مجھے جب ہوش آیا تو میں ایک نیم تاریک کمرے کے یخ فرش پر پڑا ہوا تھا۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ مجھے کچھ بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں کہا ں ہوں اور کتنی دیر تک بے ہوش رہا ہوں۔ سب سے پہلے میرے ذہن میں یہی سوال آیا کہ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے مجھے اغوا کیا ہے؟ لاشعوری طور پر میرا دھیان چوہدری شاہنواز کی طرف جاتا تھا۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ اسے پکڑا بھی تھا یا یونہی چھوڑ دیا گیا،یا پھر وہ ہتھے ہی نہیں چڑھا؟ میرا دماغ گھوم رہا تھا اور میرے بدن سے ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔
میں نے اپنے سر میں خون کی چپچپاہٹ محسوس ہوئی۔میں یہی سوچ رہا تھا کہ دروازے کی چرچراہٹ کے ساتھ ہی روشنی بھی اُمنڈ آئی۔ اس کے بعد چند لوگ اندر آ گئے ، ان میں وہ نوجوان بھی تھا ، جس نے پہلی بار مجھ پر حملہ کیا تھا ۔
(جاری ہے)
اس نے میری طرف اشارہ کر کے کہا
” تجھے ہوش آگیا ؟“ یہ کہہ کر وہ میرے پاس فرش پر بیٹھا اور میرے بال زور سے پکڑ کر بولا
” تیرے بارے سنا تو بہت تھا ، مگر تو ایک حقیر چوہے کی طرح میرے قابو میں آ گیا، میں چاہتا تو وہیں ایک گولی تیرے پار کر دیتا۔
لیکن میں ابھی تیرے اندر سے بہت کچھ نکالنا چاہتا ہوں۔ اگر تجھے بھونکنے پر مجبور نہ کیا تو میرے یہاں آنے کا مقصد ہی ختم ہو جاتا۔“
” کون ہو تم اور چاہتے کیا ہو؟“ میں نے پوچھا تو ایک دم سے قہقہہ لگا کر بولا
” گڈ، بولتا بھی ہے ، چل بول، یہ اعتراف کر کہ رات تو نے ہی ہمارے بندے پکڑوائے ہیں؟“
” جب تک تو اپنے بارے میں نہیں بتائے گا، مجھ سے کچھ نہیں پوچھ سکے گا۔
“میں نے یہ کہا ہی تھا کہ اس نے میرا ماتھا زور سے فرش پرمارا تو میری آ نکھوں کے آگے ستارے ناچ گئے۔ میں نے خود پر قابو پایا تب تک وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے میری پسلیوں میں ٹھوکر مارتے ہوئے کہا
” ایک حقیر چوہا مجھ سے سوال کر رہا ہے کہ میں کون ہوں۔ ابھی بتاؤں گا، جب تم اپنی آخری سانسوں پر ہوگے۔ تمہیں خود پر افسوس ہوگا کہ تم بھارت میں دلجیت سنگھ بن کر کس طرح گئے تھے۔
“
” مطلب تم بھارتی ہو۔“ میں نے انتہائی نفرت سے کہا تو وہ حقارت سے بولا
” ہاں میں بھارتی ہوں، اور صرف تیرے لئے یہاں آیا ہوں۔ میں تجھے خود اپنے ہاتھوں سے ماروں گا۔ بول شاہنواز اور میرے ساتھی کہاں ہیں؟“ اس نے شاہنواز کے بارے میں پوچھا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ بھی خفیہ والوں کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔ مجھے ایک گونہ سکون محسوس ہوا ۔
تبھی میں نے اسے جان بوجھ کر غصہ دلاتے ہوئے کہا
” ہمت ہے تو پوچھ لے ،؟“
” تو بولے گا، اور بتائے گا۔“ یہ کہہ کر اس نے پھر سے میری پسلیوں میں ٹھوکر ماری تو مجھے اپنا سانس رکتاہوا محسوس ہوا۔ میں نے ایک طویل سانس لیا اور اُس کی طرف دیکھتے ہوا بولا
” دیکھ تو جو کوئی بھی ہے، اس طرح بندھے ہوئے کو کو ئی بھی مار سکتا ہے ، تیرے جیسے چار ہیجڑے بھی ایسا ہی کریں گے۔
تیری مردانگی تو میں تب دیکھوں ، جب تو میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے۔ پتہ تو تب چلے گانا، گھیر کر مارنا تو ہیجڑوں کا کام ہے۔“
” اس کی باتوں میں مت آنا باس، یہ بہت خطرناک آدمی ہے۔“اس کے پیچھے کھڑے ایک گن بردار نے کہا تو وہ دانت پیستے ہوئے بولا
” بول، ہمارے آدمی کہاں ہیں؟“
” ہاتھ میں ہاتھ ڈال کے پوچھ ہیجڑے۔“ میں نے کہا تو وہ پاگل ہو گیا۔
اس نے میرے سر کے بال پکڑے اور میرا سر فرش پر مارنا چاہا۔اسی لمحے میں نے اپنے آپ کو جھٹکا دیا تو میرا سر زمین پر نہ مار سکا۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا تو میں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ وہ غصے میں پاگل تو پہلے ہی تھا، اس کی عقل ہی اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ میرے ہاتھ کھولنے لگا۔ میرے ہاتھ کھلے تو مجھے اُٹھا کر بولا
” آ دکھا اپنی مردانگی۔
“ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک مکّامیرے منہ پر مار دیا۔ لیکن اگلے ہی لمحے جب میں نے اس کے ماتھے کے درمیان پنچ مارا تو چکرا گیا۔ میں نے اسی لمحے دونوں ہاتھوں کی کھڑی ہتھیلیاں اس کی کنپٹیوں پر ماریں تو اس کے منہ سے کراہ نکل گئی۔ وہ فائیٹر تھا ، سمجھ گیا اس لئے فوراً پیچھے ہٹا ا ور خود پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا۔
میں نے غیر محسوس انداز میں چاروں طرف دیکھ لیا تھا کہ وہاں پر کتنے بندے ہیں۔
تین آدمی تھے ،ا ور اُن تینوں کے پاس گنیں تھیں۔ وہ میرے سامنے آکر مجھ پر جھپٹا اور اس کے ساتھ ہی کوئی تیز دار آلہ میری ران میں چھبو دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے جسم میں انگارے بھر دئیے گئے ہوں، میں تڑپ اٹھا۔ میں اسے چھوڑ کر پیچھے ہٹا۔ میں نے دیکھا وہ پتلے پھل والا خنجر تھا۔اُبلتا ہو اخون میری ران سے نکل کر ٹانگ کو بھگو رہا تھا۔ٹیس کا احساس میرے پورے جسم میں پھیل رہاتھا۔
میں لڑکھڑا گیا۔ اسی لمحے وہ مجھ پر دوبارہ جھپٹا تو میں نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کا سر میری بغل میں آیا تو میں نے اس کی گردن کو بھیچ لیا۔ اب میں اسے نکلنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔ وہ جس قدر زور لگاتا، اسی طرح اپنے آپ کو میرے شکنجے میں جکڑا ہوا پاتا۔ اس نے ٹانگوں سے مجھے گرانے کی بہت کوشش کی لیکن اس وقت میری بقاء اسی میں تھی کہ وہ میرے قابو میں رہے۔
میں اسے لیتا ہوا غیر محسوس انداز میں ایک بندے کی جانب بڑھنے لگا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ اپنے اس فائیٹر کو بچانے کے لئے مجھ پر فائیر کرے یا مجھے گن مارے یا مجھ پر جھپٹے ۔ایسا ہی ہوا ، جیسے میں اس کے قریب ہوا، اس نے گن ہوا میں لہرائی اور اس کا دستہ مجھے مارنا چاہتا تھا، اسی دوران میں نے بغل میں دی ہوئی گردن کو جھٹکا دیا، کڑک کی آواز آئی اور وہ ڈھیلا ہو گیا، اس وقت مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ مر گیا ہے یا ابھی زندہ ہے، کیونکہ میں نے اسے چھوڑ دیا تھا، جب تک اس کی گن نیچے آئی اس وقت تک میں گن پر ہاتھ ڈال چکاتھا۔
ایک جھٹکے کے ساتھ گن میرے ہاتھ میںآ ٓٓ چکی تھی۔میں نے اگلے ہی لمحے اپنی جگہ چھوڑ دی ، اسی لمحے وہیں فائرہوا۔ میں نے فرش پر جست لگائی اور اس کا نشانہ لیا، جس نے فائر کیا تھا۔ وہ دونوں ڈھیر ہوگئے۔ میں نے تیسرے کا نشانہ لیا ۔ وہ بھی خون میں لت پت ہو گیا۔ اب اُنہیں دیکھنے کا اتنا وقت نہیں تھا۔ میں نے انہیں وہیں چھوڑا اور اس کمرے سے باہر نکلا۔