ت حال کاجائزہ لے رہے تھے۔
مگر میں نے ان کے چہروں کے تاثرات جاننے کی بجائے یکے بعد دیگرے دوفائر کیے‘ وہ دونوں ہی کھڑکی میں لٹک گئے۔ اچانک بوگی میں سے ایک بندہ نکل کر تیزی سے بھاگا‘ وہ چھپتے ہوئے شارٹ کٹ راستے کی طرف جارہاتھا۔ بلاشبہ وہ کالونی میں موجود لوگوں کو صو رتحال کے بارے میں بتانا چاہتا ہوگا۔ میں نے بانیتا کو وہاں سے نکلنے کااشارہ کیااور شیڈ کی طرف بڑھ گیا۔ جہاں کئی بوگیاں کھڑی تھیں۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط