Episode 65 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 65 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

جسپال اور تانی آتے ہی سو گئے تھے۔ دوپہر کے بعد جا کر ان کی آ نکھ کھلی تو وہ نہا دھو کر فریش ہو گئے۔ سارہ ان کے لئے کھانا بنا چکی تھی۔ کھانے کی میز پر بدر نہیں تھا۔ ان دونوں کے ساتھ وہ چاروں تھے۔ سارہ، شاہد معین، اس کا باپ اور بیٹا مراد۔ وہ کھانے کے ساتھ باتیں بھی کرنے لگے۔اسی دوران جسپال نے پوچھا
” بدر کہاں گیا؟“
” تم لوگوں کو چھوڑ کر گیا ہے ، ابھی تک واپس نہیں آیا اور نہ ہی کوئی اطلاع ہے۔
“ سارہ دھیرے سے بولی تو اُس نے پوچھا
” کچھ بتا کر گیا ہے؟“
” نہیں، کہہ رہا تھا کہ شام تک لوٹ آئے گا۔“
” اوکے۔“ جسپال نے کہا اور کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وو کھا پی چکے تو وہ دونوں واپس کمرے میں آگئے۔ تانی بیڈ پر پھیلتے ہوئے بولی
” یہ مہرل شاہ والا کانٹانہ ہوتا تو اب تک ہم واپس جمال کے پاس جا چکے ہوتے۔

(جاری ہے)

” یہ تو ہے ، ویسے ہم نے فون کر کے بھی معلوم نہیں کیا کہ ان کا حال کیا ہے ۔
“ جسپال نے پوچھا
” تو انہوں نے ہمارا کون سا حال پوچھ لیا ہے ۔“تانی نے جلے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ پھر بولا
” تم تو یوں کہہ رہی ہو جیسے ہم نے لوٹ کر ان کے پاس جانا ہی نہیں ہے۔“
” جانا تو ہے ، اگر زندگی نے ساتھ دیا تو۔“ وہ افسردگی سے بولی تو اس نے کہا
” تم ایسے کرو، کچھ دیر مزید آرام کر لو۔
لگتا ہے ابھی تم فریش نہیں ہوئی۔“
” میں فریش ہی ہوں لیکن اگر تم میرے ساتھ باتیں نہیں کرنا چاہتے تو یہ الگ بات ہے۔“ تانی نے کاندھے اُچکاتے ہوئے کہا تو جسپال نے محض اسے ہنسانے کی خاطر رومانوی لہجے میں کہا
” کاش تانی تم میری محبوبہ ہوتی تو میں اب تک تیری یہ افسردگی دیکھ کر تجھے باہر گھمانے پھرانے لے جاتا، تجھے شاپنگ کراتا، کھانا کھلاتا ، سیر کراتا۔
” جسپال ، تم ایسا کرو پلیز، چند گھنٹوں کے لئے مجھے محبوبہ بنا ہی لو۔ کم از کم یہ حسرت تو نہ رہے گی۔“ اس نے غصے میں کہا تو جسپال پھر سے ہنس دیا پھر ایک دم سے افسردہ ہوتا ہوا بولا
” پتہ نہیں ہر پریت کس حال میں ہوگی۔ میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ میں اس کے پاس لوٹ کر ضرور جاؤں گا ۔ پر ربّ جانے ، یہ ہو گا بھی یا نہیں۔ پتہ نہیں وہ میرا انتظار ہی کرتی رہے گی۔
” اوئے ہمیں ہو کیا گیا ہے۔“ تانی نے ایک دم سے خود پر قابو پا کر کہا ، دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہنس دئیے۔ تبھی جسپال نے کہا
” چل آ چلتے ہیں باہر، دیکھا جائے گا ، جو ہوگا۔“
اس پر تانی نے ذرا سوچا اور ایک د م سے تیار ہوگئی۔ وہ دونوں کمرے سے نکل کر باہر ڈرائینگ روم میں آئے تو سامنے صوفے پر بدر کے ساتھ شاہد اور بچل بیٹھا ہو ا تھا۔
ان کے سامنے دوسیاہ بیگ پڑے ہوئے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی بدر نے کہا
” اچھا ہوا تم دونوں بھی آگئے یار۔“ 
” خیرہے ؟“ جسپال پوچھتے ہوئے سامنے صوفے پر بیٹھا تو تانی بھی ساتھ میں بیٹھ گئی۔
” یہ ہمارا حصہ لے کر آیا ہے ۔“ بدر نے سنجیدگی سے کہا تو جسپال نے حیرت سے کہا 
” حصہ؟“
” ہاں وہی جو پرسا رام کے گھر سے لوٹا گیا تھا۔
” وہ سب انہیں دے دو،جنہوں نے ہماری مدد کی تھی۔وہ وہیں کے مقامی لوگ تھے نا۔“ جسپال نے کہا
” اوہ یار پوری بات سن لو، پرسا رام کے گھر سے کروڑوں روپے نکلے ہیں، سمجھو بوری بھر لی تھی انہوں نے ، وہ اُن کے لئے بہت بڑی رقم ہے ۔ یہ دونوں بیگ سونے سے بھرے ہوئے ہیں۔نجانے کس کس کا خون چوستا رہا ہے ساری عمر۔ ایک پوری پوٹلی ہیروں کی ہے۔
“ بدر نے تفصیل بتائی
” واؤ۔! مطلب کافی خزانہ ملا ہے ۔خیر ، یہ بھی رکھ لیتے۔“ اس نے کہا
” ارے نہیں یار ، ان کے لئے وہی بہت بڑی دولت تھی ۔ یہ زیور اور ہیرے انہیں کہیں بھی پھنسا سکتے ہیں۔ظاہر ہے انہوں نے اسے کہیں تو بیچنا تھا نا، یہ ان لوگوں نے لئے مصیبت بن سکتاہے ، سوانہوں نے ہماری طرف بھیج دیا ہے۔“
” بچل،یہ تم رکھ لو۔
“ جسپال نے کہا
” نا سائیں ، یہ شے ہمارے لئے خطرناک ہے ،ہمیں وہاں سے جو نوٹ مل گئے ہیں نا وہی کافی ہیں ۔ یہ آپ جانو اور آپ کا کام، اس کے بعد ہم ایک دوسرے کے واقف بھی نہیں ہیں۔“اس نے تیزی سے کہا۔پھر اُٹھ کر سب سے ہاتھ ملایا ،کچھ کہے بغیر باہر نکل گیا۔ 
” تم لوگ اسے ٹھکانے لگا لو گے؟“ تانی نے پوچھا تو شاہد بولا
” یہ ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
یہ ڈھل جائیں گے تو ان کی پہچان ہی نہیں رہے گی۔ ہیرے بہرحال کچھ …“ وہ کہتے کہتے رک گیا تو بدر نے کہا
” شاہد بھائی ، تم اس کا جو مرضی کرو،لیکن یہ یاد رکھو کہ ہمیں ابھی کچھ دیر بعد یہاں سے نکل کر کلفٹن کے علاقے میں شفٹ ہونا ہے۔اگرچہ یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے ،لیکن میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا ہوں۔“
”اوکے ،میں تیار ہوں۔“ شاہد نے اُٹھتے ہوئے کہا تو بدر نے دونوں بیگ اسے تھما دئیے تو جسپال نے افسردگی سے کہا
” یار ہم تو باہر جانا چاہتے تھے اور تم پھر خانہ بدوش ہو رہے ہو۔
” باہر کہاں جانا ہے ؟“ بدر نے پوچھا
” یار ، کوئی کپڑے خریدیں گے، کچھ کھائیں پئیں گے، تھوڑی بہت سیر کریں گے۔ “اس نے کہا تو بدر نے مسکراتے ہوئے کہا 
” یار ، کچھ دیر ٹھہر جاؤ،میں کسی کو بلاتا ہوں ، اس کے ساتھ بھیج دوں گا۔ اس دوران ہم شفٹ کر لیں ۔ آپ لوگ ادھر ہی آ جانا۔“
” اوکے۔“ تا نی نے ایک دم سے کہا اور ڈرائینگ روم میں ہی ٹی وی لگا کر بیٹھ گئی۔
سہ پہرکے بعد شام ہونے کو آ گئی تھی، جب ایک نئی سرخ کار انہیں لے کر شہر کی جانب نکلی۔ گہرے سانولے رنگ کا بلوچی ان کا ڈرائیور تھا۔ کچھ دیر سڑک پر چلتے رہنے کے بعد اس نے بہترین انگریزی میں پوچھا
” سر،کدھر جاناہے آپ کو؟“
” کچھ کپڑے خریدیں گے، کھائیں پئیں گے اور سنا ہے کراچی ساحلِ سمندر پر ہے ، ساحل دکھا لاؤ۔“
” ٹھیک ہے سر۔
“ اس نے کہا اور پھر سامنے دیکھ کر ڈرائیونگ کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک بڑے شاپنگ پلازہ کے سامنے کار روک دی ۔ چند لمحے ادھر اُدھر دیکھا پھر ان سے بولا،” آپ ادھر شاپنگ کرو ، میں ادھر کار میں انتظار کرتا ہوں ۔“
جسپال اور تانی شاپنگ پلازہ میں گھومتے ہوئے اپنی پسند کے کپڑے خریدتے رہے۔ کچھ دیر وہاں گذار کر وہ باہر نکل آئے۔ شہر میں پھرتے رہنے کے بعد وہ کلفٹن روڈ پر تین تلوار کی طرف سے ساحل سمندر جا رُکے ۔
جیسے ہی بلوچی نے کار روکی ، جسپال نے پوچھا
” یہ کون سی جگہ ہے؟“
” یہ بن قاسم پارک ہے، یہ گنبد اور وہ سامنے چبوترہ ،یہ جہانگیر کوٹھاری کے نام سے مشہور ہے، کافی پرانا ہے ۔“تانی نے کہا
”یہ پارک لگتا ہے ،نیا بنا ہے۔“ جسپال نے کہا
” جی، یہ سیدھے جائیں گے تو بن قاسم روڈ ہے۔ اس سے آگے بھی پارک ہے ۔ ساحل سمندر وہ سامنے ہے۔
آپ کہیں تو میں آپ کو ادھر…“ بلوچی نے جواب دیا توجسپال بولا
” ٹھیک ہے ،اچھا ہے، پیدل وہاں تک جائیں گے ، چہل قدمی ہی ہوگی ۔چلیں۔“
” آپ اُدھر جا کر سکون سے بیٹھیں ، گپ شپ کریں، وہاں ساحل تک جائیں،میں آپ کے لئے کھانے کا آرڈر دے دوں ، ویسے کیا کھانا پسند کریں گے آپ؟“ بلوچی نے مودب لہجے میں پوچھا
” یہاں کے راویتی کھانے۔
“ تانی نے فوراً جواب دیا تووہ سر ہلاتے ہوئے بولا
” میں آپ کو ادھر ہی ملوں گا۔“ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
 وہ دونوں آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ایک جگہ تانی نے رک کر ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھا اور کچھ دیر تک دیکھتی رہی۔ جسپال اس کے چہرے پر دیکھ رہا تھا۔ پتلی سی، نازک اور سمارٹ سی دکھائی دینے والی تانی کتنی خوبصوت ہے۔ اس کا سراپا کسی کو بھی پاگل کر دینے کے لئے کافی تھا۔ کمر گویا ہے ہی نہیں، بھاری سینہ، لمبی گردن، تیکھا ناک اور شولڈر کٹ گیسو، جو ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اچانک وہ مڑی اور جسپال کے چہرے کی طرف دیکھ کر کھوئے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط