ان کی شادی کو دوسال ہونے کو آ گئے تھے۔ اس دوران ان کاایک بیٹا مراد پیدا ہوا تو ان کی زندگی میں بہار آگئی۔ وہ بہت اچھے دن گزار رہے تھے۔ شاہد نے آہستہ آہستہ سارہ کے ذہن سے سکھر میں موجود جائیداد کو نکال دیا تھا۔ ان کااپنا بزنس اتنا بڑا تھا کہ اسے کوئی فکر محسوس نہ ہوئی۔ ہاں کبھی کبھی اس کے دل میں انتقام لینے کا خیال ضرور اٹھتا تھا۔ جو وقتی ابال کی مانند بیٹھ جاتا تھا۔
اس دوران اس کی والدہ اللہ کوپیاری ہو گئی۔ وقت بہت اچھا گزر رہا تھا کہ ایک دن اسے فون موصول ہوا۔
”میں شیویتا کا چاچا بات کر رہا ہوں۔وہی شیویتا جسے تم نے زبر دستی مسلمان کر کے اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے۔“
”تم غلط کہہ رہے ہو۔ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے۔ اس پر کوئی جبر نہیں کیا گیا۔
(جاری ہے)
ہاں البتہ تم لوگوں نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔
“
”بکواس کرتے ہو تم۔بہتری اسی میں ہے کہ تم اسے ہمارے حوالے کر دو۔ ورنہ تم نہیں جانتے کہ تیرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔“ چاچا نے دھمکی دیتے ہوئے اپنا مدعا کہہ دیا۔
”دیکھو مجھے دھمکی مت دو۔ وہ میری بیوی ہے اور مسلمان ہے۔ اب اگراس کے بعد تم نے کوئی ایسی بات کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔ سمجھے تم“ شاہد نے غصے میں کہا تو وہ بھڑک اٹھا۔
”تم کچھ بھی نہیں کر پاؤ گے۔ میں اپنی بھتیجی تم سے چھین کر لے جاؤں گا۔“چاچا نے بھی غصے میں کہا تو وہ بولا۔
”تم جو کرنا چاہتے ہو کر لو، اب تک میں نے اسے سمجھایا ہے کہ جو لوگ اپنے سگے رشتوں کو زمین جائیداد کے لیے قتل کر دیں ، ان سے بڑا بے غیرت کون ہو سکتا ہے۔ اس نے ساری جائیداد پر تھوک دیا ہے۔ تم سنبھالو سب، اب اگر دوبارہ فون کرکے یہ بات بھی کہی تو پھر میری بیوی کا تم لوگوں سے اپنا انتقام لینا بنتا ہے۔
پھر وہ نہیں ، میں تم لوگوں کے لیے قہر ثابت ہوں گا۔“
”تم یہیں بیٹھ کر باتیں کرر ہے ہو، لیکن ہم اس تک پہنچ بھی گئے ہیں۔ بھلائی اسی میں ہے کہ…“
”بکواس بند کرو۔ تم سے جو ہو سکتا ہے کرو اور جو میں نے پھر کرنا ہے اس کا انتظار کرنا۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کیا اور سارہ کو کال کی۔ ذرا سی دیر میں اس نے کال اٹینڈ کر لی۔ شاہد نے اسے فون کال کے بارے میں بتایا تو وہ بولی
”وہ پہلے مجھے فون کر چکے ہیں اور ایسی ہی باتیں مجھ سے بھی کی ہیں۔
“
”اب تم مجھ پر چھوڑ دو۔ دیکھتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں۔“ شاہد نے اسے تو تسلی دے دی ، مگر خود پریشان ہو گیا۔ اس کے سامنے یہی سوال تھے کہ وہ اب تک سارہ کو کیوں نہیں بھولے؟ وہ تو یہاں آگئی تھی سب کچھ انہیں دے کر تو کیا وہ اس کی جاسوسی کرتے رہے ہیں، انہوں نے اب تک کیا کیا اور کس حد تک ان کے بارے میں معلومات لی ہیں؟ کیا وہ اس حد تک جا سکتے ہیں کہ وہ سارہ کو جان سے مار دیں۔
اس کا جواب ایک ہی تھاکہ سارہ کے قتل کے بعد ساری جائیداد ان کے ہاتھ آ جانے والی تھی۔ان کے لیے سارہ کا قتل ضروری تھا۔جس کے بعد ان کے لیے ہر طرح کا خطرہ ٹل جاتا۔ وہ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ دودن بعد ان پر افتاد پڑ گئی۔
وہ صبح ناشتے کے بعد شوروم جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ باہر بہت سارے لوگوں کے آنے کی اطلاع ملی۔ وہ باہر گیا تو ایک وکیل کے ساتھ پولیس والے تھے۔
سارہ کا چاچا ، کورٹ کی طرف سے بیلف لے آیاتھا،بلکہ یہ ایک طرح سے چھاپاتھا۔کچھ میڈیا کے لوگ ان کے ساتھ تھے۔
”جی بولیں کیا بات ہے؟“ اس نے تحمل سے پوچھا تو وکیل نے اپنا تعارف کرانے کے بعد کہا۔
”آپ نے شیویتا نامی ایک ہندو لڑکی کو زبردستی اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے، ہم اسے بازیاب کرانے آئے ہیں۔“
”یہاں شیویتا نام کی کوئی لڑکی نہیں رہتی اور نہ ہی میں نے کسی کو زبردستی رکھا ہوا ہے۔
میرے گھر میں میری بیوی ہے اور اس کا نام سارہ ہے۔“
”دیکھا جھوٹ بول دیا نا،“ اس کے چاچا نے کہا تو وکیل بولا
”دیکھیں ہمارے پاس کورٹ کا حکم ہے۔ہم آپ کے گھر کی تلاشی لیں گے۔“
”ابھی کسی کو اتنی جرات نہیں ہوئی کہ میرے گھر کی تلاشی اس طرح جھوٹ بول کر لے سکے۔ جاؤ بھاگ جاؤ۔“
”تو آپ کورٹ کا حکم نہیں مان رہے ہیں۔“ وکیل نے کہا۔
”جب مجھے عدالت بلائے گی تو میں چلا جاؤں گا۔“ شاہد نے کہا تو وہ لوگ ایک نوٹس اس کے گھر کے باہر لگا کر چلے گئے۔ انہیں گئے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ کافی سارے اسلحہ بردارلوگ اس کے گھر کے سامنے آ کر فائرنگ کرنے لگے۔ اس کے گارڈز نے مزاحمت کی لیکن وہ اس کے گارڈز کا حصار توڑ کر اندر آ گئے۔انہیں سارہ کی تلاش تھی۔ شاہد نے مزاحمت کی لیکن اس کی کوئی پیش نہ چلی۔
انہوں نے شاہد کے سر پر راڈ مارا جس سے وہ بے ہوش ہوتا چلاگیا۔ اس کا بیٹا مراد وہیں بلکتا رہا۔ جب اسے ہوش آیا تو سارہ نہیں تھی۔
شاہد نے قا نون کا سہارا تو کیا لینا تھا۔میڈیا میں یہ بات زور وشور سے کہی جانے لگی کہ ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے انہیں زبردستی مسلمان کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ہندؤوں پر عرصہ دراز تنگ ہو گیا ہے۔ یہاں ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ چند دنوں ہی میں عالمی میڈیا بھی زور زور سے چلانے لگا۔ اس کا جواب دینے کے لیے سارہ کہیں نہیں تھی اور شاہد کو بھی اپنا آپ چھپانا پڑا۔چند دن ہوگئے وہ یونہی پھر رہا تھا کہ کچھ لوگوں کی وساطت سے وہ ہمارے پاس آگیا۔
#…#…#