Episode 61 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 61 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

میں نے اگلے ہی لمحے اپنی جگہ چھوڑ دی ، اسی لمحے وہیں فائرہوا۔ میں نے فرش پر جست لگائی اور اس کا نشانہ لیا، جس نے فائر کیا تھا۔ وہ دونوں ڈھیر ہوگئے۔ میں نے تیسرے کا نشانہ لیا ۔ وہ بھی خون میں لت پت ہو گیا۔ اب اُنہیں دیکھنے کا اتنا وقت نہیں تھا۔ میں نے انہیں وہیں چھوڑا اور اس کمرے سے باہر نکلا۔
شام ڈھل چکی تھی اور اندھیرا پھیل رہا تھا ۔
باہرلمبا کاریڈور تھا۔ وہ کوئی پرانا ڈاک بنگلہ تھا یاکوئی ایسی ہی دوسری عمارت تھی ۔ مجھے یہ بھی دیکھنے کی فرصت نہیں تھی۔ میں ابھی فرار کا راستہ دیکھ ہی رہا تھا کہ باہر کی طرف سے کئی لوگ بھاگتے ہوئے آ رہے تھے۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ان کا مقابلہ کرتا، میں تیزی سے بھاگا اور دائیں جانب کی دیوار کود گیا۔ میں جہاں پر گرا۔

(جاری ہے)

اس کے ارد گرد کئی فائر ہوئے ، میری قسمت ساتھ دے رہی تھی اس لئے میں بچ گیا۔

میں تیزی سے بھاگا تو وہ لوگ بھی میرے پیچھے لگ گئے۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میں ایک لمحے کے لئے رکتا اور ان کا نشانہ لے کر فائر کرتا۔ میں اگر برسٹ بھی مارتا تو اس وقت تک وہ مجھے نشانہ بنا چکے ہوتے۔ میرے سامنے چٹیل زمین تھی، جس پر جا بجا جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔اچانک مجھے ایک ٹیکری دکھائی دی۔ میں اس کی آڑ میں بے دم ہو کر گر گیا۔
میں بہت حد تک چکرا گیا تھا۔ ایک تو اندھیرا ہو رہاتھا ، دوسرا مجھے اتنا زیادہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اور تیسرا میری ران میں اٹھتیں ہو ئیں ٹیسیں بے حال کر رہی تھیں۔
میں چند لمحے یونہی پڑا رہ کر اپنے حواس بحال کرنے کی کوشش کرتا رہا۔میری ران میں ٹیس بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ میں نے اپنے پیچھے آنے والے لوگوں کو دیکھا۔
وہاں مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا۔سامنے میدان خالی تھا۔ اگر کوئی سامنے ہوتا تو اس کا ہیولا ہی دکھائی دیتا۔ بلاشبہ وہ جھاڑیوں کی آڑ میں ہو ں گے ۔ وہ پیچھے بھی ہٹتے تو اتنی دیر میں وہ مجھے دکھائی دے گئے ہوتے۔اچانک میں نے موہوم سی آہٹ پر اپنے پیچھے دیکھا، دو السیشن نسل کے کتے بھاگتے ہوئے میری طرف آ رہے تھے۔ میں ایک دم سے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
نجانے کیوں مجھے یہ احساس ہو گیا کہ میں نے اگر ان پر فائر کیا تو مجھے پر گولیوں کا مینہ برس جائے گا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ انہیں ویسے ہی ماروں گا۔ ایک کو فائر مار کر جب تک دوسرا فائر کرتا، میں یہاں سے اٹھ بھی نہ پاؤں گا۔ وہ کتے وحشت ناک انداز میں میری جانب بڑھ رہے تھے۔ میں نے اپنی نگاہیں ان پر گاڑھ دیں ۔ جیسے ہی وہ مجھ سے چند فٹ کے فاصلے پر رہ گئے ، انہوں نے وہیں سے مجھ پر چھلانگ لگانے کے لئے اپنے بدن کو تولا ہی تھا کہ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا
” ہش۔
نجانے اس آواز میں کیا جادو تھا۔ وہ کتے ایک دم سے ٹھٹھک کے یوں رک گئے، جیسے وہ مجھ سے خوف زدہ ہو گئے ہوں۔ میں ایک دم سے حیران رہ گیا کہ ان کتوں کو کیا ہوا ؟ میری نگاہیں انہی پر جمیں ہوئیں تھیں۔ وہ چند لمحے میری طرف دیکھتے رہے، پھر انہوں نے اپنی ٹانگیں آگے کی طرف پھیلا دیں۔اس کے ساتھ ہی وہ دونوں پر سکون انداز میں بیٹھ گئے ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ہوا ؟ وہ چیر پھاڑ دینے کے انداز میں میری طرف آنے والے یوں کیوں بیٹھے ہیں ،جیسے وہ کوئی میرے پالتو ہوں۔
اس عجیب صورت حال نے مجھے حیران کر دیا۔ اس سے پہلے کہ میں اس صورت حال کی وجہ معلوم کرتا۔مجھے کچھ فاصلے پر آہٹ محسوس ہوئی۔ جھاڑیوں کے درمیان سے دو بندے اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ جو باتیں کر رہے تھے، ان کی مجھے تو سمجھ نہیں آئی۔ لیکن ان کے ساتھ ہی دو بندے مزید آ گئے۔ وہ چار ہی تھے۔وہ محتاط انداز میں آ گے بڑھنے لگے۔ میں سمجھ گیا۔ انہوں نے کتے اسی لئے بھیجے تھے کہ یا تو وہ مجھے چیر پھاڑ دیں گے، یا اگر میں ان پر فائر کرتا تو میری لوکیشن معلوم کر لیتے ۔
میں اگر فائر کرکے کسی کتے کو مار بھی دیتا تو ان کا نقصان نہیں ہونا تھا۔
وہ اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ پھیل کر آگے بڑھنے لگے۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک ہی برسٹ میں ان کا کام تمام کروں گا۔ وہ آہستہ آہستہ میری رینج میں آتے چلے گئے۔ جیسے ہی وہ میرے نشانے پر آئے۔ میں نے فائر کھول دیا۔ میں نے ان میں سے تین کو تو گرتے دیکھا ، تب تک ایک گولی میری کہنی کے اوپر سے میرا بازو ادھیڑتی ہوئی نکل گئی۔
میرا بازو سُن ہو کر رہ گیا۔ میں اگر اُسے فائر نہ مارتا ، اس نے مجھے مار دینا تھا۔ انہیں میری لوکیشن کا پتہ چل گیا تھا۔ میں نے اگلے ہی لمحے وہ جگہ چھوڑ دی اور پوری قوت سے بھاگا۔ میں جس قدر تیزی سے بھاگا تھا، ایک جگہ ٹھوکر کھاکر گر پڑا۔ گن میرے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری۔ اسی لمحے میرے پیچھے ایک دو فائر ہوئے ،شاید میں ان کی رینج سے نکل گیا تھا یا پھر ان میں فائر کرنے کہ ہمت نہیں رہی ہوگی۔
پھر کچھ نہیں ہوا ۔ میں اپنی بقاء کے لئے بھاگتا چلا گیا، حالانکہ میری ران کا زخم مجھے بھاگنے نہیں دے رہا تھا، مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے زخم چرتا چلا جا رہا ہے ۔ میں آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ بے دم ہو کر گر پڑا۔ میری سانس پھول گئی تھی۔میں اپنا سانس بحال کرنے کے لئے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد جب میں اپنے آپ میں آیا تو اندھیرے میں چمکتے ہوئے جگنو دکھائی دئیے۔
ایک لمحے کو میں نہ سمجھ سکا ، پھر جیسے ہی غور کیا۔ یہ وہی السیشن نسل کے کتے تھے، بلا شبہ وہ میرے پیچھے یہاں تک آ گئے تھے۔ نجانے مجھے یہ کیوں احساس ہونے لگا کہ یہ محض کتے نہیں ہیں، کچھ بھی دوسری کوئی ماورائی مخلوق ہو سکتی ہے۔میں نے اس وقت ان پر زیادہ دھیان نہیں دیا بلکہ سانسیں بحال ہوتے ہی تیز تیز قدموں سے آگے چل پڑا۔ میرے ساتھ وہ کتے بھی چل پڑے۔
میں کسی بستی کی تلاش میں تھا۔ اس سے نہ صرف مجھے یہ اندازہ ہو جاتاکہ میں کہاں پر ہوں، بلکہ مجھے وہاں سے کوئی مدد بھی مل سکتی تھی۔ چٹیل میدان ختم ہو گیا تھا تو ریتلی اور دلدلی جگہ محسوس ہونے لگی۔ اچانک میرے سامنے دریا آ گیا۔ میں نے مغرب کی جانب دیکھا۔ چاند کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اندھیرا گہرا ہو رہا تھا۔ میرے پاس دو ہی راستے تھے۔
یا تو میں یہیں بیٹھ کر ساری رات انتظار کر تا یاپھر دریا میں کود کر پار اُترنے کی کوشش کرتا۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ کیا کروں۔ دوسرا کنارہ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نجانے اس کا پاٹ کتنا تھا، میں اگر تیرتے ہوئے راستے ہی میں بے دم ہو گیا تو کیا کروں گا۔ سوائے ڈوبنے کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہاں بیٹھے رہنے سے میرے زخم میں زہر بھر جانے کا اندیشہ تھا۔
ممکن ہے مجھے ہوش ہی نہ رہتا ، صبح تک نجانے کون کون سے جانور مجھے ہڑپ کر جاتے۔ میں ابھی ایسی الجھن میں تھا کہ اچانک مجھے متحرک روشنی د کھائی دی۔ میں نے غور کیا وہ تین گاڑیاں تھیں۔ بلاشبہ وہ میری تلاش میں تھے، ورنہ اس وقت ان گاڑیوں کا وہاں کیا کام تھا۔ اس وقت میں نہتا اور زخمی تھا ۔ میں چاہتا بھی تو کب تک ان کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ میں کوئی آڑ تلاش کرنے لگا۔
تبھی میرے دل میں آئی کہ ان سے بچتے رہنے کی بجائے دریا پار کرنے کی کوشش کر، اگر زندگی ہوئی تو پار کر جائے گا ،اگر موت ہے تو وہ لوگ مجھے مارنے یا پھر مجھے زندہ پکڑنے کے لئے سر پر پہنچ جانے والے ہیں۔ پھر میں نے مزید نہیں سوچا اور دریا میں چھلانگ مار دی۔ 
سرد پانی نے مجھے سر سے پاؤں تک سُن کر دیا۔ میں کچھ دیر بعد پانی کی سطح پر آیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ دونوں کتے میرے دائیں بائیں تیرتے چلے آ رہے ہیں۔
ایک دم سے میرا حوصلہ بلند ہو گیا۔ میں نے دونوں کو اپنے ساتھ لگایا اور اپنا سارا بوجھ ان پر ڈال کر خود کو پانی کے حوالے کر دیا۔ میں ان کتوں کے ساتھ پانی کے بہاؤ کی جانب بہتا چلا گیا۔ نجانے کتنی دیر تک میں بہتا رہا تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کرنہیں دیکھاتھا۔ میں دوسرے کنارے لگا تو میرے حواس پوری طرح بحال تھے۔ میں پانی سے باہر آیا تو میرے سامنے ایک ہیولا سا لہرایا۔
میں نے غور سے دیکھا، دھیمی دھیمی روشنی تیز ہونے لگی۔ میں اُدھر دیکھتا رہا، جیسے ہی وہ ہیولا میرے قریب ہوا تو میں انہیں پہچان گیا۔ میرے سامنے وہی روہی والے بابا کھڑے تھے۔ ان کے آس پاس ایک روشنی کا ہالا تھا۔ جس میں صاف طور پر دکھائی دے رہے تھے۔ میں ایک دم سے چکرا گیا ۔ وہ میری جانب غور سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنا عصا بلند کیا اور اونچی آواز میں کہا
” آج تو دریا پار نہ کرتا تواپنی منزل کھوٹی کر لیتا۔
گھبر ا مت ، ابھی تجھے کندن بننا ہے، کندن۔“
” میں حاضر بابا جی ۔“ میں نے پورے خلوص سے کہا تو وہ اسی رعب سے بولے 
” اس دنیا میں ایک مخلوق منافقوں کی ہے ، جو ان کتوں سے بھی بدتر ہے،کتے کو معلوم ہے کہ اس کا مالک کون ہے ، لیکن ان منافقوں کو نہیں معلوم۔ اور تو … اپنے بارے میں جان لے کہ ابھی تو صرف ایسا قلندر ہی ہے جو کتے اور بندر نچا سکتا ہے، نچا ،ابھی یہ کتے بندر نچا، ابھی تیری منزل بڑی دور ہے، جا ، اب جا ۔“ انہوں نے تیز تیز کہا اور مڑ کر چل دئیے۔ روشنی معدوم ہوتی چلی گئی اور وہ اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ میں حیرت میں ڈوبا ان کے لفظوں پر غور کرتا رہا۔یہ کیسا منظر تھا، مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی تھی۔
                                 #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط