جسپال چھت پرٹہلتے ہوئے تھک گیا۔ ان دونوں نے ساری رات مختلف پہلوؤں سے پلان کیا تھا۔ اگر دشمن یوں آیا تو ہم ایسے کریں گے ۔ وہ باتیں کر کے تھک گئے تو خاموش ہو گئے تھے۔ اس نے چاروں طرف دیکھا اور تانی کے پاس پڑی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ تبھی تانی نے ریسٹ واچ دیکھتے ہوئے نیند سے بوجھل بھاری آواز میں کہا
” لگتا ہے یہ رات سکون سے گذر جائے گی۔
“
” اچھا ہے سکون سے گذرجائے۔ سارہ بے چاری نجانے کب سے سکون کی نیند نہیں سوئی ، آج وہ بھی سکون ہی سے سو رہی ہے۔“ جسپال نے دھیمے سے لہجے میں کہا تو تانی ہنستے ہوئے بولی
” اس نے تمہیں نیند میں جا کر بتایا کہ اب میں سکون سے سو رہی ہوں۔“
” نہیں ، ابھی کچھ دیر پہلے میری شاہد سے بات ہوئی ہے ، وہ جاگ رہا ہے۔
(جاری ہے)
اپنوں کو بچانے اور ان کی حفاظت کا خوف انسان کو بے چین رکھتا ہے۔
کتنے دنوں بعد اسے اپنا بیٹا دیکھنا نصیب ہوا ہے ۔ باپ ملا ہے۔ کبھی کبھی آسودگی بھی انسان کو بے چین کر دیتی ہے۔“ جسپال نے حسرت آمیز لہجے میں کہا تو تانی اُٹھتے ہوئے بولی
” جسپال تم یہ موٹی موٹی باتیں کب سے کرنے لگے ہو۔ روہی میں تم ایسے نہیں تھے ، بڑے لاابالی اور غیر سنجیدہ قسم کے بندے تھے نا۔“
” وقت وقت کی بات ہے پیاری۔
“ یہ کہتے ہوئے وہ بھی مسکرا کر اُٹھ گیا۔ دونوں پھر سے ٹہلنے لگے۔ اچانک تانی کی نگاہ اندھیرے میں ان کاروں پر جم گئی، جو ان کے بنگلے سے ذرا فاصلے پر ایک دم سے رک گئیں تھیں۔ ان میں سے کافی سارے لوگ باہر نکل آئے تھے۔ اس نے جسپال کی جانب دیکھا وہ بھی اسی طرف دیکھ رہا تھا۔
” فوراً شاہد کو فون کر کے بتا دو، میں سیکورٹی والوں کو الرٹ کرتا ہوں۔
“یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا فون نکالا اور نمبر پش کر دئیے۔ شاہد سمجھتا تھا کہ ایسے وقت میں اسے کیا کرنا ہے۔
وہ چار کاریں تھیں، جن میں سے لگ بھگ پندرہ سولہ آ دمی نکل آئے تھے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ بنگلے کو گھیرنا شروع کر دیا۔ جسپال ان کے طریقے کو سمجھ گیا تھا۔ تانی نے شاہد کو بتادیا تھاسیکورٹی والے الرٹ ہو گئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ بنگلے کے پیچھے آ گئے تھے۔
لگ رہا تھا کہ ایک دم سے چاروں طرف سے حملہ کریں گے۔ یہ بہت خطرناک صورت حال تھی۔ وہ دو طرف سے تو مقابلہ کر سکتے تھے ، چاروں طرف سے نہیں۔ ان میں سے اگر چند بندے بھی اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو شاہد ان کا مقابلہ نہیں کر پائے گا اور سکون سے سوئی ہوئی سا رہ کے ساتھ نجانے کیا ہو؟ یہی سوچتے ہوئے جسپال ایک دم سے بے چین ہو گیا۔ اس کے بدن میں سنسنی پھیل گئی تھی۔
باہر سے آئے ہوئے حملہ آور انہیں ہار پہنانے نہیں آئے تھے، جو بھی ان کے راستے میں آتا اُسے جان سے مار دینا ہی ان کا مقصد تھا۔ تانی بھاگ کر بنگلے کے پچھواڑے دیکھ رہی تھی۔ وہ لوگ تیزی سے پھیل کر باہر کھڑے تھے۔تانی بے آواز قدموں سے بھاگتی ہوئی واپس آئی اور صورت حال بتا کر بولی
” سیکورٹی والے محض چار لوگ ہیں یا پانچ اوروہ بھی گیٹ پر… اب کیاکیا جائے۔
“
” ان کی جان لے لیں گے یا اپنی جان دے دیں گے ، بس اتنا ہی ہوگا۔ تم گولیاں ضائع مت کرنا سمجھ لینا جمال تمہارا امتحان لے رہا ہے، جو اس نے سکھایا ہے اسے ضائع مت کر دینا تانی ۔“ جسپال کے لہجے میں درندگی عود آئی تھی۔لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ دائیں جانب والی دیوار سے ایک شخص کود کر اندر آ گیا۔ جسپال نے اپنی گن سیدھی کی اور فائر داغ دیا۔
اگلے ہی لمحے ایک چیخ فضا میں بلند ہوئی اور باہر ہلچل مچ گئی۔اس کے ساتھ ہی تیز فائرنگ سے ماحول گونج اٹھا۔
ہر طرف سے گولیاں برسنا شروع ہو گیں تھیں۔ جسپال اور تانی چھوٹی دیوار کی آڑ میں نشانہ لگاتے اور آگے بڑھ جاتے۔ کچھ ہی منٹوں میں کافی سارے لوگ گرچکے تھے۔ ماحول پر ایک دم سے سکوت طاری ہو گیا۔ اسی دوران جسپال کا فون بج اٹھا۔ وہ کوئی اجنبی کال تھی۔
جسپال نے فون رسیو کر لیا تو دوسری طرف سے تیزی میں کہا گیا۔
” جسپال گھبرانا نہیں ، ہم تمہاری مدد کو پہنچ رہے ہیں۔ ہم سے پہلے کچھ لوگ آئیں گے، وہ باہر موجود لوگوں کی مدد کو پہنچ رہے ہیں۔ بس چند منٹ انہیں روکے رکھو۔“
” تم کون ہو؟“ اس نے پوچھا
” یہ تعارف کا وقت نہیں۔ ہم انہیں سنبھال لیں گے، بس چند منٹ…“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔
جسپال نے فون سیٹ کو گھورا اور تانی کے پاس جا کر کال کے بارے میں بتایا۔ وہ فقط سر ہلا کر رہ گئی۔ ایسے ہی وقت میں دو کیبن گاڑیاں وہاں آ رُکیں۔ ان میں سے تیزی کے ساتھ چند لو گ نکلے اور ایک دم سے چاروں جانب بھاگ اُٹھے۔ جسپال نے ایک کو نشانہ بنا لیا، وہ سڑک پر گرا۔ تبھی دائیں جانب کمپاؤنڈ میں ایک دستی بم آ کر گرا، جس کے دھماکے سے کھڑکیاں تک لرز اٹھیں۔
اس کے ساتھ ہی چند لوگ دیوار پار کرکے اندر آ گئے۔ تانی نے جیسے ہی ایک کو نشانہ بنایا، گولیوں کی بوچھاڑ آئی۔ اگر تانی لمحے کے بھی آدھے وقت میں نیچے نہ جھکتی تو اس کا بدن چھلنی ہو جانا تھا۔ اسی وقت بائیں جانب ایک دستی بم اور آن گرا۔ اس کے ساتھ ہی کچھ بندے اندر آ گئے ۔ انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ جو بھی فائرنگ ہو رہی ہے اوپر چھت پر سے ہی ہو رہی ہے۔
وہ انہیں اُٹھنے کا موقعہ ہی نہیں دے رہے تھے۔ وہ مسلسل چھت پر فائرنگ کر رہے تھے۔ صورت حال سنگین ہو گئی تھی۔ ایسے میں جسپال کا فون بج اٹھا۔ اس نے کالسُنی تو دوسری طرف وہی بولا
” حوصلہ رکھنا،میں پہنچ گیا ہوں۔“
اس کے ساتھ ہی فون بند ہو گیا۔اس وقت تانی جسپال کے قریب آ گئی اور اونچی آواز میں بولی
” سارہ اور شاہد کا کچھ پتہ ہے، وہاں کیا صورت حال ہے؟“
اس کے یوں کہنے پر جسپال نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور اس کی طرف دیکھ کر بولا
” تم فوراً نیچے چلی جاؤ ۔ وہ گھبرا کر کچھ الٹا سیدھا نہ کر لیں، جلدی جاؤ ۔“