Episode 31 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 31 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”مثلاً فلموں کے ذریعے‘ پنجابی کلچر بلکہ سکھ ثقافت کو سامنے لایا جارہا ہے۔ شاید اس طرف دھیان نہ جاتا‘ لیکن ان نرنکاریوں نے اپنی فلموں کے ذریعے سکھ عوام کا ذہن بدلنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور کررہے ہیں۔ اب امرت دھاریوں کو بھی اس کے مقابلے پر آنا پڑا۔ دراصل نر نکاری یہ چاہتے ہیں کہ سکھوں میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جو لڑنے مرنے کی طاقت ہے جو جذبہ ہے ،وہ ختم ہوجائے۔
“ وہ کہہ رہی تھی اور میں سمجھ رہاتھا کہ جس طرح مرزائیوں کا طبقہ اسی مقصد کے لیے تخلیق کیا گیا کہ وہ جذبہ جہاد کو ختم کرنے کی ایک کوشش تھی۔ انگریزوں کے وفادار مرزائی یہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنے اندر سے جہاد ختم کردیں۔ اب بھلا یہ ممکن تھا؟ ”اب تم دیکھنا‘ صرف بھارتی پنجاب میں ہی نہیں‘ پاکستانی پنجاب کے علاوہ پوری دنیا کی مارکیٹ میں ان فلموں کی نمائش ہوگی‘ اس طرح لٹریچر پر‘ صحافت میں اور بہت جگہوں پر کام ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)


”اوکے ‘ اب میرا خیال ہے کہ میں بہت تھک گیا ہوں‘ سونا چاہتا ہوں‘ تم بھی سوجاؤ۔“
”یار تو واقعی ایسا ہے‘ یا میرے ساتھ کررہا ہے ۔ تجھے عورت سے دلچسپی نہیں‘ شراب تم نہیں پیتے‘ تمہارا کھانا پینا بھی اتنا زیادہ نہیں ہے‘ جیتے کیسے ہو؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”سمجھ لو کہ ان کے استعمال سے پاکیزگی نہیں رہتی‘ ان کے قریب نہ جانا ہی دراصل میری قوت ہے‘ آج میں ان کا استعمال شروع کردوں‘ کل ایک چوہے کی طرح‘ مسل دیاجاؤں گا۔
“ میں نے یوں سنجیدگی سے کہا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی ‘ پھر بڑبڑانے والے انداز میں کہا۔
”مطلب‘ کوئی آتما شکتی کامعاملہ لگتا ہے۔ چل ٹھیک ہے‘ سوجا‘ پر مجھے جاگنا ہے۔ جب تک یہ سب معاملہ ختم نہیں ہوجاتا۔“
”اوکے ‘میری ضرورت ہو تو فوراً جگالینا۔“ میں نے کہا اور لیٹ گیا۔ وہ اٹھ کر چل دی۔ میں نے بھی لائٹ آف کی اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔
اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کمرے کے ملگجے اندھیرے میں کوئی مجھ سے ذرا فاصلے پر کرسی پہ بیٹھا ہوا ہے۔ میں چند لمحے یونہی پڑا رہا ‘ پھر سائیڈ ٹیبل پرپڑا لیمپ روشن کردیا۔ کمرے میں روشنی ہوگئی۔ سامنے بانیتا بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے عام سے لہجے میں پوچھا۔
”تم سوئی نہیں ہو؟“
”نیند ہی نہیں آئی‘ ویسے بھی اب صبح ہونے والی ہے اور…“ یہ کہہ کر وہ ڈرامائی انداز میں رکی‘ میں خاموش رہاتھا تو وہ بولی۔
”کچھ لوگ آرہے ہیں رتن سنگھ بابا سے ملنے کے لیے ۔ممکن ہے وہ گھر کی تلاشی بھی لیں۔ اس لیے تمہیں تھوڑی دیر کے لیے‘ گارڈ یا کوئی اور… مثلاً ملازم بننا ہوگا‘جس نے خاموش رہنا ہے‘ ہم یہاں سے نکل بھی نہیں سکتے‘ کیونکہ وہ رات سے حویلی کی نگرانی چاروں طرف سے کررہے ہیں۔“
”ارے تمہارے لیے تو میں ملازم کیا‘ ملنگ بن کر بھی گلیوں میں گھوم سکتا ہوں‘ مجنوں صحرا کی خاک چھان سکتا ہے‘ رانجھا جوگی بن سکتا ہے‘ فرہاد…“ میں نے خوشگوار لہجے میں کہا تو وہ ہنستے ہوئے حیرت سے بولی۔
”اوہ خیر تو ہے… تم ٹھیک تو ہونا‘ میں نے تو رات ہی سمجھ لیاتھا کہ تم جوگی ہو‘ اب کیا ہوگیا۔“
”میں نے خواب میں دیکھا‘ تم دریا میں غوطے پرغوط کھارہی ہواور ڈوب…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔
”بس کرو… اور اب اُٹھ جاؤ… “ یہ کہہ کر وہ اُٹھی اور باہر نکلتی چلی گئی۔
میں پوری طرح تیار ہوگیا تھا۔ میرے ہاتھ میں گن تھی اور میں ڈرائنگ روم کے باہر دروازے پر کھڑا تھا۔
پورچ میں یکے بعد دیگرے کئی گاڑیاں رکیں اور ان میں چند لوگ اندر آگئے۔ دروازے پر کھڑے گارڈز نے انہیں روک لیا‘ جہاں ان کی تلاشی لی گئی ۔پھر انہیں آگے آنے دیا گیا۔ وہ میرے قریب سے گزرتے ہوئے اندر چلے گئے۔ تبھی دوسری طرف سے رتن دیپ سنگھ بھی آگیا۔ان کے بیٹھتے ہی ایک سفاری سوٹ والے ادھیڑ عمر نے کہا۔
”رتن دیپ سنگھ جی‘ جب ہمارے درمیان یہ معاہدہ ہوچکاتھا کہ کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی سے پہلے ہم دونوں ایک دوسرے کومطلع کریں گے تو میں اسے کیا سمجھوں۔
”سمجھنا کیا ہے‘ معاہدے کی خلاف ورزی تمہاری طرف سے ہوئی ہے ۔اسلحے کی اتنی بڑی کھیپ آئے اور ہماری ناک کے نیچے سے نکل بھی جائے، ایسا کیسے ممکن ہے۔“ رتن دیپ سنگھ نے سکون سے کہا۔
”دیکھیں ہم نے کاروبار تو کرنا ہے‘ اس میں آپ کے کسی بندے کو نقصان نہیں پہنچا‘آپ کا کوئی مالی نقصان نہیں ہوا‘ آپ کاروبار کرتے ہیں‘ ہم تو کوئی مداخلت نہیں کرتے۔
”یہ اسلحہ تم نے کن لوگوں کو فروخت کیا ہے؟ اسی سے تمہاری نیت کااندازہ ہوتا ہے‘ کن کے خلاف استعمال ہونا ہے‘ تم اس سے بھی بخوبی واقف ہو۔“ رتن دیپ سنگھ نے پرسکون لہجے میں کہا۔ تبھی ایک دوسرے شخص نے کہا۔
”سردار جی! اس کھیپ کی ڈیل تویہ کررہے تھے ‘لیکن اس میں ملک کامفاد ہے۔“
”سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ اس میں را بھی ملوث ہے۔
تویہ راکس کومارنا چاہ رہی ہے۔ عوام کے ہاتھ میں اسلحہ دے کر آپ کیامقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سیدھے فورسز انہیں کیوں نہیں مار دیتی‘ جیسے پہلے چوراسی میں ماراتھا۔ اور پھر آپ میرے پاس کیوں آگئے ہیں۔ یہ سب سننا…“اس بار وہ سخت لہجے میں بولاتھا تو ایک تیسرے شخص نے رعب دار آواز میں انتہائی بے رخی سے کہا۔
”بانیتا! اور اس کے ساتھ ایک نوجوان‘ وہ ہمیں یہاں لے کر آئے ہیں۔
انہوں نے قتل کیا‘ وہ یہیں حویلی میں ہیں‘ ہم انہیں گرفتار کرنے آئے ہیں۔ ہمارے پاس سرچ وارنٹ ہیں اور…“
”لگتا ہے تم پولیس میں نئے آئے ہو‘ یا تمہارا تبادلہ حال ہی میں یہاں ہوا ہے ۔ اگر بانیتا نہ ملی‘ اور وہ نوجوان جس کا تم ذکر کررہے ہو‘ یہاں نہ ملے تو پھر؟“ رتن دیپ نے اس قدر اعتماد سے کہا کہ وہ ایک لمحہ کوتذبذب کاشکار ہوگیا۔
تبھی پہلے والا شخص بولا۔
”رتن سنگھ جی ‘ آپ تو خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں۔ شہر میں اتنا بڑا ہنگامہ ہوگیا ہے‘ ہمیں اوپر جواب دینا ہے‘ کیا کہیں گے انہیں؟ آپ انہیں ہمارے حوالے کردیں۔“
”میں یہ کہہ رہا ہوں میرے بھائی کہ میں اس معاملے کو سرے سے نہیں جانتا‘ کون ہے‘ کس نے کیا ہے یہ سب ؟ آپ بانیتا کے بارے میں کیوں کہہ رہے ہیں۔
وہ دو دن سے یہاں نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو حویلی کی تلاشی لے لیں‘ پھراس کے بعد کیا ہوگا‘ یہ تم لوگ جانتے ہو۔ آپ لوگوں نے اوپر کیا جواب دینا ہے‘ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اب آپ بتائیں کہ ناشتہ کیا کریں گے۔ انگریزی والا یا…“ یہ کہہ کر اس نے سب کی طرف دیکھا تو پولیس آفیسر کے ساتھ بیٹھے ایک شخص نے کہا۔
”دیکھیں سردار جی! ہم رکن اسمبلی ہیں۔
ہم نے سیاست کرنی ہے‘ اگر ملکی مفاد اس میں شامل نہ ہوتاتو شاید میں ان لوگوں کی بات بھی نہ سنتا‘ اگر یہ کسی گروپ کی لڑائی ہوتی تو بھی مجھے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ آپ بانیتا اور اس نوجوان کوہمارے حوالے کر دیں ۔ اس نوجوان کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ غیر ملکی ایجنٹ ہے‘بات اگر بڑھی…“
”تو بڑھنے دیں بات رام دیال بابو! آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔
میں نے مانا کہ ہم نے سیاست کرنی ہے‘ لیکن لاشوں پر یاخون کی ہولی کھیل کر نہیں کرنی گندی سیاست۔ بانیتا کے بارے میں کہہ چکا ہوں کہ وہ یہاں نہیں ہے تو نہیں ہے‘ اور میں کسی نوجوان کے بارے میں نہیں جانتا۔“ رتن دیپ نے کہا تووہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘ پھر ان میں سے ایک نے کہا۔
”وہ نوجوان غیر ملکی ایجنٹ ہے‘ اس کے شواہد مل چکے ہیں‘ وہ یہاں ہی نہیں ‘مدن لعل کیس میں بھی ملوث ہے‘ آپ بانیتا کو بچانا چاہتے ہیں تو بچالیں مگر وہ نوجوان ہمیں دے دیں‘ کچھ تو فائلوں کا پیٹ بھرے گا۔
”میں نے کہا نا آپ ناشتہ کیا کریں گے ۔“ رتن دیپ نے بے رخی سے کہا۔
”ٹھیک ہے سردار جی‘ پھر ہم سے کوئی گلہ مت کیجیے گا۔ آپ نے بھی تو یہیں کاروبار کرنا ہے۔“ اس پہلے والے شخص نے اٹھتے ہوئے کہا‘ جس پر سردار رتن دیپ سنگھ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وہ اٹھا بھی نہیں اور نہ ہی انہیں الوداعی کلمات کہے‘ بس انہیں جاتا ہوا دیکھتا رہا‘ وہ سارے لوگ میرے قریب سے ہو کر باہر نکلتے چلے گئے۔
کچھ دیر بعد پورچ سے گاڑیاں اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی اور پھر فضا خاموش ہوگئی۔ میری پوری توجہ ان کی طرف تھی۔ اس لیے مجھے احساس ہی نہیں ہوسکا کہ رتن دیپ سنگھ کب میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھااور مسکراتے ہوئے کہا۔
”فکرنہ کرنا‘ میں جب تک ہوں کچھ نہیں ہوگا۔“ اس نے کہا تو میں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ مسکراتا ہوا اندر کی جانب چلاگیا۔
                                #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط