میری آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں ہوا کہ وقت کیا ہوگیا ہوگا۔ میں بیڈ پر پڑا اپنے حالات کے بارے میں سوچتا رہا۔ ان میں جہاں میں کرنل سرفراز کے بارے میں سوچتا، اسی کے ساتھ روہی والے بابا جی بھی میری نگاہوں کے سامنے آ جاتے۔ میرا موت کے منہ سے نکل آنا، دریا پار کرنے میں ان کتوں کی مدد کرنا، جو مجھے ہی چیرنے پھاڑنے کے لئے آئے تھی اور لب دریاروہی والے بابا جی کا ملنا، ان کی باتیں اور پھر کرنل سرفراز کا مل جانا، مجھے سب ایک ہی سلسلے کی کڑی لگ رہے تھے۔
ایک بات میرے ذہن میں چبھی ہوئی تھی ۔ وہ یہ کہ بابا جی نے روہی میں جب ملاقات کی تھی۔اس وقت یہ کہا تھا کہ ہم فقط دو بار ہی ملیں گے ،لیکن وہ اب تک مجھے کئی بار مل چکے تھے۔ کیا ان کا کہنا غلط تھا؟ اگرکہنا درست تھا تو مجھے کیوں اور کیسے مل رہے تھے؟ کیا یہ بھی کوئی راز ہے ۔
(جاری ہے)
میں نے طے کر لیا کہ اس دفعہ اگر ان سے ملاقات ہوئی تو یہ بات ان سے ضرور پوچھوں گا۔
کرنل سرفراز کی شخصیت بھی مجھے بڑی ماورائی سی لگ رہی تھی ۔ بظاہر اتنا سادہ بندہ، اتنا مشفق، میرے قے کی بدبو جسے محسوس بھی نہیں ہوئی ، اتنا بڑا محل نماگھر اور وہ خود میری خدمت کر رہا ہے ۔ حالانکہ اس کے نوکر بھی مجھے دکھائی دئیے تھے۔ میں سوچتا رہا۔جب اکتا گیا تو بیڈ سے اُٹھا اور کمرے میں روشنی کرنے کے لئے اُٹھا۔ انہی لمحات میں کمرہ روشن ہو گیا۔
کرنل سرفرازمیرے سامنے کھڑا تھا ، اس کے لبوں پر دھیمی سی پروقار مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ آگے بڑھا اور بیڈ پر میرے ساتھ بیٹھتے ہوئے آہستہ سے پوچھا
” کیسی طبیعت ہے اب؟“
” بہت اچھی ، بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں۔“
” گڈ۔! اس کا مطلب بھوک بھی لگی ہوگی۔“ اس نے کہا تو میری بھوک ایک دم سے جاگ گئی۔ میں نے ہلکے سے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا
” جی ، بھوک تو لگ رہی ہے۔
“
” آؤ پھر ڈرائینگ روم میں چلتے ہیں۔“ اس نے کہا اور اُٹھ گیا۔ میں اس کے ساتھ چلتا ہوا ڈرائینگ روم میں آ گیا۔ کھانے کی میز بھری پڑی تھی۔ ہم وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ اس دوران کرنل سرفراز نے میری طرف دیکھ کر پوچھا
” چوہدری شاہنواز کے بارے میں جانتے ہو کہ اسکے ساتھ کیا ہوا؟“
” نہیں ،میں معلوم کر ہی نہیں پایا اس کا مجھے موقعہ ہی نہیں ملا۔
“ میں نے وضاحت کرتے ہو کہا
” وہ اس وقت خفیہ والوں کے پاس ہے۔ وہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھا، اس کے ثبوت مل گئے ہیں۔“ کرنل سرفراز نے بتایا
” کیا کر رہا تھا وہ ؟“میں نے پوچھا
” اس نے تمہارے علاقے میں بھارتی خفیہ کا سنٹر بنایا ہوا تھا۔باہر سے لوگ یہاں آتے تھے اور وہ یہاں سے اُنہیں آگے بھیج دیتا تھا۔ مطلب انہیں ہر طرح کا تحفظ دیتا تھا۔
دوسرا وہ سیاست میں سر گرم ہی اسی لئے تھا کہ علاقے میں جرائم پیشہ لوگوں کو تحفظ دے اور ان کے ذریعے لوگوں کوخوف زدہ رکھے ۔ان میں قتل ، اغوا، ڈکیتی کی واردتیں شامل ہیں ۔ “ کرنل سرفراز نے تفصیل سے بتایا
” مطلب ،سب کچھ جو ہمارے ملک میں جاگیر دار کر رہے ہیں، اسی کی آڑ میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔ ویسے کتنا بڑا المیہ ہے کہ یہ لوگ ملک اور عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہی جاگیردار ،وڈیرے اس ملک کے سیاست دان بنے ہوئے ہیں۔
عوام بے چاری…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولا
” عوام بے چاری نہیں ہے ۔یہ رب تعالی کا فرمان ہے کہ جو قوم اپنی حالت نہیں بدلنا چاہتی، وہ اس قوم کو اسی حال میں رکھتا ہے ، جس میں وہ پڑی ہوئی ہے ۔ یہ قصور اس قوم ہی کا ہے کہ وہ خود پر ظلم کروا رہی ہے ۔“ اس نے کافی حد تک جذباتی ہوتے ہوئے کہا
” بات تو ساری شعور کی ہے نا جی ۔
اس قوم کو شعور ہی نہیں ہے کہ وہ خودمیں کیا ہیں۔“ میں نے کہا تو کرنل سرفراز ایک دم سے مسکرا دیا اور پھر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیرے سے بولا
” جمال،تم ایک قوم کی بات کر رہے ہو۔ میں کہتا ہوں ، خود انسان اپنے آپ کے سامنے رکاوٹ ہے، اور اسے احساس ہی نہیں ہے ۔“
” رکاوٹ ،کیسی رکاوٹ، ہر انسان ترقی چاہتا ہے ، اگر مجموعی طورپر دیکھیں تو انسان نے کتنی ترقی کرلی ہے۔
اس نے اس دنیا کو کیاکچھ نہیں دے دیا۔“ میں نے تیزی سے کہا
” کس چیز کی ترقی ،کس میں ترقی؟ انسان کا اصل مقصد کیا ہے ؟کیا اس میں انسان نے ترقی کر لی ہے یا ، اس کا پہلے سے بھی زیادہ بُرا حال ہو گیاہے؟“
” ہاں،یہ تو ہے کہ اگر انسان نے کسی شے میں ترقی کی ہے ،تو اسی قدر اپنی تباہی کے لئے بھی سامان کرلئے ہیں۔“ میں نے اسکی بات تسلیم کرتے ہوئے کہا تو وہ بولا
” کیاانسان کا دنیا میں آنے کا یہی مقصد ہے ؟“
” تو پھر اور کیا ہے ۔
یہی کہ انسان اپنے رب کی عبادت کرے ۔ اس کے مطابق چلے ۔“
” یہ سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے بھی انسان اپنی ہی تباہی کے درپے کیوں ہو گیا ہوا ہے ۔ یہاں تک کہ خون کے رشتے بھی ، ایک دوسرے کا خون بہا دیتے ہیں۔ یہ جو اتنی خون ریزی ہو رہی ہے ، اور غور کرو تو ہر مذہب کا بندہ ایک دوسرے سے لڑ رہا ہے۔ ہم ہندوؤں کے خلاف لڑ رہے ہیں، ہندو ہمیں ختم کرنے کے درپے ہیں، سکھ اور ہندو لڑ رہے ہیں۔
عیسائی دنیا اسلام کو ختم کر دینا چاہتی ہے ۔ یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی تگ ودو میں ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ایک نئی قوت پیدا ہو گئی ،جو مذہبی لوگوں کے خلاف ہے اور انہیں ختم کر دینا چاہتی ہے ۔ ہرمذہب کے لوگوں میں فرقے ہیں، وہ ایک دوسرے کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ کیا ہے یہ سب کچھ۔ یہ بم دھماکے ،یہ دہشت گردی یہ کیا ہے؟“
” میرے خیال میں جو ربّ تعالی سے ڈرنے والے لوگ ہیں وہ ایسا نہیں کرتے۔
“میں نے دلیل دیتے ہوئے کہا تو وہ بولا
”میں مان لیتا ہوں۔ مگر ایساکیوں ہے کہ جو ساری دنیا کے مذہبی رہنما ہیں، انہی کے ہاتھوں زیادہ خون ریزی ہو رہی ہے ۔کیا تم اخبار نہیں پڑھتے، خبروں کونہیں جانتے ۔ قران کو جلانے کا واقعہ کسی عام آدمی نے تو نہیں کیا اور اگر ان کی فہرست بتائی جائے تو بہت طویل ہے ، لیکن میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں مذہبی لوگوں کو تشدد پسند ثابت کرنا چاہتا ہوں ۔
میں تو مجموعی انسانیت کی بات کرتا ہوں کہ بحیثیت انسان، ہم کیا کر رہے ہیں۔“کرنل سرفراز نے سمجھاتے ہوئے کہا تو میں نے کہا
” ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں نا کہ مذہبی لوگوں کے لبادے میں آ کر انسانیت دشمن اپنا وار کر رہے ہیں؟“
” تم اسے اس نکتہ نگاہ سے دیکھ لو ۔ جیسے بھی دیکھو، نتیجہ یہی ہے کہ انسان مر رہاہے ، اس کی صورت کوئی بھی ہو۔
“ اس نے میری طرف دیکھ کے کہا
” یہ المیہ تو ہے ، آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہے ، اس کی وجہ ہے آپ کے ذہن میں؟“ میں نے پوچھا تو وہ اپنا سر ہلاتے ہوئے بولا
” یہی سوال ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔“
” تو پھر سمجھائیں نا آپ؟“ میں نے تجسس سے کہا تو وہ بولا
” ضرور ، کیوں نہیں ، تم یہ بات سمجھ جاؤ ،شاید اسی لئے تم یہاں ہو ۔
میں تمہیں دلیل اور ثبوت کے ساتھ یہ بات سمجھاؤں گا ،لیکن ابھی نہیں۔ تم ٹھیک ہو جاؤ اور میری بات سمجھنے کے قابل ہو جاؤ ۔“
” ٹھیک ہے ۔“میں نے کہا تو وہ بولا
” ابھی تم یہاں سے جا کر اپنی میڈیسن لینا اور کچھ بھی سوچے بغیر سکون سے سو جانا۔“ یہ کہہ وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔
#…#…#