Episode 72 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 72 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

میری آنکھ کھلی توصبح کی نیلگوں روشنی کھڑکی میں سے جھانک رہی تھی۔ مجھ سے بستر پر نہیں رہا گیا۔ میں اٹھا اور کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔ میں کاریڈور سے نکل کر باہر برآمدے میں آگیا۔ میرے باہر آتے ہی وہ دونوں کتے بھاگتے ہوئے آئے اور میرے قدموں میں لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ میں نے انہیں کچھ دور بیٹھ جانے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئے ۔ میں بھی وہیں بنی چند سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔
گاؤں سے لے کر یہاں تک کا سارا منظر میری آنکھوں میں پھر گیا۔کرنل سرفراز کی شخصیت اور اس کی باتیں میرے ذہن میں گونجنے لگیں۔ ان کی یہ بات میرے دماغ میں بیٹھ گئی تھی کہ انسان اپنی راہ میں خود ہی رکاوٹ ہے ۔ یہ کیسے ہے ؟ اسی سوال کا جواب میں چاہتا تھا۔ اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ میرے اس سوال کا جواب دے گا۔

(جاری ہے)

میں اپنے طور پر بہت سوچتا رہا۔

میرے ذہن میں تو یہی آیا تھا کہ انسان اپنی راہ میں کیسے رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ وہ تووہی کرتا ہے جو وہ اپنے لئے بہتر سمجھتاہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ترقی کرے ،وہ تو اپنی راہ کی رکاوٹیں دور کرتا ہے۔
 میں یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی ۔ میں نے گھوم کر دیکھا۔ کرنل سرفراز کے ساتھ اس کا ملازم تھا۔ ملازم نے دو ٹرے اٹھائے ہوئے تھے۔
کرنل میرے ساتھ آ کر بیٹھ گیا تو اس کے ملازم نے ایک ٹرے ہمارے درمیان رکھی ۔ٹرے میں دو گلاس فریش جوس تھے ۔دوسری ٹرے میں کتوں کے لئے روٹیاں اور گوشت کے پارچے تھے ۔ اس نے ٹرے میں گوشت اور روٹیاں کتوں کے آگے پھینکیں اور واپس پلٹ گیا۔تبھی چند لمحے خاموشی کے بعد وہ بولا
”جمال۔! تم نے کبھی زندگی کے بارے میں سوچا ہے ، یہ کیسے ہمیں مل گئی، اور یہ سب کیا اور کیسے ہوا،کیا ہے یہ سب کھیل تماشہ؟“
اس کے یوں کہنے پر میں چند لمحے سوچتا رہا ۔
میری سمجھ میں کچھ بھی نہیںآ یا تھا۔ اس لئے میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا
”سچ پوچھیں نا مجھے ایسی باتیں کرنے والا کوئی ملا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی میں نے سوچا ہے۔ مجھے تو بس زندگی مل گئی، ہوش آیا تو یہی پتہ چلا کہ میرے سر پہ ذمے داریوں کا بوجھ ہے اور انتقام ورثے میں مل گیا۔ پھر کیا تھا،یہی جو آپ کے سامنے ہوں۔ مجھے کیا پتہ زندگی کہاں سے آئی، اور نہ ہی یہ جانتا ہوں کہ یہ زندگی کیا ہے ، کیا کھیل تماشہ ہے ؟“
” دیکھو۔
! یہ جو سب کچھ دکھائی دے رہا ہے ، یہ ایک تمہارے ہونے سے ہے ۔ مطلب انسان کے ہونے سے ہے، اگر اس کائنات میں انسان نہیں ہے تو یہ کائنات بھی نہیں ہے۔ اسے کون دیکھ رہا ہے ، اس کے نام کون رکھ رہا ہے ، اسے تسخیر کون کر رہا ہے؟“ انہوں نے جذب سے کہا
” ظاہر ہے یہ انسان ہی ہے۔“ میں نے اُس کی بات سمجھتے ہوئے کہا
” انسان کو اللہ پاک نے جوڑے سے بنایا۔
انسان کی ابتدا کیا ہے ۔ایک قطرہ جو باپ کی پشت سے اچھلتا ہوا نکلتا ہے ۔ دراصل اس قطرے میں ایک پوری صورت پڑی ہوئی تھی، جس نے وجود میں آنا ہوتا ہے۔ماں کے وجود میں اس کی پرورش ہوتی ہے۔یہاں تک کہ جب وہ ایک صورت میں آتا ہے، تب اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ ایک وقت تک وہ بے روح رہتا ہے۔ صورت پاتے ہی اس میں روح آتی ہے ۔ اس میں بھی پوری حکمت ہے۔
خیر۔! ایک پورے عمل کے بعد جب وہ ماں سے الگ ہوتا ہے تو اس دنیا میں آ جاتا ہے۔وہ اپنا ایک پورا وجود، پوری ایک صورت رکھتا ہے۔ اب مجھے یہ بتاؤ، جیسے ہی وہ صورت دنیا میں آئی تو اس کے ساتھ کیا تبدیلی ہوئی۔؟“ کرنل نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
” آپ بہتر سمجھتے ہیں، آپ ہی مجھے بتائیں۔“ میں نے اس کی بات میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا
”جب وہ صورت اس دنیا میں آئی تو سب سے پہلے اس نے اپنی والدہ کو مقامِ ماں پر فائز کر دیا۔
باپ کو باپ ہونے کا مقام مل گیا۔ کسی کا بھتیجا، بھانجا، بھائی ،بیٹا، اس کے آنے کے ساتھ ہی رشتے ظاہر ہو گئے۔ اگر وہ نہیں تھا تو یہ سارے رشتے کہاں تھے؟“ انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا
” نہیں تھے۔ کوئی رشتہ نہیں تھا۔“ میں نے کہا
” اس دنیا میں انسان کے پہلے سانس کے ساتھ ہی ظہور ہونا شروع ہو گیا۔ اس نے ذرا ہوش سنبھالا، اس نے آسمان کو دیکھا، آسمان ظاہر ہو گیا، چاند کو دیکھا، چاند ظاہر ہو گیا، سورج ، مٹی درخت سب ، جسے وہ دیکھ رہا ہے ۔
وہ آشکارا ہوتے جاتے ہیں۔کائنات کھلتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے اندر تبدیلیاں ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اب اس کے دیکھنے کے دو راستے ہیں، ایک باہر کی طرف اور ایک اندر کی طرف۔ ایک کائنات اس کے اندر ہے اور دوسری کائنات باہر موجودہے۔“
”اور میرا خیال ہے اسی کائنات سے وہ دنیا کو دیکھتا اور سمجھتا ہے ۔“ میں نے پوچھا
” بالکل ، دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے۔
اس کی اندر جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں، اسی سے اس کے خیال بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔“ انہوں نے بتایا
” کیا اسے خبر نہیں ہوتی ؟“ میں نے پوچھا
” دیکھو۔! ایک قطرے سے وجود بن جانا، اور پھر اس دنیامیں آکراس کا وجود پروان چڑھنا ۔ یہ فطری عمل ہیں۔ ایک خاص وقت پر آکراس میں تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ وہ وجود چاہئے مردکا ہے یا عورت کا۔
اس سے پہلے وہ معصوم ہوتا ہے ۔کوئی شریعت اس پر لاگو نہیں ہوتی۔آخر یہ کیسی تبدیلی ہے جو اس پر شریعت کے احکامات لگ جاتے ہیں؟ مطلب وہ کوئی ایسی قوت ہے جس کی حفاظت کے لئے یہ سارا انتظام ہے ۔ یہ تبدیلی بڑی اہم ہے اور…“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا
” ہاں ،یہی تو سمجھنا چاہوں گا۔“ میں نے جلدی سے کہا تو وہ بولے 
” وہ ہے اس کے اندر کی تخلیقی قوت۔
انسان زندگی پاتا ہے ایک قطرے سے ۔ اور پھر ویسا ہی قطرہ جب اس کے اپنے اندر پیدا ہوتا ہے تو ایک نئی زندگی دینے پر قادر ہو جاتا ہے۔ایک بیج بارآور ہو کر کتنے ہی نئے اشجار پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو یہ کوئی معمولی صلاحیت ہے۔ یہ بہت بڑی صلاحیت ہے۔ اس صلاحیت کی حفاظت کے لئے ، اس کے صلاحیت کے پیدا ہوتے ہی ۔اسی کے ساتھ ہی شریعت لاگو ہو جاتی ہے۔
نگاہ سے لیکر شرمگاہ کی حفاظت تک کے احکامت آ جاتے ہیں۔ یہ زندگی ہے ۔ جو رَبّ تعالی نے دی ۔ اس کی پوری پوری حفاظت کے لئے۔“
” مطلب ، جس وقت صورت سامنے آگئی تو اس کے ساتھ ہی سارا عمل شروع ہو گیا۔“ میں نے کہا
” بالکل ، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ صورت کے وجود میں آتے ہی تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔ اصل میں صورت کا ظہور ہی مقصد تھا ،جس میں سے ہر چیزدیکھی جانی ہے۔
پیدا ہوتے ہی رشتے ظاہر ہوئے۔ اسی سے حضرت آدم  کے بارے میں معلوم ہوا ۔ یعنی ہم اس صورت سے آدم  کو دیکھ سکتے ہیں۔آدم سے لیکر یہ صورت اور اس صورت سے آدم تک۔ پورا سلسلہ جڑ گیا۔“
” صورت کے ظہور کا اصل مقصد…؟“ میں نے پوچھا تو وہ بولے 
” وہ صورت آئینہ ہے ، سبھی اسی میں اپنے آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ باپ اس میں اپنا باپ ہونا دیکھ رہا ہے۔
ماں اس میں اپنا مقام دیکھ رہی ہے ۔ سارے تعلق اسی میں سے دیکھے جا رہے ہیں۔اب وہ صرف اپنا وجود اور صورت ہی نہیں لے کر آیا۔ بلکہ خیال بھی لے کر آیا۔ وہ وجود ایک خیال تھا ، ایک خیال میں پڑا ہوا تھا۔ صورت میں ظہور ہوا ۔تب اس میں انفس و آفاق پیدا ہو گئے۔ اس میں فکر سوچ پیدا ہو گئی۔ ارد گرد کی پہچان آگئی۔ اب اس کی پرورش دو طرح سے ہونا شروع ہو گئی ۔
بدنی اور فکری۔یہ سب زندگی سے ہے ۔“
” مطلب یہ سارا کچھ زندگی سے ہے؟“ میں نے پوچھا
”ہاں ۔! اور اب ایک بہت اہم بات بتانے جا رہا ہوں ، ممکن ہے تمہاری سمجھ میں نہ آئے ، لیکن غور کرو گے تو سمجھ میں آ جائے گی۔ جس طرح میں نے بتایا کہ جس نے انسان کو ایک قطرے سے پیدا کیا اور وہ اس قطرے کو واپس لوٹا لینے پر قادر ہے ۔ یہ سارا عمل جس میں دیکھا گیا وہ انسان ہے ۔ابھی وہ عالم اِ مکاں میں ظاہر نہیں ہوا ۔ ابھی وہ زوجیت کے معاملے میں نہیں آیا ، اس کے بیوی ، بچے نہیں ،اکیلا ہے ۔ اس کے اندر کیا تھا، کیا ہے اور کیا ہوگا ۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط