Episode 71 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 71 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” اس لئے کہ میں دیکھوں ، ان کا پیچھا کرنے والا کوئی ہے کہ نہیں؟“ مہر سکندر نے سکون سے کہا
” تو کوئی…؟“ تانی نے تشویش سے پوچھا
” نہیں، کہیں بھی ہلچل نہیں ہے ۔ اگر کوئی اس کا ساتھی تھا بھی تو وہ زیر زمین چلا گیا ہے۔ مہرل شاہ کی تلاش بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے ، وہ لوگ اور پولیس والے ہر جگہ تلا ش کر رہے ہیں انہیں۔ان میں سے کوئی چوہا بھی باہر نہیں نکلے گا۔
اور آج رات…“ یہ کہتے ہوئے اس نے ان کے ختم ہو جانے کا اشارہ کیا۔ تانی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”وہ اور مہرل شاہ ایک ہی جگہ قید ہیں ؟ میرا مطلب ہے۔ اگر مہرل شاہ نے ان سے سودے بازی کر لی تو…؟“ تانی نے کہا تو وہ طنزیہ انداز میں بولا
” مہرل شاہ میرا مہمان ہے، وہ اوپر والے کمرے میں سکون سے سو رہا ہے۔

(جاری ہے)

اسے یہی معلوم ہے کہ میں نے اسے جسپال اور بدر سے چھینا ہے اور اب تک یہاں چھپا کر رکھا ہے۔

اور وہ نیچے تہ خانے میں پڑے ہیں۔خیر یہ تمہارے سوچنے کی باتیں نہیں ہیں ، دیکھو، سورج ڈھل رہا ہے، تم آؤ ، آج کی شام رنگین کریں۔“ اس نے اُٹھتے ہوئے کہا تو تانی نے ایک ادا سے کہا
” مہر صاحب، میری شام تو اس وقت رنگین ہو گی جب میں جسپال کے خون سے اپنے ہاتھ رنگوں گی۔ بڑی رات پڑی ہے ، آپ مجھے خوش کریں ، میں آپ کو نہال کر دوں گی۔“ تانی نے یہ لفظ اس طرح خمار بھرے اندازکہے کہ مہر سکندر بن پیئے ہی نشے میں آگیا۔
اس نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو تانی نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ دونوں چلے تو مہر سکندر نے تانی کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا۔
وہ دونوں ہی ڈارئینگ روم میں آگئے۔ وہاں ایک ہی صوفے پر جُڑ کے بیٹھ گئے تو مہر سکندر نے اپنے ملازم سے کہا 
” جاؤ ، ان دونوں کو لے آؤ، ان کا کام ختم کریں لیکن لانا ذرا دھیان سے۔“
” جی ۔
“یہ کہہ کر وہ تیزی سے پلٹ گیا۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہوا ۔ تانی نے خمار آلود آواز میں کہا
” آئیں بیڈ روم میں چلیں۔“
” ابھی چلتے ہیں، وہاں کچھ پینے کا تو بندو بست کرلیں۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک دوسرے ملازم کو سمجھاتے ہوئے کہا،” ہمارا پینے کا شربت ادھر بیڈ روم میں رکھو، کچھ کھانے کا سامان بھی ادھر لاؤ۔“ وہ یہ کہہ کر باہر کی جانب متوجہ ہو گیا۔
جبکہ تانی کے اندر سنسنی پھیلنے لگی تھی۔ وہ اس کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی تھی ۔ ذرا سا وقت گذرا ہو گا کہ اندر ہی کے راستے سے جسپال اور بدر کو لایا گیا۔ ان کے ساتھ چند لوگ اس طرح تھے جیسے وہ کوئی بہت خطرناک لوگ ہوں ۔ ذرا سی کوتاہی سے وہ انہیں ختم کر سکتے ہیں۔ تانی یوں مہر سکندر کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی ، جیسے وہ خوف زدہ ہو گئی ہو۔ جسپال اور بدر اسے یوں گھور کر دیکھ رہے تھے جیسے وہ بہت زیادہ غضب ناک ہوں۔
” تم لوگوں نے جانا ہے نا یہاں سے ، تو جاؤ،“ مہر سکندر نے ہتک آمیز انداز میں کہا تو جسپال بولا
” ٹھیک ہے ، آؤ تانی چلیں۔“
” میں تمہارے ساتھ نہیں جانے والی ، یہ تمہاری فیری نہیں کہ تم مجھے اغوا کر کے کہیں بھی لے جاؤ ، اب تو میں مہر سکندر کے ساتھ رہوں گی۔یہ مجھے بھارت بھجوا دیں گے۔“ تانی نے مہر سکندر کے ساتھ لگ کر کہا تو بدر نے غضب ناک ہوتے ہوئے کہا
” چلتی ہے یا …“
” نہیں نہیں بدر، لڑکیوں کے ساتھ ایسے بات نہیں کرتے ۔
“یہ کہہ کر اس نے اپنا پسٹل نکلا اور اسے تھماتے ہوئے بولا،”تانی، تم جس طرح چاہو، انہیں ختم کر سکتی ہو۔ انہیں ختم کرو اور چلیں بیڈ روم میں…“یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا۔ یہ قہقہہ اس کے حلق ہی میں رہ گیا ، تانی نے پسٹل بائیں ہاتھ سے پکڑا اور دائیں ہاتھ سے مہر سکندر کی گردن کے قریب رگ پکڑ کر مسل دی۔ وہ وہیں سُن ہو کر بیٹھ گیا۔ تبھی تانی نے وہاں لوگوں کی طرف دیکھ کر پسٹل مہر سکندر کی کنپٹی پر رکھ کر غراتے ہوئے کہا
” کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا،ہلا تو میں اسے مار دوں گی۔
فوراً مہرل شاہ کو ادھر لاؤ بدر، وہ اوپر ہے۔“
یہ سنتے ہی بدر نے ایک بندے کی گن پر ہاتھ ڈال دیا اور اس سے چھین لی۔ان سب کو باہر لے جانے کا اشارہ کیا۔ بدر تیز ی سے اوپر کی طرف چلا گیا۔ تانی نے پسٹل جسپال کی جانب اچھال دیا۔ اس نے وہاں موجود چار بندوں کو گنیں رکھ دینے کا اشارہ کیا۔ سامنے والے بندوں نے گنیں رکھ دیں اور سب پیچھے ہٹ گئے۔
جسپال نے مہر سکندر کو سنبھالا تو تانی بھی بدر کے پیچھے لپکی۔ 
وہ دونوں تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جا رہے تھے۔ بدر جیسے ہی سیڑھیاں چڑھ کر گیلری میں گیا،اچانک سامنے ہی سے دو آدمی گنیں سنبھالتے ہوئے آئے۔ انہوں نے بدر کو گن پوائنٹ پر لے لیا۔ شاید انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ بدر کے پیچھے تانی ہو گی۔ تانی نے یکے بعد دیگرے فائر کر دئیے۔
بدر جھک گیا، سامنے سے گولیاں اوپر سے نکل گئیں۔ وہ دونوں رُک گئے۔ کوئی بھی ان کے سامنے نہیں آیا تو وہ اکڑوں حالت میں آگے بڑھے۔ سامنے دو ہی کمرے تھے۔ کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے مہرل شاہ کو انہوں نے دیکھ لیا تھا۔ وہ سیدھے ادھر گئے۔ دروازہ اندر سے بند ہوچکا تھا۔ لیکن یہ وقت ایسا نہیں تھا کہ اسے باہر آنے کو کہا جائے ۔ انہوں نے دروازے کو چھید کر رکھ دیا۔
اگلے ہی لمحے مہرل شاہ ان کے سامنے تھا۔ اس کے چہرے پر خوف پھیلا ہوا تھا۔ بدر نے اسے اشارے سے نیچے چلنے کو کہا۔ وہ سر جھکائے ان کے آگے لگ گیا۔ وہ اسے لے کر نیچے آئے تو مہر سکندر ویسے ہی اکڑا ہوا پڑا تھا۔ وہ ان سب کو لے کر باہر آگئے۔پورچ سے بھی آگے نکل کر جسپال نے سیکورٹی والوں سے کہا
 ” ہماری تم لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے ،تم لوگوں نے ہتھیار پھینک دئیے ہیں اچھا کیا، اب بلوچی کو لاؤ، ورنہ اس کو مار دیں گے۔
“ بدر نے مہر سکندر کو ٹھڈا مارتے ہوئے کہاتو اس کی آہ نکل گئی۔ 
مہرل شاہ خاموشی سے زمین پر پڑا تھا۔کچھ دیرہی میں انہیں بلوچی دکھائی دیا ۔ وہ ان کے قریب آیا تو جسپال نے اسے سامنے کھڑی فور وہیل لانے کو کہا جو مہر سکندر کی تھی۔ بلوچی نے اس کی جیب سے چابی نکالی اور ذرا سی دیر میں فور وہیل گاڑی ان کے پاس لے آیا، انہوں نے مہر سکندر اور مہرل شاہ کو جیسے ہی گاڑی میں ڈالا، وہاں موجود سیکورٹی والوں میں ہلچل مچ گئی۔
نزدیک والے توکچھ نہیں کر سکتے تھے ، ان کے پاس ہتھیار ہی نہیں تھے ، مگر دوروالوں نے ایک دم سے فائرنگ شروع کر دی۔بلوچی پہلے ہی ڈرائیونگ سیٹ پر تھا۔ اس کے ساتھ تانی بیٹھ گئی۔جسپال اور بدر نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔چند لمحے کے لئے سامنے سے مزاحمت کم ہوئی تو وہ دونوں گاڑی میں آ بیٹھے ، گاڑی چل دی۔ مہر سکندر اور مہرل شاہ ان کے پاؤں میں تھے اور وہ کھڑکیوں سے گنیں نکالیں فائرنگ کرتے چلے جا رہے تھے ۔
کچھ ہی دیر بعد وہ گیٹ پر تھے ۔وہ تیز رفتاری سے سڑک پر چڑھے تو ان کے پیچھے گاڑیاں چڑھ دوڑیں۔ 
سپر ہائی وے تک وہ بیس منٹ کے قریب پہنچ گئے۔ جہاں ان کے انتظار میں ایک فور وہیل جیپ کھڑی تھی۔ان چاروں نے وہ گاڑی چھوڑی اور نیچے اتر آئے۔ انہوں نے مہرل شاہ کو باہر نکالا اور سڑک پر پھینک دیا۔ بدر نے گن سیدھی کی اور اس پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔
وہ زیادہ وقت نہیں تڑپا، جلد ہی ساکت ہوگیا۔ مہر سکندر یہ سب دیکھ رہا تھا لیکن کوئی بھی ردعمل ظاہر کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر خوف پھیلا ہوا تھا۔ تانی نے اُسے کھنیچ کر نیچے پھینکا اور اس پر فائرنگ کرنے لگی۔ ان دونوں کے مرتے ہی وہ چاروں فور وہیل میں بیٹھے تو اگلے لمحے وہ وہاں سے چل دئیے۔
آدھی رات سے قبل ہی وہ اس ٹھکانے پر پہنچ گئے، جہاں شاہد ، سارہ اورمعین الدین اوربیٹے مراد کو چھپایا ہوا تھا۔
وہ پہنچے ہی تھے کہ سارہ ان کے پاس آگئی۔
” میرا تو دل دہل گیا تھا۔ ایک دم ہی غائب ہوگئے،کہاں تھے آپ لوگ؟“سارہ نے پوچھا
” اس وقت مجھے بہت کام ہیں، میں نے جانا ہے ۔ ساری تفصیلات ان سے پوچھ لیں۔“ بدر نے اٹھتے ہوئے کہا تو جسپال بولا
” کہاں جا رہے ہو،میں تمہارے ساتھ جاؤں گا۔تم اکیلے نہیں جا سکتے ہو۔“
” نہیں جسپال، یہ کام میرا ہے ، مجھے ہی کرنا ہوگا۔
“اس نے سکون سے کہا 
” ادھر بیٹھو، اور بتاؤ کیا کرنا ہے؟“ تانی نے پوچھا
”مہرل شاہ مر گیا ہے ،یہی وقت ہے اس کے یہاں تسلط کو ختم کرنے کا ہے اور پھر میں نے سوچ لیا ہے ، جس جگہ بھی ان کا تسلط ہے وہ اب میرا ہوگا۔“
” تم کرلو گے؟“ جسپال نے کہا
”ہاں اب کر لوں گا۔ مہر سکندر کو میں نے سامنے لانا تھا، اس میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ سامنے آ جائے ، وہ اور مہرل شاہ دونوں مل کر اپنا نیٹ ورک چلا رہے تھے۔
وہ وزارت وغیرہ تو ساری کہانی تھی ، جھوٹ تھا سب۔ میں جانتا ہوں کہ مہر سکندر نے خود مہر شاہ کو وزارت دلوائی ۔ وہ اگر کوئی اور بات کرتا تو شاید میں اس کے جھانسے میں آ جاتا۔“
”کیا وہ اتنا ہی بے وقوف تھا؟“ سارہ نے پوچھا 
” نہیں وہ بے وقوف نہیں تھا ، بس تانی کے حسن کے سامنے ہار گیا، عورت کا رسیا ، عورت ہی کے ہاتھوں مرتا ہے۔“ بدر نے کہا
” کیا وہ …؟‘ سارہ نے خوشگوار حیرت سے پوچھا ۔
اس پر تانی ہنستے ہوئے بولی
” سارہ تم جانتی ہو کہ خدا نے عورت کو ایسی صلاحیت سے نوازا ہوا ہے کہ وہ مرد کی آنکھ میں اس کی نیت پڑھ لیتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کا اظہار کرے یا نہ کرے۔ میں نے اس بے غیرت کی آنکھ میں جیسے ہی یہ پڑھا تو وہ مجھے بہت آسان شکار لگا۔ میں نے اسے مارنے کا اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا۔میرے اس فیصلے کو جسپال سمجھ گیا تھا۔
” کیا کیا تو نے؟“ سارہ نے پوچھا
” اسے بے وقوف بنایا، اسے یقین دلایا کہ میں ان دونوں کے چنگل میں پھنس گئی ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے ساری تفصیل بتا دی۔
” دبئی میں فون ، یہ سمجھ میں نہیں آیا؟“ سارہ نے اُلجھتے ہوئے پوچھا
” یار، پوری دنیا میں نیٹ ورک ہے روہی کا۔بدر جانتا ہے ۔یہ کوڈ ہیں ہمارے۔جیسے ہی میں نے احسان الحق کہا تو سمجھ گیا کہ اسے کیا کرنا ہے۔
وہ جو سپر ہائی وے پر فور وہیل ملی، یہ ہمارے نیٹ ورک ہی کا کمال ہے نا۔“ تانی نے مسکراتے ہوئے کہا
” اُسے کیسے معلوم کہ تم لوگ کہاں ہو ،ہم تو کل سے تلاش کر رہے ہیں ۔ہمیں تو …“ سارہ نے کہنا چاہا مگر تانی نے بات کاٹتے ہوئے کہا 
” یہ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ ہمیں کیسے تلاش کر لیتے ہیں۔ لیکن روہی والوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کہاں ہیں۔
یہی تو ہمیں اعتماد ہے ۔“
”عجیب بات ہے؟“ وہ پھر الجھتے ہوئے بولی تو بدر نے اُٹھ کر تیزی سے کہا
” سارہ ، تم تیار رہنا، اور شاہد کو بتا دینا کہ وہ بھی تیار رہے ممکن ہے تم لوگوں کو یہاں سے فوراً نکلنا پڑے۔ شاید وقت نہ ہو۔“ 
” یہ کیا کہہ رہے ہو ۔“ سارہ نے پوچھا
” سارہ میرے پاس تفصیلات کا وقت نہیں ہے ۔میں جا رہا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے نکل گیا ۔ جسپال نے ایک طویل سانس لی اور کرسی پر پھیل گیا۔تانی اٹھی اورسارہ کو لے کر اندر چلی گئی۔
                                      #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط