Episode 66 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 66 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” اچھا تم کیا بات کر رہے تھے ہرپریت کے بارے میں صبح؟“ 
اس کے یوں پوچھنے پر جسپال کی آنکھوں کے سامنے ہر پریت کا سراپا لہرا گیا۔ اُسے ہر پریت شدت سے یاد آگئی ۔وہ ایک دم سے جذباتی ہو گیا۔ وہ چند لمحے اسے سوچتا رہا پھرپیار بھرے لہجے میں بولا
” کیا یاد کرنا ہے اسے ،بس وہ انتظار کر رہی ہوگی ، کتنا عرصہ ہو گیا ہے ، اسے فون بھی نہیں کیا ۔
وہ تو پریشان ہو گئی ہوگی نا۔“
” جسپال،یہ زندگی بھی کیا شے ہے ، بندے کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اگلے پل کیا ہونے والاہے اور پھر بھی کتنوں کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے ۔ کتنے وعدے ، کتنا پیار ، چیزوں کے ساتھ ، انسانوں کے ساتھ، پر ہوتا کیا ہے ، کچھ بھی نہیں ایک دم سب کچھ ختم ہو کے رہ جاتا ہے ۔“ تانی دور آسمان پر پھیلے ہوئے بادلوں کو دیکھتے ہوئے بولی تو جسپال چونک گیا۔

(جاری ہے)

اس نے پیار سے تانی کا ہاتھ پکڑا اور اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا
” تانی ، اتنی مایوسی کیوں ؟“
اس پر وہ ہلکے سے مسکرا دی ،پھر اپنا سر جھٹکتے ہوئے اس کی جانب دیکھ کر بولی
” نہیں میں مایوس نہیں ہوں، بلکہ یہ سوچ رہی ہوں کہ ہم جسے چاہتے ہیں اس سے اتنا دور کیوں ہو جاتے ہیں؟ دیکھو، تم اور ہر پریت ایک دوسرے سے کتنا دور ہو ، میں اور جمال کہاں کہاں بھٹک رہے ہیں ۔
تمہارے اور ہر پریت کے درمیان کوئی نہیں ہے ،لیکن مجھے تو یہ بھی پتہ کہ جمال میراہے بھی یا کہ نہیں، میں اس کے لئے اپنا آپ وا رچکی ہوں، اسے شاید اس کا احساس بھی نہیں ہوگا۔“
” ہاں ۔ ! یہ بندے کی سوچ ہی تو ہے۔جو اسے دور کرتی ہے یا پھر نزدیک، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم خود ہی یہ سارا جھنجٹ پال لیتے ہیں؟“ جسپال نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
” ہاں، شاید تم سچ کہتے ہو۔
جب تک میں نے جمال کو دیکھا نہیں تھا۔ ا س کی صورت میرے سامنے نہیں آئی تھی، تب بلاشبہ وہ ایک آئیڈیل کی صورت میں میرے لاشعور میں پڑا تھا۔ وہ سامنے آیا تو ایک دم سے مجھے خود اپنے اندر پڑی محبت کا احساس ہوا ۔ ورنہ اس سے پہلے میں ایسی کہاں تھی ۔ اپنے آپ سے لاپرواہ، وہیں روہی کے صحرا میں پڑی تھی ۔ اس کی محبت نے مجھے یہاں لا کر پھینک دیا ہے اور اب بھی اسکے پاس نہیں ہوں۔
یہ سب میرے اپنے اندر ہی تو چل رہا ہے، میں اپنی سوچوں ہی کے تابع سب کرتی چلی جا رہی ہوں، اس میں جمال کا تو کوئی بھی قصور نہیں ہے۔“
” بالکل ایسے ہی ہے ۔ ہر پریت کو میں نے پہلے کون سا دیکھا ہوا تھا ۔ اس کی صورت سامنے آئی تو ہی میں اس پر نہال ہو گیا ہوں۔“ جسپال نے کہا
” میں اکژ سوچتی ہوں، یہ ہماری اپنی ہی محبت ہے، جو اپنا آپ ظاہر کرتی ہے ، اپنے ہونے کا احساس دیتی ہے۔
ہمارے اندر ، جیسی محبت ہوگی ، ویسا ہی اظہار کرے گی نا۔“ تانی نے دھیمے لہجے میں کہا
” مثلاً کیسے ؟“ جسپال نے پوچھا
” دیکھو، جو مغربی قوم ہے ، محبت اس میں بھی ہے ، لیکن وہ جسم کی ضرورت کو محبت کا نام دیتے ہیں، ان کے ہاں پیار اور محبت کا مطلب فقط جنس ہے۔ بہت کم وہ محبت ہے جو جسم کی ضرورت سے ماورا ہیں، جبکہ ہمارے ادھر مشرق میں،ایسی محبت کو محبت کا قتل تصور کیا جاتا ہے ، جسم سے ماورا ہو کر محبت کی جاتی ہے۔
میں اس پہ بحث نہیں کرتی کہ ان دونوں میں کیا خوبی ہے اور کیا خامی ہے، میں کہنا یہ چاہتی ہوں کہ یہ ہمارے اندر کا تصور ہے جسے عملی صورت میں ہم ظاہر کرتے ہیں۔“ تانی نے دھیرے سے کہا اور ایک بنچ پر آکر بیٹھ گئی ،جبکہ جسپال کھڑا رہا
” تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ ہماری اپنی سوچ ہی کسی کے ساتھ محبت یا نفرت کا باعث بنتی ہے ۔“ اس نے پوچھا تو وہ تیزی سے بولی
” بالکل، اگر ہمارے اندر محبت نہیں ہو گی تو وہ کیسے ظاہر ہو گی ، خالی برتن میں سے کیا نکلے گا ؟“
” ہاں ، یہ بات تو ہے ، ویسے ہم کچھ زیادہ ہی سنجیدہ باتیں نہیں کرنے لگے؟“ جسپال نے ہنستے ہوئے کہا
” نہیں ، یہ سنجیدہ باتیں نہیں ہیں، یہ تو عام سی بات ہے ، اصل میں ہم ا پنے اندر جھانکتے ہی نہیں۔
کتنی عجیب بات ہے نا کہ ہم اپنے لئے وقت ہی نہیں نکالتے ، ہم جو ہیں ، اپنے بارے میں جانتے ہی نہیں؟“ تانی پھر سے سنجیدہ ہونے لگی تو جسپال بولا 
” یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو ، انسان نے اپنے بارے میں تحقیق اتنی کر لی ہے ،جس کا کوئی انت نہیں۔“ جسپال نے کہا تو وہ ہنس دی ۔ 
” کتنی کر لی ہے ، کچھ بھی نہیں۔ اگر انسان نے اپنے بارے میں تحقیق کی ہوتی ، اپنے اندر جھانک کر دیکھا ہوتا تو ہم اس جگہ یوں نہ کھڑے ہوتے، یہ گولی ایجاد بھی نہ ہوتی اور ہر طرف جنت کا نظارا ہوتا۔
“ وہ مسکراتے ہوئے بولی تو جسپال نے کہا
” یہ تم نے اتنی موٹی موٹی باتیں کہاں سے سیکھیں ہیں، ویسے تمہارے بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم،کبھی اس طرح کی بات ہی نہیں ہوئی ۔“
”دیکھو، اب میرے بارے میں جاننے کا تجسس کہاں ہے ، تمہارے اندر تھا نا ، باہر آ گیا۔“ وہ تیزی سے بولی تو جسپال نے کہا 
” تم میرا سوال گول کر گئی ہو۔“
” نہیں ، ابھی وقت نہیں ہے اس جواب کا، پھر کسی وقت جواب دوں گی۔
“ اس نے کہا اور مغرب کی جانب دیکھا۔جہاں سورج نے افق کو سرخ کر دیا ہوا تھا، جس کی گواہی بادل بھی دے رہے تھے۔ تیز ہوا سے ان کا لباس جسم سے چپک کر رہ گیا تھا۔
” واپس چلیں۔“ جسپال نے پوچھا 
”دل تو یہی چاہتا ہے کہ یہاں سکون سے بیٹھی رہوں ۔ لیکن کب تک بیٹھوں گی یہاں، آخرجانا توہے۔“ یہ کہہ کر وہ اُٹھ گئی ۔ دونوں چلتے ہوئے پارک سے باہر جانے والے راستے پر ہوگئے۔
وہ دھیمی چال چلتے موسم کا لطف لیتے ہوئے جا رہے تھے۔ انہیں سامنے کھڑا ہوا بلوچی دکھائی دے رہا تھا۔ اس سے کچھ فاصلے پر ان کی وہی سرخ کار کھڑی تھی۔ ملجگا اندھیرا چھا گیا تھا۔ شہر کی بتیاں روشن تھیں۔ چند قدم کے بعد وہ کار میں جا کر بیٹھنے والے تھے کہ اچانک سامنے سڑک پر ایک کار تیزی سے آن رکی۔ اسی کے پیچھے ایک ڈبل کیبن فور وھیل رک گئی۔
ان گاڑیوں کے رکنے کے انداز ہی سے دونوں چوکنا ہو گئے۔ اگلے ہی لمحے کار کا پچھلا دروازہ کھلا اور اس میں سے گن کی نال برآمد ہوئی۔ اس سے پہلے کہ فائر ہوتا، وہ زمین پر لیٹ گئے۔ یہ فطری بات تھی کہ وہ سر یا دل کا نشانہ لیتے۔ وہ فوری طور پر ان کے حملے سے بچ گئے۔ ایک دم ہی سے کئی فائر ہوئے تھے۔ پارک کا گیٹ چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ وہ دونوں ہی لڑھکتے ہوئے اس کی آڑ میں چلے گئے تھے۔
اچانک دوسرابرسٹ ہوا۔ تب تک جسپال نے اپنا پسٹل نکال لیا تھا۔ اسی لمحے تانی کے ہاتھ میں بھی پسٹل دکھائی دیا۔ انہوں نے سامنے دیکھ کر جوابی فائر کرنا چاہا ، لیکن سامنے دونوں گاڑیاں پر کئی فائر لگے ہوئے تھے۔ جسپال نے ادھر ُادھر دیکھا، ذرا سے فاصلے پر بلوچی اپنا پسٹل لئے پوزیشن میں تھا۔ اور اس سے پیچھے کافی سارے لوگ گنیں لئے ان گاڑیوں پر فائر کر رہے تھے ۔
تب جسپال کو احساس ہوا کہ گھر سے بھیجنے میں بدر کو اتنی دیر کیوں ہو گئی تھی۔ ایک پورا گروپ اس کے ساتھ نگرانی کو بھیجا گیا تھا۔ سامنے سے کوئی فائر نہیں کر رہا تھا۔ وہ یہ سوچ ہی رہاتھا کہ کم از کم گاڑیوں کے ٹائر ہی پنکچر کر دیئے جائیں ، ان کی پشت سے کئی فائر ہوئے۔ جن میں سے کچھ باڈی پر لگے اور دونوں کے ٹائر یکے بعد دیگرے زور دار آواز سے پھٹ گئے۔
اس کے ساتھ اس میں سے کچھ بندے نکلے اور انہوں نے بھاگنے کے لئے سڑک پار کر نا چاہی۔ اسی لمحے سامنے سے دو افراد نے ان کو نشانے پر لے لیا۔ ان میں سے کسی نے جوابی فائر کیا، کوئی سڑک پر گر گیا۔اگلے چند لمحوں میں وہ سب گرا لئے گئے۔ وہ سب تیزی سے آگے بڑھے۔ اتنے میں ان کے قریب ایک ہائی ایس وین آ کر رک گئی ۔ ساتھ میں کیری ڈبہ تھا، انہوں نے ان سب کو اُٹھاکر ان گاڑیوں میں پھینکا اور چل دئیے۔
ایک دم سے ماحول پر سکون ہو گیا۔ وہاں پر موجود لوگ جو سہمے ہوئے تھے ، آہستہ آہستہ باہر آنے لگے تھے۔ 
” سر ! آ جائیں ، اب کوئی نہیں ہے ادھر، کھانا کھاتے ہیں۔“
” نہیں، اب بھی کوئی ہو سکتا ہے ، محتاط رہو، جو ہمارے بارے میں یہ جان سکتا ہے کہ ہم کدھر ہیں ، وہ درست پلاننگ بھی کر سکتا ہے۔“ جسپال نے اسے سمجھایا تو وہ بولا
”سر، یہ اصغر ڈکیت کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں ہے۔
ان کا طریقہ واردات ہم جانتے ہیں۔“
” بحث نہیں ، اب نکلو، “ تانی نے کہا تو بلوچی کاندھے اچکا کر رہ گیا۔ وہ کار میں بیٹھ گئے تھے ، اسی وقت بدر کا فون آ گیا
” سنا ہے کوئی راہ میں مل گیا تھا؟“یہ کہتے ہوئے اس نے بھر پور قہقہہ لگا دیا
” ہاں ، باقی سب بھی سن لیا ہوگا۔“ جسپال نے جواب دیا تو اس نے کہا
” اب کیا پروگرام ہے ؟“
” واپس آ رہا ہوں گھر ۔
“ جسپال نے جواب دیا 
” نہیں ، وہ کیوں ، کھانا تو کھاؤ یار،وہ تیار ہے اور تمہارا انتظار کر رہا ہے۔“ بدر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا تو جسپال بولا
” اب مزہ نہیں آئے گا یار، ممکن ہے ادھر …“
” تم کھاؤ کھانا، رزق کو یوں چھوڑ کر نہیں جاتے ۔ ربّ ناراض ہوتا ہے۔“ اس نے کہا تو وہ بولا
” اوکے ، میں کھانا کھا کر ہی آتاہوں۔
“ 
یہ سن کر اس نے فون بند کر دیااور بلوچی سے ریستوران کی طرف جانے کو کہا ۔ 
وہ ایک بانسوں سے بنا ہوا جدید طرز کا ریستوران تھا۔ جو ساحل کے اوپر تھا اور نیچے پانی کی لہریں تھیں ۔ سامنے ہی بدر بیٹھا ہوا تھا، جو اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ جسپال اور تانی اس کے سامنے بیٹھتے گئے تو وہ بولا
” تمہیں یہاں تنہا چھوڑ دوں یا پھر کوئی تم دونوں کو خراش بھی لگا جائے تو میرا ہونا تو پھر نہ ہوا نا باؤ جی ۔
“ اس نے پنجابی میں کہا تو جسپال ہنس دیا ، اس پر تانی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا
” زیادہ مت ہنسو، کوئی اب بھی یہاں ہو گا۔“
” کوئی نہیں ہے میڈم ، اس وقت یہاں جتنے بندے ہیں ، یہ سب ہمارے ہیں۔ باہر بھی ، سب کھا پی رہے ہیں۔ پلیز آپ بھی ذرا ان خوبصورت لبوں پر مسکراہٹ لے آئیں۔“ بدر ایک دم سے شوخ ہو گیا تھا۔ فطری طور پر تانی مسکرا دی تو جسپال نے پوچھا
” اصغر ڈکیت ہی کے بندے تھے ؟“
” ہوں ، وہی تھے، مہرل شاہ نے انہیں بجھوایا تھا، میں جانتا تھاکہ وہ ایسا کرے گا۔
” تم مجھے بتا دیتے، میں …“ جسپال نے کہنا چاہا تو وہ اس کی بات کاٹ کر بولا
” نا جانی ایسا مت کہہ۔ تو نے یہاں آکر ایک یہی تو خواہش کی تھی۔ “ وہ مسکراتے ہوئے بولا تو جسپال نے پوچھا
” انہیں ہمارے بارے میں کیسے پتہ چل گیا کہ ہم کہاں پر ہیں؟“
” دیکھ جانی ، یہ علاقہ میرا ہے۔ یہاں میرے بارے جاننے کو بہت سارے لوگ ہیں۔
انہیں اس وقت بھی معلوم ہوگا کہ میں کہاں پر ہوں۔“ بدر نے کہا
” تو یہ خطر ناک بات ہے۔“ تانی نے تیزی سے کہا تو وہ اطمینان سے بولا
” نہیں ، میں خود آیا ہوں ان کے سامنے ، اگر نہ آتا تو اس وقت ان کے بندے کیسے ہاتھ چڑھتے اور پھر وہ لوگ اس وقت کچھ ایجنٹوں کے ہاتھ میں ہیں۔ مہرل شاہ کوئی معمولی شے نہیں ۔ نہ ہی وہ پرسا رام ہے کہ جسے ہم یونہی مار دیں گے۔
اس کے لئے بہت سوچنا ہوگا اور پلان بنانا ہوگا۔“
اسی دوران کھانا ان کے سامنے لگایا جانے لگا تو جسپال نے کہا
” اوکے، فی الحال رزق سامنے آ گیا ہے، اب اس پر توجہ دو۔“
” وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن اس کھانے کے بعد ہم چار بندے یہاں سے نکل رہے ہیں ، مہرل شاہ کی طرف، دیکھا جائے گا۔“ بدر نے کہا تو جسپال نے مسکراتے ہوئے ، سر ہلا دیا۔
                            #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط