صبح کی نیلگوں روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ کچھ دیر پہلے ہی بدر واپس پہنچا تھا۔وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ اس نے آتے ہی سب کو اکھٹا کر لیا۔جسپال نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا
” کدھر تھے تم؟“
” یہ جو کراچی شہر ہے نا، اس میں جو بھی مہرل شاہ کا حصہ تھا، وہ سب چھین لیا ہے میں نے ۔یہ سب دو نمبر دھندے ہیں۔ “ اس نے کہا تو جسپال نے پوچھا
” لیکن کیا میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا تھا؟“
” نہیں، یہ میرا اور میرے لوگوں کا مسئلہ تھا، وہ ہو گیا۔
خیر ۔! تم لوگ سنو… “ اس نے کہا پھرشاہد کی طرف دیکھ کر بولا،”شاہد۔! تمہارے لئے اب یہاں پر کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ تم اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ سکون سے زندگی گذارو۔ اپنا بزنس سنبھالو،اپنے باپ کی خدمت کرو۔جسپال اور تانی جس مقصد کے لئے آئے تھے وہ پورا ہوا۔
(جاری ہے)
“
” اور اب…؟“ جسپال نے پوچھا
” اب تم لوگ آرام کرو۔ جب جانا چاہو، چلے جانا،“ اس نے اطمینان سے کہا اور اُٹھ کر باہر کی جانب چلا گیا۔
انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو سارہ نے کہا
” شاہد ، چلیں پھر اپنے گھر؟“
” ظاہر ہے اب تو جانا ہی ہو گا۔“ اس نے کاندھے اُچکا کر کہا
” ٹھیک ہے تو نکلو پھر ، ناشتہ وہیں چل کر کریں گے۔“ تانی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر بعد وہ اپنے بنگلے کے لئے نکل چکے تھے۔
#…#…#
ڈنر کیے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی ۔
میں بیڈ پر آ کرلیٹ تو گیا تھا لیکن مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ میں یونہی کرنل سرفراز کی باتوں پر سوچتا چلا جا رہا تھا۔ پہلی بار مجھے ایسی سوچوں سے واسطہ پڑا تھا۔ مجھے یہ بھی خیال آ رہا تھا کہ وہ مجھے یہ سب کچھ کیوں بتانا چاہ رہا ہے۔ آخر وہ مجھے سے چاہتا کیا ؟ میں انہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا کہ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی ۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے کرنل تھا۔
وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا تو میں پیچھے ہٹ گیا۔ وہ اندر آکر ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ تھا۔ وہ سامنے دھری میز پر رکھ کر بولا۔
” ساری بتیاں بجھا دو اور میرے سامنے آ کر بیٹھو۔“
میں نے ویسا ہی کیا او ر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اندھیرے میں اس نے ماچس کی تیلی جلائی تو کمرے میں ر وشنی ہو گئی۔ جلتی ہوئی، تیلی سے اس نے سامنے رکھی موم بتی روشن کر دی۔
پتہ نہیں وہ کیا کرنا چاہتا تھا۔میں غور سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ موم بتی جلا کر اس نے میری طرف دیکھا اور پوچھا
” جمال ۔! یہ شمع کیسی ہے۔ اس کا شعلہ کدھر ہے؟“
یہ عجیب سا سوال تھا۔ میں نے پھر بھی اس کی طرف دیکھ کر کہا
” یہ شمع آپ نے میز پر لگائی ہے اور اس کا شعلہ اوپر کی طرف جا رہا ہے۔“
” جمال ۔!یہ ایک چھوٹا سا تجربہ ہے ۔
بہت چھوٹی کلاسوں میں پڑھایا جاتا ہے ۔ میں اس سے تمہیں ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں، میں جو بات بھی پوچھوں ،تم اس کا جواب دیتے جانا ،میں پھر تمہارے سارے سوالوں کے جواب تفصیل سے دوں گا۔“
” ٹھیک ہے۔“ میں نے کہا تو اس نے بیگ میں سے ایک عدسہ نکالا اور اسے شمع کے سامنے کیا۔ایک مناسب فاصلہ دے کر اس نے میری توجہ دیوار کی طرف کی اور پوچھا
” وہاں پر شمع کیسے دکھائی دے رہی ہے۔
“
” وہاں پر اُلٹی شبیہہ ہے ، اُلٹ نظر آ رہی ہے۔“ میں نے جواب دیا تو اس نے ایک اور عدسہ نکالااور اس کے سامنے کر دیا۔ دیوار پر عکس سیدھا دکھائی دینے لگا۔ تو اس نے پوچھا
” اب شبیہہ کیسی ہے؟“
” اب شمع سیدھی دکھائی دے رہی ہے۔“ میں نے جواب دیا تو اس نے وہ دونوں عدسے میزپر رکھ دئیے۔ پھر وہ اٹھا او ر لائٹ جلا کر کمرہ روشن کر دیا۔
وہ میرے سامنے صوفے پر آ بیٹھا اور بولا
” تمہیں ایمان مفصل آتا ہے؟“
” جی ،گاؤں کے مولوی صاحب نے ہمیں پڑھایا تھا اور یاد بھی کروایا تھا۔“ یہ کہہ کر میں نے ایمان مفصل اسے سنا دیا۔ وہ بڑے دھیان سے سنتا رہا۔ میں سنا چکا تو وہ بولا
” اس کا ترجمہ بھی آتا ہے؟“
”ہو سکتا ہے ، پوری طرح یاد نہ ہو ۔میں کوشش کرتا ہوں۔“ میں نے کہا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا
” کاش ، مولوی صاحب ،یہ سمجھا بھی دیتے کہ وہ کیا رَٹا رہے ہیں۔
خیر ۔! میں تمہیں اس کا ترجمہ سناتا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رُکا اور پھر بولا،” اس کا ترجمہ ہے،میں ایمان لایا اللہ پر، اور اس کے فرشتوں پر ، اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اورمرنے کے بعد جی اٹھنے پر۔“
” جی ، ایسے ہی ہے۔“ میں نے کہا تو بولا
” اب ذرا غور کرو ، اس میں خیر اور شر، اللہ تعالی کی طرف سے ہونا بیان ہوا ہے ۔
اس کے معنی اور مطلب جو بھی لئے جائیں۔ بات دو متضاد چیزوں کی ہے۔خیر۔! انسانیت کے لئے خیر تو رَب تعالی چاہتا ہے ، یہ پھر شر کیوں؟ خیر اور شر کا انسان کے اندر ہونا کیوں؟“
” یہ بات تو آپ ہی بتائیں نا۔“ میں نے کہا
” دیکھو۔! فرشتوں کو کھانے پینے کی حاجت نہیں، انہیں رزق کے ذائقوں کے بارے میں کیا معلوم؟ بالکل اسی طرح ،اگر ایک ہی شے بارے معلوم ہو ،اور دوسری کا پتہ ہی نہ ہو تو اس کا احساس کیا؟“ انہوں نے کہا
” ہمیں اس شے ہی کا ادراک ہوگا تو ہم اس کے بارے جان پائیں گے۔
“میں نے بتایا
” جی بالکل ۔ اگرایک چیز کا الٹ ہوگا تو ہی ہمیں درست کا احساس ہوگا۔ برائی کا احساس نہ ہو تو نیکی کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ خیر کا وجود اسی وقت ممکن ہے جب اس کے مقابلے میں شر ہوگا۔ چونکہ انسان احسن تقویم پر پیدا ہوا ہے تو اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اس رَب نے تو اس میں سب کچھ دے دیا ۔ کیا اب انسان کا حق نہیں کہ وہ رَبّ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو دیکھے ، اور ان کے بارے میں پتہ کرے؟“
” ہاں جی یہ تو بنتا ہے کہ وہ اپنے اندر کے بارے میں جانے کہ جو کچھ رَب تعالی نے اسے دیا ہے ، جن نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے ، اس کے بارے میں جانے۔
“ میں نے کہا
” تو پھر میرے بھائی، جو کچھ انسان کے اندر ہے اسے پہچاننے کا کوئی تو معیار ہوگا، کوئی کسوٹی، کوئی پیمانہ تو ہونا چاہئے نا؟“
” جی اسی کی وجہ سے تو خیر اور شر میں تمیز ہو سکے گی۔“ میں نے کہا
” اب بات یہ ہے کہ ہم اگر مذہب کا پیمانہ یا معیار لے لیں تو ممکن ہے اس پر اختلاف ہو ، لیکن اگر ہم انسان ہی کو سامنے رکھ لیں تو بات کچھ سمجھ میں آ جائے گی کہ وہ باتیں جو انسان کی فلاح کے لئے ہیں وہ خیر اور جو فلاح کے لئے نہیں ہیں وہ شر۔
“ انہوں نے سمجھانے والے انداز میں کہا تو میں سر ہلا کر رہ گیا، تب انہوں نے اپنی بات جاری رکھی،” دیکھو اگر ہم اس جلتی ہوئی شمع کو حقیقت مان لیں تو یہ دو عدسے انسان میں شر اور خیر کی علامت ہیں۔“
” اوہ۔۔۔۔! تو آپ یہ سمجھانا چاہ رہے تھے۔“ میں نے تیزی سے کہا تو وہ بولے
” ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی۔“
” جی کہیں ، میں سن رہا ہوں۔
“ میں نے دھیمے انداز میں کہا تو وہ بولے
” دیکھو۔! اصل میں یہ دو سوچیں ہیں۔ ایک منفی سوچ اور ایک مثبت سوچ۔ اگر انسان کسی شے کو ایک ہی نگاہ سے دیکھے۔ ایک ہی سوچ کے ساتھ سوچے تو درست نہیں ہوگی۔“ انہوں نے دلیل دی تو میں نے پوچھا
” اگر مثبت سے بھی دیکھے تو بھی …“
” کسی کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ مثبت ہے ، جب تک منفی نہیں ہوگا۔
اسی طرح جب تک منفی نہیں ہوگا تو مثبت کا پتہ نہیں ملے گا۔“ انہوں نے پھر یاد دلایا
” دونوں کے ہونے سے ہی صورت حال کا واضح پتہ ملے گا ۔“ میں نے مانتے ہوئے کہا
” یہ رَب تعالی کے بندے میں بہت بڑی نعمت ہے کہ اس میں یہ دونوں چیز یں رکھ دی گئیں ہیں ۔ اور اختیار انسان کو دے دیا کہ جو چاہو چُن لو۔“انہوں نے کہا تو میں نے بات سمجھنے کی خاطر کہا
” خیر اس کے اپنے لیے بہترین ہے اور شر انسانیت کے لئے قاتل ہے۔
اگر انسان شر کی نگاہ ہی سے اس کائنات کو دیکھتا ہے تو وہ انسانیت کا قاتل ہے اور اگر وہ فقط خیر ہی کو سامنے رکھے ہوئے ہے تو اسے کیا معلوم وہ کیا کر رہا ہے؟“
” میرے بھائی، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شر کی قوت جانے بغیر وہ خیر کو کیسے پہچانے گا؟ میں یہ نہیں کہتا وہ شر پیدا کرے پھر خیر کی طرف آئے، یہ تو بچکانہ بات ہوگی۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رُکے پھر بولے،” اصل میں انسان نے سب کچھ اُلٹ لیا ہوا ہے۔
اس نے مادیت ہی کو سب سمجھ لیا ہوا ہے ۔ حالانکہ مادیت کچھ بھی نہیں۔ یہ جو سامنے ہے یہ سب میرے ہونے سے ہے ، میں انہیں دیکھ رہا ہوں تو یہ ہیں ، میں نہیں ہوں تو یہ کہاں ہیں۔ یہ مکان کیا ایسے ہی بن گیا۔ یہ پہلے کسی کی سوچ میں تھا۔ یہ سوچ منتقل ہوئی ہے ۔ اصل میں بنیادی چیز ہی خیال ہے ۔“
” یہ تو میں مانتا ہوں۔“ میں نے بتایا
” تو اس پر سوچو، جو سوال ہو مجھ سے کرو۔
پھر میں بتاؤ گا کہ انسان اپنی راہ میں خود ہی رکاوٹ کیوں ہے اور کیسے ہے؟“ انہوں نے سکون سے کہا تو میں نے سر جھکا لیا۔میں اس پر سوچنا چاہتا تھا۔ بہت ساری سوچیں میرے اندر سر اٹھا رہی تھیں۔ میں خود یہ سب سمجھنا چاہتا تھا۔ شاید زندگی مجھے نئے پہلو دکھانا چاہ رہی ہو یا ایک نئی زندگی میرے سامنے واضح ہورہی تھی۔
#…#…#