Episode 29 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 29 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”اسلحے کے زور پر تو ہیجڑا بھی بکواس کرلیتا ہے‘ تم میں دم ہے تو آ‘میرے ساتھ پنجہ لڑا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تلوار ایک دوسرے شخص کی طرف اچھال دی۔ تبھی میں نے بھی پسٹل بانیتا کی طرف اچھال دیا۔ جسے اس نے کیچ کرلیا۔
ہم دونوں ہی چند قدم آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے سامنے آچکے تھے۔ اس کی سرخ آنکھیں میرے چہرے پر گڑھی ہوئی تھیں۔
اچانک اس نے جھکائی دی‘ اور میری پسلی میں گھونسہ ماردیا۔ اس کے ساتھ ہی میرے جبڑے پر ہاتھ پڑا‘ میں ایک دم سے گھوم گیا۔ مجھے یہ یاد ہی نہیں رہا کہ میں نے دستار باندھی ہوئی ہے‘ میرے سامنے ایک سکھ تھا،اس نے پورے جوش میں پکارا۔ ”جو بولے سونہال“ اس کے ساتھ ہی باقی لوگوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ مجھ پرپل پڑنے کے لیے بڑھے‘ ایک طرف جہاں میرے ذہن میں آئی کہ بانیتا بھی سکھ ہے‘ وہ سکھ ہی کی مدد کرے گی‘ لیکن میری نگاہوں کے سامنے چند لمحے پہلے کامنظر پھر گیا۔

(جاری ہے)

ایک دم سے موت کی طرف لے جاتیں درد بھری کراہیں گونج گئیں۔ ٹکڑے ہوتے بچے کا خیال آیا تو پھر مجھے کچھ یاد نہیں رہا‘ میں نے پوری قوت سے دونوں ہاتھ باندھے اور اس کی ٹھوڑی پر مارے۔
وہ اُوخ کی آواز کے ساتھ ُا چھلااور دور جاگرا۔ تب تک بانیتا نے فائر کردیا تھا۔ باقی وہیں رک گئے ۔ مجھ پر جنون سوار ہوگیا۔ اس بے غیرت نے اسے مذہبی لڑائی بنادینا چاہاتھا۔
میں نے جاتے ہی پاؤں کی ٹھوکر اس کے منہ پر دے ماری اوراس کاناک کچل دیا۔ وہ ڈکارتا ہوا اٹھنے کی کوشش کرنے لگا تو میں نے اسے گردن سے پکڑ لیا‘ پھر ایک زور دار ٹکر اس کے منہ پرماری‘ وہ نیم پاگل ساہوگیا۔ میں نے اسے ایک لمحے کا بھی موقع نہیں دیا اور تابڑ توڑ مکے اس کے منہ پرمارے۔ وہ بے ہوش ہونے لگا ‘ شاید کسی کی چیخ بلند ہوئی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی میں نے اس کی گردن اپنی بغل میں لی اور دونوں ہاتھوں سے مروڑ دی۔
چٹاخ کی آواز آئی اور اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ میں نے اسے چھوڑا تووہ یوں گرا جیسے کٹا ہوا درخت گرتا ہے۔ تبھی میں نے باقیوں کو دیکھا اور انہیں اپنی جانب آنے کااشارہ کیا۔
اس وقت مجھ پر جنون سوار تھا۔ مجھے لگا یہ بھی سکھ بلوائی ہیں۔ وہ میرے سامنے کھڑے مجھے تذبذب سے دیکھ رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ بانیتا کے پاس اسلحہ ہے‘ ان کی ہمت نہیں پڑرہی تھی ۔
میں انہیں زیادہ وقت بھی نہیں دینا چاہتاتھا۔ فائر ہوچکاتھا جس کی آواز سے کوئی بھی ادھر متوجہ ہوسکتاتھا۔ پھراپنے آپ کو بچانا مشکل تھا۔ اس لیے میں نے ایک جست لگائی اور بانیتا کے پاس جاپہنچا۔ اس سے اپنا پسٹل لیا‘ جس پر سائیلنسر لگاہواتھا۔ میں نے پسٹل ان کی طرف سیدھا ہی کیاتھا کہ وہ پلٹے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس شخص کی لاش وہیں پڑی رہ گئی جو گردن کی ہڈی ٹوٹ جانے کے باعث کچھ دیر پہلے ہی مرگیاتھا۔
میں یہی دیکھ رہاتھا کہ بانیتا نے تیز آواز میں کہا۔
”نکلو یہاں سے۔“
اس کے یوں کہنے پر میں نے ادھر ُادھر دیکھااور اس کے پیچھے تیز تیز قدموں سے چلتا چلاگیا۔ ہم دونوں ایک مصروف سڑک پر آگئے ۔سامنے ہی آٹو رکشہ کھڑا تھا‘ ہم اس میں بیٹھ گئے۔ بانیتا ہی نے اسے ملٹی پلیکس سنیما کے بارے میں بتایا تووہ چل پڑا۔
تقریباً بیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم وہاں پہنچ گئے۔
میں باہر ہی کھڑا رہا‘ وہ ٹہلتی ہوئی اندر گئی اور پارکنگ سے کار نکال لائی۔ میں سکون سے بیٹھا تووہ چل دی۔
”آج اگر میرے پاس بغیر سائیلنسر کے پسٹل نہ ہوتا تومعاملہ گڑبڑ ہوجانا تھا‘ وہ لوگ بھاگنے والے نہیں تھے۔ اس فائر نے انہیں دہشت زدہ کردیا۔“
”مان لیا کہ ایسا ہی ہوا ہوگا‘ مگر یہ بتاؤ کہ اس ہیرو کا کیا کرنا ہے‘ جسے زندہ پکڑا ہے؟“ میں نے پوچھا تو وہ پرسکون انداز میں بولی۔
”ہم ادھر ہی جارہے ہیں‘ ممکن ہے رات ادھر ہی گزرجائے۔“
”اوکے ‘ اب دھیان سے ڈرائیونگ کرنا۔“ میں نے کہااور یونہی ادھر ادھردیکھنے لگا۔ مجھے کسی تعاقب کااحساس تو نہیں تھا بس ایویں محتاط تھا۔ وہ عام سی سڑک تھی جس پر فٹ پاتھ نہیں تھا۔ اس سے ہم شاہراہ پر چڑھے ہی تھے کہ ہمارے ساتھ دو کاریں جڑ گئیں۔ چند لمحے تومجھے احساس نہ ہوااور جب ان کے تیور دیکھے تو سمجھ گیا۔
”بانیتا! ہمارا تعاقب ہو رہا ہے۔“
”مجھے بھی لگا‘ میں رفتار بڑھا رہی ہوں اور…“
”رش میں نہ جانا۔“ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ لفظ ابھی میرے منہ ہی میں تھے کہ ایک کار نے ہمیں سائیڈ مار دی‘ وہ سائیڈ دبا کرہمیں روکنے کی کوشش کرناچاہ رہاتھا۔جبکہ یہ اس نے بہت جلدی کردیاتھا۔ ان کی ایک کار ہمارے آگے ہوتی تو یہ گر آزمایا جاسکتاتھا۔
وہ رفتار بڑھاتی چلی جارہی تھی۔بانیتا ڈرائیونگ میں کافی ماہر لگ رہی تھی۔ وہ گاڑیوں کے درمیان سے زگ زیگ کرتی ہوئے نکل رہی تھی۔ یہ بہت خطرناک انداز تھا‘ سامنے چوراہا تھا۔ جیسے ہی وہ دائیں طرف مڑی ۔وہاں سے دو مزید گاڑیاں ہمارے پیچھے لگ گئیں۔ میں نے صور تحال کی سنگینی کااحساس کرتے ہوئے بانیتا سے کہا۔ ”انہیں ڈاج دے لوگی یا کچھ کریں۔
”کیا کروگے؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”کچھ بھی‘ لیکن تماشا لگ جائے گا۔“ میں نے ان گاڑیوں کو تیزی سے دیکھتے ہوئے کہا‘ وہ مسلسل ہماری سائیڈ دبارہی تھیں‘ ایک گاڑی آگے آنے کی کوشش میں تھی۔
”کچھ بھی کرو‘ وہ ہمیں روک رہے ہیں۔“ اس نے سامنے دیکھتے ہوئے ہذیانی انداز میں کہا۔
”تم ڈرائیونگ پر دھیان رکھنا۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے پسٹل کابلٹ مارااور بانیتا کی طرف والی کھڑکی میں سے اس کار کے ڈرائیور کانشانہ لے لیا جو سائیڈدبا رہاتھا۔
ٹھک کی آواز کے ساتھ فائر ہواتو وہ کار ایک دم سے پیچھے رہ گئی اور پھر کئی گاڑیاں لگنے کی آوازیں آئیں۔ ٹائر چرچرائے‘ ہارن بجے اور شور مچ گیا۔ بانیتا نے سائڈ صاف دیکھ کر گاڑی دائیں طرف کی تو میں نے آگے جانے والی کار کے ٹائر کانشانہ لیا۔یہ رسک تھا۔ایک دھماکاہوااور کار لڑکھڑاتی ہوئی سڑک کنارے ایک درخت سے جا لگی ۔ لمحوں میں وہ پیچھے رہ گئی۔
”ہمیں یہ کار چھوڑنا ہوگی۔“ بانیتا تیزی سے بولی۔
”چھوڑ دو۔“ میں نے کاندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔
”نئی گاڑی آنے تک ہمیں کہیں رکنا ہی نہیں چھپنا بھی ہوگا‘ یہ انہی کے آدمی ہیں‘ جسے ہم نے اغوا کیا ہے۔“
”اس کااتنا بڑا گینگ ہے۔“ میں نے پوچھا۔
”بعدمیں بتاؤں گی۔“ یہ کہہ کر اس نے کار سڑک کنارے کھڑی کی اور مجھے باہر نکلنے کااشارہ کرکے ڈرائیونگ سیٹ سے باہر آگئی۔
ہم بھاگتے ہوئے اندھیرے میں چلے گئے‘ جسے بہرحال اندھیرا نہیں کہاجاسکتاتھا‘وہاں الیکٹرک پول کی روشنی بہت کم تھی۔ سامنے ہی دو بلڈنگوں کے درمیان ایک چھوٹی سی سڑک تھی‘ ہم اس میں داخل ہوگئے۔ ہم تیز قدموں سے چلتے چلے جارہے تھے۔کافی آگے جاکر ایک چھوٹا سا چوراہا تھا‘ وہاں اچھی خاصی ویرانی تھی۔ ہم اس سے بھی آگے نکل گئے۔ وہ سڑک ایک رہائشی علاقے کے بازار میں جاکھلی۔
تنگ سا وہ روایتی بازار تھا۔ کار سے نکل کر یہاں آنے تک بانیتا اپنے سیل فون سے کئی بار بات کرچکی تھی۔ جس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہم اس بازار میں داخل ہو کر قدرے پرسکون انداز میں چلتے چلے گئے۔ وہ ایک نسبتاً بڑی سڑک پرختم ہوئی۔ سامنے ہی ایک سیاہ کار کھڑی تھی۔ بانیتا بھاگتی ہوئی اس میں سوار ہوگئی۔ میں اس کے پہلو میں آبیٹھا۔
ہمارے سفر کا اختتام ایک ایسے علاقے میں ہوا جو ابھی زیر تعمیر تھا۔
وہ کسی کمپنی کی ہاؤسنگ کالونی تھی۔ جس میں چھوٹے چھوٹے دو منزلہ گھر بن رہے تھے۔ وہ کافی وسیع علاقہ تھا‘ جس میں بڑے گھر بھی تھے۔ بلاشبہ وہ مستقبل کے لیے شاپنگ پلازہ بنایاجارہاتھا‘ اس کی کئی منزلیں تھیں۔ اور ایسے پلازوں میں تہہ خانے ضرور ہوا کرتا ہے۔ ہم اس کار سے اترے اور میری توقع کے بعد ایک تہہ خانے میں آگئے‘ جہاں کافی روشنی تھی۔
وہ ”ہیرو“ بندھا ہوا ایک کونے میں پڑاتھا۔بانیتا نے جاتے ہی ایک ٹھوکر اس کی پسلی میں ماری اور بڑے طنزیہ انداز میں کہا
”بول اوئے ‘ تو نے سردار رتن سنگھ کے خلاف سوچنے کی جرات بھی کیسے کی؟“
”اور تو اُس کی کتیا‘ اب مجھ پر بھونک رہی ہو‘ مجھے کاٹے گی بھی… ہاں… ایسا ہی ہے نا… آؤ مجھے کاٹو…“ یہ کہتے ہوئے اس نے انتہائی بے ہودہ انداز میں اشارہ کیا‘ جس سے وہ پاگل ہوگئی۔
وہ اسے مارنے کو لپکی تو میں نے اسے روک دیا۔
”نہیں‘ بانیتا نہیں‘ انرجی مت ضائع کرو۔“
میرے یوں کہنے پر وہ رک گئی اور خونخوار نگاہوں سے اسے گھورنے لگی تووہ طنزیہ انداز میں بولا۔
”کیوں سالی… یار کے کہنے پر رک گئی‘ آؤنا۔“
”یہ تیری ماں کایار ہے اور تو۔“ اس نے انتہائی غصے میں کہاتو میں تحمل سے بولا۔
”بس‘ خاموش “ پھر اس ہیرو کے قریب بیٹھ کربولا۔
”یہ رشتے ناطے بعد میں جوڑنا‘ پہلے تو یہ بتاجو بانیتا پوچھ رہی ہے۔“
”میرے یوں کہنے پر اس نے اپنی آنکھیں میچتے ہوئے میری طرف دیکھا‘پھر بولا۔
”تجھے پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں‘ تو ہماری دنیا کانہیں لگتا‘ کون ہے تو…؟“
”تیری بہن کایار ہے…“ وہ چیخی‘ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔ ”دلجیت ‘ یہ ایسے نہیں مانے گا‘ کتے کی دم ہے یہ… مجھے …“ اس نے بے تابی سے کہاتو میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا‘ پھر ہیرو کی طرف دیکھ کر بولا۔
”میں کوئی بھی ہوں‘ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ بانیتا کے سوال کا جواب تمہیں دینا پڑے گا‘ تو چاہے مربھی جائے نا…تب بھی تیری لاش بولے گی۔“
”تومجھے ایک دفعہ کھول دے‘ پھر دیکھتے ہیں لاش کس کی بنتی ہے۔“ اس نے نفرت سے کہا۔
”کچھ دیر پہلے میں نے تجھے دیکھ لیا تھا‘ایک لڑکی کے ہاتھوں پٹتے ہوئے۔ میں نے دیکھ لی تھی تیری اوقات‘ اب بس بول دے ۔
”دلجیت! یہ سالا نرنکاری ہے۔ امر ت دھاریوں کے خلاف سب کچھ کرنا‘ اس کا دھرم ہے۔ اس لیے یہ رتن سنگھ جی کے خلاف ہے۔“ بانیتا جذباتی انداز میں بولی ۔
”تو پھر تمہارا سوال غلط ہے۔ تجھے تو اس سے یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ یہ کس کا کتا ہے؟“
”ہاں‘ آج کل یہ کس کا کتا ہے؟“ اس نے سکون سے کہاتو میں نے طویل سانس لی‘ اسے میری بات کی سمجھ آگئی تھی۔ یہ کہہ کر وہ اس کے قریب جاکربیٹھ گئی‘ پھر بولی۔”بول‘ تو آج کل کس کا کتا ہے۔“
”تو جانتی ہے کہ مجھے رتن سنگھ کو ختم کرنا ہے‘ اپنے ہاتھوں سے مارنا ہے اسے۔ اب اگر تو نے مجھے نہیں مارا تو میں نے اسے تو مارنا ہے۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط