Episode 28 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 28 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ میں ان بوگیوں کی طرف بڑھاتھا اور یہ بھی اپنے حواسوں میں دیکھا تھا کہ میں ریلوے ٹریک کے درمیان بھاگتا ہوا جارہاتھا کہ اچانک میرے اردگرد کے سارے منظر ختم ہوگئے اور یوں نیا منظر ابھرآیا جیسے فلم اسکرین پر ایک منظر کی جگہ دوسرا منظر لے لیتا۔
ویسی ہی رات تھی‘ وہاں پر صرف بوگیاں نہیں‘ ایک پوری ٹرین تیار تھی۔
لوگ اس میں بھرے ہوئے تھے۔ بہت سارے چھتوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انجن سے وسل بج رہی تھی کہ اچانک شور مچ گیا۔ پلیٹ فارم کی دوسری طرف سے سکھوں کاایک جتھہ نکلا‘ ان کے ہاتھوں میں کرپائیں ‘بلم‘ لاٹھیاں ‘ توڑے دار بندوقیں‘ آگ لگی ہوئی مشعلیں‘ وہ جنونی انداز میں ریلوے لائنیں پار کرتے ہوئے ٹرین کی جانب بڑھ رہے تھے۔گالیوں کے شور میں ”جو بولے سونہال‘ ست سری اکال‘ کے نعرے بھی گونج رہے تھے۔

(جاری ہے)

پھراچانک وحشت ناک چیخیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ کراہیں‘ موت کاپیغام لیتی ہوئی درد ناک صدائیں‘ بین ‘رونے اور کراہنے کا شور‘ نعرے‘ ایک قیامت کا منظر میرے سامنے تھا۔ وحشی سکھ درندے‘ ان مظلوموں کو بے دردی سے کاٹ رہے تھے۔ اچانک ایک بچے کو بوگی سے باہر پھینکا گیا،جسے ایک سکھ بلوائی نے اپنی تلوار سے ہواہی میں دوٹکڑے کردیا۔ میں نے وحشت‘ کراہیت اور بے بسی کی انتہا پر زور سے آنکھیں بھینچ لیں۔
چند لمحوں بعد دوبارہ آنکھیں کھولیں تو وہ منظر غائب ہوچکاتھا‘ اب وہی منظر میرے سامنے تھا‘ بوگیاں ‘سناٹا اور سناٹے کوچیرتی ہوئی وحشی جذبات بھرا میرا دل‘ جلیانوالہ باغ کے بعد یہ دوسرا واقعہ میرے ساتھ ہوا تھا‘ اس وقت میں یہی سمجھا تھا کہ نوین کور کوئی سفلی علم جانتی ہے لیکن اب تووہ میرے نزدیک نہیں تھی‘ ضرور یہ کچھ اور ہی معاملہ ہے‘ کیا ہے؟ میں اس پر سوچنا چاہتاتھا‘ لیکن اسی لمحے بانیتا نے مجھے جھنجوڑتے ہوئے کہا۔
”دلجیت! کیا ہوا تمہیں‘ تم پسینے سے شرابور کیوں ہو‘ وہ سامنے دیکھو؟“
میں اس کے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ میرا دل میری کنپٹیوں میں بج رہاتھا۔ اور سامنے دس بارہ لوگ تیزی سے بوگی کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ان سب کے ہاتھ میں اسلحہ تھا۔”وہ درمیان والا لمبا سا سکھ‘ جس نے سرخ شرٹ پہنی ہوئی ہے… وہ… وہ چاہیے زندہ۔“
”فکر نہ کرو۔
“ میں نے کہاتو اس نے چونک کر میری جانب دیکھا۔ شاید میرا لہجہ بدل گیاتھا‘یا وہ مجھے پاگل سمجھ رہی تھی؟”تم صرف یہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرو۔“
”وہ ہے ۔“ اس نے تیزی سے کہا تومیں نے بوگی سے یکے بعد دیگرے فائر کرنا شروع کردیے ‘تبھی انہوں نے بوکھلا کر گرتے ہوئے لوگوں کو دیکھااور پھر اندھا دھند فائر نگ کرنا شروع کردی۔ میرا میگزین خالی ہوگیاتو میں نے دوسرا بدل لیا۔
انہیں سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ فائر کدھر سے ہو رہا ہے۔ اس شخص کے ساتھ جتنے آئے ہوئے لوگ تھے‘ وہ سارے ڈھیر ہوگئے‘ تبھی اس بندے کا فون بج اٹھا اورمیرے قریب کھڑی بانیتا نے اسے فون ملایاتھا۔
”اگر مرد کے بچے ہو تو یہیں رُک جانا‘ بھاگنا نہیں۔“
”اُوہ…یہ تم ہوبانیتا۔“ اس نے بھاری آواز میں یوں کہا جیسے وہ اسے اچھی طرح جانتا ہو۔
”ہاں،میں نے آخر تمہیں بل سے نکال لیانا چوہے۔“ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”اور تم کسی خارش زدہ کتیا کی طرح چھپ کر بھونک رہی ہو‘ اپنے پیچھے کتنے کتے لگا کر لائی ہو‘ یاوہ سارے ہیجڑے ہیں جوچھپے بیٹھے ہیں۔“
”صرف میں ہوں ہیجڑے‘ تیری چنوتی پر آئی ہوں۔ میں تمہیں چند لمحے دیتی ہوں۔ بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ اور ثابت کردو گے ہیجڑے تم ہو، حرامی کی اولاد… ورنہ میں تیرے سامنے آرہی ہوں۔
”اوہ …آؤ… تیرا دیدار ضرور کروں گا‘ آ جاؤ … آج رات تیرے ساتھ ہی سہی۔“ اس نے گھٹیا انداز میں کہااور ادھر اُدھر دیکھنے لگا ‘تبھی بانیتا نے فون بند کیااور سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔
”میں نکلتی ہوں‘ اگر وہ فائر کرے تو اس کا اسلحہ… زندہ پکڑنا ہے۔“
”اوکے …“ میں نے کہااور اسے نشانے پررکھ لیا۔
”لو… جارہی ہوں۔
“یہ کہہ کر وہ بوگی سے نیچے اتر گئی۔ وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی‘ ان کے درمیان چند فٹ کا فاصلہ رہ گیا۔ تب اس نوجوان نے اپنا پسٹل اپنی پتلون کی جیب میں رکھ لیا۔ تبھی بانیتا نے بھی ویسا ہی کیا۔دونوں آمنے سامنے آچکے تھے۔ تبھی وہ نوجوان بڑھااوراسے اپنے شکنجے میں لینے کے لیے لپکا۔ بانیتا نے زور سے گھونسہ اس کے منہ پر دے مارا۔ اس کے ساتھ ان میں فائٹ شروع ہوگئی۔
بلاشبہ وہ نوجوان فائٹ میں ماہر معلوم ہوتاتھا۔ بانیتا اگربچ رہی تھی تو صرف اپنے پھرتیلے بدن کی وجہ سے۔ اس نے زور سے کھڑے ہاتھ بانیتا کے کاندھوں پر مارے‘ وہ بیٹھتی چلی گئی۔ تبھی اس نے نوجوان کی ٹانگوں کے درمیان اپنا گھٹنا مارا‘ وہ دہرا ہوگیا‘ یہ لمحہ اس نے ضائع نہیں جانے دیا‘ اور دونوں ہاتھ باندھ کر اس کی گردن پرمارے‘ وہ ڈکراتا ہوا ٹریک کے درمیان گر گیا‘ تبھی اس نے پسٹل نکال کر اس کے سر پررکھ دیا۔
اب میرا وہاں پر بیٹھنا فضول تھا۔ میں تیزی سے ان کے پاس پہنچا‘ میرے اندر جوش سر ماررہاتھا۔ چند لمحے پہلے دیکھا ہوا منظر میرا خون کھولا رہاتھا۔ میں نے جاتے ہی اُسے کالر سے پکڑ کراٹھایا‘ اور سرد لہجے میں پوچھا۔
”باقی سارا شوق کہیں دوسری جگہ جاکر پورا کریں گے۔“ یہ کہہ کر میں نے پوری قوت سے اپنی کہنی اس کی کنپٹی پر دے ماری۔ وہ اگلے ہی لمحے ساکت ہوگیا۔
میں نے اسے کاندھے پراٹھایااور سوالیہ نگاہوں سے بانیتا کی طرف دیکھا۔ وہ ایک طرف چل پڑی‘ تقریباً سوگز کے فاصلے پر وہ ریلوے لائن کے ساتھ ایک طرف اتر گئی۔ وہاں کوڑا کرکٹ کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ جس سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی ایک فوروہیل جیپ کھڑی تھی۔ جس میں دو تین بندے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اس نوجوان کو اس جیپ میں پھینکا تووہ چل پڑی۔
نظروں سے اوجھل ہوتے ہی بانیتا کو جیسے ہوش آگیا‘ وہ تیزی سے بولی۔
”چل اب نکلیں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ ریلوے ٹریک کی جانب چل دی۔ میں اس کے ساتھ تھا۔ ہم چند قدم کے فاصلے پر موجود ٹریک کے درمیان آگے ہی چلتے چلے گئے۔ تبھی ہمیں اپنے پیچھے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا‘ آٹھ دس لوگ بھاگتے ہوئے آرہے تھے‘ ان سب کی نگاہیں ہم پر جمی ہوئی تھیں۔
تبھی بانیتا کی تیز آواز سنائی دی۔
”دلجیت ،بھاگو…!“
میں نے اس ایک لمحے میں ماحول کاجائزہ لے کر فیصلہ کرلیا‘ اور پھر بھاگتے ہوئے ریلوے ٹریک سے باہر نکل گیا۔ ریلوے ٹریک اور سڑک کے درمیان خالی جگہ تھی۔ ہم دونوں اس طرف بھاگ نکلے۔ ہمارا تعاقب کرنے والے لوگ رکے نہیں ‘ وہ بھی ہمارے پیچھے تھے ۔ مجھے یہ اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ ان کے پاس اسلحہ نہیں ورنہ اب تک فائر کرچکے ہوتے۔
ڈرانے‘ دھمکانے یا پھر خوف زدہ کرنے کے لیے ہی سہی‘ میں ایک دم سے رک گیا۔ میں نے اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے آنے والے لوگوں کو دیکھا۔ بانیتا آگے نکل گئی تھی۔ تبھی میں نے بے باک انداز میں زور سے کہا۔
”رک جاؤ۔!“ یہ کہتے ہوئے میں نے پسٹل نکال لیا۔ پسٹل پر نگاہ پڑتے ہی وہ سارے کے سارے وہیں رک گئے۔ تبھی میں نے ان سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”پہلی بات تو یہی ہے کہ ہمیں جانے دو اور تم لوگ واپس پلٹ جاؤ۔دوسری بات‘ جسے زیادہ ہی شوق ہے لڑنے کا تووہ آگے آجائے‘ میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈال لے اور اگر تم سب نے مجھ سے لڑنا ہے تو ہم ہتھیار پھینک کر اپنا زور آزمالیتے ہیں۔بولو۔“تبھی ایک ادھیڑ عمر تنومند شخص نے اونچی آواز میں کہا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط