”یہی، ہمارے لیے اہم نکتہ ہے۔ وہ جرم کی دنیا میں بہت کچھ کرتے چلے جارہے تھے‘ لیکن ہم نے انہیں کچھ نہیں کہا لیکن اب پورے پلان کے ساتھ ‘ جس میں ”را“ کی پوری آشیرواد شامل ہے۔ وہ سکھوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ مختلف جگہوں پر چھوٹے چھوٹے اڈے بنا کر انہیں جنسی ماحول فراہم کیاجاتا ہے اور وہیں سے سکھ لڑکیوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ان میں ترنکاری سکھ پوری طرح ملوث ہیں۔
“ اس نے تفصیل بتادی تومیں نے بانیتا کی طرف دیکھ کرکہا۔
”چلو‘ دکھاؤ تفصیل کیا ہے‘ پھر پلان کرتے ہیں۔“
”پلان تو میں نے کرلیا ہے‘ مزید تم بتادینا‘ آؤ‘ میں تمہیں دکھاتی ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ گئی۔ تو میں بھی اس کے ساتھ ُاٹھ گیا۔
میں پہلی بار اس کے کمرے میں گیا تھا۔ کمرے کی ترتیب اور سجاوٹ دیکھ کر میں اس کی نفاست کا قائل ہوگیا۔
(جاری ہے)
وہ لیپ ٹاپ کھول کر بیڈ پر بیٹھ چکی تھی اورمیں اس کے ساتھ بیٹھ کر اسکرین پر نگاہیں گاڑے ہوئے تھا۔ آشرم کی پوری تفصیل بتانے کے بعد اس نے ایک تصویر دکھائی جس میں ایک بوڑھا سفید ریش ‘ مونچھیں اور لمبے بالوں اور سرخ چہرے والا دکھائی دیا۔ اس کے گلے میں مالائیں اور پیلے رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔
”یہ پنڈت دیارام ہے‘ اس آشرم کو چلانے والا اور مالک۔
“ یہ کہہ کراس نے دوسری تصویر دکھائی۔ ”یہ پرکاش بادل عرف بجوا ہے۔“تیسری تصویر دکھاتے ہوئے بولی۔ ”یہ دیپکا ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے لیپ ٹاپ ایک طرف رکھااوربولی۔ ”یہی تکون ہے‘ جس پر یہ آشرم چل رہا ہے۔ یہ تینوں بہت سفاک ہیں اور…“
”پلان کیا ہے تمہارا؟“ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
”پرکاش اور دیپکا کو اُڑادیاجائے۔
یہ دونوں آشرم سے باہر ہوتے ہیں زیادہ تر‘ اندر کاانتظام دیپکا کے ذمے ہے اور باہر کا پرکاش دیکھتا ہے۔“ وہ پوری سنجیدگی سے بولی۔
”اب تک کیوں نہیں اُڑا سکے اِنہیں۔“
”یہ ہتھے ہی نہیں چڑھتے‘ صاف بات یہ ہے‘ تینوں اکھٹے نہیں ہوتے ‘ فون پررابطہ ہے‘ ایک کو ماریں گے تو باقی الرٹ ہوجائیں گے۔ پھرابھی تک براہ راست توٹکراؤ نہیں تھا۔
اب پتہ چلا کہ اسلحے کی اس ساری گیم کے پیچھے ان لوگوں کا ہاتھ ہے۔ وہ رتن بابا کو ٹریپ کرنا چاہ رہے تھے۔ اب تو اِنہیں مارنے کاحق بنتا ہے۔“ اس نے کہا تو میں چند لمحے سوچتا رہا پھر مسکراتے ہوئے بولا۔
”تم ایسے کرو‘ جاؤ کچن میں اور چائے بنا کر لاؤ اپنے ہاتھوں سے‘ اُٹھو۔“
”تمہیں چائے چاہیے نا‘ وہ ابھی آجاتی ہے۔“ اس نے حیرت سے کہا۔
”میں تمہارے ہاتھ کی پینا چاہتا ہوں‘ لیکن خدارا ابھی اس میں زہر مت ملوانا‘ میں ابھی تمہارے بہت کام آنے والا ہوں۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تووہ زیر لب گالی بکتی ہوئی اُٹھ کر چلی گئی۔ میں نے لیپ ٹاپ اُٹھایااور دوبارہ آشرم سے متعلق جو فلمیں تھیں وہ دیکھیں‘ ایک نقشہ تھا‘ اُسے سمجھااور پھرنیٹ کھول کراپنا ای میل باکس دیکھا۔ روہی کی طرف سے کچھ نہیں تھا۔
میں نے اُسے بند کیا تووہ چائے لے کر آگئی۔
”یہ لو‘ اس چائے میں خلوص بھی شامل ہے‘ ہمارے رسوئیے کا۔“
”مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ تم سے ڈھنگ کا کوئی کام نہیں ہوگا۔ اب یہ چائے تم پیئو۔“ میں نے کہااور اٹھتے ہوئے بولا۔ ”تیار ہو کرمیرے کمرے میں آجانا‘ دیارام کے آشرم چلیں۔“
”ابھی۔“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں‘ ابھی۔
“ میں نے کہااور باہر نکلتا چلاگیا۔
دوپہر ڈھل رہی تھی جب ہم جالندھر روڈ پر موجود آشرم جانے والی سڑک پر مڑے۔ حویلی سے چلتے وقت میں نے بانیتا کو پلان بتادیا اور جو ضروری مدد چاہیے تھی اس کااظہار بھی کردیا۔ سو دو گھنٹے کے اندر اندر ساراانتظام ہوگیاتھا۔ پکی سڑک آشرم کے بڑے سارے گیٹ پرختم ہوئی جہاں سے دائیں اور بائیں سڑکیں نکلی تھیں۔
سفید رنگ کے گیٹ پر کوئی دروازہ نہیں تھا۔ اس کے اوپر ہندی میں بڑا سا ”اوم“ لکھا ہواتھا۔ گیٹ کے باہر پارکنگ تھی‘ جس پرایک بندہ موجود تھا۔ بانیتا نے گاڑی پارکنگ میں لگائی اور پھر اتر کر اندر کی طرف بڑھ گئے۔ وہ خاصی بڑی عمارت تھی‘ جس کے کئی حصے تھے۔ تھوڑا چلنے کے بعد ایک چھوٹا سا فواراتھا‘ جس کے گرد سڑک گھومتی تھی اور وہیں سے چاروں طرف چھوٹی سڑکیں جاتی تھیں۔
ایک طرف یتیم خانہ تھا‘ ہاسٹل تھا لڑکیوں کا‘ چھوٹا ساہسپتال تھا‘ رہائشی حصہ اور پھر دیارام کی اصل عمارت تھی۔
ہال نما کمرے میں کافی سارے لوگ موجود تھے۔ جن میں نوجوان لڑکیاں سیواکے لیے پھررہی تھیں۔ دراصل وہ وہاں کی سیکیورٹی گارڈ تھیں۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک کاؤنٹر تھا جس پر دیارام سے ملنے کی وجہ لکھوائی جاتی تھی اور نمبر الاٹ ہوتاتھا۔
طریقہ یہی تھا کہ لوگ یہاں سے آڈیٹوریم میں جاتے‘ جہاں دیارام کا لیکچر ہوتاتھا اس دوران جن لوگوں کو ملنے کی اجازت ہوتی‘ انہیں چٹ دے دی جاتی‘ وہ وہاں رک جاتے‘ اور اپنی باری پردیارام سے ملتے۔ آشرم میں صرف ایک جگہ پرسیکیورٹی گارڈ چیک کرتے تھے۔ وہ بھی اس ہال کے باہر‘ باقی ہرجگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے۔ آشرم میں ہونے والی ذرا سی ہلچل بھی کہیں نہ کہیں مانیٹر ہورہی تھی۔
ہم نے سارا جائزہ لے لیاتو بانیتا اطمینان سے بولی۔
”کیاخیال ہے‘ آپریشن ہوجائے گا؟“
”کیوں نہیں ہوگا‘ بس تمہارا رابطہ باہر سے ہونا چاہیے‘ نکلنے کاراستہ ہموار ہو۔“ میں نے تیزی سے کہاتو وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔
”اس کی فکر نہ کرو‘ وہ ہوجائے گا، سب تیار ہے۔“
”تو بس‘ میرے باہر آنے کاانتظار کرنا‘ نہ آسکا تو خاموشی سے واپس چلے جانا۔
“ میں نے کہا تووہ ایک دم سے فکرمند ہوگئی۔ پھر لرزتے ہوئے لہجے میں بولی۔
”تم ایساکیوں کہہ رہے ہو دلجیت‘ تم آؤگے اور ضرور آؤگے…“
”زندگی اور موت کوئی بھی لکھوا کر نہیں لایا میری جان‘ میری موت اگر یہاں لکھی ہے تو کوئی نہیں ٹال سکتا‘ اور اگر نہیں لکھی تو کوئی مار نہیں سکتا۔ میں اگر مرگیاتو خود کومصیبت میں مت ڈالنا۔“ میں نے آہستگی سے کہااور اردگرد لوگوں کوتکنے لگا۔
”اگر چٹ تمہارے نام نہ نکلی توپھرمیں ‘یااگر دونوں کے نام نہ نکلی تو…“
”تو اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ میں سنبھال لوں گا‘ بس تم باہر کا خیال رکھنا۔“ لفظ میرے منہ ہی میں تھے کہ آڈیٹوریم میں جانے کا اعلان ہونے لگا۔ ملحقہ آڈیٹوریم میں سکون سے بیٹھنے کے بعد ماحول کاجائزہ لیا۔ کافی سارے لوگ تھے۔ سامنے اسٹیج پربیٹھنے کی جگہ تھی۔
ریکارڈنگ کے لیے جدید آلات کااستعمال تھا‘ کچھ دیر بعد دیارام چند لڑکیوں اور لڑکوں کے جلو میں اسٹیج پر نمودار ہوا۔ اس نے سفید رنگ کی دوچادریں اوڑیں ہوئی تھیں‘ ایک دھوتی کی صورت میں اور دوسری کاندھوں پر پھیلائی ہوئی تھی۔سفید بالوں میں آدھے سے زیادہ چہرہ چھپا ہواتھا‘ وہ دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے چند لمحے کھڑا رہا‘ پھربیٹھ کر بھاشن دینے لگا۔
تقریباً بیس منٹ بعد وہ بھاشن ختم ہوگیا۔ دیارام اٹھ کراندر چلاگیا۔ ہم دونوں کو ملاقات کی پرچیاں مل گئیں۔ ہمیں آدھے گھنٹے سے زیادہ انتظار کرناپڑا‘ میری باری آئی تو دروازے پرموجود سیکیورٹی گارڈ نے مجھے ڈی ڈیکٹر لگا کرچیک کیااور پھر میں اندر چلاگیا۔ وہ سامنے ایک گدے پربیٹھا ہواتھا۔ اس کے آس پاس سفید‘ سبز اور نارنجی پھولوں کے گلدستے پڑے ہوئے تھے ۔
اندر کاماحول خنک تھا‘ خوشگوار مہک تھی اور روشنی کافی حد تک دھیمی تھی۔ میں اس کے سامنے جاکربیٹھا تو اس نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا سمسیا ہے بالک…؟“
”دیارام جی‘ کیاآپ نے راجیوگاندھی کے قتل کے بارے میں سنا ہے وہ کیسے ہواتھا؟“ میرے یوں کہنے پر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ایک دم سے اس کی آنکھوں میں قہر اتر آیا‘ لال بھبوکا چہرے کے ساتھ اس نے مجھے دیکھا اور پھرغصے میں لرزتی ہوئی آواز کے ساتھ بولا۔
”کیامجاق کرتے ہو…“
”میں مذاق نہیں کررہادیارام جی‘شاید آپ کو نہیں معلوم ‘مگر میں بتادیتاہوں‘ اسے بم سے اڑایا گیاتھا۔ وہ ایسا بم تھا‘ جسے سیکیورٹی والے بھی نہیں پکڑسکے تھے‘ اور نہ اس بم کو کوئی آلہ پکڑ سکا تھا،بالکل ایسے بم تھے وہ۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی جیکٹ دونوں ہاتھوں سے کھول دی۔ اس نے اضطراری حالت میں دیکھا او رپھر خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
ایک دم سے اس کاچہرہ پسینے میں بھیگ گیا۔ وہ خوف زدہ دکھائی دینے لگا تھا۔ اس کابس نہیں چل رہاتھا کہ کسی کومدد کے لیے بلائے۔“ دیارام جی‘ اگر آپ نے ذرا سی بھی بے وقوفی کی نا‘میں نے تو مرہی جانا ہے‘ آپ بھی نہیں رہیں گے۔“
”کیا چاہتے ہوتم…؟“ اس نے خوف سے لرزتی آواز میں پوچھا۔
”میں آپ کو ساتھ لے کرجانے کے لیے یہاں آیا ہوں‘ صرف اتنے وقت کے لیے جب تک ہمارے ساتھ کی گئی بے ایمانی والا معاملہ صاف نہیں ہوجاتا۔
“
”بے ایمانی والامعاملہ ‘میں سمجھا نہیں ؟“ اس نے حیرت سے کہا۔
”آپ اُسی وقت سمجھیں گے نا‘ جب ہم سمجھائیں گے‘ کیونکہ آپ نے اپنے بندوں کویہ نہیں سمجھایا کہ ہمارے بے ایمانی والے کام میں ایمان داری پہلی شرط ہوتی ہے۔“ میں نے تیزی سے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ پکڑ لیے تووہ لرز کررہ گیا‘ پھر دھیمی آواز میں بولا۔
”تم اپنی سمسیا مجھے بتاؤ‘ میں یہیں اُپائے کر دیتاہوں۔“
”نہیں دیارام جی‘ آپ کو میرے ساتھ تو جانا ہوگا‘ ورنہ بات نہیں بنے گی۔ یہ میرا وعدہ ہے کہ آپ کو کچھ نہیں ہوگا‘ کیونکہ آپ اَس میں قصور وار نہیں ہیں۔“
”توپھر قصور وار کون ہے؟“ اس نے پوچھا۔