Episode 32 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 32 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

میوزک کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بانیتا کو ر انتہائی مختصر لباس میں آگے آگے جارہی تھی۔ اپرلیس شرٹ جو گھٹنوں سے ذرا اوپر تک تھی‘ سیاہ مگر چمکتی ہوئی‘ برہنہ پنڈلیاں، سیاہ سینڈل‘ بال کھلے اور تیز میک اپ کے ساتھ سیاہ چرمی بیگ‘ وہ امرتسر کامہنگا بار تھا‘ جہاں امیر ترین گھروں کے لڑکے لڑکیاں تفریح طبع کے لیے آتے تھے۔
اس وقت بھی وہ بارروم بھرا ہوا تھا۔ نشے میں مدہوش زیادہ تر نوجوان میوزک پر ناچ رہے تھے۔ کچھ لوگ میزوں کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ زیادہ تر جام ہی لنڈھا رہے تھے۔ ہم دونوں ایک خالی میز کے اردگرد بیٹھے ہی تھے کہ انتہائی مختصر لباس والی ویٹرس آن ٹپکی۔ بانیتا نے آرڈر دے دیا۔ یہاں آنے سے پہلے ہم میں یہ طے ہوگیاتھا کہ میں شراب نہیں پئیوں گا اور نہ ہی وہاں پر گوشت سے بنی کوئی شے کھاؤں گا۔

(جاری ہے)

اس کا حل مجھے بانیتا نے یہی بتایا کہ وہ پیتی رہے گی تم صرف سوڈا پینا اور نشے کی اداکاری کرنا‘ آگے وہ سنبھال لے گی ۔مختلف رنگوں کی روشنیاں تیزی سے حرکت کررہی تھیں۔ بانیتا محتاط نگاہوں سے ہر طرف کاجائزہ لے رہی تھی جبکہ میں کسی تھرڈ کلاس عاشق کی طرح اس کے چہرے پر دیکھ رہا تھا۔ جس وقت ہم کار میں بیٹھ کرحویلی سے نکلے تھے‘ اس وقت میری نگاہیں اس کے بدن میں الجھ گئی تھیں مگر اگلے ہی چند لمحوں میں خود پر قابو پاتے ہوئے اس سے پوچھ لیا کہ ہم کس مقصد سے باہر جارہے ہیں‘جہاں اتنا رسک ہے‘ ابھی صبح ہی وہ لوگ دھمکیاں دے کر گئے ہیں۔

”یہی تو معلوم کرنا ہے کہ وہ ہم پر ہاتھ ڈالتے ہیں یا آج ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتے ہیں۔“
”معاہدہ …؟“ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”ہاں‘ رتن بابا اور یہاں کے کرائم کنگ کے درمیان‘ اس نے را کوضمانت دی ہے۔ معاہد ہ یہ طے پایا ہے کہ وہ عوام میں اسلحہ نہیں پھیلائے گے اور نہ ہی کوئی ایسی اشتعال انگیز مہم چلائیں گے جس سے سنگھ شدت پسند بھڑک اٹھیں۔
جبکہ رتن بابا نے انہیں کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اُن شدت پسند کو گرفتار کرلیں لیکن اس ثبوت کے ساتھ کہ وہ بھارت کے خلاف کچھ کر رہے ہیں۔“
”مطلب رتن دیپ سنگھ سیاسی اثرورسوخ بھی رکھتا ہے۔“ میں نے کہا۔
”ہاں‘ اسی لیے تو فوراً اس پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ اگر ایسا نہ ہوتو‘ اب تک یہ ہندوبنیئے رکے رہیں۔“
”بس اس مقصد کے لیے باہر نکلنا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”نہیں! اک پریمی جوڑے کو دیکھنا ہے وہ کیسا ہے‘ ہوسکا تو کچھ دیر ان کے ساتھ گزار لیں گے۔“ بانیتا نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
اس وقت وہ اس پریمی جوڑے کو تلاش کررہی تھی۔ ویٹرس ہمارے سامنے کافی کچھ رکھ گئی تھی۔ بانیتا نے اپنے لیے جام بنایااور مجھے صرف سوڈا ڈال کے دے دیا۔ میرے سامنے سلاد تھا‘ میں وہ کھانے لگا۔ اچانک اس کاچہرہ ساکت ہوگیا اور وہ یک ٹک دیکھنے لگی۔
چند لمحے یونہی دیکھتے رہنے کے بعد بولی۔
”مل گئے‘ وہ جو سرخ اسکرٹ والی لڑکی ہے‘ جس نے بلیک لانگ شوز پہنے ہوئے ہیں‘ شولڈر کٹ بال‘ اور اس کے ساتھ والالڑکا‘ دونوں ناچ رہے ہیں۔“
”ہاں‘ دیکھ رہا ہوں۔“ میں نے ان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”انہیں اپنا مہمان بنانا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے دوسرا پیگ بھی اپنے گلے میں انڈیل لیا۔
وہ کچھ دیر تک انہیں دیکھتی رہی۔ وہ یہی دیکھنا چاہتی تھی کہ ان کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے یانہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کھانے پینے کی طرف بھی متوجہ رہی‘ اچانک وہ اٹھی‘ میرا ہاتھ پکڑااور ان ناچنے والے جوڑے کے درمیان جاپہنچی ۔اس نے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا تھا۔ یہ دوسرا موقع تھا جب میں نے اس کے بدن پر لگے پرفیوم کی تعریف کی تھی۔ وہ نشے میں تھی اور رومانٹک موڈ کی بھرپور اداکاری کررہی تھی۔
وہ ناچتے ہوئے بالکل ان کے قریب چلی گئی او رایک دم ان سے ٹکرا گئی جس سے وہ دونوں لڑکھڑا کررک گئے‘ تبھی بانیتا نشے میں لڑکھڑاتی ہوئی بولی۔
”سوری …سوری… ویری سوری …“ یہ کہتے ہوئے وہ انہیں اٹھانے لگی۔
”کوئی بات نہیں ۔“ اس لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تب تک میں لڑکے کو اپنا ہاتھ دے چکاتھا‘ وہ میرا سہارا لے کراٹھ گیا۔ تو بانیتا بولی۔
”نہیں،غلطی میری تھی۔“
”اوکے ‘میں نے کہانا کوئی بات نہیں۔“ وہ لڑکی کافی حد تک حیرانگی سے بولی تو بانیتا نے اس کی گردن میں اپنی بانہیں حمائل کرتے ہوئے کہا۔
”تم بہت اچھی ہو‘ مگر میں اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گی‘ جب تک تم میرے ساتھ ایک پیگ نہیں لے لوگی۔ تم اور تمہارا فرینڈ‘ میرے ساتھ‘ ایک ایک پیگ۔“
”اوکے۔
“ لڑکی نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا ‘ وہ سمجھ گئی تھی کہ سامنے والی نشے میں دھت ہے۔ یونہی نہیں جان چھوڑے گی۔ وہ تینوں بار کی جانب بڑھ گئے اور میں میز پر آکر بیٹھ گیا۔ میری نگاہیں انہی کی طرف تھیں۔ انہوں نے وہاں سے بوتل لی اور ایک طرف لگے صوفوں پر جابیٹھے۔ وہ مجھے یوں بھول گئے تھے جیسے میں ان کے ساتھ ہوں ہی نہیں۔ دفعتاً ایک لڑکی میری جانب بڑھی اور بڑے خمارآلود لہجے میں بولی۔
”میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟“
”کیوں نہیں بیٹھو۔“ میں نے کہا تب تک ویٹرس ہمارے قریب آگئی۔ اس نے بل رکھا‘ جسے میں نے ادا کردیا۔ وہ وہاں سے سب کچھ سمیٹ کر لے گئی۔
”کچھ پینے کی آفر نہیں کروگے؟“ اس نے کمال ادا سے کہا‘ جس سے بڑے بڑے لڑھک جائیں۔ وہ آدھے سے زیادہ بدن سے برہنہ تھی۔ میں فوری طور پر نہیں سمجھ پایا تھا کہ وہ کون ہوسکتی ہے‘ پہلا خیال یہی تھا کہ وہ کوئی کال گرل تھی‘ جو اپنے گاہکوں کی تلاش میں ادھر آ بھٹکی تھی۔
میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم جو کچھ بھی لینا چاہو‘ لے سکتی ہو‘ بل میں دے دوں گا۔“
میرے یوں کہنے پروہ چونک کر میری جانب دیکھنے لگی‘ جیسے میں نے اس کی توقع کے برعکس کچھ کہہ دیاہو۔ چند لمحے یونہی بیٹھی رہی‘ پھر بولی۔
”کیاتمہیں مجھ میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی؟“
”نہیں کیونکہ جو شے میری نہیں‘ میں اس پر نگاہ نہیں رکھتا۔
“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہاتووہ بولی۔
”تم دلجیت سنگھ ہو یا جو بھی ہو‘ بھاگنے کی کوشش مت کرنا‘ تم نے آج ہی حویلی سے نکل کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ بھاگنا چاہوگے بھی تو بھاگ نہیں پاؤ گے۔ بہت سارے لوگ تیرے انتظار میں اردگرد کھڑے ہیں۔“ اس کے لہجے میں طنزیہ آمیز نفرت تھی۔ تب میں نے اس کے چہرے پردیکھتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے‘ نہیں بھاگوں گا‘لیکن کیاتم مجھے اپنا تعارف کرانا پسند کروگی؟“
”ہم اندھیروں کے راہی ہیں مسٹردلجیت سنگھ‘ ہمیں خود معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارا تعارف کیا ہے۔
“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے بالوں کو سمیٹنے کے انداز میں اشارہ کیا۔ میں نے بڑے سکون سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
”پھر میری بھی ایک شرط ہے‘ جب تک تم اپنا تعارف نہیں کراؤگی‘ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جا پاؤگی۔“
”واؤ… اتنا اعتماد ہے تمہیں خود پر… اُٹھو… اور چلو میرے ساتھ ‘ ورنہ میرے ایک اشارے پر تیری کھوپڑی میں سوراخ ہوجائے گا۔
“ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”تو لے جاؤ مجھے‘ اگر تم میں ہمت ہے تو‘ تعارف کے بغیر تو میں جانے والا نہیں“ میں نے بھی اس کامضحکہ اڑاتے ہوئے کہا۔ میرے لبوں پر مسکراہٹ تھی‘ جو اسے غصہ دلانے کے لیے کافی تھی۔ بلاشبہ اس نے اشارہ کیا تھا‘ اس لیے دو لمبے تڑنگے نوجوان ہمارے قریب آکر کھڑے ہوگئے۔ ان میں سے ایک نے میرا بازو پکڑ کر مجھے اٹھانا چاہا‘ اس نے میرے بدن کو ہاتھ ہی لگایاتھاکہ میں نے اس کی کلائی پکڑ کر زور سے جھٹک دی۔
وہ میز پر گرا‘ میں نے پوری قوت سے اس کی گردن پر گھونسہ دے مارا۔ تب تک دوسرے نے کھڑی ہتھیلی میرے سر پر ماری جس سے میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔ دوسری بار اس نے میرے منہ پرگھونسہ مارناچاہا تو میں نے بازو سے پکڑ کر اسے بھی میز پر گرادیا۔تبھی دونوں ہاتھ باندھے اوراس کی گردن پردے مارے‘ وہ اوخ کی آواز کے ساتھ وہیں لڑھک گیا۔ اچانک سامنے سے تین نوجوان تیزی سے بھاگتے ہوئے آئے اور آتے ہی مجھ پر پل پڑے۔
میں نے کرسی چھوڑ دی تھی۔ پھر کرسی کوگھمایا وہ ذرا سا پیچھے ہٹ گئے تو میں نے ایک کو گردن سے پکڑا‘ جبڑے پرگھونسہ مارا‘ تب تک میری پسلیوں پرٹھوکر پڑچکی تھی۔ ایک نے مجھے پیچھے سے قابو کیا۔ میں نے اپنا سارا وزن اس پر ڈالااور اپنی لات گھما کر سامنے والے کو ماری‘ وہ چھ تھے‘ چھٹی لڑکی تھی‘ جوچیخ چیخ کر انہیں ہدایت دے رہی تھی۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں تھا‘ بار میں ہمارے لڑنے کا شور مچ چکاتھا۔
سیکیورٹی گارڈ ہماری طرف بھاگتے ہوئے آرہے تھے۔ بلاشبہ انہوں نے یاتوہمیں اُٹھا کرباہر پھینک دینا تھا یاپھر پولیس کے حوالے کرنا تھا۔میں پولیس کے ہتھے نہیں چڑھنا چاہتاتھا۔ سیکیورٹی گارڈ نے ہمیں الگ الگ کیااور ہانک کر باہر لے جانے لگے۔ ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا‘ جیسے ہی ہم باہر آئے ‘انہوں نے بغیر کچھ کہے ہمیں سڑک پر دھکیل دیا۔ اب وہ میرے سامنے تھے اور میں اکیلا۔
مجھے بانیتا کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اب تک کیا کررہی ہے؟ کیا وہ اب تک نشے میں دھت ہو کرحواس کھوبیٹھی ہے؟ وہ چھ کے چھ میرے سامنے تھے۔ پانچ مرد اور ایک لڑکی‘ بانیتا اندرہی کہیں مصروف تھی۔ میری نگاہیں ان حملہ آوروں پرجمی ہوئی تھیں۔ وہ مجھے گھیرے میں لینے کے لیے دائرہ بنارہے تھے۔ میں نے لمحے میں سوچا اور الٹے قدموں پیچھے ہٹتے ہوئے دوڑ لگادی۔
تبھی وہ میرے پیچھے بھاگے۔ میں ایک دم ٹرن لے کر سڑک کے درمیان میں چلاگیا۔ ان میں سے دومیرے برابر چڑھ آئے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ پروار کرتے‘ میں آگے بڑھااور پوری قوت سے گھونسہ ایک کے چہرے پر دے مارا‘ وہ لڑکھڑا یاتب تک دوسرے نے پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھائے تھے‘ میں نے انہیں پکڑا‘ اور جھٹک دیئے‘ وہ منہ کے بل سڑک پر گرا‘ میں نے پوری قوت سے اس کی گردن پر پاؤں مارا‘ وہ سڑک سے چپک گیا۔
سامنے والا میری طرف لپکا‘ میں نے اس کی ٹانگوں کے درمیان پیر مارا‘ وہ دہرا ہوگیا۔ میں نے اس کی گردن اپنی بغل میں لی اور جھٹکا دیا‘ ہلکی سی آواز کے ساتھ وہ بے دم ہوگیا۔ میں نے اسے پھینکاہی تھا کہ وہ چاروں میرے مقابل آگئے۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ شاید وہ گاڑی میں سے ریوالور لایاتھا‘ یا پہلے ہی اس کے پاس تھا۔ اس نے کڑک کرکہا۔
”رک جاؤ‘ ذرا سی حرکت کی تو گولی ماردوں گا۔“
میں ایک دم سے ٹھٹک کر رک گیا۔ اب میرے لیے جائے فرار نہیں تھی لیکن سامنے کے ہاتھ میں کھلونا دیکھ کرمجھے ذرا سا اطمینان ہواتھا۔ میں نے خود پرقابو پایااوراُسی کے لہجے میں بولا۔
”تم کون ہو‘ اور ایسے کیوں بدمعاشی کررہے ہو؟“
”بہت ہوچکا دلجیت! تم نے بانیتا کے ساتھ بہت موج کرلی‘ اب ذرا ہمارے مہمان بنو۔
“ ان میں سے ایک نے کہا تو میں نے پورے اعتماد سے پوچھا۔
”میں پوچھتاہوں کون ہو تم؟“
”چور کے چور… اور سپاہی کے سپاہی… تمہیں کیا چاہیے؟“ ان میں سے ایک نے ہنستے ہوئے کہا۔
”میں بتاتی ہوں کہ تم کون ہو؟“ ان کے پیچھے سے بانیتا کی آواز آئی تو انہوں نے چونک کر دیکھا‘ وہ پسٹل لیے کھڑی تھی‘ یہی ایک لمحہ تھا میں نے چھلانگ لگائی اور ریوالور والے پر جاپڑا‘ اس کاریوالور چھینا تو ہم دونوں سڑک پر جاگرے۔ میں نے اٹھنے میں دیر نہیں لگائی۔ ورنہ ہمیشہ کے لیے وہیں پڑا رہ جاتا‘ میں نے انہیں کور کرلیاتھا۔”دلجیت ! انہیں باندھو یا پھر گولی ماردو۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط